• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جنازے کے ساتھ جانا ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر : 47
حدثنا أحمد بن عبد الله بن علي المنجوفي، قال حدثنا روح، قال حدثنا عوف، عن الحسن، ومحمد، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا، وكان معه حتى يصلى عليها، ويفرغ من دفنها، فإنه يرجع من الأجر بقيراطين، كل قيراط مثل أحد، ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن فإنه يرجع بقيراط‏"‏‏. ‏ تابعه عثمان المؤذن قال حدثنا عوف عن محمد عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه‏.‏

ہم سے احمد بن عبداللہ بن علی منجونی نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، انھوں نے حسن بصری اور محمد بن سیرین سے، انھوں نے ابوہریرہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ روح کے ساتھ اس حدیث کو عثمان مؤذن نے بھی روایت کیا ہے۔ کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن سیرین سے سنا، انھوں نے ابوہریرہ سے، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگلی روایت کی طرح۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ابواب میں ایمان واسلام کی تفصیلات بتلاتے ہوئے زکوٰۃ کی فرضیت کو قرآن شریف سے ثابت فرمایا اور بتلایا کہ زکوٰۃ دینا بھی ایمان میں داخل ہے، جو لوگ فرائض دین کو ایمان سے الگ قرار دیتے ہیں، ان کا قول درست نہیں۔ حدیث میں جس شخص کا ذکر ہے اس کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ نجد لغت میں بلند علاقہ کو کہتے ہیں، جو عرب میں تہامہ سے عراق تک پھیلا ہوا ہے۔ جنازے کے ساتھ جانا بھی ایسا نیک عمل ہے، جو ایمان میں داخل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مومن کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو
وقال إبراهيم التيمي ما عرضت قولي على عملي إلا خشيت أن أكون مكذبا‏.‏ وقال ابن أبي مليكة أدركت ثلاثين من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كلهم يخاف النفاق على نفسه، ما منهم أحد يقول إنه على إيمان جبريل وميكائيل‏.‏ ويذكر عن الحسن ما خافه إلا مؤمن، ولا أمنه إلا منافق‏.‏ وما يحذر من الإصرار على النفاق والعصيان من غير توبة لقول الله تعالى ‏{‏ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون‏}‏
اور ابراہیم تیمی ( واعظ ) نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے ( کافروں ) میں سے نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرئیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورہ آل عمران میں فرمایا : “اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے”

حدیث نمبر : 48
حدثنا محمد بن عرعرة، قال حدثنا شعبة، عن زبيد، قال سألت أبا وائل عن المرجئة،، فقال حدثني عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر‏"‏‏.
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے زبید بن حارث سے، کہا میں نے ابووائل سے مرجیہ کے بارے میں پوچھا، ( وہ کہتے ہیں گناہ سے آدمی فاسق نہیں ہوتا ) انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔

حدیث نمبر : 49
أخبرنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس، قال أخبرني عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج يخبر بليلة القدر، فتلاحى رجلان من المسلمين فقال ‏"‏ إني خرجت لأخبركم بليلة القدر، وإنه تلاحى فلان وفلان فرفعت وعسى أن يكون خيرا لكم التمسوها في السبع والتسع والخمس‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے حمید سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے، کہا مجھ کو عبادہ بن صامت نے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے ( وہ کون سی رات ہے ) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھالی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ ( تو اب ایسا کرو کہ ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔

تشریح : اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔
شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔
خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ “ احتساب قیامت ” کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔
“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ ک ہے گا کہ الہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انھیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ ” ( ترمذی، ابواب الزہد )
عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ ( مسلم، جلد: 2 )
قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔
لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔
بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ ( رضی اللہ عنہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حضرت جبرئیل علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں پوچھنا

