• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
باب : راہن اورمرتہن میں اگر کسی بات میں اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ ( منکر ) مدعیٰ عل یہ سے قسم لی جائے گی

حدیث نمبر : 2514
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ : كَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، " فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ " .
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ( دو عورتوں کے مقدمہ میں ) لکھا تو اس کے جواب میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا کہ ( اگر مدعی گواہ نہ پیش کر سکے ) تو مدعیٰ علیہ سے قسم لی جائے گی ۔

تشریح : یہ اختلاف خواہ اصل رہن میں ہو یا مقدار شی مرہونہ میں میں مثلاً مرتہن کہے تونے زمین درختوں سمیت گروی رکھی تھی اور راہن کہے میں نے صرف زمین گروی رکھی تھی تو مرتہن ایک زیادہ کامدعی ہوا، اس کو گواہ لانا چاہئے۔ اگر گواہ نہ لائے تو راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ شافعیہ کہتے ہیں رہن میں جب گواہ نہ ہوں تو ہر صورت میں راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2515-16
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا فَقَرَأَ إِلَى عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة آل عمران آية 77 ، ثُمَّ إِنَّ الْأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا ، فَقَالَ : مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : فَحَدَّثْنَاهُ ، قَالَ : فَقَالَ : صَدَقَ لَفِيَّ ، وَاللَّهِ أُنْزِلَتْ كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي بِئْرٍ ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ ؟ قُلْتُ : إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلَا يُبَالِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالًا وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا إِلَى وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة آل عمران آية 77 " .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص جان بوجھ کر اس نیت سے جھوٹی قسم کھائے کہ اس طرح دوسرے کے مال پر اپنی ملکیت جمائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہو گا ۔ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ آل عمران میں ) یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» ” وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی خریدتے ہیں “ آخر آیت تک انہوں نے تلاوت کی ۔ ابووائل نے کہا اس کے بعد اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن ( ابومسعود رضی اللہ عنہ ) نے تم سے کون سی حدیث بیان کی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے حدیث بالا ان کے سامنے پیش کر دی ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ بیان کیا ہے ۔ میرا ایک ( یہودی ) شخص سے کنویں کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا ۔ ہم اپنا جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ دوسرے فریق سے قسم لی جائے گی ۔ میں نے عرض کیا پھر یہ تو قسم کھا لے گا اور ( جھوٹ بولنے پر ) اسے کچھ پرواہ نہ ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی ۔ اس کے بعد انہوں نے وہی آیت پڑھی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی پونجی خریدتے ہیں “ ۔ آیت «ولهم عذاب أليم» تک ۔

اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مدعیٰ علیہ اگر جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ عنداللہ بہت ہی بڑا مجرم گنہگار ملعون قرار پائے گا اگرچہ قانوناً وہ عدالت سے جھوٹی قسم کھاکر ڈگری حاصل کرچکا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں داخل کررہا ہے۔ پس مدعیٰ علیہ کا فرض ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر قسم کھائے اوردنیاوی عدالت کے فیصلے کو آخری فیصلہ نہ سمجھے کہ اللہ کی عدالت عالیہ کا معاملہ بہت سخت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب العتق


صحیح بخاری -> کتاب العتق

باب : اور اللہ تعالیٰ نے ( سورہ بلد میں ) فرمایا۔
وقوله تعالى ‏{‏فك رقبة * أو إطعام في يوم ذي مسغبة * يتيما ذا مقربة ‏}‏
” کسی گردن کو آزاد کرنا یا بھوک کے دنوں میں کسی قرابت دار یتیم بچے کو کھانا کھلانا “۔

