• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ: کیا احادیث حجت ہیں؟

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
محترم! اگر آپ کو ایک شے کا علم نہیں تو اسے ردّ یا اس کی تکذیب کیسے کی جا سکتی ہے؟ قرآن کریم کے مطابق تو یہ کافروں کا طریقہ کار تھا۔


انس نضر صاحب۔
میں یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قرآن فرقان ہے۔ اسکی روشنی میں حدیث کو دیکھنا چاہئے۔ جس حدیث کی تصدیق قرآن سے ہوجائے وہ صحیح ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جس حدیث کو قرآن رد کررہا ہو اس کو چھوڑ دیں۔
یہ بات آپکی بالکل درست ہے کہ مجھے حدیث کا علم نہیں ہے۔لہذا اس کے صحیح ہونے یا صحیح نہ ہونے کا زریعہ صرف قرآنی آیات ہیں۔
آپ کی تحریر میں تلخی نظر آرہی ہے۔ آپ لوگوں سے مکالمہ کا مقصد محض اصلاح ہے کسی کی توہین یا تذلیل کرنا نہیں۔ اگر آپ احادیث کو قول رسول ثابت کرسکتے ہیں تو دلائل دیں اور بتائیں کہ صحاح ستہ اور دیگر احادیث کی کتب کو جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کی گئیں( اور ان میں سے لاکھوں احادیث ضائع کردی گئیں اور ان میں ضعیف اور موضوع احادیث بھی ہیں) کیونکر قول رسول کریم مانا جائے؟
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
سب کو پتا ہے کہ مسلم صاحب یہان کچھ سیکھنے نہیں بلکے اپنے مذہب کا پرچار کر رہا ہے جس کی اصل انگریزوں کے پٹھو ہیں جن کو انگریز بہادر نے بڑے انعام و اکرم سے نوازا اور اجتک بھی نواز تے چلے آرہے ہیں:ان لوگوں کا مقصد ہدایت حا صل کرنا ہر گز نہیں ہوتا الاماشاءاللہ بلکے سرا سر فتنہ پھیلانا ہوتا ہے :یہ جہاں بھی بات کرتے ہیں ان کا طریقہ کار ایک ہی ہوتا ہے شروع میں یہ لوگ سادہ لوگوں کو یہ کہتے ہو ئے پھنساتے ہیں کہ جو حدیث قرآن سے ثابت نہیں وہ جعلی جب یہ لوگ سامنے والے کو لاجواب دیکھتے ہیں تو پھر یہ لوگ حدیث کا بلکل ہی انکا ر کردیتے ہیں اور جب کوئی ان کو منکرین حدیث کہتا ہے تو پھر سے یہ اپنا رنگ بدل لیتے ہیں:
قرآن قرآن کرتے ہیں مگر جو خود کو پسند ہو بس وہی :انس بھا ئی سمیت کئی دوستوں نے ان کے سامنے قرآنی آیات رکھی مگر چند ایک کے سوا ان کے پاس کسی بھی آیات کا جواب نہیں مگر یہ ان آیات کے جواب میں یہ ہمیں کہتے ہیں کے "تم اللہ کے کلام کو عاجز کرنے کی کوشش کر رہے ہو" کیا ان کا یہ جملہ لوگوں کو چپ کروانے کے لئے کافی نہیں؟اس قسم کے جملے جب یہ سادہ لوگوں پر بولتے ہیں تو وہ لوگ چپ کر جاتے ہیں جس کو یہ لوگ اپنی جیت سمجھتے ہیں :یہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کو سمجھا نے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس قرآن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اللہ کا کلام ہے۔ ہم مسلم صا حب سے پو چھتے ہیں جس چیز کو اللہ نے ہدایت بنا کر بیجھا ہو اور اس کی تشر یح بھی نہ کی ہو اور اسے اتنا مشکل بنا دیا ہو کے جو سمجھنا بھی چاہے اس کی بھی سمجھ نہ آئے کیا آپ اللہ سبحان و تعالیٰ کو ظالم کہنا چھاہ رہے ہیں یہ کیسے ممکن ہے اللہ سے ڈر جاو: جب ان کو اپنا کام سمجھانا ہو تا ہے اپنے لوگوں کو جھو ٹی تاریخ تک منوا لیتے ہیں مگر اللہ کے رسول کی حدیث سن کر انکے دلوں پر جلن اٹھتی ہے آپ ان کے جسموں سے اس جلن کی بو محسوس کر سکتے ہیں:

