انتظامیہ: درج ذیل دو مراسلہ جات اس دھاگے سے منتقل کئے گئے ہیں۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
آپ ہی نے ایک اور دھاگے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر رکھا ہے۔ میرا اشارہ اسی طرف تھا۔ پھر بھی آپ کی تکلیف کے لئے میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں بھائی۔ لیکن آپ کی اس طرح بغیر علم کے قرآن کی تفسیر فرمانے سے ہمیں بھی شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ مناسب ہوگا کہ پہلے عقائد و اصول پر بات ہو جائے۔ اگر آپ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت پر اعتراض ہے تو پہلے وہ اعتراضات کسی نئے دھاگے میں بیان کر دیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی ایک آیت کی بنیاد پر کسی شرعی حکم کا فیصلہ سنا دینا درست فعل نہیں۔ اس کے لئے مضمون سے متعلق تمام آیات کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک آپ بھی متفق ہیں۔ اب ہمارے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی حجت ہے لہٰذا ہم مضمون سے متعلق آیات کے علاوہ احادیث کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ پھر ان آیات و احادیث سے اپنا من مانا مفہوم لینے کے بجائے وہ مفہوم متعین کرتے ہیں جوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا ہے۔ لہٰذا آپ کا اور ہمارا معیار ایک بہرحال نہیں ہو سکتا۔ اور کسی بھی مسئلے سے متعلق آپ کی رائے ہم سے اتفاقاً ہی موافق ہو سکتی ہے۔ بجائے ان مسائل پر بات کرنے کے، اگر آپ اصول پر بات کر لیں تو زیادہ مناسب ہے۔ جب تک آپ انکار حدیث کے علمبردار ہیں تب تک ان مسائل پر آپ سے گفتگو ہو ہی نہیں سکتی۔
نیز انکار حدیث کا حکم مسلمانوں کے کسی دیگر فرقے یا گروہ جیسا نہیں ہے کہ اسے ایزی لیا جائے۔ دور حاضر میں قادیانیوں کے بعد کسی گروہ کے کفر پر اگر امت مسلمہ کا اجماع ہے تو وہ منکرین حدیث کا گروہ ہے۔ لہٰذا آپ بھی اس بات کو سیریس لیں اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ آپ پر ممکن حد تک حجت تمام کر دی جائے۔
شاکر بھائی اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ کم علمی کا اعتراف اور جہالت دونوں میں بہت فرق ہے۔ تاہم آپ کی تحریر میں کافی باتیں بہت ہی معقول اور قابل توجہ ہیں۔
بھائی صاحب یہ بات واقعئی درست لگتی ہے کہ میرا اور آپ لوگوں کا کسی بات پر متفق ہونا محض اتفاق ہی ہوگا۔ بھائی اپنے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ضروری نہیں کہ آپ اس سے اتفاق بھی کریں۔
ابراہیم علیہ سلام اور اسماعیل علیہ سلام کی دعاء ہے۔
اے ہمارے رب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث کر، جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو زبردست صاحب حکمت ہے۔(البقرہ۔129)
دیکھیں حضرت محمدٖ ٖصلی اللہ علیہ وسلم، رسول اللہ کے ہیں۔ یعنی اللہ نے آپ کو رسول بنایا ہے۔ اب اللہ سے بہتر یا اللہ کے علاوہ ، رسول کی سیرت، رسول کا کردار، رسول کا فعل ،رسول کا اسوۃ حسنہ اور رسول کا قول کون بیان کر سکتا ہے؟
دیکھیں آیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔
1۔ رسول، اللہ کی کتاب سے آیات تلاوت کرتے ہیں۔
2۔ اللہ کی آیت سے اللہ کی کتاب کا علم دیتے ہیں۔
3۔ اللہ کی حکمت والی آیات سے حکمت بیان کرتے ہیں۔
4۔ اللہ کی آیات سے تزکیہ کرتے ہیں۔
سب کام اللہ کی کتاب سے ہو رہے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں بے پناہ علم ہے۔ "اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، سوائے اس کے جو وہ چاہے (البقرہ۔255)
میں اللہ کے رسول صرف کو اللہ کی کتاب سے پہچانتا ہوں اور میرے لئے یہ کافی ہے۔
اللہ کی کتاب سے باہر ہر فرقہ نے اپنی اپنی تحقیق اور فہم اور چاہت سے رسول کی شخصیت بنائی ہوئی ہے۔ اللہ کی کتاب سے باہر، رسول کے متعلق جو جو باتیں جس جس کے پاس ہیں، ان باتوں کی نہ تو اللہ نے کوئی سند نازل فرمائی ہے اور نہ ہی رسول نے ان کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی وہ قول رسول کریم ہیں۔
لیونکہ قول رسول کریم، اللہ کا کلام ہے ۔ اللہ نے نازل کیا ہے۔ (الحاقہ۔40 اور 43) اس قول رسول کریم کی اتھارٹی اللہ کی ہے وہ بیان کر رہا ہے۔ یہ لا ریب ہے اس میں کوئی قول ضعیف یا موضوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں اسی قول رسول کریم پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور میرے لئے صرف اور صرف اللہ کی کتاب کافی ہے۔