• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العتق
باب : اگرکوئی غلام لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے

حدیث نمبر : 2559
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ فُلَانٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ " .
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابن فلاں ( ابن سمعان ) نے خبر دی ، انہیں سعید مقبری نے ، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ( دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے ۔ “

( دوسری سند اور امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے ( پر مارنے ) سے پرہیز کرے۔

مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔ بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔
حضرت امام نے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔ صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسے امام مالک رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔ کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔
تشریح : اسلم کی روایت میں صاف اذاضربہے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔ اذا ضرب خادمہ یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔ حافظ نے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منھ پر نہ مارنا چاہئے۔ اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔ کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ( وحیدی ) ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال النووی قال العلماءانما نہی عن ضرب الوجہ لانہ لطیف یجمع المحاسن و اکثر مایقع الادراک باعضائہ فیخشی من ضربہ ان تبطل او تشوہ کلہا او بعضہا و الیشن فیہا فاحش لظہورہا و بروزہا بل لایسلم اذا ضربہ من شین والتعلیل المذکور احسن لکن ثبت عند مسلم تعلیل اخر فانہ اخرج الحدیث من طریق ابی ایوب المراغی عن ابی ہریرۃ وزاد فان اللہ خلق آدم علی صورۃ واختلف فی الضمیر علیٰ من یعود فالاکثر علیٰ انہ یعود علی المضروب لما تقدم من الامر باکرام وجہہ ولولا ان المراد التعلیل بذالک لم یکن لہذہ الجملۃ ارتباط بماقبلہا و قال القرطبی اعاد بعضہم الضمیر علی اللہ متمسکا بما ورد فی بعض طرقہ ان اللہ خلق ادم علی صورۃ الرحمٰن الی اخرہ ( فتح الباری )

خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاءہی سے ہوتا ہے۔ پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔ لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔ قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔ مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح لیس کمثلہ شی دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب المکاتب


صحیح بخاری -> کتاب المکاتب
باب : مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان، ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہوگی۔

عرب میں تمام معاملات تاروں کے طلوع پر ہواکرتے تھے۔ کیوں کہ وہ حساب نہیں جانتے تھے۔ وہ یوں کہتے کہ جب فلاں تارا نکلے تو یہ معاملہ یوں ہوگا۔ اسی وجہ سے قسط کو نجم کہنے لگے۔ نجم تارے کو کہتے ہیں۔ بدل کتابت میں خواہ سالانہ قسطیں ہوں یا ماہانہ ہر طرح سے جائز ہے۔

ونجومه في كل سنة نجم وقوله ‏{‏والذين يبتغون الكتاب مما ملكت أيمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاكم‏}‏‏.‏ وقال روح عن ابن جريج قلت لعطاء أواجب على إذا علمت له مالا أن أكاتبه قال ما أراه إلا واجبا‏.‏ وقاله عمرو بن دينار قلت لعطاء أتأثره عن أحد قال لا، ثم أخبرني أن موسى بن أنس أخبره أن سيرين سأل أنسا المكاتبة وكان كثير المال فأبى، فانطلق إلى عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال كاتبه‏.‏ فأبى فضربه بالدرة ويتلو عمر ‏{‏فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا‏}‏ فكاتبه‏.

اور سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ کا فران کہ ” تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان کو مکاتب کردو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاو۔ ( کہ وہ وعدہ پورا کرسکیں گے ) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے “۔ روح بن عبادہ نے ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا کہ میں نے عطاءبن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہوجائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کرلوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ی ہی کہ ( ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ ) واجب ہوجائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاءسے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ ( پھر انہیں یاد آیا ) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین ( ابن سیرین رحمہ اللہ کے والد ) نے انس رضی اللہ عنہ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ ( یہ انس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، اس پر سیرین حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( انس رضی اللہ عنہ سے ) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کرلے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی کہ ” غلاموں میں اگر خیردیکھوتو ان سے مکاتبت کرلو “۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ نے کتابت کا معاملہ کرلیا۔

حدیث نمبر : 2560
وَقَالَ اللَّيْثُ : حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ عُرْوَةُ : قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " إِنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا وَعَلَيْهَا خَمْسَةُ أَوَاقٍ نُجِّمَتْ عَلَيْهَا فِي خَمْسِ سِنِينَ ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ : وَنَفِسَتْ فِيهَا ، أَرَأَيْتِ إِنْ عَدَدْتُ لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً أَيَبِيعُكِ أَهْلُكِ فَأُعْتِقَكِ فَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي ، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا ، فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالُوا : لَا ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَنَا الْوَلَاءُ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ ، شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ " . لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا کو پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، انہیں خود بریرہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہو گئی تھی ،( عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ) کہ یہ بتاؤ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ ( چاندی کے یہ پانچ اوقیہ ) ادا کر دوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے ؟ پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گی اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو جائے گی ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کر سکتے ہیں کہ رشتہ ولاء ہمارے ساتھ رہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دے ، ولاء تو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو ( معاملات میں ) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ ( دلیل ) بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے ۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل ( دلیل ، بنیاد ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے ۔

تشریح : اس تفصیلی مدلل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ غلام لونڈی اگر اپنے آقاؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں اور ان میں اتنی اہلیت بھی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اس معاملہ کو باحسن طریق پورا کریں گے تو آقاؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ معاملہ کرکے ان کو آزاد کردیں۔ آیت کریمہ ان علمتم فیہمم خیرا ( النور: 33 ) ( اگر تم ان میں خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ) میں خیر سے مراد یہ ہے کہ وہ کمائی کے لائق اور ایماندار ہوں، محنت مزدوری کرکے بدل کتابت ادا کردیں، لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے نہ پھریں۔ واتوہم من مال ا الذي اتکُم ( النور: 33 ) ( اور اپنے مال میں سے جو اللہ نے تم کو دیا ہے ان کی کچھ مدد بھی کرو ) سے مراد یہ کہ اپنے پاس ان کو بطور امداد کچھ دو، تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکیں یا بدل کتابت میں سے کچھ معاف کردو۔

