سورۃمایدہ آیت ٣ کے ساتھ ساتھ سورہ البقرہ آیت ١٧٣ اور سورہ الانعام آیت ١٤٥ بھی دیکھیں۔ ان ٰآیات میں خشکی کے جانوروں کی اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہورہی ہے۔ پانی کی مخلوق یعنی مچھلی وغیرہ کا زکر ان آیات میں نہیں ہورہا ہے۔
جی محترم، آپ کی نصیحت کے مطابق سورہ بقرہ آیت ۱۷۳ دیکھی۔ پتہ نہیں کیوں آپ نے لکھی نہیں:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٧٣﴾
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے
سورہ انعام آیت ۱۴۵ بھی ملاحظہ کر لی:
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤٥﴾
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے واﻻ ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے
درج بالا آیات میں بعینہٖ وہی بات دہرائی گئی ہے۔ اور ہر جگہ مردار اور بہتے ہوئے خون کو علیحدہ علیحدہ حرام قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ سورہ انعام آیت ۱۴۵ میں تو واضح کہہ دیا گیا ہے کہ:
جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ
اس کا مطلب یہی ہے کہ اس آیت میں جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں، یعنی تمام مردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور غیراللہ کے لئے نامزد کردہ چیز کے علاوہ باقی تمام چیزیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب حلال ہیں۔ کیا آپ قرآن کی اس آیت پر جو اپنی وضاحت آپ کر رہی ہے ایمان لاتے ہیں؟؟
بہرحال، ان آیات کی تفسیر میں آپ نے جو یہ فرمایا:
ان ٰآیات میں خشکی کے جانوروں کی اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہورہی ہے۔ پانی کی مخلوق یعنی مچھلی وغیرہ کا زکر ان آیات میں نہیں ہورہا ہے۔
دیکھیں گائے ، بکری، اونٹ وغیرہ کو آپ زندہ نہیں کھا سکتے ان کو کھانے کے لئے آپ پہلے ان کو مارتے ہیں اور مرتے بھی اس طرح ہیں کہ ان کو زبح کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اس جانور چوپائے کا خون اس کے جسم سے نکال دیں، کیوں کہ خون کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
محترم، ازراہ کرم یہ واضح کرنا پسند کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کہاں ذکر فرمایا ہے کہ یہاں مردار سے مراد صرف خشکی کے جانور ہیں؟ اور ان میں بھی چوپائے مویشیوں کی بات ہو رہی ہے؟ ازراہ کرم ان آیات میں موجود عربی لفظ یا عبارت کا حوالہ دے دیں کیونکہ مجھ کم علم کو کہیں نظر نہیں آ رہا۔
ہمارے نزدیک تو قرآن کی یہ آیات عام ہیں۔ اور ان کے عموم میں تخصیص ہم احادیث سے ہی کرتے ہیں۔ نا کہ اپنی عقل سے۔ آپ نے جو عجیب و غریب قسم کی دلیل دی ہے کہ بکری اونٹ کو زندہ نہیں کھا سکتے۔ اور ان میں خون ہوتا ہے اور خون حرام ہے۔ محترم، مچھلی بھی زندہ نہیں کھائی جا سکتی اور قرآن کی درج بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مردار اور خون دونوں ہی علیحدہ علیحدہ حرام ہیں۔
اسلے برعکس مچھلی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مچھلی میں، چوپائے جانوروں کی طرح کا خون نہیں ہوتا کہ جس کو نکالنا ضروری ہو، کیونکہ مچھلی آبی مخلوق ہے اور اس کی ہیئت چوپائے جانوروں سے بالکل الگ ہے۔ مچھلی کو بھی آپ زندہ نہیں کھاسکتے اسکو بھی پانی سے نکال کر مرنے کے بعد ہی کھائیں گے مگر اس کو زبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسکی وضاحت اوپر کرچکا ہوں۔
