باب : ایمان کی کمی اور زیادتی کے بیان میں
وقول الله تعالى {وزدناهم هدى} {ويزداد الذين آمنوا إيمانا} وقال {اليوم أكملت لكم دينكم} فإذا ترك شيئا من الكمال فهو ناقص.
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی ( تفسیر ) کا بیان
“اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادتی دی” اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ
“اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے” پھر یہ بھی فرمایا
“ آج کے دن میں تمہارا دین مکمل کر دیا” کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔
پس ان آیات سے ترجمہ باب کا اثبات ہوا۔
حدیث نمبر : 44
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " يخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن شعيرة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن برة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن ذرة من خير". قال أبو عبد الله قال أبان حدثنا قتادة حدثنا أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم " من إيمان". مكان " من خير".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے قتادہ نے حضرت انس کے واسطے سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی ( ایمان ) ہے تو وہ ( ایک نہ ایک دن ) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص ( بھی ) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ ( بھی ) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی جگہ ایمان کا لفظ نقل کیا ہے۔
پہلی روایت میں لفظ خیر سے بھی ایمان ہی مراد ہے۔
حدیث نمبر : 45
حدثنا الحسن بن الصباح، سمع جعفر بن عون، حدثنا أبو العميس، أخبرنا قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عمر بن الخطاب، أن رجلا، من اليهود قال له يا أمير المؤمنين، آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا. قال أى آية قال {اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا}. قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم جمعة.
ہم سے اس حدیث کو حسن بن صباح نے بیان کیا، انھوں نے جعفر بن عون سے سنا، وہ ابوالعمیس سے بیان کرتے ہیں، انھیں قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب کے واسطے سے خبر دی۔ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمومنین! تمھاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا ( سورہ مائدہ کی یہ آیت کہ ) “ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا” حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔
تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدرخوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہوولعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہرعید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔ آیت کریمہ
الیوم اکملکت لکم دینکم ( المائدہ: 3 ) میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہوچکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چارصدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی ک ہے گا۔ مگرصدافسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس اقدرپختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ
الیوم اکملت لکم دینکم ( المائدہ: 3 ) میں بتایا گیا ہے۔
تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے
دین حق را چار مذہب ساختد
رخنہ در دین نبی اند اختد
یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چارمذہب بناڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