تشریح : ہرچند ہر یتیم کو بھوک کے وقت کھانا کھلانا ثواب ہے مگر یتیم بچہ اگر رشتہ دار ہو تو اس کی پرورش کرنے میں دگنا ثواب ہے۔ آیت قرآنی میں کسی غلام کو آزاد کرنا یا غریب یتیم کو بھوک کے وقت کھانا کھلانا ہر دو کام ایک ہی درجہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ دور حاضر میں عہد عتیق کی غلامی کا دور ختم ہوگیا۔ پھر بھی آج معاشی اقتصادی غلامی موجود ہے۔ جس میں ایک عالم گرفتار ہے۔ اس لیے اب بھی کسی قرض دار کا قرض ادا کرادینا، کسی ناحق شکنجہ میں پھنسے ہوئے انسان کو آزاد کرادینا اور یتیم مسکینوں کی خبر لینا بڑے بھاری کارثواب ہیں۔ جگہ جگہ کے فسادات میں کتنے مسلم بچے لاوارث یتیم ہورہے ہیں۔ کتنے امیر امراءمساکین و فقراءکی صفوں میں آرہے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں احمد آباد، چائے باسہ، چکر دھر پور، پھر بھیونڈی اور جل گاؤں کے حالات سامنے ہیں۔ ایسے مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد کرنا اور ان کی زندگی کے لیے سہارا دینا وقت کا بڑا بھاری کار خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں سب کو امن و امان عطا کرے۔ آمین۔ لفظ ” مسغبۃ “ سغب یسغب سغوبا سے جاع بھوک کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر : 2517
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي وَاقِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مَرْجَانَةَ صَاحِبُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، قَالَ : قَالَ لِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا اسْتَنْقَذَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ " . قَالَ سَعِيدُ بْنُ مَرْجَانَةَ : فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، فَعَمَدَ عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى عَبْدٍ لَهُ قَدْ أَعْطَاهُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ أَوْ أَلْفَ دِينَارٍ ، فَأَعْتَقَهُ .
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے علی بن حسین کے ساتھی سعید بن مرجانہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی کسی مسلمان ( غلام ) کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا ۔ سعید بن مرجانہ نے بیان کیا کہ پھر میں علی بن حسین ( زین العابدین رحمہ اللہ ) کے یہاں گیا ( اور ان سے حدیث بیان کی ) وہ اپنے ایک غلام کی طرف متوجہ ہوئے ۔ جس کی عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے اور آپ نے اسے آزاد کر دیا ۔

حضرت زین العابدین بن حسین رضی اللہ عنہ نے سعید بن مرجانہ سے یہ حدیث سن کر اس پر فوراً عمل کردکھایا اور اپنا ایک ایسا قیمتی غلام آزاد کردیا جس کی قیمت دس ہزار درہم مل رہے تھے۔ جس کا نام مطرف تھا۔ مگر حضرت زین العابدین نے روپے کی طرف نہ دیکھا اور ایک عظیم نیکی کی طرف دیکھا۔ اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ انسان پروری اور ہمدردی کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کو اولیاءاللہ یا عبادالرحمن ہونے کا شرف حاصل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : کیسا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟

حدیث نمبر : 2518
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ ، قُلْتُ : فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : أَغْلَاهَا ثَمَنًا ، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا ، قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟ قَالَ : تُعِينُ ضَايِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ ، قَالَ : فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟ قَالَ : تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ " .
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے ابومرواح نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ پھر کسی مسلمان کاریگر کی مدد کر یا کسی بے ہنر کی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ بھی نہ کر سکا ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے ۔

قیمتی غلام اچھا بہترین ماہر کاریگر خواہ کسی بھی مفید فن کا ماہر ہو ایسا غلام مالک کی نظر میں اس لیے پیارا ہوتا ہے کہ وہ روزانہ اچھی کمائی کرلیتا ہے۔ ایسے کو آزاد کرنا بڑا کار ثواب ہے یا پھر ایسے انسان کی مدد کرنا جو بے ہنر ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہو: اللہم اید الاسلام و المسلمین۔ آمین حدیث میں صانع کا لفظ بمعنی کاریگر ہے کوئی بھی حلال پیشہ کرنے والا مراد ہے۔ بعضوں نے لفظ ضائعا روایت کیا ہے ضاد معجمہ سے تو اس کے معنے یہ ہوں گے جو کوئی تباہ حال ہو یعنی فقر و فاقہ میں مبتلا ہو کر ہلاک و برباد ہورہا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : سورج گرہن اور دوسری نشانیوں کے وقت غلام آزاد کرنا مستحب ہے

حدیث نمبر : 2519
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَتْ : " أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ " . تَابَعَهُ عَلِيٌّ ، عَنِ الدَّرَاوَرْدِيِّ ، عَنْ هِشَامٍ .
ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدۃ بن قدامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے فاطمہ بن منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو علی بن مدینی نے بھی عبدالعزیز دراوردی سے روایت کیا ہے ۔ انہوں نے ہشام سے ۔

