• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شب قدر کی بیداری ( اور عبادت گزاری ) بھی ایمان ( ہی میں داخل ) ہے

حدیث نمبر : 35
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من يقم ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے خبر دی، کہا ان سے ابوالزناد نے اعرج کے واسطے سے بیان کیا، اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص شب قدر ایمان کے ساتھ محض ثواب آخرت کے لیے ذکر و عبادت میں گزارے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جہاد بھی جزو ایمان ہے

حدیث نمبر : 36
حدثنا حرمي بن حفص، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا عمارة، قال حدثنا أبو زرعة بن عمرو بن جرير، قال سمعت أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ انتدب الله لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا إيمان بي وتصديق برسلي أن أرجعه بما نال من أجر أو غنيمة، أو أدخله الجنة، ولولا أن أشق على أمتي ما قعدت خلف سرية، ولوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا، ثم أقتل ثم أحيا، ثم أقتل‏"‏‏. ‏
ہم سے حرمی بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر نے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوہریرہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لیے ) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا۔ ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) اس کو میری ذات پر یقین اور میرے پیغمبروں کی تصدیق نے ( اس سرفروشی کے لیے گھر سے ) نکالا ہے۔ ( میں اس بات کا ضامن ہوں ) کہ یا تو اس کو واپس کر دوں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ، یا ( شہید ہونے کے بعد ) جنت میں داخل کر دوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اور اگر میں اپنی امت پر ( اس کام کو ) دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔

تشریح :
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جوخالصاً اللہ کی رضاکے لیے ہو۔ بتلایاگیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی وبیشی پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔ پس مرجیہ وکرامیہ جوعقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کودیا جاتا ہے، قدر کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہرسال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ قیام رمضان اور قیام لیلۃ القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے “ جہاد ” کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جزواعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو ( یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو ) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہوجائے تو نور علی نو رہے۔

حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دوذمہ داریاں لی ہیں۔ اگراسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب وکتاب سب سے مستثنیٰ ہوگیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگروہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آگیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلیا ہے جو بہترین سودا ہے۔
حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کارحالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رمضان شریف کی راتوں میں نفلی قیام کرنا بھی ایمان ہی میں سے ہے

حدیث نمبر : 37
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے نقل کیا، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی رمضان میں ( راتوں کو ) ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

تشریح : ترجمہ باب کا مقصد قیام رمضان کو بھی ایمان کا ایک جزوثابت کرنا اور مرجیہ کی تردید کرنا ہے جواعمال صالحہ کو ایمان سے جداقرار دیتے ہیں۔ قیام رمضان سے تراویح کی نماز مراد ہے۔ جس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں تراویح کی آٹھ رکعات کوباجماعت ادا کرنے کا طریقہ رائج فرمایا تھا۔ ( مؤطا امام مالک )

آج کل جو لوگ آٹھ رکعت تراویح کوناجائز اور بدعت قراردے رہے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ خدا ان کو نیک سمجھ بخشے۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : خالص نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنا ایمان کا جزو ہیں

حدیث نمبر : 38
حدثنا ابن سلام، قال أخبرنا محمد بن فضيل، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏.
ہم نے ابن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن فضیل نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ سے روایت کی، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ دین آسان ہے

وقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أحب الدين إلى الله الحنيفية السمحة‏"‏‏. ‏
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ ( اور یقینا وہ دین اسلام ہے سچ ہے ان الدین عنداللہ الاسلام )

حدیث نمبر : 39
حدثنا عبد السلام بن مطهر، قال حدثنا عمر بن علي، عن معن بن محمد الغفاري، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن الدين يسر، ولن يشاد الدين أحد إلا غلبه، فسددوا وقاربوا وأبشروا، واستعينوا بالغدوة والروحة وشىء من الدلجة‏"‏‏.
ہم سے عبدالسلام بن مطہر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو عمر بن علی نے معن بن محمد غفاری سے خبر دی، وہ سعید بن ابوسعید مقبری سے، وہ ابوہریرہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا ( اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ) پس ( اس لیے ) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ ( کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے ) اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں ( عبادت سے ) مدد حاصل کرو۔ ( نماز پنج وقتہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ پابندی سے ادا کرو۔ )

تشریح : سورۃ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ہے ماجعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ( الحج: 78 ) یعنی اللہ نے دنیا میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) کی ملت ہے۔ آیات اور احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام ہر طرح سے آسان ہے۔ اس کے اصولی اور فروعی احکام اور جس قدر اوامر و نواہی ہیں سب میں اسی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے مگرصد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خودساختہ ایجادات سے اسلام کو اس قدر مشکل بنالیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز ایمان کا جزو ہے

وقول الله تعالى ‏{‏وما كان الله ليضيع إيمانكم‏}‏ يعني صلاتكم عند البيت‏.‏
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یعنی تمہاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں، قبول ہیں