ہبیل صاحب۔
آپ میں اور مجھ میں کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ الا ماشاء اللہ۔
آپ قرآن کو حدیث سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، میں قرآن کو خالص (اسکی آیات سے ہی) سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
آپ احادیث کو بھی اللہ کا کلام سمجھتے ہیں اور میرا ایمان ہے کہ صرف اللہ کی کتاب ہی اللہ کا کلام ہے۔
آپ کے نزدیک اپنے مکتبہ فکر کے حساب سے (کیونکہ شیعہ حضرات اور دیگر، کی احادیث کو آپ پوری طرح نہیں مانتے) تمام احادیث اللہ کی وحی ہیں، جبکہ میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ کی کتاب سے ثابت ہے کہ قرآن فرقان ہے۔ جس حدیث کی قرآن تصدیق کردے وہ صحیح ہے اس پر عمل ہوسکتا ہے۔ جس حدیث کی قرآن سے تصدیق نہ ہو اسے چھوڑ دیں۔
میں کسی مکتبہ فکر یا مسلک سے تعلق نہیں رکھتا جبکہ آپ کا معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔
اس لئے اس بحث کو اب ختم کردیں۔
اللہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ آمین۔


آپ سب نے دیکھا مسلم صا حب یہ مکالمہ کر چھوڑ بھاگ چکے ہیں کچھ دن تک یہ آیات کا جواب تلاش کرتے مگر کو ئی فائدہ نہ ہوا مگر ہمارے ہی اپنے دوستو ں نے ان کی مکالمے سے بھاگنے والی تھریڈ پڑنے کی بجا ئے ان کے نئے سوالوں کے جواب دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے مسلم صا حب کو سکھ کا سانس ملا آپ سب اگر غور کریں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ مسلم صا حب مکالمہ نہیں منا ظرہ کر رہے ہیں جس کا جواب صرف مناظرہ سے ہی دیا جا سکتا ہے
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
محترم! اگر آپ کو ایک شے کا علم نہیں تو اسے ردّ یا اس کی تکذیب کیسے کی جا سکتی ہے؟ قرآن کریم کے مطابق تو یہ کافروں کا طریقہ کار تھا۔


انس نضر صاحب۔
میں یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قرآن فرقان ہے۔ اسکی روشنی میں حدیث کو دیکھنا چاہئے۔ جس حدیث کی تصدیق قرآن سے ہوجائے وہ صحیح ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جس حدیث کو قرآن رد کررہا ہو اس کو چھوڑ دیں۔
یہ بات آپکی بالکل درست ہے کہ مجھے حدیث کا علم نہیں ہے۔لہذا اس کے صحیح ہونے یا صحیح نہ ہونے کا زریعہ صرف قرآنی آیات ہیں۔
آپ کی تحریر میں تلخی نظر آرہی ہے۔ آپ لوگوں سے مکالمہ کا مقصد محض اصلاح ہے کسی کی توہین یا تذلیل کرنا نہیں۔ اگر آپ احادیث کو قول رسول ثابت کرسکتے ہیں تو دلائل دیں اور بتائیں کہ صحاح ستہ اور دیگر احادیث کی کتب کو جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کی گئیں( اور ان میں سے لاکھوں احادیث ضائع کردی گئیں اور ان میں ضعیف اور موضوع احادیث بھی ہیں) کیونکر قول رسول کریم مانا جائے؟
پیارے مسلم بھا ئی یہ پرانا کھیل چھوڑو اور اپنی تھر یڈ کے موضو کی طرف آو کیا آپ نے ہمیں پاگل سمجھ رکھا ہے؟ ہم نے ثابت کر دیا آیات سے کہ حدیث حجت ہے مگر آپ شا ئد جو آیات ہم نے بیا ن کی ان کو قرآن کا حصہ ہی نہیں سمجھتے
مسلم صا حب اب اگر آپ نے بات کرنی ہے تو پہلے ہماری حدیث کو حجت ثابت کرنے والی آیات کا رد ثابت کریں یا پھر توبہ کریں
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
پیارے مسلم بھا ئی یہ پرانا کھیل چھوڑو اور اپنی تھر یڈ کے موضو کی طرف آو کیا آپ نے ہمیں پاگل سمجھ رکھا ہے؟ ہم نے ثابت کر دیا آیات سے کہ حدیث حجت ہے مگر آپ شا ئد جو آیات ہم نے بیا ن کی ان کو قرآن کا حصہ ہی نہیں سمجھتے
مسلم صا حب اب اگر آپ نے بات کرنی ہے تو پہلے ہماری حدیث کو حجت ثابت کرنے والی آیات کا رد ثابت کریں یا پھر توبہ کریں