حدیث نمبر : 2520
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَثَّامٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَتْ : "كُنَّا نُؤْمَرُ عِنْدَ الْخُسُوفِ بِالْعَتَاقَةِ " .
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عثام نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے فاطمہ بنت منذر نے بیان کیا اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہمیں سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ۔

چاند سورج کا گرہن آثار قدرت میں سے ہے۔ جن سے اللہ پاک اپنے بندوں کو ڈراتا اور بتلاتا ہے کہ یہ سارا عالم ایک نہ ایک دن اسی طرح تہ و بالا ہونے والا ہے۔ ایسے موقع پر غلام آزاد کرنے کا حکم دیاگیا جو بہت بڑی نیکی ہے اور نوع انسانی کی بڑی خدمت جس کا صلہ یہ کہ اللہ پاک اس غلام کے ہر عضو کو دوزخ سے آزاد کردیتا ہے۔ الحمدللہ اسلام کی اسی پاک تعلیم کا ثمرہ ہے کہ آج دنیا ایسی غلامی سے تقریباً سے ناپید ہوچکی ہے، نیکیوں کی ترغیب کے سلسلہ میں قرآن پاک و احادیث نبوی کا ایک بڑا حصہ غلام آزاد کرانے کی ترغیبات سے بھرپور ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں انسانی آزادی کی کس قدر قدروقیمت ہے اور انسانی غلامی کتنی مذموم شے ہے۔ تعجب ہے ان مغرب زدہ ذہنوں پر جو اسلام پر رجعت پسندی کا الزام لگاتے اور اسلام کو انسانی ترقی و آزادی کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انصاف کی آنکھوں سے تعلیمات اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دے

حدیث نمبر : 2521
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "مَنْ أَعْتَقَ عَبْدًا بَيْنَ اثْنَيْنِ ، فَإِنْ كَانَ مُوسِرًا قُوِّمَ عَلَيْهِ ، ثُمَّ يُعْتَقُ " . ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ساجھیوں کے درمیان ساجھے کے غلام کو اگر کسی ایک ساجھی نے آزاد کیا ، تو اگر آزاد کرنے والا مالدار ہے تو باقی حصوں کی قیمت کا اندازہ کیا جائے گا ۔ پھر ( اسی کی طرف سے ) پورے غلام کو آزاد کر دیا جائے گا ۔

حدیث نمبر : 2522
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ ، قُوِّمَ الْعَبْدُ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ ، فَأَعْطَى شُرَكَاءَهُ حِصَصَهُمْ وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ ، وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ " . ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام میں اپنے حصے کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ غلام کی پوری قیمت ادا ہو سکے تو اس کی قیمت انصاف کے ساتھ لگائی جائے گی اور باقی ساجھیوں کو ان کے حصے کی قیمت ( اسی کے مال سے ) دے کر غلام کو اسی کی طرف سے آزاد کر دیا جائے گا ۔ ورنہ غلام کا جو حصہ آزاد ہو چکا وہ ہو چکا ۔ باقی حصوں کی آزادی کے لیے غلام کو خود کوشش کر کے قیمت ادا کرنی ہو گی ۔

حدیث نمبر : 2523
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ فَعَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلُّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَهُ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ يُقَوَّمُ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ ، فَأُعْتِقَ مِنْهُ مَا أَعْتَقَ " . حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ اخْتَصَرَهُ .
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے ، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام کے اپنے حصے کو آزاد کیا اور اس کے پاس غلام کی پوری قیمت ادا کرنے کے لیے مال بھی ہے تو پورا غلام اسے آزاد کرانا لازم ہے لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے پورے غلام کی صحیح قیمت ادا کی جا سکے ۔ تو پھر غلام کا جو حصہ آزاد ہو گیا وہی آزاد ہوا ۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا ، ان سے بشر نے بیان کیا اور ان سے عبیداللہ نے اختصار کے ساتھ ۔