حدیث نمبر : 40
حدثنا عمرو بن خالد، قال حدثنا زهير، قال حدثنا أبو إسحاق، عن البراء، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أول ما قدم المدينة نزل على أجداده ـ أو قال أخواله ـ من الأنصار، وأنه صلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا، أو سبعة عشر شهرا، وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت، وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر، وصلى معه قوم، فخرج رجل ممن صلى معه، فمر على أهل مسجد، وهم راكعون فقال أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل مكة، فداروا كما هم قبل البيت، وكانت اليهود قد أعجبهم إذ كان يصلي قبل بيت المقدس، وأهل الكتاب، فلما ولى وجهه قبل البيت أنكروا ذلك‏.‏ قال زهير حدثنا أبو إسحاق عن البراء في حديثه هذا أنه مات على القبلة قبل أن تحول رجال وقتلوا، فلم ندر ما نقول فيهم، فأنزل الله تعالى ‏{‏وما كان الله ليضيع إيمانكم‏}‏
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان کو حضرت براء بن عازب نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنی نانہال میں اترے، جو انصار تھے۔ اور وہاں آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو ( جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا ) تو سب سے پہلی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد ( بنی حارثہ ) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انھیں یہ امر ناگوار ہوا۔ زہیر ( ایک راوی ) کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحاق نے براء سے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ قبلہ کی تبدیلی سے پہلے کچھ مسلمان انتقال کر چکے تھے۔ تو ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا کہیں۔ تب اللہ نے یہ آیت نازل کی وما کان اللہ لیضیع ایمانکم ( البقرہ : 143 )

مبارک خواب: ایمان میں اعمال صالحہ بھی داخل ہیں، یہ بحث پیچھے بھی مفصل آچکی ہے مگروہاں یہ آیت نہ تھی الحمدللہ ایک رات تہجد کے وقت خواب میں مجھ کو باربار تاکید کے ساتھ یہ آیت پڑھ کر کہا گیا کہ اس کو یہاں بھی لکھو چنانچہ حدیث39 میں یہ آیت میں نے اسی خواب کی بنا پر نقل کی ہے وکفی بہ شہیداً۔ ( راز
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آدمی کے اسلام کی خوبی ( کے درجات کیا ہیں )

حدیث نمبر : 41
قال مالك أخبرني زيد بن أسلم، أن عطاء بن يسار، أخبره أن أبا سعيد الخدري أخبره أنه، سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إذا أسلم العبد فحسن إسلامه يكفر الله عنه كل سيئة كان زلفها، وكان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عنها‏"‏‏.
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انھیں عطاء بن یسار نے، ان کو ابوسعید خدری نے بتایا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب ( ایک ) بندہ مسلمان ہو جائے اور اس کا اسلام عمدہ ہو ( یقین و خلوص کے ساتھ ہو ) تو اللہ اس کے اس گناہ کو جو اس نے اس ( اسلام لانے ) سے پہلے کیا معاف فرما دیتا ہے اور اب اس کے بعد کے لیے بدلا شروع ہو جاتا ہے ( یعنی ) ایک نیکی کے عوض دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ( ثواب ) اور ایک برائی کا اسی برائی کے مطابق ( بدلا دیا جاتا ہے ) مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس برائی سے بھی درگزر کرے۔ ( اور اسے بھی معاف فرما دے۔ یہ بھی اس کے لیے آسان ہے۔ )

حدیث نمبر : 42
حدثنا إسحاق بن منصور، قال حدثنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن همام، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أحسن أحدكم إسلامه، فكل حسنة يعملها تكتب له بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے، انھیں معمر نے ہمام سے خبر دی، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے ( یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے ) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے ( جتنا کہ اس نے کیا ہے )

تشریح : حضرت امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر یہاں بھی اسلام وایمان کے ایک ہونے اور ان میں کمی وبیشی کے صحیح ہونے کے عقیدہ کا اثبات فرمایا ہے اور بطور دلیل ان احادیث پاک کو نقل فرمایا ہے جن سے صاف ظاہر ہے کہ ایک نیکی کا ثواب جب سات سوگنا تک لکھا جاتا ہے تویقینا اس سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور کتاب وسنت کی رو سے یہی عقیدہ درست ہے جو لوگ ایمان کی کمی وبیشی کے قائل نہیں ہیں اگروہ بنظرغائر عمیق کتاب وسنت کا مطالعہ کریں گے توضرور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔ اسلام کے بہتر ہونے کا مطلب یہ کہ اوامر ونواہی کو ہر وقت سامنے رکھاجائے۔ حلال حرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے، خدا کا خوف، آخرت کا طلب، دوزخ سے پناہ ہر وقت مانگی جائے اور اپنے اعتقاد وعمل واخلاق سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیاجائے اس حالت میں یقینا جو بھی نیکی ہوگی اس کا ثواب سات سوگنے تک زیادہ کیا جائے گا۔

اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ سعادتِ عظمیٰ نصیب فرمائے۔آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ کو دین ( کا ) وہ ( عمل ) سب سے زیادہ پسندیدہ ہے جس کو پابند ی سے کیا جائے۔