ہابیل بھائی صاحب۔

آپ میرا سوال ہی نہیں سمجھے اور مجھ پر بہتان لگانے شروع کردئے۔ میں صرف یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ احادیث کی کتب میں درج باتوں کو آپ کس دلیل سے رسول کے اقوال کہہ رہے ہیں؟
احادیث کی کتب میں راوی حضرات بات کو رسول کی جانب منسوب کرتے ہیں آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں؟ ایسا کونسا لاریب زریعہ ہے آپ کے پاس؟ بغیر ناراض ہوئے
سنجیدگی سے سوال کے مطابق جواب دیں۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
مسلم صا حب آ پ نے جو کچھ کہا ہم نے اسے سمجھا بھی اور جانا بھی ہمیں آپ پر بہتان لگانے کی کو ئی ضرورت ہے ادر نہ کوئی فائدہ:
اللہ کے فضل سے ہمارے علما کے پاس آپ کے ہر سوال کا جواب ہے مگر آپ مانیں تب نا :
دیکھو مسلم صا حب آپ نے پوچھا تھا کیا حدیث حجت ہے ہم نے قرآن سے ثابت کیا مگر حیرت ہے اس تقلید پر آپ پھر بھی بضد ہیں
مسلم صا حب یہا ں بات ہے عقیدے کی ہم غلط ہیں تو آپ ثابت کریں آپ کا عقیدہ با طل ہے یہ ہم قرآن سے ثابت کر چکے ہیں
مسلم صا حب ہم بہت سنجیدہ ہیں اسی لیے تو آپ سے بات کر رہے ہیں
اگر آپ سنجیدہ ہیں تو آپ کے پا س ابھی بہت وقت ہے ان آیات کو سمجھنے کا
اگر آپ سنجیدہ ہیں تو ان آیات کا جو ہم نے بیان کی ہیں ان کا آپ جواب تلاش کریں اب تو آپ کو ان کا جواب تلاش کرنے میں بہت آسانی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ نٹ کا دور ہے اپنے کسی سنگی بیلی ہم خیال سے رابطہ کریں یا جن کی آپ تقلید کرتے ہیں وہ جو آپ کے بڑے تھے ان سب کی کتب تو بہت مقدار میں ہیں ان میں سے جواب تلاش کر لیں :مگر افسوس آپ کو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا کیونکہ ہم جانتے ہیں آپ ان سوالوں کا حل بہت جگہ تلاش کر چکے ہیں مگر مایوسی کے سوا آپ کے ہا تھ کچھ نہ آیا اور یہی ہے آپ کے عقیدے کے باطل ہونے کا ثبوت
بات تو اب تب ہی اگے چلے گی جب آپ پہلے سوالوں کے جواب دیں گے:
یہا ں ہمارا مقصد اصلاح ہے اور اللہ کی رضا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891

آپ کی تحریر میں تلخی نظر آرہی ہے۔ آپ لوگوں سے مکالمہ کا مقصد محض اصلاح ہے کسی کی توہین یا تذلیل کرنا نہیں۔ اگر آپ احادیث کو قول رسول ثابت کرسکتے ہیں تو دلائل دیں اور بتائیں کہ صحاح ستہ اور دیگر احادیث کی کتب کو جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کی گئیں( اور ان میں سے لاکھوں احادیث ضائع کردی گئیں اور ان میں ضعیف اور موضوع احادیث بھی ہیں) کیونکر قول رسول کریم مانا جائے؟
محترم مسلم بھائی،
آپ کے درج بالا سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً آپ اس پروپیگنڈا کا شکار ہیں کہ احادیث تو بس سینہ بہ سینہ سنی سنائی باتوں کا نام ہے جنہیں اقوال رسول ﷺ کا مقدس نام دیا گیا ہے۔ یا یہ کوئی ایرانی سازش تھی وغیرہ۔
محترم، آپ کے اس سوال کے تعلق سے مودودی صاحب کا درج ذیل اقتباس لائق مطالعہ ہے:: ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیں:

