• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : ولاء ( غلام لونڈی کا ترکہ ) بیچنا یا ہبہ کرنا

تشریح : یعنی ولاءالمعتق وہو ما اذا مات المعتق ورثۃ معتقۃ او ورثۃ معتقہ کانت العرب تبیعہ و تہبہ فنہی عنہ الشارع لان الولاءکالنسب فلا یزول بازالۃ وفقہاءالحجاز والعراق مجمعون علی انہ لایجوز بیع الولاءو ہبتہ ( حاشیہ بخاری ) یعنی ولاءکا معنی غلام یا لونڈی کا ترکہ جب وہ مرجائے تو اس کا آزادکرنے والا اس کا وارث بنے۔ عرب میں غلام اور آقا کے اس تعلق کو بیع کرنے یا ہبہ کرنے کا رواج تھا۔ شارع نے اس سے منع کردیا۔ اس لیے کہ ولاءنسب کی طرح ہے جو کسی طور بھی زائل نہیں ہوسکتا۔ اس پر تمام فقہاءعراق اور حجاز کا اتفاق ہے۔

حدیث نمبر: 2535;
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَقُولُ : " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ ، وَعَنْ هِبَتِهِ " .
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ، آپ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا تھا ۔

حدیث نمبر: 2536
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتِ : اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَعْتِقِيهَا ، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ " ، فَأَعْتَقْتُهَا ، فَدَعَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا ، فَقَالَتْ : لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا ثَبَتُّ عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا .
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو میں نے خریدا تو ان کے مالکوں نے ولاء کی شرط لگائی ( کہ آزادی کے بعد وہ انہیں کے حق میں قائم رہے گی ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم انہیں آزاد کر دو ، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو قیمت دے کر کسی غلام کو آزاد کر دے ۔ پھر میں نے انہیں آزاد کر دیا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان کے شوہر کے سلسلے میں انہیں اختیار دیا ۔ بریرہ نے کہا کہ اگر وہ مجھے فلاں فلاں چیز بھی دیں تب بھی میں اس کے پاس نہ رہوں گی ۔ چنانچہ وہ اپنے شوہر سے جدا ہو گئیں ۔

اس کے خاوند کا نام مغیث تھا۔ وہ غلام تھا۔ لونڈی جب آزاد ہوجائے تو اس کو اپنے خاوند کی نسبت جو غلام ہو اختیار ہوتا ہے خواہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کردے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغیث آزاد تھا مگر قسطلانی نے اس کے غلام ہونے کو صحیح کہا ہے۔ یہ مغیث بریرہ کی جدائی پر روتا پھرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی کہ مغیث کا نکاح باقی رکھے مگر بریرہ نے کسی طرح اس کے نکاح میں رہنا منظور نہیں کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگر کسی مسلمان کا مشرک بھائی یا چچا قید ہوکر آئے تو کیا ( ان کو چھڑانے کے لیے ) اس کی طرف سے فد یہ دیا جاسکتا ہے؟

وقال أنس قال العباس للنبي صلى الله عليه وسلم فاديت نفسي، وفاديت عقيلا‏.‏ وكان علي له نصيب في تلك الغنيمة التي أصاب من أخيه عقيل وعمه عباس‏.
انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے ( جنگ بدر کے بعد قید سے آزاد ہونے کے لیے ) اپنا بھی فد یہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی حالانکہ اس غنیمت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ تھا جو ان کے بھائی عقیل رضی اللہ عنہ اور چچا عباس رضی اللہ عنہ سے ملی تھی۔

تشریح : یہ عبارت لاکر امام بخاری رحمہ اللہ نے حنفیہ کے قول کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ آدمی اگر اپنے محرم کا مالک ہوجائے تو مالک ہوتے ہی وہ آزاد ہوجائے گا۔ کیوں کہ جنگ بدر میں عباس رضی اللہ عنہ اور عقیل رضی اللہ عنہ قید ہوئے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کو ان پر ملک کا ایک حصہ حاصل ہوا تھا۔ اسی طرح آنحضرت رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر مگر ان کی آزادی کا حکم نہیں دیاگیا۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ جب تک لوٹ کا مال تقسیم نہ ہو اس پر ملک حاصل نہیں ہوتی۔ ( وحیدی )

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشائے باب یہ ہے کہ ذی رحم محرم صرف ملکیت میں آجانے سے فوراً آزاد نہیں ہوجاتا کیوں کہ جنگ بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کے محترم چچا عباس رضی اللہ عنہ لگے اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ جو ابھی ہر دو مسلمان نہیں ہوئے تھے اور یہ اسلامی حکومت کے قیدی تھے۔ جن کو بعد میں فدیہ ہی لے کر آزاد کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ آدمی اگر کسی اپنے ہی محرم غیرمسلم کا مالک ہوجائے تو بھی وہ بغیر آزاد کئے آزادی نہیں پاسکتا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ زرکشی فرماتے ہیں: مرادہ ان العم وابن العم و نحوہما من ذوی الرحم لا یعتقان علی من ملکھما من ذوی رحمہما لان النبی صلیاللہ علیہ وسلم قد ملک عمہ العباس و ابن عمہ عقیل بالغنیمۃ التی فیہما نصیب و کذالک علی ولم یعتقا علیہما خلاصہ مطلب وہی ہے جو اوپر گزرا۔

