• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : رات کی نماز

حدیث نمبر : 730
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا ابن أبي فديك، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان له حصير يبسطه بالنهار، ويحتجره بالليل، فثاب إليه ناس، فصلوا وراءه‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، مقبری کے واسطہ سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی۔ جسے آپ دن میں بچھاتے تھے اور رات میں اس کا پردہ کر لیتے تھے۔ پھر چند لوگ آپ کے پاس کھڑے ہوئے یا آپ کی طرف جھکے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھنے لگے۔

حدیث نمبر : 731
حدثنا عبد الأعلى بن حماد، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم أبي النضر، عن بسر بن سعيد، عن زيد بن ثابت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة ـ قال حسبت أنه قال ـ من حصير في رمضان فصلى فيها ليالي، فصلى بصلاته ناس من أصحابه، فلما علم بهم جعل يقعد، فخرج إليهم فقال ‏"‏ قد عرفت الذي رأيت من صنيعكم، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة‏"‏‏. ‏ قال عفان حدثنا وهيب، حدثنا موسى، سمعت أبا النضر، عن بسر، عن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ابوالنضر سالم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتدا کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیوں کہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز ( مسجد میں پڑھنی ضروری ہے ) اور عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوالنضر ابن ابی امیہ سے سنا، وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے، وہ زید بن ثابت سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابوالنضر سے ثابت کریں جس کی اس روایت میں تصریح ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : تکبیر کا واجب ہونا اور نماز کا شروع کرنا

حدیث نمبر : 732
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا، فجحش شقه الأيمن، قال أنس ـ رضى الله عنه ـ فصلى لنا يومئذ صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، ثم قال لما سلم ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا سجد فاسجدوا وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور ( گر جانے کی وجہ سے ) آپ کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو

تشریح : جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جماعت اور امامت کے ذکر سے فارغ ہوئے تو اب صفت نماز کا بیان شروع کیا۔ بعض نسخوں میں باب کے لفظ کے پہلے یہ عبارت ہے: ابواب صفۃ الصلوٰۃ لیکن اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل اور شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک نماز کے شروع میں اللہ اکبر کہنا فر ض ہے اور کوئی لفظ کافی نہیں اور حنفیہ کے نزدیک کوئی لفظ جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے کافی ہے۔ جیسے اللہ اجل یا اللہ اعظم ( وحیدی ) مگر احادیث واردہ کی بنا پر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 733
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أنه قال خر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فرس فجحش فصلى لنا قاعدا فصلينا معه قعودا، ثم انصرف فقال ‏"‏ إنما الإمام ـ أو إنما جعل الإمام ـ ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا لك الحمد‏.‏ وإذا سجد فاسجدوا‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ زخمی ہو گئے، اس لیے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر نماز پڑھ کر آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا و لک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو۔


حدیث نمبر : 734
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال حدثني أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوالزناد نے مجھ سے بیان کیا اعرج کے واسطہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

تشریح : اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لک الحمد کہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ بذیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکعۃ ثم یقول وہو قائم ربنا و لک الحمد فرماتے ہیں: ربنا لک الحمد بحذف الواو و فی روایۃ باثباتہا و قد تقدم ان الروایۃ بثبوت الواو ارجح و ہی عاطفۃ علی مقدر ای ربنا اطعناک و حمدناک و لک الحمدو قیل زائدۃ قال الاصمعی سالت ابا عمرو عنہا فقال زائہدۃ تقول العرب یعنی ہذا فیقول المخاطب نعم و ہو لک بدرہم فالواو زائدۃ و قیل ہی واو الحال قالہ ابن الاثیر و ضعف ما عداہ و فیہ ان التسمیع ذکر النہوض و الرفع و التحمید ذکر الاعتدال و استدل بہ علی انہ یشرع الجمیع بین التسمیع و التحمید لکل مصل من امام و منفرد و موتم اذ ہو حکایۃ لمطلق صلوٰتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ، ج:1 ص: 559 ) ربنا لک الحمد حذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔ یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔ بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔ بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور ربنا ولک الحمد کہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔ اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہی سمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لک الحمد کہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
باب : تکبیر تحریمہ میں نماز شروع کرتے ہی برابر دونو ں ہاتھوں کا ( کندھوں یا کانوں تک ) اٹھانا


حدیث نمبر : 735
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة، وإذا كبر للركوع، وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما كذلك أيضا وقال ‏"‏ سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد‏"‏‏. ‏ وكان لا يفعل ذلك في السجود‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہو ں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا و لک الحمد کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)
باب : رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ( سنت ہے )

حدیث نمبر : 736
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، أخبرني سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر، رضى الله عنهما قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه، وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع، ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ويقول ‏"‏ سمع الله لمن حمده‏"‏‏. ‏ ولا يفعل ذلك في السجود‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انہوں نے بتلایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 737
حدثنا إسحاق الواسطي، قال حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن أبي قلابة، أنه رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، وإذا أراد أن يركع رفع يديه، وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه، وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)
باب : ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہئے

وقال أبو حميد في أصحابه رفع النبي صلى الله عليه وسلم حذو منكبيه‏.‏
اور ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھایا۔
حدیث نمبر : 738
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرنا سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم افتتح التكبير في الصلاة، فرفع يديه حين يكبر حتى يجعلهما حذو منكبيه، وإذا كبر للركوع فعل مثله، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فعل مثله وقال ‏"‏ ربنا ولك الحمد‏"‏‏. ‏ ولا يفعل ذلك حين يسجد ولا حين يرفع رأسه من السجود‏.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور ربنا و لک الحمد کہتے۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)
قعدہ اولٰی سے اٹھنے کے بعد رفع یدین کرنا

حدثنا عياش، قال حدثنا عبد الأعلى، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، أن ابن عمر، كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه، وإذا ركع رفع يديه، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ رفع يديه، وإذا قام من الركعتين رفع يديه‏.‏ ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ رواه حماد بن سلمة عن أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ ورواه ابن طهمان عن أيوب وموسى بن عقبة مختصرا‏.
حدیث نمبر : 739
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ ( کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ )

تشریح : تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر ساری امت کا اجماع ہے۔ مگر بعد کے مقامات پر ہاتھ اٹھانے میں اختلاف ہے۔ ائمہ کرام و علماءاسلام کی اکثریت حتی کہ اہل بیت سب باالاتفاق ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں، مگر حنفیہ کے ہاں مقامات مذکورہ میں رفع الیدین نہیں ہے کچھ علمائے احناف اسے منسوخ قرار دیتے ہیں، کچھ ترک رفع کو اولیٰ جانتے ہیں کچھ دل سے قائل ہیں مگر ظاہر میں عمل نہیں ہے۔
فریقین نے اس بارے میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر دو جانب سے خاص طور پر آج کے دور پرفتن میں بہت سے کاغذ سیاہ کئے گئے ہیں۔ بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ مگر بات ابھی تک جہاں تھی وہیں پر موجود ہے۔ ایک ایسے جزئی مسئلہ پر اس قدر تشدد بہت ہی افسوسناک ہے۔ کتنے عوام ہیں جو کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں لوگ بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے اس لیے رفع یدین کا حکم ہوا تاکہ ان کے بغلوں کے بت گرجایا کریں۔ استغفرا اللہ! یہ ایسا جھوٹ ہے جو شایدا سلام کی تاریخ میں اس کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس سنت نبوی کو مکھی اڑانے سے تشبیہ دے کر توہین سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کاش! علماءاحناف غور کرتے اور امت کے سوادا عظم کو دیکھ کر جواس کے سنت ہونے کے قائل ہیں کم از کم خاموشی اختیار کر لیتے تو یہ فساد یہاں تک نہ بڑھتا۔

حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی تفصیلات کے بعد فیصلہ دیا ہے۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ پیا را ہے۔ اس لیے کہ احادیث رفع بکثرت ہیں اور صحیح ہیں جن کی بنا پر انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ محض بدگمانیوں کے دور کرنے کے لیے کچھ تفصیلات ذیل میں دی جاتی ہیں۔ امید ہے کہ ناظرین کرام تعصب سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کریں گے اور طاقت سے بھی زیادہ سنت رسول کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں باہمی اتفاق کے لیے کوشاں ہوں گے کہ وقت کا یہی فوری تقاضا ہے۔

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں :۔ معناہ تظیم للہ و اتباع لسنۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھانے پر رفع یدین کرنے سے ایک تو اللہ کی تعظیم اور دوسرے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع مراد ہے۔ ( نووی ص168 وغیرہ )
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رفع الیدین من زینۃ الصلوۃ کہ یہ رفع یدین نماز کی زینت ہے۔ ( عینی، جلد3ص: 7 وغیرہ )
اور حضرت نعمان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ لکل شیی زینۃ و زینۃ الصلوٰۃ ان ترفع یدیک اذا کبرت و اذا رکعت و اذا رفعت راسک من الرکوع کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا ہے۔ ( جزءبخاری ص21 )
اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہو من تمام الصلوٰۃ کہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ ( جزءبخاری، ص17 )
اور عبدالملک فرماتے ہیں۔ سالت سعید بن جبیر عن رفع الیدین فی الصلوٰۃ فقال ہو شیی تزین بہ صلوتک ( بیہقی، جلد: 2 ص: 75 ) کہ میں نے سعید بن جبیر سے نماز میں رفع یدین کرنے کی نسبت پوچھا، تو انہوں نے کہا یہ وہ چیز ہے کہ تیری نماز کو مزین کردیتی ہے۔
اورحضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ من رفع یدیہ فی الصلوٰۃ لہ بکل اشارۃ عشر حسنات کہ نماز میں ایک دفعہ رفع یدین کرنے سے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ( فتاوی امام ابن تیمیہ، ص: 376 ) گویا دو رکعت میں پچاس اور چار رکعت میں سو نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