نبی اکرم ﷺ پنے عہد ِنبوت میں مسلمانوں کے لئے محض ایک پیرومرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد، رہنما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلم سب کچھ تھے۔ اور عقائد و تصورات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے سکھائے اور مقرر کئے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے نماز، روزے اور مناسک ِحج کی جو تعلیم دی ہو، بس وہی مسلمانوں میں رواج پاگئی ہو، اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں۔ بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ کی سکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں، ٹھیک اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپ نے مقرر کئے، انہی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہوگیا، لین دین کے جو ضابطے آپ نے مقرر کئے، انہیں کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپ نے کئے، وہی ملک کا قانون قرار پائے، لڑائیوں میں جو معاملات آپ نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پاکر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کئے، وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور ا س کا نظامِ حیات اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ انہی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ نے یا تو خود رائج کیں یا جنہیں پہلے کے مروّج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپ نے سنت ِاسلام کا جز بنا لیا۔ یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھیں جن پرمسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوانِ حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضورِ اکرم ﷺ کی زندگی ہی میں عملدرآمد شروع کردیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کاڈھانچہ انہی پر قائم ہے۔

پچھلی صدی تک توان ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لاء کے ادارات عملاً درہم برہم ہوجانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر آپ ’متوارث‘ سنتوں کی محفوظیت کے قائل ہیں تو عبادات اور معاملات دونوں سے تعلق رکھنے والی یہ سب معلوم و متعارف سنتیں متوارث ہی ہیں۔ ان کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوں ایک دوسروں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی بے راہ روی سے جو الحاقی چیز بھی کبھی داخل ہوئی ہے، علماءِ اُمت نے اپنے اپنے دور میں بروقت ’بدعت‘کی حیثیت سے اس کی الگ نشاندہی کردی ہے اور قریب قریب ہر ایسی بدعت کی تاریخ موجود ہے کہ نبی اکرم کے بعد کس زمانے سے اس کا رواج شرو ع ہوا، مسلمانوں کے لئے ان بدعات کو سنن ِمتعارفہ سے ممیز کرنا کبھی مشکل نہیں رہا ہے۔
ان معلوم و متعارف سنتوں کا اقوال رسول ﷺ ہونا اس قدر روشن و واضح ہے کہ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ آپ اپنی اور اپنے حامی علماء کی مثال لیجئے۔ آپ ہر جگہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم احادیث کو قرآن پر پیش کرتے ہیں، اگر قرآن تصدیق کرے تو مانتے ہیں۔ آپ کے اس دعوے پر اسی دھاگے میں کئی سوالات کئے جا چکے ہیں جن کے جوابات آپ پر ادھار ہیں۔ انس صاحب ہی کے ایک سوال کو میں یہاں دہرانا چاہوں گا کہ اگر واقعی آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو کیا آپ مچھلی نہیں کھاتے؟ قرآن تو کہتا ہے
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣ ‫( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 3 )
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے۔
اگر مردار حرام ہے اور مچھلی بھی مردار ہی ہوا کرتی ہے تو آج تک کسی منکر حدیث نے مچھلی کے حرام ہونے کا فتویٰ نہیں دیا؟ ایسا کیوں؟
یہاں کیوں حدیث کی بات مانی جا رہی ہے اور قرآن کی آیت کے عموم کی تخصیص بلاوجہ کی جا رہی ہے؟؟؟ کیا صرف اپنی عقل سے؟
پھر آپ یہ بتائیں کہ آپ جو یہ جگہ جگہ قرآنی آیات سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں، اور صرف ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ مثلاً حکمت سے مراد یہ نہیں یہ ہے وغیرہ۔ تو جب اللہ کے رسول ﷺ کیلئے آپ تشریح و توضیح کا حق تسلیم نہیں کرتے تو یہی حق اپنے لئے بھلا کیوں؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
شاکر بھائی۔
السلام علیکم۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣﴾ ‫( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 3 )
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے۔ اگر مردار حرام ہے اور مچھلی بھی مردار ہی ہوا کرتی ہے تو آج تک کسی منکر حدیث نے مچھلی کے حرام ہونے کا فتویٰ نہیں دیا؟ ایسا کیوں؟
یہاں کیوں حدیث کی بات مانی جا رہی ہے اور قرآن کی آیت کے عموم کی تخصیص بلاوجہ کی جا رہی ہے؟؟؟ کیا صرف اپنی عقل سے؟
پھر آپ یہ بتائیں کہ آپ جو یہ جگہ جگہ قرآنی آیات سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں، اور صرف ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ مثلاً حکمت سے مراد یہ نہیں یہ ہے وغیرہ۔
تو جب اللہ کے رسول ﷺ کیلئے آپ تشریح و توضیح کا حق تسلیم نہیں کرتے تو یہی حق اپنے لئے بھلا کیوں؟