حدیث نمبر : 2537
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، " أَنَّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا : ائْذَنْ لَنَا ، فَلْنَتْرُكْ لِابْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ ، فَقَالَ : لَا تَدَعُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا " . ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا ، ان سے موسیٰ نے ، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اجازت چاہی اور آ کر عرض کیا کہ آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیجئیے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ معاف کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایک درہم بھی نہ چھوڑو ۔

تشریح : حضرت عباس کے والد عبدالمطلب کی والدہ سلمی انصار میں سے تھیں، بنی نجار کے قبیلے کی۔ اس لیے ان کو اپنا بھانجا کہا۔ سبحان اللہ! انصار کا ادب! یوں نہیں عرض کیا، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے چچا کا فدیہ معاف کردیں۔ کیوں کہ ایسا کہنے سے گویا آنحضرت رضی اللہ عنہ پر احسان رکھنا ہوتا۔ آنحضرت رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ حضرت عباس مالدار ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہ چھوڑو۔ ایسا عدل و انصاف کہ اپنے سگے چچا تک کو بھی رعایت نہ کی پیغمبری کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ سمجھدار آدمی کو پیغمبری کے ثبوت کے لیے کسی بڑے معجزے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ایک ایک خصلت ہزار ہزار معجزوں کے برابر تھی۔ انصاف ایسا، عدل ایسا، سخاوت ایسی، شجاعت ایسی، صبر ایسا، استقلال ایسا کہ سارا ملک مخالف ہر کوئی جان کا دشمن، مگر اعلانیہ توحید کا وعظ فرماتے رہے، بتوں کی ہجو کرتے رہے۔ آخر میں عربوں جیسے سخت لوگوں کی کایا پلٹ دی۔ ہزاروں برس کی عادت بت پرستی کی چھڑا کر ان ہی کے ہاتھوں ان بتوں کو تڑوایا۔ پھرآج تیرہ سو برس گزرچکے، آپ کا دین شرقاً و غرباً پھیل رہا ہے۔ کیا کوئی جھوٹا آدمی ایسا کرسکتا ہے یا جھوٹے آدمی کا نام نیک اس طرح پر قائم رہ سکتا ہے۔ ( وحیدی )

عینی فرماتے ہیں: واختلف فی علۃ المنع فقیل انہ کان مشرکا و قیل منعہم خشیۃ ان یقع فی قلوب بعض المسلمین شی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں منع فرمایا اس کی علت میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اس وقت حضرت عباس مشرک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس لیے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کے دل میں کوئی بدگمانی نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ ناروا رعایت کا برتاؤ کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : مشرک غلام کو آزادکرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ خواہ وہ غلام مشرک کافر ہی کیوں نہ ہو، اس کو آزاد کرنا بھی نیکی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو مسائل انسانی مفاد عامہ سے متعلق ہیں ان میں اسلام نے مذہبی تعصب سے بالا ہوکر محض انسانی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ یہی اسلام کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہے، کاش! مغرب زدہ لوگ اسلام کا بغور مطالعہ کرکے حقیقت حق سے واقفیت حاصل کریں۔

حدیث نمبر : 2538
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " أَعْتَقَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ ، فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ ، وَأَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ ، قَالَ : فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا ؟ قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ " .
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے ۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے ۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔ یا رسول اللہ ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا ( ہشام بن عروہ نے کہا کہ ) «أتحنث بها» کے معنی «أتبرر بها» کے ہیں ) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ” جو نیکیاں تم پہلے کر چکے ہو وہ سب قائم رہیں گی ۔“

تشریح : یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہے اپنے مسلمان بندوں پر حالانکہ کافر کی کوئی نیکی مقبول نہیں اورآخرت میں اس کو ثواب نہیں ملنے کا۔ مگر جو کافر مسلمان ہوجائے اس کے کفر کے زمانے کی نیکیاں بھی قائم رہیں گی۔ اب جن علماءنے اس حدیث کے خلاف رائے لگائی ہے ان سے یہ کہنا چاہئے کہ آخرت کا حال پیغمبر صاحب تم سے زیادہ جانتے تھے۔ جب اللہ ایک فضل کرتا ہے تو تم کیوں اس کے فضل کو روکتے ہو ام یحسدون الناس علي مآ اتھم ا من فضلہ ( النسائ: 54 ) ( وحیدی )

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر بزرگ سخی تر صحابی ہیں جنہوں نے قبل اسلام سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دئیے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو دولت اسلام سے نوازا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام میں بھی ایسے ہی نیک کام کئے جائیں۔ چنانچہ مسلمان ہونے کے بعد پھر سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سو اونٹ ہر دو زمانوں میں انہوں نے حاجیوں کی سواری کے لئے پیش کئے تھے۔ پھر ان کو مکہ شریف میں قربان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی کہ اسلام لانے کے بعد ان کی عہد کفر کی بھی جملہ نیکیاں ثابت رہیں گی اور اللہ پاک سب کا ثواب عظیم ان کو عطا کرے گا۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ مشرک کافر بھی اگر کوئی غلام آزاد کرے تو اس کا یہ نیک عمل صحیح قرار دیا جائے گا۔ غیرمسلم جو نیکیاں کرتے ہیں ان کو دنیا میں ان کی جزا مل جاتی ہے۔ ومالہ في الاخر من نصیب ( الشوریٰ: 20 ) یعنی آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فد یہ لے یہ سب باتیں درست ہیں یا بچوں کو قید کرے