حدیث نمبر : 43
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها امرأة قال ‏"‏ من هذه‏"‏‏. ‏ قالت فلانة‏.‏ تذكر من صلاتها‏.‏ قال ‏"‏ مه، عليكم بما تطيقون، فوالله لا يمل الله حتى تملوا‏"‏‏. ‏ وكان أحب الدين إليه ما دام عليه صاحبه‏.‏
ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں مجھے میرے باپ ( عروہ ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ان کے پاس آئے، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا، فلاں عورت اور اس کی نماز ( کے اشتیاق اور پابندی ) کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ ( سن لو کہ ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ خدا کی قسم ( ثواب دینے سے ) اللہ نہیں اکتاتا، مگر تم ( عمل کرتے کرتے ) اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین ( کا ) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ ( اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایمان کی کمی اور زیادتی کے بیان میں
وقول الله تعالى ‏{‏وزدناهم هدى‏}‏ ‏{‏ويزداد الذين آمنوا إيمانا‏}‏ وقال ‏{‏اليوم أكملت لكم دينكم‏}‏ فإذا ترك شيئا من الكمال فهو ناقص‏.
اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی ( تفسیر ) کا بیان “اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادتی دی” اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ “اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے” پھر یہ بھی فرمایا “ آج کے دن میں تمہارا دین مکمل کر دیا” کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔
پس ان آیات سے ترجمہ باب کا اثبات ہوا۔

حدیث نمبر : 44
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن شعيرة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن برة من خير، ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله، وفي قلبه وزن ذرة من خير‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله قال أبان حدثنا قتادة حدثنا أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من إيمان‏"‏‏. ‏ مكان ‏"‏ من خير‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے قتادہ نے حضرت انس کے واسطے سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی ( ایمان ) ہے تو وہ ( ایک نہ ایک دن ) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص ( بھی ) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ ( بھی ) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی جگہ ایمان کا لفظ نقل کیا ہے۔

پہلی روایت میں لفظ خیر سے بھی ایمان ہی مراد ہے۔

حدیث نمبر : 45
حدثنا الحسن بن الصباح، سمع جعفر بن عون، حدثنا أبو العميس، أخبرنا قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عمر بن الخطاب، أن رجلا، من اليهود قال له يا أمير المؤمنين، آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا‏.‏ قال أى آية قال ‏{‏اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا‏}‏‏.‏ قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم جمعة‏.‏
ہم سے اس حدیث کو حسن بن صباح نے بیان کیا، انھوں نے جعفر بن عون سے سنا، وہ ابوالعمیس سے بیان کرتے ہیں، انھیں قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب کے واسطے سے خبر دی۔ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمومنین! تمھاری کتاب ( قرآن ) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس ( کے نزول کے ) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا ( سورہ مائدہ کی یہ آیت کہ ) “ آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا” حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو ( خوب ) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ( اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔

تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدرخوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہوولعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہرعید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔ آیت کریمہ الیوم اکملکت لکم دینکم ( المائدہ: 3 ) میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہوچکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چارصدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی ک ہے گا۔ مگرصدافسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس اقدرپختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ الیوم اکملت لکم دینکم ( المائدہ: 3 ) میں بتایا گیا ہے۔
تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے
دین حق را چار مذہب ساختد
رخنہ در دین نبی اند اختد


یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چارمذہب بناڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : زکوٰۃ دینا اسلام میں داخل ہے
وقوله ‏{‏وما أمروا إلا ليعبدوا الله مخلصين له الدين حنفاء ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة وذلك دين القيمة‏}‏
اور اللہ پاک نے فرمایا “حالانکہ ان کافروں کو یہی حکم دیا گیا کہ خالص اللہ ہی کی بندگی کی نیت سے ایک طرف ہو کر اسی اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی پختہ دین ہے”

حدیث نمبر : 46
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك بن أنس، عن عمه أبي سهيل بن مالك، عن أبيه، أنه سمع طلحة بن عبيد الله، يقول جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته، ولا يفقه ما يقول حتى دنا، فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خمس صلوات في اليوم والليلة‏"‏‏. ‏ فقال هل على غيرها قال ‏"‏ لا، إلا أن تطوع‏"‏‏. ‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وصيام رمضان‏"‏‏. ‏ قال هل على غيره قال ‏"‏ لا، إلا أن تطوع‏"‏‏. ‏ قال وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة‏.‏ قال هل على غيرها قال ‏"‏ لا، إلا أن تطوع‏"‏‏. ‏ قال فأدبر الرجل وهو يقول والله لا أزيد على هذا ولا أنقص‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أفلح إن صدق‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، انھوں نے اپنے چچا ابوسہیل بن مالک سے، انھوں نے اپنے باپ ( مالک بن ابی عامر ) سے، انھوں نے طلحہ بن عبیداللہ سے وہ کہتے تھے نجد والوں میں ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، جب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں مگر تو نفل پڑھے ( تو اور بات ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل روزے رکھے ( تو اور بات ہے ) طلحہ نے کہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے ( تو اور بات ہے ) راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا۔ یوں کہتا جاتا تھا، قسم خدا کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔
 
Top