سورۃمایدہ آیت ٣ کے ساتھ ساتھ سورہ البقرہ آیت ١٧٣ اور سورہ الانعام آیت ١٤٥ بھی دیکھیں۔ ان ٰآیات میں خشکی کے جانوروں کی اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہورہی ہے۔ پانی کی مخلوق یعنی مچھلی وغیرہ کا زکر ان آیات میں نہیں ہورہا ہے۔
دیکھیں گائے ، بکری، اونٹ وغیرہ کو آپ زندہ نہیں کھا سکتے ان کو کھانے کے لئے آپ پہلے ان کو مارتے ہیں اور مرتے بھی اس طرح ہیں کہ ان کو زبح کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اس جانور چوپائے کا خون اس کے جسم سے نکال دیں، کیوں کہ خون کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔


اسلے برعکس مچھلی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مچھلی میں، چوپائے جانوروں کی طرح کا خون نہیں ہوتا کہ جس کو نکالنا ضروری ہو، کیونکہ مچھلی آبی مخلوق ہے اور اس کی ہیئت چوپائے جانوروں سے بالکل الگ ہے۔ مچھلی کو بھی آپ زندہ نہیں کھاسکتے اسکو بھی پانی سے نکال کر مرنے کے بعد ہی کھائیں گے مگر اس کو زبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسکی وضاحت اوپر کرچکا ہوں۔




آپ نے اپنی پوسٹ میں یہ بہتان لگایا ہے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کا حق تسلیم نہیں کرتا۔ میری کیا حیثیت کے میں یہ گستاخی کر سکوں۔ اگر آپ محدثین کی جمع کردہ باتوں کو قول رسول کریم ثابت کردیں تو میری کیا مجال جو انکار کرسکوں۔

آپ لوگوں نے بس ایک لفظ سیکھ لیا ہے "منکر حدیث"
جو تعریف منکر حدیث کی آپ لوگ کرتے ہیں اس کی رو سے موجودہ مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر بشمول آپ لوگ اور آپ کے تمام محدثین حضرات "منکر حدیث" ہیں، کیونکہ ہر کوئی کسی نا کسی کی حدیث کو کہیں نا کہیں رد کررہا ہے۔

بھائی آپ کتب احادیث میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم ثابت تو کریں۔ بعد میں منکر حدیث کا الزام لگائیں۔



نوٹ۔۔ آپ کے سورہ مائدہ آہت ٣ کا ترجمہ درست ہیں لکھا۔ جس کی تصحیح کردی گئی ہے۔ اللہ کا دین ہمیشہ سے مکمل ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891

سورۃمایدہ آیت ٣ کے ساتھ ساتھ سورہ البقرہ آیت ١٧٣ اور سورہ الانعام آیت ١٤٥ بھی دیکھیں۔ ان ٰآیات میں خشکی کے جانوروں کی اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہورہی ہے۔ پانی کی مخلوق یعنی مچھلی وغیرہ کا زکر ان آیات میں نہیں ہورہا ہے۔
جی محترم، آپ کی نصیحت کے مطابق سورہ بقرہ آیت ۱۷۳ دیکھی۔ پتہ نہیں کیوں آپ نے لکھی نہیں:

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٧٣﴾
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے
سورہ انعام آیت ۱۴۵ بھی ملاحظہ کر لی:
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤٥﴾
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے واﻻ ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے
درج بالا آیات میں بعینہٖ وہی بات دہرائی گئی ہے۔ اور ہر جگہ مردار اور بہتے ہوئے خون کو علیحدہ علیحدہ حرام قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ سورہ انعام آیت ۱۴۵ میں تو واضح کہہ دیا گیا ہے کہ:
جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ
اس کا مطلب یہی ہے کہ اس آیت میں جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں، یعنی تمام مردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور غیراللہ کے لئے نامزد کردہ چیز کے علاوہ باقی تمام چیزیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب حلال ہیں۔ کیا آپ قرآن کی اس آیت پر جو اپنی وضاحت آپ کر رہی ہے ایمان لاتے ہیں؟؟

بہرحال، ان آیات کی تفسیر میں آپ نے جو یہ فرمایا:

ان ٰآیات میں خشکی کے جانوروں کی اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہورہی ہے۔ پانی کی مخلوق یعنی مچھلی وغیرہ کا زکر ان آیات میں نہیں ہورہا ہے۔
دیکھیں گائے ، بکری، اونٹ وغیرہ کو آپ زندہ نہیں کھا سکتے ان کو کھانے کے لئے آپ پہلے ان کو مارتے ہیں اور مرتے بھی اس طرح ہیں کہ ان کو زبح کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اس جانور چوپائے کا خون اس کے جسم سے نکال دیں، کیوں کہ خون کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
محترم، ازراہ کرم یہ واضح کرنا پسند کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کہاں ذکر فرمایا ہے کہ یہاں مردار سے مراد صرف خشکی کے جانور ہیں؟ اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہو رہی ہے؟ ازراہ کرم ان آیات میں موجود عربی لفظ یا عبارت کا حوالہ دے دیں کیونکہ مجھ کم علم کو کہیں نظر نہیں آ رہا۔
ہمارے نزدیک تو قرآن کی یہ آیات عام ہیں۔ اور ان کے عموم میں تخصیص ہم احادیث سے ہی کرتے ہیں۔ نا کہ اپنی عقل سے۔ آپ نے جو عجیب و غریب قسم کی دلیل دی ہے کہ بکری اونٹ کو زندہ نہیں کھا سکتے۔ اور ان میں خون ہوتا ہے اور خون حرام ہے۔ محترم، مچھلی بھی زندہ نہیں کھائی جا سکتی اور قرآن کی درج بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مردار اور خون دونوں ہی علیحدہ علیحدہ حرام ہیں۔

اسلے برعکس مچھلی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مچھلی میں، چوپائے جانوروں کی طرح کا خون نہیں ہوتا کہ جس کو نکالنا ضروری ہو، کیونکہ مچھلی آبی مخلوق ہے اور اس کی ہیئت چوپائے جانوروں سے بالکل الگ ہے۔ مچھلی کو بھی آپ زندہ نہیں کھاسکتے اسکو بھی پانی سے نکال کر مرنے کے بعد ہی کھائیں گے مگر اس کو زبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسکی وضاحت اوپر کرچکا ہوں۔
میں نے آپ سے سادہ سا سوال کیا تھا کہ کیا مچھلی مردار ہوتی ہے یا نہیں؟ آپ ازراہ کرم اس کا ہاں یا ناں میں جواب دے کر بات کیجئے۔ اگر آپ کہتے ہیں مچھلی مردار نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ذبح کی جاتی ہے تو ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس ایک دو مشورے دیں گے اور بات ختم۔ اگر آپ تسلیم کرتے ہیں مچھلی مردار ہی ہے، تو پھر کیا قرآن کی ان آیات میں مردار کے عموم میں خون، ہیئیت، خشکی، چوپائے کسی بنیاد پر تخصیص موجود ہے؟ کہ اگر خون ہو تو مردار حرام اور خون نہ ہو تو حلال (پھر ٹڈی اور ان کیڑے مکوڑوں کا بھی حلال حرام ہونا واضح کر دیجئے گا جن میں خون نہیں ہوتا)، یا ہئیت ایسی ہو تو حلال اور ایسی ہو تو حرام، خشکی پر ہو تو تمام مردار حرام اور پانی میں ہوں تو تمام مردار حلال، چوپایہ مردہ ہو تو حرام لیکن مردار پرندہ ہو تو حلال؟؟ اگر ایسی تخصیص قرآن میں موجود ہے تو راہنمائی فرمائیں۔ نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر ان آیات میں مردار سے مراد صرف خشکی کے جانور اور اس میں بھی صرف چوپائے مویشی ہی مراد ہیں تو گدھا اگر مردار ہو یا ویسے ہی ذبح کر لیا جائے تو ان آیات میں چونکہ مچھلی کی طرح گدھے، شیر، کتے، بلی، چوہے کا ذکر نہیں لہٰذا کیا یہ سب بھی حلال ہیں؟ اسی طرح اگر پانی کے جانور میں خون نہ ہونے اور ہئیت میں تبدیلی کی بنا پر آپ اپنی رائے سے قرآن کے عمومی لفظ مردار کی تخصیص کرتے ہوئے مچھلی حلال قرار دیتے ہیں، تو کیا پانی کا سانپ، کیکڑا، جھینگا بھی انہی دلائل کی رو سے حلال نہیں ہوں گے؟ بلکہ مچھلی تو وہیل بھی ہوتی ہے۔ کیا وہیل مچھلی حلال ہے؟ یا مچھلی خود ہی مر کر پانی میں اوپر تیرنے لگے تو حلال ہوگی کہ نہیں؟

محترم، خدا گواہ ہے میرا مقصد ہرگز بھی آپ کو نیچا دکھانا یا آپ کی تضحیک کرنا نہیں۔ بلکہ نیک نیتی سے اپنی یا آپ کی اصلاح مقصود ہے۔ اور قرآن کی آیات جن کو اکثر تھریڈز میں آپ کوٹ کر کے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ان آیات سے واضح ہو رہا ہے اب آپ کی مرضی ان آیات پر ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ اگر اس وقت یہی بات آپ کو کہی جائے تو غالباً آپ کو ناگوار گزرے گی۔