وقوله تعالى ‏{‏ضرب الله مثلا عبدا مملوكا لا يقدر على شىء ومن رزقناه منا رزقا حسنا فهو ينفق منه سرا وجهرا هل يستوون الحمد لله بل أكثرهم لا يعلمون ‏}‏‏.‏
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بے بس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں ( ہرگز نہیں ) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔

کہ حمد کی حقیقت کیا ہے اور غیراللہ جو اپنے لیے حمد کا دعوے دار ہو وہ کس قدر احمق اور بے عمل ہے۔

حدیث نمبر: 2539 - 2540
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ذَكَرَ عُرْوَةُ ، أَنَّ مَرْوَانَ ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ ؟ فَقَالَ : إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ ، إِمَّا الْمَالَ ، وَإِمَّا السَّبْيَ ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ ، قَالُوا : فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، " فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ ، فَقَالَ النَّاسُ : طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ ، قَالَ : إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا ، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ " . وَقَالَ أَنَسٌ : قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا .
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی ، انہیں عقیل نے ، انہیں ابن شہاب نے کہ عروہ نے ذکر کیا کہ مروان اور مسور بن مخرمہ نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کی بھیجے ہوئے لوگ ( مسلمان ہو کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ان سے ملاقات فرمائی ، پھر ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی واپس کر دیے جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ( خطبہ سنایا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم دیکھتے ہو میرے ساتھ جو لوگ ہیں ( میں اکیلا ہوتا تو تم کو واپس کر دیتا ) اور بات وہی مجھے پسند ہے جو سچ ہو ۔ اس لیے دو چیزوں میں سے ایک ہی تمہیں اختیار کرنی ہو گی ، یا اپنا مال واپس لے لو ، یا اپنے قیدیوں کو چھڑا لو ، اسی لیے میں نے ان کی تقسیم میں بھی دیر کی تھی ۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے لوٹتے ہوئے ( جعرانہ میں ) ہوازن والوں کا وہاں پر کئی راتوں تک انتظار کیا تھا ۔ جب ان لوگوں پر یہ بات پوری طرح ظاہر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں ( مال اور قیدی ) میں سے صرف ایک ہی کو واپس فرما سکتے ہیں ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے آدمی ہی واپس کر دیجئیے جو آپ کی قید میں ہیں ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا ، اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کرنے کے بعد فرمایا ” امابعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس نادم ہو کر آئے ہیں اور میرا بھی خیال یہ ہے کہ ان کے آدمی جو ہماری قید میں ہیں ، انہیں واپس کر دیے جائیں ۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ان کے آدمیوں کو واپس کرے وہ ایسا کر لے اور جو شخص اپنے حصے کو چھوڑنا نہ چاہے ( اور اس شرط پر اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہو کہ ان قیدیوں کے بدلے میں ) ہم اسے اس کے بعد سب سے پہلی مال غنیمت میں سے جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا اس کے ( اس ) حصے کا بدلہ اس کے حوالہ کر دیں گے تو وہ ایسا کر لے ۔ “ لوگ اس پر بول پڑے کہ ہم اپنی خوشی سے قیدی کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ” لیکن ہم پر یہ ظاہر نہ ہو سکا کہ کس نے ہمیں اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے ۔ اس لیے سب لوگ ( اپنے خیموں میں ) واپس جائیں اور سب کے ذمہ دار آ کر ان کی رائے سے ہمیں آگاہ کریں ۔ “ چنانچہ سب لوگ چلے آئے اور ان کے سرداروں نے ( ان سے گفتگو کی ) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ سب نے اپنی خوشی سے اجازت دے دی ہے ۔ یہی وہ خبر ہے جو ہمیں ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں معلوم ہوئی ہے ۔ ( زہری نے کہا ) اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( جب بحرین سے مال آیا ) کہا تھا کہ ( بدر کے موقع پر ) میں نے اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی ۔

تشریح : یہ طویل حدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے آپ نے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔ حضرت امام نے باب منعقدہ کے ذیل آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس سے آپ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ آیت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ غلام عرب کا نہ ہو عجمی ہو بلکہ عربی اور عجمی دونوں کو شامل ہے۔

حدیث میں قبیلہ عربی ہوازن کے قیدیوں کا ذکر ہے جو جنگ ہوازن میں کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے۔ اس سے بھی مقصد باب ثابت ہوا کہ لونڈی غلام بوقت مناسب عربوں کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو آپ واپس ہی ہوئے تھے کہ وفد ہوازن اپنے ایسے ہی مطالبات لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبات میں سے صرف قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ دیگر جملہ مسلمان بھی اس پر تیار ہوجائیں۔ چنانچہ جملہ اہل اسلام ان غلاموں کو واپس کرنے پر تیار ہوگئے۔ مگر یہ لوگ شمار میں بہت تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کی رضا مندی فرداً فرداً معلوم کرنی ضروری تھی۔ آپ نے یہ حکم دیا کہ تم جاؤ اور اپنے اپنے چودھریوں سے جو کچھ تم کو منظور ہو وہ بیان کرو، ہم ان سے پوچھ لیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جملہ مردوں عورتوں کو واپس کرادیا۔
بحرین کے مال کی آمد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے لیے اعلان عام فرمادیا تھا، اس وقت حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اس مال کی درخواست کے ساتھ کہا تھا کہ میں اس کا بہت زیادہ مستحق ہوں، کیوں کہ بدر کے موقع پر میں نہ صرف اپنا بلکہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی زر فدیہ ادا کرکے خالی ہاتھ ہوچکا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ جس قدر روپیہ خود آپ اٹھاسکیں لے جائیں۔ اسی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی کہ عربوں کو بھی بحالت مقررہ غلام بنایا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ جیسے اشراف قریش کو بھی دور غلامی سے گزرنا پڑا۔ کاش یہ معزز حضرات شروع ہی میں اسلام سے مشرف ہوجاتے۔ مگر سچ ہے انک لا تہدي من احببت و لکن ایہدي من یشآئ ( القصص: 56 )