حدیث نمبر : 2524
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ أَوْ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ ، وَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ قِيمَتَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ فَهُوَ عَتِيقٌ " . قَالَ نَافِعٌ : وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ ، قَالَ أَيُّوبُ : لَا أَدْرِي أَشَيْءٌ قَالَهُ نَافِعٌ ، أَوْ شَيْءٌ فِي الْحَدِيثِ . ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب سختیانی نے ، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ( ساجھے ) غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا ۔ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) یہ الفاظ فرمائے «شركا له في عبد» ( شک راوی حدیث ایوب سختیانی کو ہوا ) اور اس کے پاس اتنا مال بھی تھا جس سے پورے غلام کی مناسب قیمت ادا کی جا سکتی تھی تو وہ غلام پوری طرح آزاد سمجھا جائے گا ۔ ( باقی حصوں کی قیمت اس کو دینی ہو گی ) نافع نے بیان کیا ورنہ اس کا جو حصہ آزاد ہو گیا بس وہ آزاد ہو گیا ۔ ایوب نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں یہ ( آخری ٹکڑا ) خود نافع نے اپنی طرف سے کہا تھا یا یہ بھی حدیث میں شامل ہے ۔

یعنی یہ عبارت والافقد عتق منہ ما عتق حدیث میں داخل ہے یا نافع کا قول ہے۔ مگر اور راویوں نے جیسے عبیداللہ اور مالک وغیرہ ہیں، اس فقرے کو حدیث میں داخل کیا ہے اور وہی راجح ہے۔

حدیث نمبر : 2525
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي فِي الْعَبْدِ أَوِ الْأَمَةِ يَكُونُ بَيْنَ شُرَكَاءَ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمْ نَصِيبَهُ مِنْهُ ، يَقُولُ : قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلِّهِ إِذَا كَانَ لِلَّذِي أَعْتَقَ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ، يُقَوَّمُ مِنْ مَالِهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ ، وَيُدْفَعُ إِلَى الشُّرَكَاءِ أَنْصِبَاؤُهُمْ ، وَيُخَلَّى سَبِيلُ الْمُعْتَقِ " . يُخْبِرُ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . وَرَوَاهُ اللَّيْثُ ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، وَابْنُ إِسْحَاقَ ، وَجُوَيْرِيَةُ ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَصَرًا . ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھ کو نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما غلام یا باندی کے بارے میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ اگر وہ کئی ساجھیوں کے درمیان مشترک ہو اور ایک شریک اپنا حصہ آزاد کر دے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ اس شخص پر پورے غلام کے آزاد کرانے کی ذمہ داری ہو گی لیکن یہ اس صورت میں جب شخص مذکور کے پاس اتنا مال ہو جس سے پورے غلام کی قیمت ادا کی جا سکے ۔ غلام کی مناسب قیمت لگا کر دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصوں کے مطابق ادائیگی کر دی جائے گی اور غلام کو آزاد کر دیا جائے گا ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ فتویٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے اور لیث بن ابی ذئب ، ابن اسحاق ، جویریہ ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ بھی نافع سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگر کسی شخص نے ساجھے کے غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا اور وہ نادار ہے تو دوسرے ساجھے والوں کے لیے اس سے محنت مزدوری کرائی جائے گی جیسے مکاتب سے کراتے ہیں، اس پر سختی نہیں کی جائے۔

تشریح : یعنی خواہ مخواہ اس پر جبر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے محنت نہ ہوسکے تو جتنا آزاد ہوا اتنا آزاد، باقی حصہ غلام رہے گا۔ یہ باب لاکر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دونوں الفاظ میں تطبیق دی، یعنی بعض روایتوں میں یوں آیا ہے۔ والا فقد عتق منہ ماعتق اور بعضوں میں یوں آیا ہے استعسی غیر مشقوق علیہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت جب ہے کہ غلام محنت مشقت کے قابل نہ ہو اور آزاد کرنے والا نادار ہو اور دوسری صورت جب ہے کہ وہ محنت مشقت اور کمائی کے قابل ہو۔
ایک دور وہ بھی تھا کہ کسی ایک غلام کو کئی آدمی مل کر خرید لیا کرتے تھے۔ اب اگر ان ساجھیوں میں سے کوئی شخص اس غلام کے اپنے حصہ کو آزاد کرنا چاہتا تو اس کے لیے اسلام نے یہ حکم صادر کیا کہ پہلے اس غلام کی صحیح قیمت تجویز کی جائے۔ پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مالدار ہے تو باقی حصہ داروںکو تخمینہ کے مطابق ان کے حصوں کی قیمتیں ادا کردے اس صورت میں وہ غلام مکمل آزاد ہوگیا۔ اگر وہ شخص مالدار نہیں تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہوا ہے۔ باقی حصص غلام خود محنت مزدوری کرکے ادا کرے۔ اسی صورت میں وہ پوری آزادی حاصل کرسکے گا۔

