کتاب الرھن
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
(کتاب رہن کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تشریح : رہن کے معنی ثبوت یا رکنا اور اصطلاح شرع میں رہن کہتے ہیں قرض کے بدل کوئی چیز رکھوادینے کو مضبوطی کے لیے کہ اگر قرض ادا نہ ہو تو مرتہن اس چیز سے اپنا قرض وصول کرلے۔ جو شخص رہن کی چیز کا مالک ہو اس کو راہن اور جس کے پاس رکھا جائے اس کو مرتہن اور اس چیز کو مرہون کہتے ہیں۔
رہن کے لغوی معنی گروی رکھنا، روک رکھنا، اقامت کرنا، ہمیشہ رہنا۔ مصدر ارہان کے معنی گروی کرنا۔ قرآن مجید کی آیت
کل نفس بما کسبت رھین ( المدثر: 38 ) میں گروی مراد ہے۔ یعنی ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے میں اپنے آپ کو گروی کرچکا ہے۔ حدیث نبوی کل غلام رہینۃ بعقیقتہمیں بھی گروی مراد ہے۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہاتھ میں گروی ہے۔ بعض نے کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا اور وہ مرگیا تو وہ اپنے والدین کی سفارش نہیں کرے گا۔ بعض نے عقیقہ ہونے تک بچے کا بالوں کی گندگی وغیرہ میں مبتلا رہنا مراد لیا ہے۔
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق رہن کے جواز کے لیے آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا۔ پھر سفر کی خصوصیت کا شبہ پیدا ہورہا تھا کہ رہن صرف سفر سے متعلق ہے، اس لیے لفظ ” حضر “ کا بھی اضافہ فرماکر اس شبہ کو رد کیا اور حضر میں رہن کا ثبوت حدیث نبوی سے پیش فرمایا جو کہ آگے مذکور ہے۔ جس میں یہودی کے ہاں آپ نے اپنی زرہ مبارک گروی رکھی۔ اس کا نام ابوشحم تھا اور یہ بنوظفر سے تعلق رکھتا تھا جو قبیلہ خزرج کی ایک شاخ کا نام ہے۔
باب : آدمی اپنی بستی میں ہو اور گروی رکھے
وقوله تعالى {وإن كنتم على سفر ولم تجدوا كاتبا فرهان مقبوضة}.
اور اللہ پاک نے سورۃ بقرہ میں فرمایا اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو
یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ قرآن شریف میں جو یہ قید ہے
و ان کنتم علي سفر ( البقرۃ: 283 ) یہ قید اتفاقی ہے اس لیے کہ اکثر سفر میں گروی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضر میں گروی رکھنا درست نہیں۔
حدیث نمبر: 2508;
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَهُ بِشَعِيرٍ ، وَمَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ ، يَقُولُ : مَا أَصْبَحَ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَاعٌ ، وَلَا أَمْسَى ، وَإِنَّهُمْ لَتِسْعَةُ أَبْيَاتٍ " .
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ جَو کے بدلے گروی رکھی تھی ۔ ایک دن میں خود آپ کے پاس جَو کی روٹی اور باسی چربی لے کر حاضر ہوا تھا ۔ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ آل محمد پر کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں آئی کہ ایک صاع سے زیادہ کچھ اور موجود رہا ہو ، حالانکہ آپ کے نو گھر تھے ۔
تشریح : یہ آپ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا، دوسرے مومنین کو تسلی دینے کے لیے نہ کہ بطور شکوہ اور شکایت کے۔ اہل اللہ تو فقر اور فاقہ پر ایسی خوشی کرتے ہیں جو غنا اور تونگری پر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ فقر اور فاقہ اور دکھ اور بیماری خالص محبوب یعنی خداوند کریم کی مراد ہے اور غنا اور تونگری میں بندے کی مراد بھی شریک ہوتی ہے۔
حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاءقدس سرہ سے منقول ہے۔ جب وہ اپنے گھر میں جاتے اور والدہ سے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟ وہ کہتی
” بابا نظام الدین ماامروز مہمان خدائیم “ تو بے حد خوشی کرتے اور جس دن وہ کہتی کہ ” ہاں! کھانا حاضر ہے “ تو کچھ خوشی نہ ہوتی۔ ( وحیدی )