حدیث نمبر : 2541
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ فَكَتَبَ إِلَيَّ ، " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَغَارَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ ، وَأَنْعَامُهُمْ تُسْقَى عَلَى الْمَاءِ ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ وَسَبَى ذَرَارِيَّهُمْ وَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ جُوَيْرِيَةَ " . حَدَّثَنِي بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ . ہم سے علی بن حسن نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نافع رحمہ اللہ کو لکھا تو انہوں نے مجھے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر جب حملہ کیا تو وہ بالکل غافل تھے اور ان کے مویشی پانی پی رہے تھے ۔ ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا گیا ، عورتوں بچوں کو قید کر لیا گیا ۔ انہیں قیدیوں میں جویریہ رضی اللہ عنہا ( ام المؤمنین ) بھی تھیں ۔ ( نافع رحمہ اللہ نے لکھا تھا کہ ) یہ حدیث مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی تھی ، وہ خود بھی اسلامی فوج کے ہمراہ تھے ۔

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ ان کا باپ بنی مصطلق کا سردار تھا۔ کہتے ہیں پہلے یہ ثابت بن قیس کے حصے میںآئیں۔ انہوں نے ان کو مکاتب کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کتابت ادا کرکے ان سے نکاح کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کرلینے کی وجہ سے لوگوں نے بنی مصطلق کے کل قیدیوں کو آزاد کردیا، اس خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہوگئے۔ ( وحیدی )
بنومصطلق عرب قبیلہ تھا جسے غلام بنایاگیا تھا۔ اسی سے باب کی مطابقت ثابت ہوئی کہ عربوں کو بھی لونڈی غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اگروہ کافر ہوں اور اسلامی حکومت کے مقابلہ پر لڑنے کو آئیں۔

حدیث نمبر : 2542
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، قَالَ : رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَسَأَلْتُهُ ، فَقَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ ، فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ ، فَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ ، وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ ، فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ " . ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے ، انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے ، ان سے ابن محیریز نے کہ میں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان سے ایک سوال کیا ، آپ نے جواب میں کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے نکلے ۔ اس غزوے میں ہمیں ( قبیلہ بنی مصطلق کے ) عرب قیدی ہاتھ آئے ( راستے ہی میں ) ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورت سے الگ رہنا ہم کو مشکل ہو گیا ۔ ہم نے چاہا کہ عزل کر لیں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم عزل کر سکتے ہو ، اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن جن روحوں کی بھی قیامت تک کے لیے پیدائش مقدر ہو چکی ہے وہ تو ضرور پیدا ہو کر رہیں گی ( لہٰذا تمہارا عزل کرنا بیکار ہے ) ۔

تشریح : عزل کہتے ہیں انزال کے وقت ذکر باہر نکال لینے کو تاکہ رحم میں منی نہ پہنچے اور عورت کو حمل نہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا، اسی لیے ارشاد ہوا کہ تمہارے عزل کرنے سے مقدر الٰہی کے مطابق پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش رک نہیں سکتی۔ عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھاگیا، کیوں کہ اس میں قطع اور تقلیل نسل ہے۔ بحالات موجودہ جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیل نسل کے پروگرام چلائے جارہے ہیں، شریعت اسلامی سے اس کا علی الاطلاق جواز ڈھونڈنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ قطع نسل ہی کی ایک صورت ہے۔

حدیث نمبر : 2543
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ ، وحَدَّثَنِي ابْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَعَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ ، سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ ، قَالَ : وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا ، وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ ، فَقَالَ : أَعْتِقِيهَا ، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ " . ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ، ان سے عمارہ بن قعقاع ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں ( دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی ، انہیں مغیرہ نے ، انہیں حارث نے ، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، ( تیسری سند ) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی ، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ( ایک مرتبہ ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ ( وصول ہو کر آئی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے ۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے ۔

تشریح : حدیث ہذا میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی عورت کے آزاد کرنے کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا اور ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ یہ عورت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا معزز ترین خاندانی عورت ہے اسے آزاد کردو۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوا کہ عربوں کو بھی غلام لونڈی بنایا جاسکتا ہے۔ اس عورت کا تعلق بنوتمیم سے تھا اور بنو تمیم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو اپنی قوم قرار دیا، کیوں کہ یہ ایک عظیم عرب قبیلہ تھا جو تمیم بن مرہ کی طرف منسوب تھا۔ جس کا نسب نامہ یوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ تمیم بن مرہ بن ادبن طانحہ بن الیاس بن مضر۔ یہاں پہنچ کر یہ نسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