روح کے اثر کو اسماعیل قاضی نے احکام القرآن میں اور عبدالرزاق اور شافعی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عطاءنے واجب قرار دیا کہ بشرط مذکور آقا غلام کی مکاتبت قبول کرلے۔ امام ابن حزم اور ظاہریہ کے نزدیک اگر غلام مکاتبت کا خواہاں ہو تو مالک پر مکاتبت کردینا واجب ہے۔ کیوں کہ قرآن میں فکاتبوہم امر کے لیے ہے جو وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مگر جمہور یہاں امر کو بطور استحباب قرار دیتے ہیں۔ حضرت عطاءنے جب اپنا خیال ظاہر کیا تو عمروبن دینار نے ان سے سوال کیا کہ وجوب کا قول آپ نے کسی صحابی سے سنا ہے یا اپنے قیاس اور رائے سے ایسا کہتے ہو۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن دینار نے عطاءسے یہ پوچھا لیکن حافظ نے کہا یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ابن جریج نے عطاءسے یہ پوچھا۔ جیسے عبدالرزاق اور شافعی کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ اس صورت میں قال عمروبن دینار جملہ معترضہ ہوگا۔ اور نسفی کی روایت میں یوں ہے وقالہ عمرو بن دینار یعنی عمرو بن دینا بھی وجوب کے قائل ہوئے ہیں اور ترجمہ یوں گا ” اور عمروبن دینا نے بھی اس کو واجب کہا ہے “ ابن جریج نے کہا میں نے عطاءسے پوچھا کیا یہ تم کسی سے روایت کرتے ہو؟
حضرت سیرین جن کا قول آگے مذکور ہے، یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور یہ محمد کے والد ہیں، جو محمد بن سیرین سے مشہور ہیں۔ تابعی، فقیہ اور ماہر علم تعبیر رؤیا ہیں۔ اس روایت کو عبدالرزاق اور طبری نے وصل کیا ہے۔
آگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے اور عمل بھی ظاہر ہے کہ وہ بشرط مذکور مکاتبت کو واجب کہتے تھے۔ جیسے ابن حزم اور ظاہریہ کا قول ہے۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا پر پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال میں ادا کرنی مقرر ہوئی تھی۔ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ بعض علماءنے کہا کہ آیت کریمہ واتوہم من مال ا الذي اتکم ( النور: 33 ) سے مکاتب کو مال زکوٰۃ میں سے بھی امداد دی جاسکتی ہے۔ دور حاضرہ میں ناحق مصائب قید میں گرفتار ہوجانے والے مسلمان مرد عورت بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کی آزاد ی کے لیے ان طریقوں سے مدد دی جائے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ قبیلہ خزرج سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر دس سال کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بصرہ میں قیام کیا۔ وہاں لوگوں کو91ھ تک علوم دین سکھاتے رہے۔ عمر سو سال کے لگ بھگ پائی۔ ان کی اولاد کا بھی شمار سو کے قریب ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المکاتب
باب : مکاتب سے کونسی شرطیں کرنا درست ہیں اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو ( وہ شرط باطل ہے )

حدیث نمبر : 2561
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن بريرة جاءت تستعينها في كتابتها، ولم تكن قضت من كتابتها شيئا، قالت لها عائشة ارجعي إلى أهلك، فإن أحبوا أن أقضي عنك كتابتك، ويكون ولاؤك لي فعلت‏.‏ فذكرت ذلك بريرة لأهلها فأبوا وقالوا إن شاءت أن تحتسب عليك فلتفعل، ويكون ولاؤك لنا، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ابتاعي فأعتقي، فإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ قال ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ما بال أناس يشترطون شروطا ليست في كتاب الله من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له، وإن شرط مائة مرة، شرط الله أحق وأوثق‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ بریرہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں، ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کردوں اور تمہاری ولاءمیرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کرسکتی ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے، لیکن تمہاری ولاءتو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کردے۔ ولاءتو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کردے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ ان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاسکتا، خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگالے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔
ابن خزیمہ نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب سے ان کا عدم جواز یا عدم وجوب ثابت ہو اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شرط اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہو اس کا لگانا باطل ہے۔ کیوں کہ کبھی بیع میں کفالت کی شرط ہوتی ہے۔ کبھی ثمن میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اس قسم کے روپے ہوں یا اتنی مدت میں دئیے جائیں یہ شرطیں صحیح ہیں۔ گو اللہ کی کتاب میں ان کا ذکر نہ ہو کیوں کہ یہ شرطیں مشروع ہیں۔

حدیث نمبر : 2562
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال أرادت عائشة أم المؤمنين أن تشتري جارية لتعتقها، فقال أهلها على أن ولاءها لنا‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يمنعك ذلك، فإنما الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک باندی خرید کر اسے آزاد کرنا چاہا، اس باندی کے مالکوں نے کہا کہ اس شرط پر ہم معاملہ کرسکتے ہیں کہ ولاءہمارے ساتھ قائم رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان کی اس شرط کی وجہ سے تم نہ رکو، ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
حدیث بریرہ رضی اللہ عنہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں۔ بعض متاخرین نے ان کو چار سو تک پہنچادیا ہے جس میں اکثر تکلف ہے۔ کچھ فوائد حافظ نے فتح الباری میں بھی ذکر فرمائے ہیں۔ ان کو وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
 
Top