اس حدیث کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے مختلف طرق سے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اس روشن حقیقت کے ہوتے ہوئے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیات و احادیث سے مسائل کے استنباط کرنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں کچھ ایسے متعصب قسم کے لوگ بھی ہیں جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیر فقیہ قرار دیتے ہیں جو ان کے تعصب اور کور باطنی کا کھلا ثبوت ہے۔
حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو غیر فقیہ قرار دینا انتہائی کور باطنی کا ثبوت ہے مگر جو لوگ بڑی دلیری سے صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تک کو غیر فقیہ قرار دے کر رائے اور قیاس کے خلاف ان کی صحیح احادیث رد کردینے کا فتویٰ دے دیتے ہیں ان کے لیے حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے لیے ایسا کہنا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے۔

حدیث نمبر: 2526;
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ عَبْدٍ .
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، کہا میں نے قتادہ سے سنا ، کہا کہ مجھ سے نضر بن انس بن مالک نے بیان کیا ، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس نے کسی غلام کا ایک حصہ آزاد کیا ۔ “

حدیث نمبر: 2527;
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا أَوْ شَقِيصًا فِي مَمْلُوكٍ فَخَلَاصُهُ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ ، وَإِلَّا قُوِّمَ عَلَيْهِ فَاسْتُسْعِيَ بِهِ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ " . تَابَعَهُ حَجَّاجُ بْنُ حَجَّاجٍ ، وَأَبَانُ ، وَمُوسَى بْنُ خَلَفٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، اخْتَصَرَهُ شُعْبَةُ .
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے ، ان سے قتادہ نے ان سے نضر بن انس نے ، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس نے کسی ساجھے کے غلام کا اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے ۔ بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ۔ ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور ( اس سے اپنے بقیہ حصوں کی قیمت ادا کرنے کی ) کوشش کے لیے کہا جائے گا ۔ لیکن اس پر کوئی سختی نہ کی جائے گی ۔“ سعید کے ساتھ اس حدیث کو حجاج بن حجاج ، ابان اور موسیٰ بن خلف نے بھی قتادہ سے روایت کیا ۔ شعبہ نے اسے مختصر کر دیا ہے ۔

دوسری سند ) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے ان سے نضر بن انس نے، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ساجھے کے غلام کااپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے۔ بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو۔ ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور ( ا س سے اپنے بق یہ حصوں کی قیمت ادا کرنے کی ) کوشش کے لیے کہا جائے گا۔ لیکن اس پر کوئی سختی نہ کی جائے گی۔ سعید کے ساتھ اس حدیث کو حجاج بن حجاج اور ابان اورموسیٰ بن خلف نے بھی قتادہ سے روایت کیا۔ شعبہ نے اسے مختصر کردیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق

باب : اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق ( آزادی ) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے

ولا عتاقة إلا لوجه الله‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لكل امرئ ما نوى ‏"‏ولا نية للناسي والمخطئ‏.‏
اور آزادی صرف خدا کی رضا مندی کے لیے کی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے “ اور بھولنے والے اور غلطی سے کوئی کام کربیٹھنے والے کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔

حدیث نمبر : 2528
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ " .
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انہیں عمل یا زبان پر نہ لائیں ۔ “

تشریح : اس حدیث سے باب کا مطلب اس طرح نکالا کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ نہ ہوا تو جو چیز خالی زبان سے بھول چوک کر نکل جائیں ان پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ دل پر آن کر گزر جاتا ہے جمتا نہیں۔ اسی طرح جو کلام زبان سے گزر جائے قصد نہ کیا جائے تو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہوگا کیوں کہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاءہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے۔

حدیث نمبر : 2529
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ ، وَلِامْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ " . ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے ، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے ، کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتا ہے ۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو ، وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہو گی یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے تو یہ ہجرت محض اسی کے لیے ہو گی جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے ۔ “