اس قبیلہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں دجال کے مقابلہ پر یہ قبیلہ بہت سخت ہوگا جو لڑائی میں سختی کے ساتھ دجال کا مقابلہ کرے گا۔ ایک مرتبہ بنو تمیم کی زکوٰۃ وصول ہوکر دربار رسالت میں پہنچی تو آپ نے ازراہ کرم فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت کفر بھی اس خاندان کی اس قدر عزت افزائی فرمائی کہ اس سے تعلق رکھنے والی ایک لونڈی خاتون کو آزاد کردیا اور فرمایا یہ اولاد اسماعیل سے ہے۔
اس حدیث سے نسبی شرافت پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے۔ اسلام نے نسبی شرافت میں غلو سے منع فرمایا ہے اور حد اعتدال میں نسبی شرافت کو آپ نے قائم رکھا ہے جیسا کہ اس حدیث سے پیچھے مذکور شدہ واقعات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر اپنے آپ کو عبدالمطلب کا فرزند ہونے پر اظہار فخر فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے کے غیرمسلم آباءو اجداد پر ایک مناسب حد تک فخر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی فخر باعث گھمنڈ و غرور بن جائے کہ دوسرے لوگ نگاہ میں حقیر نظر آئیں تو اس حالت میں خاندانی فخر کفر کا شیوہ ہے جو مسلمان کے لیے ہرگز لائق نہیں۔ فتح مکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اس نخوت کے خلاف اظہار ناراضگی فرماکر قریش کو آگاہ فرمایاتھا کہ کلکم بنو آدم و آدم من تراب تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : جو شخص اپنی لونڈی کو ادب اور علم سکھائے، اس کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 2544
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَعَالَهَا فَأَحْسَنَ إِلَيْهَا ، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا كَانَ لَهُ أَجْرَانِ " . ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا ، انہوں نے مطرف سے ، انہوں نے شعبی سے ، انہوں نے ابوبردہ سے ، انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی پرورش کرے اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا ۔ “

الحمد للہ کہ حرم کعبہ مکۃ المکرمہ میں یکم محرم 1390ھ سے اس پارے کے متن کا لفظ لفظ پڑھنا، پھر ترجمہ لکھنا شروع کیا تھا، ساتھ ہی رب کعبہ سے دعائیں بھی کرتا رہا کہ وہ اس عظیم خدمت کے لیے صحیح فہم عطا کرے۔ آج 11 محرم90ھ کوبعونہ تعالیٰ اس حدیث تک پہنچ گیا ہوں۔ پارہ9, 10 کے متن کو کعبہ شریف و مدینۃ المنورہ میں بیٹھ کر پڑھنے کی نذر بھی مانی تھی۔ اللہ کا بے حد شکر ہے کہ یہاں تک کامیابی ہورہی ہے۔ اللہ پاک سے دعاءہے کہ وہ بقایا کو بھی پورا کرائے اور قلم میں طاقت اور دماغ میں قوت عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ” غلام تمہارے بھائی ہیں پس ان کو بھی تم اسی میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو “

وقوله تعالى ‏{‏واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربى واليتامى والمساكين والجار ذي القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت أيمانكم إن الله لا يحب من كان مختالا فخورا‏}‏‏.‏ ذي القربى القريب، والجنب الغريب، الجار الجنب يعني الصاحب في السفر‏.‏
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیم وں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ ( اچھا سلوک کرو ) بی شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو “۔ ( آیت میں ) ذی القربیٰ سے مراد رشتہ دار ہیں، جنب سے غیر یعنی اجنبی اور الجار الجنب سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔

تشریح : حضرت امام نے مقصد باب ثابت فرمانے کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس میں ترجمۃ الباب لفظ وما ملکت ایمانکم سے نکلتا ہے جس سے لونڈی غلام مراد ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرے قرابت داروں اور یتامیٰ و مساکین کے ساتھ ضروری ہے۔ عہد رسالت وہ دور تھا جس میں انسانوں کو لونڈی غلام بناکر جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور دنیا کے کسی قانون اور مذہب میں اس کی روک ٹوک نہ تھی۔ ان حالات میں پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ و سلام نے اپنی حسن تدبیر کے ساتھ اس رسم کو ختم کرنے کا طریقہ اپنایا اور اس بارے میں ایسی پاکیزہ ہدایات پیش کیں کہ عام مسلمان اپنے غلاموں کو انسانیت کا درجہ دیتے۔ لہٰذا ان کو اپنے بھائی بند سمجھنے لگ گئے۔ ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک ایمان کا خاصہ بتلایاگیا جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ یہ رسم بدانسانی دنیا سے تقریباً ختم ہوگئی۔ یہ اسی پاکیزہ تعلیم کا اثر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اب غلامی کی اور بدترین صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔

حدیث نمبر : 2545
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمَعْرُورَ بْنَ سُويْدٍ ، قَالَ : رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ ، ثُمَّ قَالَ : " إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ " .
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے ، بیان کیا ، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا ، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا ۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب ( یعنی بلال رضی اللہ عنہ سے ) سے کچھ گالی گلوچ ہو گئی تھی ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے ۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے ۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو ۔