وبيان النبي صلى الله عليه وسلم له ثم قال ‏"‏ جاء جبريل ـ عليه السلام ـ يعلمكم دينكم‏"‏‏. ‏ فجعل ذلك كله دينا، وما بين النبي صلى الله عليه وسلم لوفد عبد القيس من الإيمان، وقوله تعالى ‏{‏ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه‏}‏
اور اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمانا پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ یہاں آپ نے ان تمام باتوں کو ( جو جبرئیل علیہ السلام کے سامنے بیان کی گئی تھیں ) دین ہی قرار دیا اور ان باتوں کے بیان میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان سے متعلق عبدالقیس کے وفد کے سامنے بیان فرمائی تھی اور اللہ پاک کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اس آیت شریفہ میں بھی ا سلام کو لفظ دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 50
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، أخبرنا أبو حيان التيمي، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس، فأتاه جبريل فقال ما الإيمان قال ‏"‏ الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله، وتؤمن بالبعث‏"‏‏. ‏ قال ما الإسلام قال ‏"‏ الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان‏"‏‏. ‏ قال ما الإحسان قال ‏"‏ أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك‏"‏‏. ‏ قال متى الساعة قال ‏"‏ ما المسئول عنها بأعلم من السائل، وسأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربها، وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان، في خمس لا يعلمهن إلا الله‏"‏‏. ‏ ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم ‏{‏إن الله عنده علم الساعة‏}‏ الآية‏.‏ ثم أدبر فقال ‏"‏ ردوه‏"‏‏. ‏ فلم يروا شيئا‏.‏ فقال ‏"‏ هذا جبريل جاء يعلم الناس دينهم‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله جعل ذلك كله من الإيمان‏.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو ابوحیان تیمی نے ابوزرعہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس ( اللہ ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا ( البتہ ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے ( دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے ) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ( یاد رکھو ) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی ( آخر آیت تک ) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ امام ابوعبداللہ بخاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔

تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں مقصود البخاری من عقد ذلک الباب ان الدین والاسلام والایمان واحد لااختلاف فی مفہومہما والواو فی ومابین وقولہ تعالی بمعنی مع یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور ومابین میں اور وقولہ تعالیٰ میں ہردوجگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے فجعل ذالک کلہ من الایمان سے واضح فرمادیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔ دوسرا ترجمہ ومابین لوفد عبدالقیس ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدعبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔ تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ ومن یبتغ غیرالاسلام ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبرہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کوغیرضروری بتلاتے ہیں۔

تعصب کا برا ہو:
فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگرتعصب کا براہو عصرحاضر کے بعض مترجمین وشارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انھوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں:
“ امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہوگئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زودرنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہوگیا۔ ( انوارالباری، جلد: دوم،ص: 168 ) ”
اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگرآج کے دورمیں ان فرسودہ مباحث میں جاکر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کرکے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا توسب کے لیے یہ عقیدہ ہے تلک امۃ قدخلت لہا ماکسبت ( البقرۃ: 134 ) رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیرفقیہ قراردینا خود ان لکھنے والوں کے زودرنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 51
حدثنا إبراهيم بن حمزة، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، أن عبد الله بن عباس، أخبره قال أخبرني أبو سفيان، أن هرقل، قال له سألتك هل يزيدون أم ينقصون، فزعمت أنهم يزيدون، وكذلك الإيمان حتى يتم‏.‏ وسألتك هل يرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه، فزعمت أن لا، وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب، لا يسخطه أحد‏.‏
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، ان کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، ان کو ابوسفیان بن حرب نے کہ ہرقل ( روم کے بادشاہ ) نے ان سے کہا۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس رسول کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں۔ تو نے جواب میں بتلایا کہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ ( ٹھیک ہے ) ایمان کا یہی حال رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورا ہو جائے اور میں نے تجھ سے پوچھا تھا کہ کوئی اس کے دین میں آ کر پھر اس کو برا جان کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا۔ نہیں، اور ایمان کا یہی حال ہے۔ جب اس کی خوشی دل میں سما جاتی ہے تو پھر اس کو کوئی برا نہیں سمجھ سکتا۔

یہ باب بھی پچھلے باب ہی سے متعلق ہے اور اس سے بھی ایمان کی کمی وزیادتی ثابت کرنا مقصود ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کی فضیلت کے بیان میں جو اپنا دین قائم رکھنے کے لیے گناہ سے بچ گیا