اس حدیث کی شرح اوپر گزرچکی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا ہے کہ جب ہر کام کے درست ہونے کے لیے نیت شرط ہوئی تو اگر کسی شخص کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن بے اختیار کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے یہ نکل گیا انت طالق طلاق نہ پڑے گی۔ ( وحیدی )
مترجم کہتا ہے کہ یہ دل کی بات اور نیت کا معاملہ ہے۔ صاحب معاملہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بارے میں خود اپنے دل سے فیصلہ کرے اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کرے اور پھر خود ہی اپنے بارے میں فتویٰ لے کہ وہ ایسی مطلقہ کو واپس لاسکتا ہے یا نہیں۔ جو لوگ بحالت ہوش و حواس اپنی عورتوں کو صاف طور پر طلاق دیتے ہیں، بعد میں حیلے بہانے کرکے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ان کو جان لینا چاہئے کہ حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ نہایت ہی مبغوض ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : ایک شخص نے آزاد کرنے کی نیت سے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ وہ اللہ کے لیے ہے ( تو وہ آزاد ہوگیا ) اور آزادی کے ثبوت کے لیے گواہ ( ضروری ہیں )

حدیث نمبر : 2530
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّهُ لَمَّا أَقْبَلَ يُرِيدُ الْإِسْلَامَ وَمَعَهُ غُلَامُهُ ضَلَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ ، فَأَقْبَلَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ جَالِسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، هَذَا غُلَامُكَ قَدْ أَتَاكَ ، فَقَالَ : أَمَا إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُ حُرٌّ ، قَالَ : فَهُوَ حِينَ يَقُولُ : يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نَجَّتِ " .
ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ، ان سے محمد بن بشر نے ، ان سے اسماعیل نے ، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے ( مدینہ کے لیے ) نکلے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا ۔ ( راستے میں ) وہ دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ۔ پھر جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ( مدینہ پہنچنے کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کا غلام بھی اچانک آ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوہریرہ ! یہ لو تمہارا غلام بھی آ گیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، یا رسول اللہ ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ غلام اب آزاد ہے ۔ راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ پہنچ کر یہ شعر کہے تھے ۔ ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات ، پر دلائی اس نے دالکفر سے مجھ کو نجات ۔

ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات
پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات


تشریح : حالانکہ آزادی کے لیے گواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو اس لیے بیان کیا کہ باب کی حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ کرکے اپنے غلام کو آزاد کیا تھا۔ بعضوں نے کہا امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ غلام کو یوں کہنا ” وہ اللہ کا ہے “ اس وقت آزاد ہوگا جب کہنے والے کی نیت آزاد کرنے کی ہو اگر کچھ اور مطلب مراد رکھے تو وہ آزاد نہ ہوگا۔ آزاد کرنے کے لیے بعض الفاظ تو صریح ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہے یا میں نے تجھ کو آزادکردیا۔ بعضے کنایہ ہیں جیسے وہ اللہ کا ہے یعنی اب میری ملک اس پر نہیں رہی، وہ اللہ کی ملک ہوگیا۔

حدیث نمبر : 2531
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ فِي الطَّرِيقِ : يَا لَيْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نَجَّتِ " ، قَالَ : وَأَبَقَ مِنِّي غُلَامٌ لِي فِي الطَّرِيقِ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَايَعْتُهُ ، فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ الْغُلَامُ ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، هَذَا غُلَامُكَ ؟ فَقُلْتُ : هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ ، فَأَعْتَقْتُهُ " . قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : لَمْ يَقُلْ أَبُو كُرَيْبٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ حُرٌّ .
ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ، ان سے قیس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آتے ہوئے راستے میں یہ شعر کہا تھا : ہے پیاری گو کٹھن ہے اور لمبی میری رات ، پر دلائی اس نے دارالکفر سے مجھ کو نجات ۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں میرا غلام مجھ سے بچھڑ گیا تھا ۔ پھر جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اسلام پر قائم رہنے کے لیے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی ۔ میں ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ وہ غلام دکھائی دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ابوہریرہ ! یہ دیکھ تیرا غلام بھی آ گیا ۔ میں نے کہا ، یا رسول اللہ ! وہ اللہ کے لیے آزاد ہے ۔ پھر میں نے اسے آزاد کر دیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوکریب نے ( اپنی روایت میں ) ابواسامہ سے یہ لفظ نہیں روایت کیا کہ وہ آزاد ہے ۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ شعر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے غلام نے کہا تھا۔ بعض نے اسے ابومرثد غنوی کا بتلایا ہے۔ ابواسامہ کی روایت میں اتنا ہی ہے کہ وہ اللہ کے لیے ہے۔ ابو کریب والی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں وصل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 2532
حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَقْبَلَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَمَعَهُ غُلَامُهُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْإِسْلَامَ ، فَضَلَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ بِهَذَا ، وَقَالَ : أَمَا إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُ لِلَّهِ " .
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن حمید نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل نے ، ان سے قیس نے کہ جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آ رہے تھے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا ، آپ اسلام کے ارادے سے آ رہے تھے ۔ اچانک راستے میں وہ غلام بھول کر الگ ہو گیا ( پھر یہی حدیث بیان کی ) اس میں یوں ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ اللہ کے لیے ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نیت آزاد کرنے کی ہی تھی، اس لیے انہوں نے یہ لفظ استعمال کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ پر گواہ بنایا، اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : ام ولد کا بیان