آپ نے اپنی پوسٹ میں یہ بہتان لگایا ہے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کا حق تسلیم نہیں کرتا۔ میری کیا حیثیت کے میں یہ گستاخی کر سکوں۔ اگر آپ محدثین کی جمع کردہ باتوں کو قول رسول کریم ثابت کردیں تو میری کیا مجال جو انکار کرسکوں۔
بھائی آپ کتب احادیث میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم ثابت تو کریں۔ بعد میں منکر حدیث کا الزام لگائیں۔
اگر یہ بہتان ہے تو میں آپ سے معافی مانگنے میں بالکل متامل نہیں ہوں گا۔ محترم، آپ دراصل دو الگ باتیں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے خود بھی کنفیوز ہیں اور ہم بھی کنفیوز ہو رہے ہیں۔ دیکھئے، اصل بات یہ نہیں کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی باتیں قول رسول کریم ہیں یا نہیں۔ اس سے قبل بنیادی نوعیت کی بات یہ ہے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بذات خود حجت ہے یا نہیں۔ کوئی ایسی بات جو آپ کی عقل کے مطابق قرآن کی کسی آیت سے ٹکرا رہی ہو تو کیا ایسی بات آپ مانیں گے یا نہیں؟ یا تو یوں کہہ دیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عمر بھر صرف قرآن سنایا ، اس کے علاوہ کبھی زندگی بھر کچھ نہ کیا، نہ کہا، نہ کسی نے ان کو قرآن سنانے کے علاوہ کچھ کہتے، کرتے سنا یا دیکھا۔ نہ انہوں نے کسی کو قرآن سے ہٹ کر کوئی نصیحت کی۔ ان کی ازدواجی زندگی سے لے کر، معاشرتی زندگی، معاملات، جنگیں، کفار کی جانب سے آنے والی تکالیف، زندگی بھر کے افعال و اعمال کچھ بھی کبھی بھی کسی کو نظر نہیں آئے۔ اور لوگ بس آتے، ان سے قرآن سن کر چلے جاتے تھے۔ جب کوئی نئی آیت نازل ہوتی تو خود ہی سب پہنچ جاتے ، قرآن سنتے اور پھر اس سے جو سمجھ میں آتا اس کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہو جاتے۔ نہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی کسی آیت پر عمل کر کے لوگوں کو دکھایا، نہ کبھی کسی آیت کی وضاحت پیش کی، کہ یہاں فلاں مراد نہیں بلکہ فلاں مراد ہے۔ ہر آیت خود اپنی وضاحت کرتی تھی اور عرب کے بدو سے لے کر فقہاء صحابہ کرام اور کفار تک سب اس آیت کا ہمیشہ ایک ہی اور وہی مطلب لیا کرتے تھے جو قائل یعنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ لہٰذا کبھی وضاحت کی نہ ضرورت پیش آئی، نہ کبھی قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں کسی کا اختلاف ہوا، نہ کبھی قرآن پر یا اس سے ہٹ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپس میں اختلاف ہوا، نہ کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آیا جس میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی اور اللہ کے رسول ﷺ نے اجتہاد کیا ہو، بس جب جہاں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ کوئی بھی معاملہ ہوتا ، فوری قرآن کی آیت نازل ہو جاتی اور اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو سنا دیتے، اور عمل کرتے وقت کہیں گوشہ گمنامی میں چلے جاتے جہاں اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کوئی انہیں دیکھ نہ پاتا۔ تاکہ کوئی کہیں اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کو قرآن کے ساتھ نہ ملا لے۔رسول ﷺ کی اپنی شخصیت نعوذباللہ صرف قرآن سنا دینے کی حد تک محدود تھی، اس کے علاوہ ان کی زندگی کا نہ اللہ کی طرف سے کوئی اور مقصد متعین کیا گیا تھا، نہ ہی انہوں نے بحیثیت قاضی، سپہ سالار، ریاستی حکمران، بحیثیت شوہر، بحیثیت باپ، بحیثیت امت کے مشفق و مہربان استاد، کچھ کیا تھا اور اگر کچھ کیا بھی تھا تو قرآن میں مذکور ہو گیا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا زندگی بھر کا علیحدہ ریکارڈ رکھنے کی نہ ضرورت پیش آئی، نہ کسی کو ان سے اتنی محبت ہی تھی (نعوذباللہ) کہ ہر وقت ان کے گرد سیکھنے کو جمع رہتے، ایک دفعہ دیکھنے کو اور ان سے بات کرنے، سننے اور دوسروں تک پہنچانے کو ترستے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جو ملاقاتیں، درس دروس رسول اللہ ﷺ سے ہوا کرتے تھے، ان کی اہمیت اتنی تھی ہی نہیں کہ وہ زندگی بھر ان کو قیمتی خزانہ سمجھ کر یاد رکھتے اور دوسروں تک آپ ﷺ کی ایک ایک ادا، ایک ایک فرمان اور ایک ایک عمل کو جزئیات سمیت پہنچاتے۔ لوگوں نے تو بس آپ ﷺ سے قرآن دو گتوں میں لیا اور آگے پہنچا دیا۔ ان کی شخصیت بس انہی تک محدود تھی جو براہ راست مل لیا کرتے تھے۔ اگر درج بالا تمام یا اکثر باتیں آپ کے نزدیک درست ہیں تو پھر بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ احادیث میں جو اقوال و افعال رسول کریم ﷺ ہمیں ملتے ہیں ، سب جھوٹے اور بہتان ہیں (نعوذ باللہ)۔ اور اللہ کے رسول ﷺ تو بس ڈاکئے کی حیثیت سے قرآن پکڑانے آئے تھے اور امت کو قرآن دے کر چلے گئے۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ پھر تیئیس سالوں تک قرآن نازل کرنے کی کیا حکمت تھی۔ سارا قرآن بس دو جلدوں میں ایک ساتھ مل جاتا تو کتنی آسانی ہو جاتی دنیا بھر میں اس کی کاپیاں بس پہنچا کر واپس عرب آ جاتے۔ کسی کو قرآن کا معلم، مفسر، استاد بنا کر قرآن کے ساتھ روانہ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔ لوگ خود ہی ہر آیت سے معنی و مراد سمجھ کر اس پر عمل کر لیا کرتے۔ قرآن بلا محمد (ﷺ) کا نظریہ مان لیں تو درج بالا باتیں ہی ماننی پڑتی ہیں۔