حدیث نمبر : 52
حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، عن عامر، قال سمعت النعمان بن بشير، يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات كراع يرعى حول الحمى، يوشك أن يواقعه‏.‏ ألا وإن لكل ملك حمى، ألا إن حمى الله في أرضه محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله‏.‏ ألا وهي القلب‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے، انھوں نے عامر سے، کہا میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

تشریح : باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پر ہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں قد اجمع العلماءعلی عظم موقع ہذاالحدیث وانہ احدالاحادیت الاربعۃ التی علیہامدارالاسلام المنظومۃ فی قولہ:

عمدۃ الدین عندنا کلمات
مسندات من قول خیر البریۃ
اتق الشبہ و ازہدن و دع ما
لیس یعینک واعملن بنیۃ

یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماءکا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدارہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چندکلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے

حدیث نمبر : 53
حدثنا علي بن الجعد، قال أخبرنا شعبة، عن أبي جمرة، قال كنت أقعد مع ابن عباس، يجلسني على سريره فقال أقم عندي حتى أجعل لك سهما من مالي، فأقمت معه شهرين، ثم قال إن وفد عبد القيس لما أتوا النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من القوم أو من الوفد‏"‏‏. ‏ قالوا ربيعة‏.‏ قال ‏"‏ مرحبا بالقوم ـ أو بالوفد ـ غير خزايا ولا ندامى‏"‏‏. ‏ فقالوا يا رسول الله، إنا لا نستطيع أن نأتيك إلا في شهر الحرام، وبيننا وبينك هذا الحى من كفار مضر، فمرنا بأمر فصل، نخبر به من وراءنا، وندخل به الجنة‏.‏ وسألوه عن الأشربة‏.‏ فأمرهم بأربع، ونهاهم عن أربع، أمرهم بالإيمان بالله وحده‏.‏ قال ‏"‏ أتدرون ما الإيمان بالله وحده‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏ شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصيام رمضان، وأن تعطوا من المغنم الخمس‏"‏‏. ‏ ونهاهم عن أربع عن الحنتم والدباء والنقير والمزفت‏.‏ وربما قال المقير‏.‏ وقال ‏"‏ احفظوهن وأخبروا بهن من وراءكم‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انھوں نے ابوجمرہ سے نقل کیا کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے ( ایک دفعہ ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے ( یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے ) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انھوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔ ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے خدا پر ایمان لاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ ( مسلمانوں کے بیت المال میں ) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا۔ سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔

تشریح : یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومذہب السلف فی الایمان من کون الاعمال داخلۃ فی حقیقتہ فانہ قد فسرالاسلام فی حدیث جبرئیل بما فسربہ الایمان فی قصۃ وفدعبدالقیس فدل ہذا علی ان الاشیاءالمذکورۃ وفیہا اداءالخمس من اجزاءالایمان وانہ لا بدفی الایمان من الاعمال خلافا للمرجئۃ۔ ( مرعاۃ،جلد اول،ص: 45 ) یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام ( مذکورہ سابقہ ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفدعبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاءمذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاءایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ ( جو ان کی ضلالت وجہالت کی دلیل ہے ) ۔

جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا توچند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرمادی۔

یادرکھنے کے قابل:
یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یادرکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: قال الحافظ وفیہ دلیل علی تقدم اسلام عبدالقیس علی قبائل الذین کانوا بینہم وبین المدینۃ ویدل علی سبقہم الی الاسلام ایضا مارواہ البخاری فی الجمعۃ عن ابن عباس قال ان اول جمعۃ جمعت بعدجمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البحرین وانما جمعوا بعدرجوع وفدہم الیہم فدل علی انہم سبقوا جمیع القریٰ الی الاسلام انتہی واحفظہ فانہ ینفعک فی مسئلۃ الجمعۃ فی القریٰ۔ ( مرعاۃ،جلد: اول،ص: 44 )
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جوبحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انھوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہرآدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے

فدخل فيه الإيمان والوضوء والصلاة والزكاة والحج والصوم والأحكام‏.‏ وقال الله تعالى ‏{‏قل كل يعمل على شاكلته‏}‏ على نيته‏.‏ ‏"‏ نفقة الرجل على أهله يحتسبها صدقة‏"‏‏. ‏ وقال ‏"‏ ولكن جهاد ونية‏"‏‏. ‏
تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور ( سورہ بنی اسرائیل میں ) اللہ نے فرمایا اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے اور ( اسی وجہ سے ) آدمی اگر ثواب کی نیت سے خدا کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور جب مکہ فتح ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔

حدیث نمبر : 54
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن علقمة بن وقاص، عن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الأعمال بالنية، ولكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، أو امرأة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ بن وقاص سے، انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل نیت ہی سے صحیح ہوتے ہیں ( یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلا ملتا ہے ) اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی اور جو کوئی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لیے ہو گی۔

حدیث نمبر : 55
حدثنا حجاج بن منهال، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني عدي بن ثابت، قال سمعت عبد الله بن يزيد، عن أبي مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا أنفق الرجل على أهله يحتسبها فهو له صدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھ کو عدی بن ثابت نے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن یزید سے سنا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

حدیث نمبر : 56
حدثنا الحكم بن نافع، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني عامر بن سعد، عن سعد بن أبي وقاص، أنه أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت عليها، حتى ما تجعل في في امرأتك‏"‏‏. ‏
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عامر بن سعدنے سعد بن ابی وقاص سے بیان کیا، انھوں نے ان کو خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔

تشریح : ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔ امام نووی کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیرخواہی کا نام ہے

وقوله تعالى ‏{‏إذا نصحوا لله ورسوله‏}‏‏.‏
اور اللہ نے ( سورہ توبہ میں) فرمایا جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں

حدیث نمبر : 57

حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال حدثني قيس بن أبي حازم، عن جرير بن عبد الله، قال بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم‏.‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے بیان کیا، انھوں نے اسماعیل سے، انھوں نے کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

حدیث نمبر : 58
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا أبو عوانة، عن زياد بن علاقة، قال سمعت جرير بن عبد الله، يقول يوم مات المغيرة بن شعبة قام فحمد الله وأثنى عليه وقال عليكم باتقاء الله وحده لا شريك له، والوقار والسكينة حتى يأتيكم أمير، فإنما يأتيكم الآن، ثم قال استعفوا لأميركم، فإنه كان يحب العفو‏.‏ ثم قال أما بعد، فإني أتيت النبي صلى الله عليه وسلم قلت أبايعك على الإسلام‏.‏ فشرط على والنصح لكل مسلم‏.‏ فبايعته على هذا، ورب هذا المسجد إني لناصح لكم‏.‏ ثم استغفر ونزل‏.‏
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انھوں نے زیاد سے، انھوں نے علاقہ سے، کہا میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ ( حاکم کوفہ ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ ( مغیرہ ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی ( پس ) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔

تشریح : اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ ورسول کے خلاف کسی پیرومرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔

ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے
یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے


حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انھوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شروفساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیادکوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ غفراللہ لہ آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ “ امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔ ” ( ایضاح البخاری، ص: 428 )
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والنصیحۃ من نصحۃ العسل اذا صفیتہ اومن النصح وہو الخیاطۃ بالنصیحۃ یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کرلیاگیا ہو یانصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑجوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ ( الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخرذی الحجہ1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب العلم


حضرت امام بخاری قدس سرہ کتاب الایمان کے بعد کتاب العلم کو اس لیے لائے کہ ایمان اور علم میں ایک زبردست رابطہ ہے اور ایمان کے بعددوسری اہم چیز ہے۔ جس کا خزانہ قرآن وحدیث ہے۔ قرآن وحدیث کے خلاف جو کچھ ہواسے علم نہیں بلکہ جہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔ عام بول چال میں علم کے معنی جاننے کے ہیں اور جہل ناجاننا اس کی ضد ہے۔ پس تکمیل دین کے لیے ایمان اور اسلام کی تفصیلات کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا انمایخشی اللہ من عبادہ العلماء ( فاطر: 28 ) اللہ کے جاننے والے بندے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اس لیے ان کے علم کے دماغوں سے جہل کے پر دوں کو دور کردیا ہے۔ پس وہ دیکھنے والوں کی مثال ہیں اور جاہل اندھوں کی مثال ہیں۔ سچ ہے لایستوی الاعمی والبصیر۔

