Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگرکوئی غلام لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے
حدیث نمبر : 2559
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ فُلَانٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ " .
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابن فلاں ( ابن سمعان ) نے خبر دی ، انہیں سعید مقبری نے ، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ( دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے ۔ “
( دوسری سند اور امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے۔
مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔ بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔
حضرت امام نے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔ صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے امام مالک رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔ کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔
تشریح : اسلم کی روایت میں صاف اذاضربہے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔ اذا ضرب خادمہ یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔ حافظ نے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منھ پر نہ مارنا چاہئے۔ اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ( وحیدی ) ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال النووی قال العلماءانما نہی عن ضرب الوجہ لانہ لطیف یجمع المحاسن و اکثر مایقع الادراک باعضائہ فیخشی من ضربہ ان تبطل او تشوہ کلہا او بعضہا و الیشن فیہا فاحش لظہورہا و بروزہا بل لایسلم اذا ضربہ من شین والتعلیل المذکور احسن لکن ثبت عند مسلم تعلیل اخر فانہ اخرج الحدیث من طریق ابی ایوب المراغی عن ابی ہریرۃ وزاد فان اللہ خلق آدم علی صورۃ واختلف فی الضمیر علیٰ من یعود فالاکثر علیٰ انہ یعود علی المضروب لما تقدم من الامر باکرام وجہہ ولولا ان المراد التعلیل بذالک لم یکن لہذہ الجملۃ ارتباط بماقبلہا و قال القرطبی اعاد بعضہم الضمیر علی اللہ متمسکا بما ورد فی بعض طرقہ ان اللہ خلق ادم علی صورۃ الرحمٰن الی اخرہ ( فتح الباری )
خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاءہی سے ہوتا ہے۔ پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔ لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔ قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح لیس کمثلہ شی دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔
باب : اگرکوئی غلام لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے
حدیث نمبر : 2559
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ فُلَانٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ " .
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابن فلاں ( ابن سمعان ) نے خبر دی ، انہیں سعید مقبری نے ، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ( دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے ۔ “
( دوسری سند اور امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے۔
مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔ بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔
حضرت امام نے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔ صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے امام مالک رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔ کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔
تشریح : اسلم کی روایت میں صاف اذاضربہے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔ اذا ضرب خادمہ یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔ حافظ نے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منھ پر نہ مارنا چاہئے۔ اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ( وحیدی ) ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال النووی قال العلماءانما نہی عن ضرب الوجہ لانہ لطیف یجمع المحاسن و اکثر مایقع الادراک باعضائہ فیخشی من ضربہ ان تبطل او تشوہ کلہا او بعضہا و الیشن فیہا فاحش لظہورہا و بروزہا بل لایسلم اذا ضربہ من شین والتعلیل المذکور احسن لکن ثبت عند مسلم تعلیل اخر فانہ اخرج الحدیث من طریق ابی ایوب المراغی عن ابی ہریرۃ وزاد فان اللہ خلق آدم علی صورۃ واختلف فی الضمیر علیٰ من یعود فالاکثر علیٰ انہ یعود علی المضروب لما تقدم من الامر باکرام وجہہ ولولا ان المراد التعلیل بذالک لم یکن لہذہ الجملۃ ارتباط بماقبلہا و قال القرطبی اعاد بعضہم الضمیر علی اللہ متمسکا بما ورد فی بعض طرقہ ان اللہ خلق ادم علی صورۃ الرحمٰن الی اخرہ ( فتح الباری )
خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاءہی سے ہوتا ہے۔ پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔ لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔ قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح لیس کمثلہ شی دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