تاکہ وہ آسانی سے اس خدمت کو انجام دے سکیں۔
روایت میں مذکورہ غلام سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ بعضوں نے کہا ابوذر رضی اللہ عنہ کے بھائیوں میں سے کوئی تھے جیسے مسلم کی روایت میں ہے۔ غلام کو ساتھ کھلانے کا حکم استحباباً ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو ساتھ ہی کھلاتے اور اپنے ہی جیسا کپڑا پہناتے تھے۔ آیات باب میں ذی القربیٰ سے رشتہ دار مراد ہیں۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کو علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور جنب سے بعضوں نے یہودی اور نصرانی مراد رکھا ہے۔ یہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نکالا۔ اور جار الجنب کی جو تفسیر امام بخاری رحمہ اللہ نے کی ہے وہ مجاہد اور قتادہ سے منقول ہے۔ ا س حدیث سے ان معاندین اسلام کی بھی تردید ہوتی ہے جو اسلام پر غلامی کاالزام لگاتے ہیں۔ حالانکہ رسم غلامی کی جڑوں کو اسلام ہی نے کھوکھلا کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : جب غلام اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی تو اس کے ثواب کا بیان

حدیث نمبر : 2546
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "الْعَبْدُ إِذَا نَصَحَ سَيِّدَهُ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ ، كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ " .
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، انہوں نے امام مالک سے ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” غلام جو اپنے آقا کا خیرخواہ بھی ہو اور اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرتا ہو تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے ۔ “

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مالکوں کو اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کی ہدایت فرمائی وہاں لونڈی غلاموں کو بھی احسن طریق پر سمجھایا کہ وہ اسلامی فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنا اہم فریضہ اپنے مالکوں کی خیرخواہی ان کو نفع رسانی سمجھیں۔ مالک اور آقا کے بھی حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ وفاداری کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ان کے لیے ضرر رسانی کا کبھی تصور بھی نہ کریں۔ وہ ایسا کریں گے تو ان کو دوگنا ثواب ملے گا۔ فرائض اسلامی کی ادائیگی کا ثواب اور اپنے مالک کی خدمت کا ثواب، اسی دوگنے ثواب کا تصور تھا جس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہ تمنا ظاہر فرمائی جو اگلی روایت میں مذکورہ ہے۔

حدیث نمبر : 2547
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ فَلَهُ أَجْرَانِ " . ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی صالح سے ، انہوں نے شعبی سے ، انہوں نے ابوبردہ سے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی کے پاس بھی کوئی باندی ہو اور وہ اسے پورے حسن و خوبی کے ساتھ ادب سکھائے ، پھر آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اور جو غلام اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنے آقاؤں کے بھی تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے ۔“

اسلامی شریعت میں عورت مرد سب کو تعلیم دینا چاہئے یہاں تک کہ لونڈی غلاموں کو بھی علم حاصل کرانا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ مگر علم وہ جس سے شرافت اور انسانیت پیدا ہو، نہ آج کے علوم مروجہ جو انسان نما حیوانوں میں اضافہ کراتے ہیں۔ العلوم قال اللہ قال رسولہ قال الصحابۃ ہم اولوا العرفان یعنی حقیقی علم وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پھر آپ کے صحابہ نے پیش فرمایا۔

حدیث نمبر : 2548
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، يَقُولُ : قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لِلْعَبْدِ الْمَمْلُوكِ الصَّالِحِ أَجْرَانِ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْحَجُّ وَبِرُّ أُمِّي ، لَأَحْبَبْتُ أَنْ أَمُوتَ وَأَنَا مَمْلُوكٌ " . ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، کہا ہم کو یونس نے خبر دی ، انہوں نے زہری سے سنا ، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا ، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو اور نیکو کار ہو تو اسے دو ثواب ملتے ہیں ۔ “ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ، حج اور والدہ کی خدمت ( کی روک ) نہ ہوتی تو میں پسند کرتا کہ غلام رہ کر مروں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ غلام پر جہاد فرض نہیں ہے، اسی طرح حج اور وہ بغیر اپنے مالک کی اجازت کے جہاد اور حج کے لیے جا بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح اپنی ماں کی خدمت بھی آزادی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر یہ باتیںنہ ہوتیں تو میں آزادی کی نسبت کسی کا غلام رہنا زیادہ پسند کرتا۔ قال ابن بطال ہو من قول ابی ہریرۃ و کذلک قالہ الداودی وغیرہ انہ مدرج فی الحدیث و قد صرح بالا دراج الاسماعیلی من طریق آخر عن عبداﷲ بن المبارک بلفظ والذی نفس ابی ہریرۃ بیدہ الخ و صرح مسلم ایضا بذلک ( حاشیہ بخاری ) یعنی یہ قول حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ عبداللہ بن مبارک سے صراحتاً یہ آیا ہے اور مسلم میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ واللہ اعلم

حدیث نمبر : 2549
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " نِعْمَّا لِأَحَدِهِمْ يُحْسِنُ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَيَنْصَحُ لِسَيِّدِهِ " . ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، انہوں نے اعمش سے ، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کتنا اچھا ہے کسی کا وہ غلام جو اپنے رب کی عبادت تمام حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے اور اپنے مالک کی خیر خواہی بھی کرتا رہے ۔ “
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے

حافظ نے کہا کہ کراہیت تنزیہی مراد ہے۔ کیوں کہ غلام سے اپنے کو اعلیٰ سمجھنا ایک طرح کا تکبر ہے۔ غلام بھی ہماری طرح خدا کا بندہ ہے۔ آدمی اپنے تئیں جانور سے بھی بدتر سمجھے غلام تو آدمی ہے اور ہماری طرح آدم کی اولاد ہے اور غلام لونڈی اس وجہ سے کہنا مکروہ ہے کہ کوئی اس سے حقیقی معنی نہ سمجھے۔ کیوں کہ حقیقی بندگی تو سوائے خدا کے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتی ( وحیدی )
آگے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے آیات قرآنی نقل کی ہیں جن سے لفظ غلام، لونڈی اور سید کے الفاظ استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ یہ سب مجازی معانی میں ہیں۔ لفظ عبد، مملوک اور سید آیات قرآنی و احادیث نبوی میں ملتے ہیں جیسا کہ یہاں منقول ہیں۔ ان سے ان الفاظ کا مجازی معانی میں استعمال ثابت ہوا۔ قال ابن بطال جاز ان یقول الرجل عبدی او امتی بقولہ تعالی و الصالحین من عبادکم و امتکم انما نہی عنہ علی سبیل الغلظۃ لاعلی سبیل التحریم و کرہ ذلک لاشتراک اللفظ اذ یقال عبداللہ وامۃ اللہ فعلی ہذا لا ینبغی التسمیۃ بنحو عبدالرسول و عبدالنبی و نحو ذلک مما یضاف العبد فیہ الی غیراللہ تعالی ( حاشیہ بخاری شریف )

وقوله عبدي، أو أمتي‏.‏ وقال الله تعالى ‏{‏والصالحين من عبادكم وإمائكم‏}‏ وقال ‏{‏عبدا مملوكا‏}‏ ‏{‏وألفيا سيدها لدى الباب‏}‏ وقال ‏{‏من فتياتكم المؤمنات‏}‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏قوموا إلى سيدكم‏"‏‏. ‏ و‏{‏اذكرني عند ربك‏}‏ سيدك ‏"‏ومن سيدكم‏"‏‏. ‏
اور سورہ نور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ” اور تمہارے غلاموں اور تمہاری باندیوں میں جو نیک بخت ہیں “ اور ( سورۃ نحل میں فرمایا ) ” مملوک غلام “ نیز ( سورہ یوسف میں فرمایا ) اور دونوں ( حضرت یوسف اور زلیخا ) نے اپنے آقا ( عزیز مصر ) کو دروازے پر پایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے سوہ نساءمیں ) فرمایا ” تمہاری مسلمان باندیوں میں سے “ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اپنے سردار کے لینے کے لیے اٹھو ( سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے ) اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ( یوسف نے اپنے جیل خانہ کے ساتھی سے کہا تھا کہ ) اپنے سردار ( حاکم ) کے یہاں میرا ذکر کردینا “۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بنو سلمہ سے دریافت فرمایا تھا کہ ) تمہارا سردار کون ہے؟

حدیث نمبر : 2550
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا نَصَحَ الْعَبْدُ سَيِّدَهُ وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ ، كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ " . ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ نے ، ان سے نافع نے کہا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اپنے رب کی عبادت تمام حسن و خوبی کے ساتھ بجا لائے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے ۔ “

روایت میں لفظ عبد اور سید استعمال ہوئے ہیں یہی مقصود باب ہے۔

حدیث نمبر : 2551
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " الْمَمْلُوكُ الَّذِي يُحْسِنُ عِبَادَةَ رَبِّهِ ، وَيُؤَدِّي إِلَى سَيِّدِهِ الَّذِي لَهُ عَلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ وَالنَّصِيحَةِ وَالطَّاعَةِ لَهُ أَجْرَانِ " . ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، انہوں نے برید بن عبداللہ سے ، وہ ابوبردہ سے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” غلام جو اپنے رب کی عبادت احسن طریق کے ساتھ بجا لائے اور اپنے آقا کے جو اس پر خیر خواہی اور فرماں برداری ( کے حقوق ہیں ) انہیں بھی ادا کرتا رہے ، تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے ۔ “

یہ اس لیے کہ اس نے دو فرض ادا کئے۔ ایک اللہ کی عبادت کا فرض ادا کیا۔ دوسرے اپنے آقا کی اطاعت کی جو شرعاً اس پر فرض تھی اس لیے اس کو دوگنا ثواب حاصل ہوا۔ ( فتح )

حدیث نمبر : 2552
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ اسْقِ رَبَّكَ ، وَلْيَقُلْ سَيِّدِي مَوْلَايَ ، وَلَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ عَبْدِي أَمَتِي ، وَلْيَقُلْ فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلَامِي " . ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں ہمام بن منبہ نے ، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کوئی شخص ( کسی غلام یا کسی بھی شخص سے ) یہ نہ کہے ۔ اپنے رب ( مراد آقا ) کو کھانا کھلا ، اپنے رب کو وضو کرا ، اپنے رب کو پانی پلا “ ۔ بلکہ صرف میرے سردار ، میرے آقا کے الفاظ کہنا چاہئے ۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے ۔ ” میرا بندہ ، میری بندی ، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا ، میری چھوکری ، میرا غلام ۔ “