باب : علم کی فضیلت کے بیان میں اور اللہ پاک نے (سورہ مجادلہ) میں فرمایا
وقول الله تعالى ‏{‏يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات والله بما تعملون خبير‏}‏‏.‏ وقوله عز وجل ‏{‏رب زدني علما‏}‏‏.‏
جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ طہ میں ) فرمایا ( کہ یوں دعا کیا کرو ) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔

حضرت امام قدس سرہ نے فضیلت علم کے بارے میں قرآن مجید کی ان دوآیات ہی کو کافی سمجھا، اس لیے کہ پہلی آیت میں اللہ پاک نے خوداہل علم کے لیے بلنددرجات کی بشارت دی ہے اور دوسری میں علمی ترقی کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی گئی۔ نیز پہلی آیت میں ایمان وعلم کا رابطہ مذکور ہے اور ایمان کو علم پر مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں حضرت امام قدس سرہ کے حسن ترتیب بیان پر بھی ایک لطیف اشارہ ہے کیونکہ آپ نے بھی پہلے کتاب الایمان پھر کتاب العلم کا انعقاد فرمایا ہے۔ آیت میں ایمان اور علم ہردو کو ترقی درجات کے لیے ضروری قراردیا۔ درجات جمع سالم اور نکرہ ہونے کی وجہ سے غیرمعین ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان درجات کی کوئی حد نہیں جواہل علم کو حاصل ہوں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے

وهو مشتغل في حديثه فأتم الحديث ثم أجاب السائل
اور وہ اپنی کسی دوسری بات میں مشغول ہو پس ( ادب کا تقاضا ہے کہ ) وہ پہلے اپنی بات پوری کر لے پھر پوچھنے والے کو جواب دے۔

حدیث نمبر : 59
حدثنا محمد بن سنان، قال حدثنا فليح، ح وحدثني إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا محمد بن فليح، قال حدثني أبي قال، حدثني هلال بن علي، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة، قال بينما النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس يحدث القوم جاءه أعرابي فقال متى الساعة فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث، فقال بعض القوم سمع ما قال، فكره ما قال، وقال بعضهم بل لم يسمع، حتى إذا قضى حديثه قال ‏"‏ أين ـ أراه ـ السائل عن الساعة‏"‏‏. ‏ قال ها أنا يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ فإذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة‏"‏‏. ‏ قال كيف إضاعتها قال ‏"‏ إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ ( فلیح ) نے بیان کیا، کہا ہلال بن علی نے، انھوں نے عطاء بن یسار سے نقل کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ ( جو مجلس میں تھے ) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس ( دیہاتی ) نے کہا ( حضور ) میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت ( ایمانداری دنیا سے ) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ( حکومت کے کاروبار ) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری باتوں میں مشغول تھے، اس لیے اس کا جواب بعد میں دیا۔ یہیں سے حضرت امام کا مقصود باب ثابت ہوا اور ظاہر ہوا کہ علمی آداب میں یہ ضروری ادب ہے کہ شاگرد موقع محل دیکھ کر استاد سے بات کریں۔ کوئی اور شخص بات کررہا ہو توجب تک وہ فارغ نہ ہو درمیان میں دخل اندازی نہ کریں۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وانما لم یجبہ علیہ الصلوہٰ والسلام لانہ یحتمل ان یکون لانتظار الوحی اویکون مشغولا بجواب سائل اخر و یوخذ منہ انہ ینبغی للعالم والقاضی ونحوہما رعایۃ تقدم الاسبق۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید وحی کے انتظار میں اس کو جواب نہ دیا یا آپ دوسرے سائل کے جواب میں مصروف تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عالم اور قاضی صاحبان کو پہلے آنے والوں کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
 
Top