قال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من أشراط الساعة أن تلد الأمة ربها‏"‏‏. ‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے۔

تشریح : ام ولد وہ لونڈی ہے جو اپنے مالک کو جنے۔ اگر علماءیہ کہتے ہیں کہ وہ مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی قول ہے اور ہمارے امام احمد اور اسحاق بھی اسی طرف گئے ہیں۔ بعض علماء نے کہا وہ آزاد نہیں ہوتی اور اس کی بیع جائز ہے۔ ترجیح قول اول ہی کو حاصل ہے۔ قیامت کی نشانی والی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے تاکہ اشارہ ہو کہ ام ولد کی بیع جائز نہیں اور ام ولد کا بکنا یا اس کا اپنی اولاد کی ملک میں رہنا قیامت کی نشانی ہے۔

امام قسطلانی فرماتے ہیں: وقد اختلف السلف والخلف فی عتق ام الولد و فی جواز بیعھا فالثابت عن عمر عدم جواز بیعھا الخ یعنی سلف اور خلف کا ام ولد کی آزادی اور اس کی بیع کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا عدم جواز ثابت ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ عہد رسالت میں پھر عہد صدیقی میں ام ولد کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں کچھ مصالح کی بنا پر ان کی بیع کو ممنوع قرار دے دیا اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ وقتی فیصلہ ایک اجماعی مسئلہ بن گیا۔

قال الطیبی ہٰذا من اقوی الدلائل علی بطلان بیع امہات الاولاد و ذلک ان الصحابۃ لولم یعلموا ان الحق مع عمر لم یتابعوہ علیہ ولم یسکتوا عنہ ( حاشیہ بخاری ج: 1ص: 344 ) یعنی طیبی نے کہا کہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اولاد والی لونڈی کا بیچنا باطل ہے۔ اگر صحابہ کرام یہ نہ جانتے کہ حق عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے تو وہ نہ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے اور نہ اس فیصلہ پر خاموش رہتے۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہی حق تھا۔

الفاظ حدیث : ان تلدالامۃ ربہا کے ذیل میں شارحین لکھتے ہیں۔ الرب لغۃ السید و المالک والمربی والمنعم والمراد ہہنا المولیٰ معناہ اتساع الاسلام واستبلاءاہلہ علی الترک واتخاذہم سراری واذا استولد الجاریۃ کان الولد بمنزلۃ ربہا لانہ ولد سیدہا ولانہ فی الحسب کابیہ اولان الاماءیلدن الملوک فتصیر الامام من جملۃ الرعایا اوہو کنایۃ عن عقوق الاولاد بان یعامل الولد امہ معاملۃ السید امتہ الخ ( شرح بخاری ) یعنی رب لغت میں سید اور مالک اور مربی اور منعم کو کہا جاتا ہے۔ یہاں مولا مراد ہے۔ یعنی یہ کہ اسلام بہت وسیع ہوجائے گا اور مسلمان ترکوں پر غالب آکر ان کو غلام بنالیں گے اور جب لونڈی بچہ جنے تو گویا اس نے خود اپنے مالک کو جنم دیا۔ اس لیے کہ وہ اس کے مالک کا بچہ ہے یا وہ حسب میں اپنے باپ کے مانند ہے یا یہ کہ لونڈیاں بادشاہوں کو جنیں گی پس امام بھی رعایا میں ہوجائیں گے۔ یا اس جملہ میں اولاد کی نافرمانیوں پر اشارہ ہے کہ اولاد اپنی ماں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے گی جیسا کہ ایک لونڈی کے ساتھ اس کا آقا برتاؤ کرتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرب قیامت کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ لونڈیوں کی اولاد بادشاہ بن جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