تشریح : رب کا لفظ کہنے سے منع فرمایا۔ اسی طرح بندہ بندی کا تاکہ شرک کا شبہ نہ ہو، گو ایسا کہنا مکروہ ہے حرام نہیں جیسے قرآن میں ہے اذکرني عند ربک ( یوسف: 42 ) بعضوں نے کہا پکارتے وقت اس طرح پکارنا منع ہے۔ غرض مجازی معنی جب مراد لیا جائے غایت درجہ یہ فعل مکروہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ علماءنے عبدالنبی یا عبدالحسین ایسے ناموں کا رکھنا مکروہ سمجھا ہے اور ایسے ناموں کا رکھنا شرک اس معنی پر کہا ہے کہ ان میں شرک کا ایہام یا شائبہ ہے۔ اگر حقیقی معنی مراد ہو تو بے شک شرک ہے۔ اگر مجازی معنی مراد ہو تو شرک نہ ہوگا مگر کراہیت میں شک نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسے نام نہ رکھے جائیں۔ کیوں کہ جہاں شرک کا وہم ہو وہاں سے بہر حال پرہیز بہتر ہے۔ خاص طور پر لفظ ” عبد “ ایسا ہے جس کی اضافت لفظ اللہ یا رحمن یا رحیم وغیرہ اسماءالحسنی ہی کی طرف مناسب ہے۔ توحید و سنت کے پیروکاروں کے لیے لازم ہے کہ وہ غیراللہ کی طرف ہرگز اپنی عبدیت کو منسوب نہ کریں۔ ایاک نعبد کا یہی تقاضا ہے۔ واللہ ہو الموافق

حدیث نمبر : 2553
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ مِنَ الْعَبْدِ فَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ قِيمَتَهُ ، يُقَوَّمُ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ ، وَأُعْتِقَ مِنْ مَالِهِ ، وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ " . ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے نافع سے ، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس نے غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا ، اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو جس سے غلام کی واجبی قیمت ادا کی جا سکے تو اسی کے مال سے پورا غلام آزاد کیا جائے گا ورنہ جتنا آزاد ہو گیا ہو گیا ۔ “

صرف وہی حصہ اس کی طرف سے آزاد ہورہے گا۔ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں عبد کا لفظ غلام کے لیے آیا ہے۔ پس مجازاً غلام پر عبد بولا جاسکتا ہے۔

حدیث نمبر : 2554
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " . ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ اور غلام اپنے آقا ( سید ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں ( قیامت کے دن ) پوچھ ہو گی ۔ “

اس روایت میں بھی غلام کے لیے لفظ عبد اور آقا کے لیے لفظ سید کا استعمال ہوا ہے۔ اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے جس کے تحت یہاں آپ یہ جملہ روایات لائے ہیں۔ ان الفاظ کا استعمال منع بھی ہے جب حقیقی معانی مراد لیے جائیں۔ اور یہ اس میں تطبیق ہے۔

حدیث نمبر : 2555-56
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا ، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا ، ثُمَّ إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ ". ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا زہری سے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا ، کہا میں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب باندی زنا کرائے تو اسے ( بطور حد شرعی ) کوڑے لگاؤ پھر اگر کرئے تو اسے کوڑے لگاؤ تیسری یا چوتھی بار میں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) پھر اسے بیچ دو ، خواہ قیمت میں ایک رسی ہی ملے ۔ “

تشریح : اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں لونڈی کے لیے امۃ کا لفظ فرمایا ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث کے لانے سے یہ مقصود ہے کہ جب لونڈی زنا کرائے تو اس پر دست درازی منع نہیں ہے بلکہ اس کو سزا دینا ضروری ہے آخر میں راوی کا شک ہے کہ آپ نے تیسری بار میں بیچنے کا حکم فرمایا یا چوتھی بار میں۔

ان جملہ روایات کو نقل کرکے حضرت امام رحمہ اللہ نے ثابت فرمایا کہ مالکوں کو غلاموں اور لونڈیوں پر بڑائی نہ جتانی چاہئے۔ انسان ہونے کے ناطے سب برابر ہیں۔ شرافت اور بڑائی کی بنیاد ایمان اور تقویٰ ہے۔ حقیقی آقا حاکم مالک سب کا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔ دنیاوی مالک آقا سب مجازی ہیں۔ آج ہیں اور کل نہیں۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے مستعمل ہوئے ہیں وہاں مجازی معانی مراد ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : جب کسی کا خادم کھانا لے کر آئے

حدیث نمبر : 2557
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، " إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَليُنَاوِلْهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ أَوْ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ ، فَإِنَّهُ وَلِيَ عِلَاجَهُ " . ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب کسی کا غلام کھانا لائے اور وہ اسے اپنے ساتھ ( کھلانے کے لیے ) نہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلا دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لقمة أو لقمتين» کے بدل «أكلة أو أكلتين» فرمایا ( یعنی ایک یا دو لقمے ) کیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے ۔

لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہو سکتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( غلام کے ) مال کو اس کے آقا کی طرف منسوب کیا ہے

مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہ ہے کہ مجازی معانی میں غلام، لونڈی اپنے مالکوں کو سید کے لفظ سے یاد کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ یہاں حدیث میں الفاظ الخادم فی مال سیدہ راع میں بولا گیا ہے۔ یہ حدیث جامع الصحیح میں کئی جگہ نقل کی گئی ہے اور مجتہد مطلق نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جیسا کہ اپنے اپنے مقام پر بیان ہوا۔ ان معاندین حاسدین پر افسوس جو ایسے مجتہد کامل کی درایت سے انکار کرکے خود اپنے کو رباطنی کا ثبوت دیتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2558
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا ، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " . قَالَ : فَسَمِعْتُ هَؤُلَاءِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَحْسِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ .
سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ امام حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی افسر ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ۔ خادم اپنے آقا ( سید ) کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا ۔ “ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنی ہیں اور مجھے خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ۔ غرض تم میں سے ہر فرد حاکم ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ۔
 
Top