• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز عشاء میں قرات کا بیان

حدیث نمبر : 769
حدثنا خلاد بن يحيى، قال حدثنا مسعر، قال حدثنا عدي بن ثابت، سمع البراء، رضى الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ ‏{‏والتين والزيتون‏}‏ في العشاء، وما سمعت أحدا أحسن صوتا منه أو قراءة‏.‏
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عدی بن ثابت نے کہا۔ انھوں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء میں والتین والزیتون پڑھتے سنا۔ میں نے آپ سے زیادہ اچھی آواز یا اچھی قرات والا کسی کو نہیں پایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : عشاء کی پہلی دو رکعات لمبی اور آخری دو رکعات مختصر کرنی چاہئیں

حدیث نمبر : 770
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن أبي عون، قال سمعت جابر بن سمرة، قال قال عمر لسعد لقد شكوك في كل شىء حتى الصلاة‏.‏ قال أما أنا فأمد في الأوليين، وأحذف في الأخريين، ولا آلو ما اقتديت به من صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال صدقت، ذاك الظن بك، أو ظني بك‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابوعون محمد بن عبداللہ ثقفی سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن سمرہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی شکایت کوفہ والوں نے تمام ہی باتوں میں کی ہے، یہاں تک کہ نماز میں بھی۔ انھوں نے کہا کہ میرا عمل تو یہ ہے کہ پہلی دو رکعات میں قرات لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو میں مختصر جس طرح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تھی اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچ کہتے ہو۔ تم سے امید بھی اسی کی ہے۔

تشریح : پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایامگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو وہاں سے بلالیا۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔ بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز فجر میں قرآن شریف پڑھنا اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ طور پڑھی

حدیث نمبر : 771
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا سيار بن سلامة، قال دخلت أنا وأبي، على أبي برزة الأسلمي فسألناه عن وقت الصلوات، فقال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر حين تزول الشمس، والعصر ويرجع الرجل إلى أقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، ولا يبالي بتأخير العشاء إلى ثلث الليل ولا يحب النوم قبلها، ولا الحديث بعدها، ويصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف جليسه، وكان يقرأ في الركعتين أو إحداهما ما بين الستين إلى المائة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیار ابن سلامہ نے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ ہم نے آپ سے نماز کے وقتوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔ عصر جب پڑھتے تو مدینہ کے انتہائی کنارہ تک ایک شخص چلا جاتا۔ لیکن سورج اب بھی باقی رہتا۔ مغرب کے متعلق جو کچھ آپ نے کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا اور عشاء کے لیے تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو ہر شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے کو پہچان سکتا تھا۔ آپ دونوں رکعات میں یا ایک میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ یہ شعبہ نے شک کیاہے۔ طبرانی میں اس کا اندازہ سورۃ الحاقہ مذکور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں الم تنزیل اوردوسری رکعت میں سورۃ الدہر پڑھا کرتے تھے۔ جابر بن سمرہ کی روایت میں آپ کا فجر کی نماز میں سورۃ ق پڑھنا بھی آیاہے۔ بعض روایات میں والصافات اور سورۃ واقعۃ پڑھنا بھی مذکور ہے۔ بہرحال فجر کی نماز میں قرات قرآن طویل کرنا مقصود ہے۔ یہ وہ مبارک نماز ہے جس میں قرات قرآن سننے کے لیے خود فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر : 772
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عطاء، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول في كل صلاة يقرأ، فما أسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أسمعناكم، وما أخفى عنا أخفينا عنكم، وإن لم تزد على أم القرآن أجزأت، وإن زدت فهو خير‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن سنایا تھا ہم بھی تمہیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ نے آہستہ قرات کی ہم بھی ان میں آہستہ ہی قرات کریں گے اور اگر سورہ فاتحہ ہی پڑھو جب بھی کافی ہے، لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنا

وقالت أم سلمة طفت وراء الناس والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي ويقرأ بالطور‏.‏
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز میں ) سورہ طور پڑھ رہے تھے۔

حدیث نمبر : 773
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال انطلق النبي صلى الله عليه وسلم في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وأرسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين إلى قومهم‏.‏ فقالوا ما لكم فقالوا حيل بيننا وبين خبر السماء، وأرسلت علينا الشهب‏.‏ قالوا ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا شىء حدث، فاضربوا مشارق الأرض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء فانصرف أولئك الذين توجهوا نحو تهامة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة، عامدين إلى سوق عكاظ وهو يصلي بأصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا له فقالوا هذا والله الذي حال بينكم وبين خبر السماء‏.‏ فهنالك حين رجعوا إلى قومهم وقالوا يا قومنا ‏{‏إنا سمعنا قرآنا عجبا * يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا أحدا‏}‏ فأنزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم ‏{‏قل أوحي إلى‏}‏ وإنما أوحي إليه قول الجن‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے ( شہاب ثاقب ) پھینکے جانے لگے تھے۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور ( جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو ) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے۔ پھر کہا۔ خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ( قل اوحی الی ) ( آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے ) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔

تشریح : عکاظ ایک منڈی کا نام تھا، جو مکہ شریف کے قریب قدیم زمانہ سے چلی آرہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سمیت ایسے عام اجتماعات میں تشریف لے جاتے اور تبلیغ اسلام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ اس جگہ جارہے تھے کہ بطن نخلہ وادی میں فجر کا وقت ہوگیا اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز پڑھائی۔ جس میں جنوں کی ایک جماعت نے قرآن پاک سنا اور مسلمان ہو گئے۔ سورۃ جن میں ان ہی کا ذکر ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں بآواز بلند قرات فرمائی۔ مغرب اور عشاء اور فجر ان وقتوں کی نمازیں جہری کہلاتی ہیں کہ ان کے شروع والی رکعتوں میں بلند آواز سے قرآت کی جاتی ہے۔

حدیث نمبر : 774
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال قرأ النبي صلى الله عليه وسلم فيما أمر، وسكت فيما أمر ‏{‏وما كان ربك نسيا‏}‏ ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن نمازوں میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کا حکم ہوا تھا۔ آپ نے ان میں بلند آواز سے پڑھا اور جن میں آہستہ سے پڑھنے کا حکم ہوا تھا ان میں آپ نے آہستہ سے پڑھا اور تیرا رب بھولنے والا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : ایک رکعت میں دو سورتیں ایک ساتھ پڑھنا

والقراءة بالخواتيم، وبسورة قبل سورة، وبأول سورة‏.‏ ويذكر عن عبد الله بن السائب قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح حتى إذا جاء ذكر موسى وهارون أو ذكر عيسى، أخذته سعلة فركع‏.‏ وقرأ عمر في الركعة الأولى بمائة وعشرين آية من البقرة، وفي الثانية بسورة من المثاني‏.‏ وقرأ الأحنف بالكهف في الأولى، وفي الثانية بيوسف أو يونس، وذكر أنه صلى مع عمر ـ رضى الله عنه ـ الصبح بهما‏.‏ وقرأ ابن مسعود بأربعين آية من الأنفال، وفي الثانية بسورة من المفصل‏.‏ وقال قتادة فيمن يقرأ سورة واحدة في ركعتين أو يردد سورة واحدة في ركعتين كل كتاب الله‏.‏
اور سورت کے آخری حصوں کا پڑھنا اور ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا یا کسی سورت کو ( جیسا کہ قرآن شریف کی ترتیب ہے ) اس سے پہلے کی سورت سے پہلے پڑھنا اور کسی سورت کے اول حصہ کا پڑھنا یہ سب درست ہے۔ اور عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں سورہ مومنون تلاوت فرمائی، جب آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی، اس لیے رکوع فرما دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی ایک سو بیس آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں مثانی ( جس میں تقریباً سو آیتیں ہوتی ہیں ) میں سے کوئی سورت تلاوت کی اور حضرت احنف رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا سورہ یونس پڑھی اور کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھی تھیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ انفال کی چالیس آتیں ( پہلی رکعت میں ) پڑھیں اور دوسری رکعت میں مفصل کی کوئی سورہ پڑھی اور قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کے متعلق جو ایک سورہ دو رکعات میں تقسیم کر کے پڑھے یا ایک سورہ دو رکعتوں میں بار بار پڑھے فرمایا کہ ساری ہی کتاب اللہ میں سے ہیں۔ ( لہٰذا کوئی حرج نہیں )

وقال عبيد الله عن ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ كان رجل من الأنصار يؤمهم في مسجد قباء، وكان كلما افتتح سورة يقرأ بها لهم في الصلاة مما يقرأ به افتتح ب ـ ‏{‏قل هو الله أحد‏}‏ حتى يفرغ منها، ثم يقرأ سورة أخرى معها، وكان يصنع ذلك في كل ركعة، فكلمه أصحابه فقالوا إنك تفتتح بهذه السورة، ثم لا ترى أنها تجزئك حتى تقرأ بأخرى، فإما أن تقرأ بها وإما أن تدعها وتقرأ بأخرى‏.‏ فقال ما أنا بتاركها، إن أحببتم أن أؤمكم بذلك فعلت، وإن كرهتم تركتكم‏.‏ وكانوا يرون أنه من أفضلهم، وكرهوا أن يؤمهم غيره، فلما أتاهم النبي صلى الله عليه وسلم أخبروه الخبر فقال ‏"‏ يا فلان ما يمنعك أن تفعل ما يأمرك به أصحابك وما يحملك على لزوم هذه السورة في كل ركعة‏"‏‏. ‏ فقال إني أحبها‏.‏ فقال ‏"‏ حبك إياها أدخلك الجنة‏"‏‏. ‏
عبیداللہ بن عمر نے ثابت رضی اللہ عنہ سے انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انصار میں سے ایک شخص ( کلثوم بن ہدم ) قبا کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی کوئی سورہ ( سورہ فاتحہ کے بعد ) شروع کرتا تو پہلے وہ قل ہو اللہ احد پڑھ لیتا۔ پھر کوئی دوسری سورہ پڑھتا۔ ہر رکعت میں اس کا یہی عمل تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تم پہلے یہ سورہ پڑھتے ہو اور صرف اسی کو کافی خیال نہیں کرتے بلکہ دوسری سورہ بھی ( اس کے ساتھ ) ضرور پڑھتے ہو۔ یا تو تمہیں صرف اسی کو پڑھنا چاہئے ورنہ اسے چھوڑ دینا چاہئے اور بجائے اس کے کوئی دوسری سورہ پڑھنی چاہئے۔ اس شخص نے کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا اب اگر تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں تو برابر پڑھتا رہوں گا ورنہ میں نماز پڑھانا چھوڑ دوں گا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص نماز پڑھائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ کو واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پوچھا کہ اے فلاں! تمہارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورہ کو ضروری قرار دے لینے کا سبب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حضور! میں اس سورہ سے محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سورہ کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔

آپ نے ان کے اس فعل پر نہ صرف سکوت فرمایا بلکہ تحسین فرمائی۔ ایسی احادیث کو تقریری کہا گیا ہے۔

حدیث نمبر : 775
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال سمعت أبا وائل، قال جاء رجل إلى ابن مسعود فقال قرأت المفصل الليلة في ركعة‏.‏ فقال هذا كهذ الشعر لقد عرفت النظائر التي كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن فذكر عشرين سورة من المفصل سورتين في كل ركعة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن مسلم سے سنا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورہ پڑھی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اسی طرح ( جلدی جلدی ) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا۔ ہر رکعت کے لیے دو دو سورتیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : پچھلی دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا

حدیث نمبر : 776
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا همام، عن يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في الظهر في الأوليين بأم الكتاب وسورتين، وفي الركعتين الأخريين بأم الكتاب، ويسمعنا الآية، ويطول في الركعة الأولى ما لا يطول في الركعة الثانية، وهكذا في العصر وهكذا في الصبح‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے۔ کبھی کبھی ہمیں ایک آیت سنا بھی دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قرات دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔ عصر اور صبح کی نماز میں بھی آپ کا یہی معمول تھا ( حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : جس نے ظہر اور عصر میں آہستہ سے قرات کی

حدیث نمبر : 777
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا جرير، عن الأعمش، عن عمارة بن عمير، عن أبي معمر، قلت لخباب أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الظهر والعصر قال نعم‏.‏ قلنا من أين علمت قال باضطراب لحيته‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے اعمش سے بیان کیا، وہ عمارہ بن عمیر سے، وہ ابومعمر عبداللہ بن مخبرہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآن مجید پڑھتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم نے پوچھا کہ آپ کو معلوم کس طرح ہوتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ آپ کی ریش مبارک کے ہلنے سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اگر امام سری نماز میں کوئی آیت پکار کر پڑھ دے کہ مقتدی سن لیں، تو کوئی قباحت نہیں

حدیث نمبر : 778
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الأوزاعي، حدثني يحيى بن أبي كثير، حدثني عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ بأم الكتاب وسورة معها في الركعتين الأوليين من صلاة الظهر وصلاة العصر، ويسمعنا الآية أحيانا، وكان يطيل في الركعة الأولى‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمن اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا، وہ اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی اور سورہ پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی آپ کوئی آیت ہمیں سنا بھی دیا کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات زیادہ طویل کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : پہلی رکعت ( میں قرات ) طویل ہونی چاہئے

حدیث نمبر : 779
حدثنا أبو نعيم، حدثنا هشام، عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يطول في الركعة الأولى من صلاة الظهر، ويقصر في الثانية، ويفعل ذلك في صلاة الصبح‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں ( قرات ) طویل کرتے تھے اور دوسری رکعت میں مختصر۔ صبح کی نماز میں بھی آپ اسی طرح کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : ( جہری نماز وں میں ) امام کا بلند آواز سے آمین کہنا

وقال عطاء آمين دعاء‏.‏ أمن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد للجة‏.‏ وكان أبو هريرة ينادي الإمام لا تفتني بآمين‏.‏ وقال نافع كان ابن عمر لا يدعه ويحضهم، وسمعت منه في ذلك خيرا‏.‏ ( جہری نمازوں میں ) امام کا بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ آمین ایک دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان لوگوں نے جو آپ کے پیچھے ( نماز پڑھ رہے ) تھے۔ اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ امام سے کہہ دیا کرتے تھا کہ آمین سے ہمیں محروم نہ رکھنا اور نافع نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما آمین کبھی نہیں چھوڑتے اور لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ میں نے آپ سے اس کے متعلق ایک حدیث بھی سنی تھی۔

حدیث نمبر : 780
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وأبي، سلمة بن عبد الرحمن أنهما أخبراه عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا أمن الإمام فأمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ وقال ابن شهاب وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ آمين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ کیوں کہ جس کی آمین ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔
 
Top