حدیث نمبر : 2533
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : " إِنَّ عُتْبَةَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنْ يَقْبِضَ إِلَيْهِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ ، قَالَ عُتْبَةُ : إِنَّهُ ابْنِي ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْفَتْحِ أَخَذَ سَعْدٌ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ ، فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَقْبَلَ مَعَهُ بِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ ، فَقَالَ سَعْدٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا ابْنُ أَخِي ، عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا أَخِي ابْنُ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ ، فَإِذَا هُوَ أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِيهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ مِمَّا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ ، وَكَانَتْ سَوْدَةُ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں ۔ اس نے کہا تھا کہ وہ لڑکا میرا ہے ۔ پھر جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ ) تشریف لائے ، تو سعد رضی اللہ عنہ نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، عبد بن زمعہ بھی ساتھ تھے ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ انہیں کا لڑکا ہے ۔ لیکن عبد بن زمعہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! یہ میرا بھائی ہے ۔ جو زمعہ ( میرے والد ) کی باندی کا لڑکا ہے ۔ انہیں کے ” فراش “ پر پیدا ہوا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو واقعی وہ عتبہ کی صورت پر تھا ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عبد بن زمعہ ! یہ تمہاری پرورش میں رہے گا ۔ کیونکہ بچہ تمہارے والد ہی کے ” فرش “ پر پیدا ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ” اے سودہ بن زمعہ ! اس سے پردہ کیا کر “ یہ ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کی تھی کہ بچے میں عتبہ کی شباہت دیکھ لی تھی ۔ سودہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ۔

اس حدیث میں ام ولد کا ذکر ہے۔ یہاں یہ حدیث لانے کا یہی مطلب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : مدبر کی بیع کا بیان

مدبر وہ غلام جس کے لیے آقا کا فیصلہ ہو کہ وہ اس کی وفات کے بعد آزاد ہوجائے گا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اور حدیث کا مفہوم یہی بتلاتا ہے کہ مدبر کی بیع جائز ہے۔ اس بارے میں امام قسطلانی نے چھ اقوال نقل کئے ہیں۔ آخر میں لکھتے ہیں: وقال النووی الصحیح ان الحدیث علی ظاہرہ و انہ یجوز بیع المدبر بکل حال مالم یمت السید ( قسطلانی ) یعنی نووی نے کہا کہ صحیح یہی ہے کہ حدیث اپنے ظاہر پر ہے اور ہر حال میں مدبر کی بیع جائز ہے جب تک اس کا آقا زندہ ہے۔

حدیث نمبر : 2534
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : " أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنَّا عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ ، فَبَاعَهُ ، قَالَ جَابِرٌ : مَاتَ الْغُلَامُ عَامَ أَوَّلَ " . ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک شخص نے اپنی موت کے بعد اپنے غلام کی آزادی کے لیے کہا تھا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلایا اور اسے بیچ دیا ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر وہ غلام اپنی آزادی کے پہلے ہی سال مر گیا تھا ۔

تشریح : اس کا نام یعقوب تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سو درہم پر یا سات سو یا نو سو پر نعیم کے ہاتھ اس کو بیچ ڈالا۔ امام شافعی اور امام احمد کا مشہور مذہب یہی ہے کہ مدبر کی بیع جائز ہے۔ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً منع ہے اور مالکیہ کا مذہب ہے کہ اگر مولیٰ مدیون ہو اور دوسری کوئی ایسی جائیداد نہ ہو جس سے قرض ادا ہوسکے تو مدبر بیچا جائے گا ورنہ نہیں۔ حنفیہ نے ممانعت بیع پر جن حدیثوں سے دلیل لی ہے وہ ضعیف ہیں اور صحیح حدیث سے مدبر کی بیع کا جواز نکلتا ہے۔ مولیٰ کی حیات میں۔ ( وحیدی )

حدیث ہٰذا سے مالکیہ کے مسلک کی ترجیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ حدیث میں جس غلام کا ذکر ہے اس کی صورت تقریباً ایسی ہی تھی۔ بہر حال مدبر کو اس کا آقا اپنی حیات میں اگر چاہے تو بیچ بھی سکتا ہے کیوں کہ اس کی آزادی موت کے ساتھ مشروط ہے۔ موت سے قبل اس پر جملہ احکام بیع و شراءلاگو رہیں گے۔ واللہ اعلم۔
 
Top