خیر درج بالا باتیں تو شاید آپ جذباتی سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ ایک فوری مثال حاضر خدمت ہے، جس پر آپ کی بھرپور توجہ درکار ہے:
قرآن تو کہتا ہے مردار حرام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں کہ مچھلی مردار ہونے کے باوجود حلال ہے۔
اب یہ بات آپ کسی بھی کند ذہن سے دریافت کریں کہ درج بالا دونوں باتیں ایک ہی ہیں یا ٹکراتی ہیں تو وہ کہے گا کہ ایک نہیں ہے۔ قرآن عموم بیان کر رہا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ قرآن کی اس آیت کی تخصیص بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہیں، تمام مردار حرام نہیں ہیں، بلکہ سمندر کا مردار یعنی مچھلی حلال ہے۔
اب آپ ایک سوال کا دو ٹوک جواب ہمیں بے شک عنایت نہ فرمائیں، خود سے پوچھ لیں۔ تھوڑی دیر کو فرض کر لیں کہ آپ نے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے کو پا لیا ہے اور اپنے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ الفاظ کہتے ہوئے سن لیتے جو آپ کی عقل کے مطابق قرآن کے خلاف جا رہے ہیں تو کیا آپ قرآن کی اس آیت یا اس طرح کے کسی دوسرے مقام کی تخصیص گوارا کر لیتے؟ کہ جو بھی رسول اللہ ﷺ فرما دیں وہ بعینہٖ مان لینا ہے یا آپ وہیں اللہ کے رسول ﷺ کو کہہ دیتے کہ معاف فرمائیے گا آپ ﷺ کی یہ بات تو (نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ) قرآن کے خلاف ہے لہٰذا ہم پر حجت نہیں، فرقان تو صرف کتاب اللہ ہے؟؟اور ہمارا ایمان تو کتاب اللہ پر ہے بس۔ لہٰذا آپ کی بات رد اور قرآن کا فیصلہ منظور۔ آپ اس سچویشن میں اپنا موقف طے کر لیں، اس کے بعد ان شاءاللہ یہ آپ کو ہم تسلی کروا دیں گے کہ کتب احادیث میں صحیح سند سے آنے والی باتیں اللہ کے رسول ﷺ کی ہی باتیں ہیں۔ لیکن یہ مرحلہ بعد کا ہے۔ پہلے قول رسول کریم ﷺ کا حجت ہونا تسلیم کر لیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت خوب اور عمدہ شاکر بھائی!

جزاکم اللہ خیرا

اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
 
Top