میں نے آپ سے سادہ سا سوال کیا تھا کہ کیا مچھلی مردار ہوتی ہے یا نہیں؟ آپ ازراہ کرم اس کا ہاں یا ناں میں جواب دے کر بات کیجئے۔ اگر آپ کہتے ہیں مچھلی مردار نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ذبح کی جاتی ہے تو ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس ایک دو مشورے دیں گے اور بات ختم۔ اگر آپ تسلیم کرتے ہیں مچھلی مردار ہی ہے، تو پھر کیا قرآن کی ان آیات میں مردار کے عموم میں خون، ہیئیت، خشکی، چوپائے کسی بنیاد پر تخصیص موجود ہے؟ کہ اگر خون ہو تو مردار حرام اور خون نہ ہو تو حلال (پھر ٹڈی اور ان کیڑے مکوڑوں کا بھی حلال حرام ہونا واضح کر دیجئے گا جن میں خون نہیں ہوتا)، یا ہئیت ایسی ہو تو حلال اور ایسی ہو تو حرام، خشکی پر ہو تو تمام مردار حرام اور پانی میں ہوں تو تمام مردار حلال، چوپایہ مردہ ہو تو حرام لیکن مردار پرندہ ہو تو حلال؟؟ اگر ایسی تخصیص قرآن میں موجود ہے تو راہنمائی فرمائیں۔ نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر ان آیات میں مردار سے مراد صرف خشکی کے جانور اور اس میں بھی صرف چوپائے مویشی ہی مراد ہیں تو گدھا اگر مردار ہو یا ویسے ہی ذبح کر لیا جائے تو ان آیات میں چونکہ مچھلی کی طرح گدھے، شیر، کتے، بلی، چوہے کا ذکر نہیں لہٰذا کیا یہ سب بھی حلال ہیں؟ اسی طرح اگر پانی کے جانور میں خون نہ ہونے اور ہئیت میں تبدیلی کی بنا پر آپ اپنی رائے سے قرآن کے عمومی لفظ مردار کی تخصیص کرتے ہوئے مچھلی حلال قرار دیتے ہیں، تو کیا پانی کا سانپ، کیکڑا، جھینگا بھی انہی دلائل کی رو سے حلال نہیں ہوں گے؟ بلکہ مچھلی تو وہیل بھی ہوتی ہے۔ کیا وہیل مچھلی حلال ہے؟ یا مچھلی خود ہی مر کر پانی میں اوپر تیرنے لگے تو حلال ہوگی کہ نہیں؟
محترم، خدا گواہ ہے میرا مقصد ہرگز بھی آپ کو نیچا دکھانا یا آپ کی تضحیک کرنا نہیں۔ بلکہ نیک نیتی سے اپنی یا آپ کی اصلاح مقصود ہے۔ اور قرآن کی آیات جن کو اکثر تھریڈز میں آپ کوٹ کر کے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ان آیات سے واضح ہو رہا ہے اب آپ کی مرضی ان آیات پر ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ اگر اس وقت یہی بات آپ کو کہی جائے تو غالباً آپ کو ناگوار گزرے گی۔
آپ نے اپنی پوسٹ میں یہ بہتان لگایا ہے کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کا حق تسلیم نہیں کرتا۔ میری کیا حیثیت کے میں یہ گستاخی کر سکوں۔ اگر آپ محدثین کی جمع کردہ باتوں کو قول رسول کریم ثابت کردیں تو میری کیا مجال جو انکار کرسکوں۔
بھائی آپ کتب احادیث میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم ثابت تو کریں۔ بعد میں منکر حدیث کا الزام لگائیں۔