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وفی الحدیث جواز معاملۃ الکفار فیما لم یتحقق تحریم عین المتعامل فیہ و عدم الاعتبار بفساد معتقدہم و معاملاتہم فیما بینہم واستنبط منہ جواز معاملۃ من اکثر مالہ حرام و فیہ جواز بیع السلاح رہنہ واجارتہ و غیر ذلک من الکافر مالم یکن حربیا وفیہ ثبوت املاک اہل الذمۃ فی ایدیہم وجواز الشراءبالثمن الموجل و اتخاذ الدروع والعدد و غیرہا من آلات الحرب وانہ غیرقادر فی التوکل وان قینۃ آلۃ الحرب لاتدل علی تحبیسہا قالہ ابن المنیر و انا اکثر قوت ذلک العصر الشعیر قالہ الداودی وان القول قول المرتہن فی قیمۃ المرہون مع یمینہ حکاہ ابن التین و فیہ ماکان علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم من التواضع والزہد فی الدنیا والتقلل منہا مع قدرتہ علیہا والکرم الذی افضی بہ الی عدم الادخار حتی احتاج الی رہن درعہ والصبر علی ضیق العیش والقناعۃ بالیسیر و فضیلۃ لازواجۃ لصبرہن معہ علی ذٰلک و فیہ غیر ذٰلک مما مضی ویاتی۔
قال العلماءالحکمۃ فی عدولہ صلی اﷲ علیہ وسلم عن معاملۃ میاسیرا الصحابۃ الی معاملۃ الیہود اما لبیان الجواز اولانہم لم یکن عندہم اذ ذاک طعام فاضل عن حاجۃ غیرہم اوخشی انہم لا یاخذون منہ ثمنا او عوضا فلم یرد التضییق علیہم فانہ لا یبعد ان یکون فیہم اذ ذاک من یقدر علی ذٰلک و اکثر منہ فلعلہ لم یطلعہم علی ذٰلک و انما اطلع علیہ من لم یکن موسرابہ ممن نقل ذٰلک و اﷲ اعلم ( فتح الباری )
یعنی اس حدیث سے کفار کے ساتھ ایسی چیزوں میں جن کی حرمت متحقق نہ ہو، معاملہ کرنے کا جواز ثابت ہوا اس بارے میں ان کے معتقدات اور باہمی معاملات کے بگاڑ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس سے ان کے ساتھ بھی معاملہ کا جواز ثابت ہوا جن کے مالک کا اکثر حصہ حرام سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے کافر کے ہاتھ ہتھیاروں کا رہن رکھناو بیچنا ثابت ہوا جب تک وہ حربی نہ ہو اور اس سے ذمیوں کے املاک کا بھی ثبوت ہوا جو ان کے قابو میں ہوں اور اس سے ادھار قیمت پر خرید کرنا بھی ثابت ہوا اور زرہ وغیرہ آلات حرب کا تیار کرنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ اس قسم کی تیاریاں تو کل کے منافی نہیں ہیں اور یہ کہ آلات حرب کا ذخیرہ جمع کرنا ان کے روکنے پر دلالت نہیں کرتا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس زمانہ میں زیادہ تر کھانے میں جو کا رواج تھا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شئے مرہونہ کے بارے میں قسم کے ساتھ مرتہن کا قول ہی معتبر مانا جائے گا اور اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد و توکل بھی بدرجہ اتم ثابت ہوا۔ حالانکہ آپ کو ہر قسم کی آسانیاں بہم تھیں۔ ان کے باوجود آپ نے دنیا میں ہمیشہ کمی ہی کو محبوب رکھا اور آپ کا کرم و سخا اور عدم ذخیرہ اندوزی بھی ثابت ہوا۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو مجبوراً اپنی زرہ کو رہن رکھنا ضروری ہوا اور آپ کا صبر بھی ثابت ہوا جو آپ تنگی معاش میں فرمایا کرتے تھے اورکم سے کم پر آپ کا قناعت کرنا بھی ثابت ہوا اور آپ کی بیویوں کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو وہ آپ کے ساتھ کرتی تھیں اور اس بارے میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے بجائے یہودیوں سے ادھار کا معاملہ کیوں فرمایا؟ علماءنے ایک حکمت بیان کی ہے کہ آپ نے یہ معاملہ جواز کے اظہار کے لیے فرمایا، یا اس لیے کہ ان دنوں صحابہ کرام کے پاس فاضل غلہ نہ تھا۔ لہٰذا مجبوراً یہود سے آپ کو معاملہ کرنا پڑا۔ یا اس لیے بھی کہ آپ جانتے تھے کہ صحابہ کرام بجائے ادھار معاملہ کرنے کے بلا قیمت ہی وہ غلہ آپ کے گھر بھیج دیں گے اور خواہ مخواہ ان کو تنگ ہونا پڑے گا، اس لیے خاموشی سے آپ نے یہود سے ہی کام چلالیا۔