اگر یہ بہتان ہے تو میں آپ سے معافی مانگنے میں بالکل متامل نہیں ہوں گا۔ محترم، آپ دراصل دو الگ باتیں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے خود بھی کنفیوز ہیں اور ہم بھی کنفیوز ہو رہے ہیں۔ دیکھئے، اصل بات یہ نہیں کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی باتیں قول رسول کریم ہیں یا نہیں۔ اس سے قبل بنیادی نوعیت کی بات یہ ہے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بذات خود حجت ہے یا نہیں۔ کوئی ایسی بات جو آپ کی عقل کے مطابق قرآن کی کسی آیت سے ٹکرا رہی ہو تو کیا ایسی بات آپ مانیں گے یا نہیں؟ یا تو یوں کہہ دیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عمر بھر صرف قرآن سنایا ، اس کے علاوہ کبھی زندگی بھر کچھ نہ کیا، نہ کہا، نہ کسی نے ان کو قرآن سنانے کے علاوہ کچھ کہتے، کرتے سنا یا دیکھا۔ نہ انہوں نے کسی کو قرآن سے ہٹ کر کوئی نصیحت کی۔ ان کی ازدواجی زندگی سے لے کر، معاشرتی زندگی، معاملات، جنگیں، کفار کی جانب سے آنے والی تکالیف، زندگی بھر کے افعال و اعمال کچھ بھی کبھی بھی کسی کو نظر نہیں آئے۔ اور لوگ بس آتے، ان سے قرآن سن کر چلے جاتے تھے۔ جب کوئی نئی آیت نازل ہوتی تو خود ہی سب پہنچ جاتے ، قرآن سنتے اور پھر اس سے جو سمجھ میں آتا اس کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ہو جاتے۔ نہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی کسی آیت پر عمل کر کے لوگوں کو دکھایا، نہ کبھی کسی آیت کی وضاحت پیش کی، کہ یہاں فلاں مراد نہیں بلکہ فلاں مراد ہے۔ ہر آیت خود اپنی وضاحت کرتی تھی اور عرب کے بدو سے لے کر فقہاء صحابہ کرام اور کفار تک سب اس آیت کا ہمیشہ ایک ہی اور وہی مطلب لیا کرتے تھے جو قائل یعنی اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ لہٰذا کبھی وضاحت کی نہ ضرورت پیش آئی، نہ کبھی قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں کسی کا اختلاف ہوا، نہ کبھی قرآن پر یا اس سے ہٹ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپس میں اختلاف ہوا، نہ کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آیا جس میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی اور اللہ کے رسول ﷺ نے اجتہاد کیا ہو، بس جب جہاں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ کوئی بھی معاملہ ہوتا ، فوری قرآن کی آیت نازل ہو جاتی اور اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو سنا دیتے، اور عمل کرتے وقت کہیں گوشہ گمنامی میں چلے جاتے جہاں اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کوئی انہیں دیکھ نہ پاتا۔ تاکہ کوئی کہیں اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کو قرآن کے ساتھ نہ ملا لے۔رسول ﷺ کی اپنی شخصیت نعوذباللہ صرف قرآن سنا دینے کی حد تک محدود تھی، اس کے علاوہ ان کی زندگی کا نہ اللہ کی طرف سے کوئی اور مقصد متعین کیا گیا تھا، نہ ہی انہوں نے بحیثیت قاضی، سپہ سالار، ریاستی حکمران، بحیثیت شوہر، بحیثیت باپ، بحیثیت امت کے مشفق و مہربان استاد، کچھ کیا تھا اور اگر کچھ کیا بھی تھا تو قرآن میں مذکور ہو گیا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ کا زندگی بھر کا علیحدہ ریکارڈ رکھنے کی نہ ضرورت پیش آئی، نہ کسی کو ان سے اتنی محبت ہی تھی (نعوذباللہ) کہ ہر وقت ان کے گرد سیکھنے کو جمع رہتے، ایک دفعہ دیکھنے کو اور ان سے بات کرنے، سننے اور دوسروں تک پہنچانے کو ترستے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جو ملاقاتیں، درس دروس رسول اللہ ﷺ سے ہوا کرتے تھے، ان کی اہمیت اتنی تھی ہی نہیں کہ وہ زندگی بھر ان کو قیمتی خزانہ سمجھ کر یاد رکھتے اور دوسروں تک آپ ﷺ کی ایک ایک ادا، ایک ایک فرمان اور ایک ایک عمل کو جزئیات سمیت پہنچاتے۔ لوگوں نے تو بس آپ ﷺ سے قرآن دو گتوں میں لیا اور آگے پہنچا دیا۔ ان کی شخصیت بس انہی تک محدود تھی جو براہ راست مل لیا کرتے تھے۔ اگر درج بالا تمام یا اکثر باتیں آپ کے نزدیک درست ہیں تو پھر بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ احادیث میں جو اقوال و افعال رسول کریم ﷺ ہمیں ملتے ہیں ، سب جھوٹے اور بہتان ہیں (نعوذ باللہ)۔ اور اللہ کے رسول ﷺ تو بس ڈاکئے کی حیثیت سے قرآن پکڑانے آئے تھے اور امت کو قرآن دے کر چلے گئے۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ پھر تیئیس سالوں تک قرآن نازل کرنے کی کیا حکمت تھی۔ سارا قرآن بس دو جلدوں میں ایک ساتھ مل جاتا تو کتنی آسانی ہو جاتی دنیا بھر میں اس کی کاپیاں بس پہنچا کر واپس عرب آ جاتے۔ کسی کو قرآن کا معلم، مفسر، استاد بنا کر قرآن کے ساتھ روانہ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔ لوگ خود ہی ہر آیت سے معنی و مراد سمجھ کر اس پر عمل کر لیا کرتے۔ قرآن بلا محمد (ﷺ) کا نظریہ مان لیں تو درج بالا باتیں ہی ماننی پڑتی ہیں۔
خیر درج بالا باتیں تو شاید آپ جذباتی سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ ایک فوری مثال حاضر خدمت ہے، جس پر آپ کی بھرپور توجہ درکار ہے:
قرآن تو کہتا ہے مردار حرام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں کہ مچھلی مردار ہونے کے باوجود حلال ہے۔
اب یہ بات آپ کسی بھی کند ذہن سے دریافت کریں کہ درج بالا دونوں باتیں ایک ہی ہیں یا ٹکراتی ہیں تو وہ کہے گا کہ ایک نہیں ہے۔ قرآن عموم بیان کر رہا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ قرآن کی اس آیت کی تخصیص بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہیں، تمام مردار حرام نہیں ہیں، بلکہ سمندر کا مردار یعنی مچھلی حلال ہے۔
اب آپ ایک سوال کا دو ٹوک جواب ہمیں بے شک عنایت نہ فرمائیں، خود سے پوچھ لیں۔ تھوڑی دیر کو فرض کر لیں کہ آپ نے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے کو پا لیا ہے اور اپنے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ الفاظ کہتے ہوئے سن لیتے جو آپ کی عقل کے مطابق قرآن کے خلاف جا رہے ہیں تو کیا آپ قرآن کی اس آیت یا اس طرح کے کسی دوسرے مقام کی تخصیص گوارا کر لیتے؟ کہ جو بھی رسول اللہ ﷺ فرما دیں وہ بعینہٖ مان لینا ہے یا آپ وہیں اللہ کے رسول ﷺ کو کہہ دیتے کہ معاف فرمائیے گا آپ ﷺ کی یہ بات تو (نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ) قرآن کے خلاف ہے لہٰذا ہم پر حجت نہیں، فرقان تو صرف کتاب اللہ ہے؟؟اور ہمارا ایمان تو کتاب اللہ پر ہے بس۔ لہٰذا آپ کی بات رد اور قرآن کا فیصلہ منظور۔ آپ اس سچویشن میں اپنا موقف طے کر لیں، اس کے بعد ان شاءاللہ یہ آپ کو ہم تسلی کروا دیں گے کہ کتب احادیث میں صحیح سند سے آنے والی باتیں اللہ کے رسول ﷺ کی ہی باتیں ہیں۔ لیکن یہ مرحلہ بعد کا ہے۔ پہلے قول رسول کریم ﷺ کا حجت ہونا تسلیم کر لیں۔