مرویات بخاری کے علاوہ مندرجہ ذیل روایات صحیحہ سے بھی رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔
عن ابی بکر الصدیق قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان برفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ہمیشہ شروع نماز میں اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( بیہقی، جلد: 2 ص: 73 )
امام بیہقق، امام سبکی، امام ابن حجر فرماتے ہیں۔ رجالہ ثقات کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ ( بیہقی، جلد:2 ص : 73، تلخیص، ص: 82، سبکی، ص:6 ) و قال الحاکم انہ محفوظ حاکم نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 82 )
عن عمر بن الخطاب انہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برفع یدیہ اذا کبر و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الدار قطنی جزءسبکی: ص6 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ ہمیشہ رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 )
امام بیہقی اور حاکم فرماتے ہیں۔ فقد روی ہذہ السنۃ عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کہ رفع یدین کی حدیث جس طرح حضرت ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ( تعلیق المغنی، ص: 111 ) نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے۔
علامہ سبکی فرماتے ہیں۔ الذین نقل عنہم روایۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و علی وغیرہم رضی اللہ عنہم کہ جن صحابہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کی روایت نقل کی ہے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی انہیں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 9 )
و عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا کبر للصلوٰۃ حذو منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( جزءبخاری، ص: 6 ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( ابوداؤد، جلد: 1ص: 198، مسند احمد، جلد: 3 ص : 165، ابن ماجہ، ص: 62 وغیرہ )
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حذو منکبیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا کبر للرکوع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفعہما کذلک۔ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تحقیق کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( مسلم، ص: 168، ابوداؤد جلد: 1 ص: 192، ترمذی، ص: 36، وغیرہ، ان کے علاوہ اکیس کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ )

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشق سنت نے کان یرفع یدیہ فرما کر اور موجب روایت بیہقی آخر میں حتی لقی اللہ لاکر یہ ثابت کردیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے نبوت سے لے کر اپنی عمر شریف کی آخری نماز تک رفع یدین کرتے رہے۔
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کان یرفع یدیہ الخ کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ہذا دلیل صریح علی ان رفع الیدین فی ہذہ المواضع سنۃ و ہو الحق و الصواب نقل البخاری فی صحیحہ عقب حدیث ابن عمر ہذا عن شیخہ علی بن المدینی انہ قال حق علی المسلمین ان یرفعوا ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لحدیث ابن عمر ہذا و ہذا فی روایۃ ابن العساکر و قد ذکرہ البخاری فی جزءرفع الیدین و زاد و کان اعلم اہل زمانہ انتہی۔
قلت و الیہ ذہب عامۃ اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و التابعین و غیرہم قال محمد بن نصر المروزی اجمع علماءالامصار علی مشروعیۃ ذالک الا اہل الکوفۃ و قال البخاری فی جزءرفع الیدین قال الحسن و حمید بن ہلال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰۃ۔

و روی ابن عبدالبر بسندہ عن الحسن البصری قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفعون ایدیہم فی الصلوۃ اذا رکعوا و اذا رفعوا کانہا المراوح و روی البخاری عن حمید بن ہلال قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانما ایدیہم المراوح یرفعونہا اذا رکعوا و اذا رفعوا روسہم قال البخاری و لم یستثن الحسن احدا منہم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسم دون احد و لم یثبت عند اہل العلم عن احد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ لم یرفع یدیہ ثم ذکر البخاری عن عدۃ من علماءاہل مکۃ و اہل الحجاز و اہل العراق و الشام و البصرۃ و الیمن و عدۃ من اہل خراسان و عامۃ اصحاب ابن المبارک و محدثی اہل بخاری و غیرہم ممن لا یحصی انہم کانوا یرفعون ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لا اختلاف منہم فی ذلک الخ ( مرعاۃ ج: 1 ص 529 )
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ یہ حدیث اس امر پر صریح دلیل ہے کہ ان مقامات پر رفع الیدین سنت ہے۔ اور یہی حق اور صواب ہے اورامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ( کاندھوں تک یا کانوں کی لو تک ) اٹھائیں۔ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اہل علم کا یہی مسلک ہے اورمحمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ سوائے اہل کوفہ کے تمام علمائے امصار نے اس کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔ جملہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ امام حسن بصری نے اصحاب نبوی میں اس بارے میں کسی کا استثناءنہیں کیا۔ پھر بہت سے اہل مکہ واہل حجاز و اہل عراق و اہل شام اور بصرہ اور یمن اور بہت سے اہل خراسان اور جمیع شاگردان عبداللہ بن مبارک اور جملہ محدثین بخارا وغیرہ جن کی تعداد شمار میں بھی نہیں آسکتی، ان سب کا یہی عمل نقل کیا ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔


مندرجہ ذیل احادیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔
عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا دخل فی الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع ( رواہ ابن ماجۃ ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ( جو دس سال دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ و سندہ صحیح۔ سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، بیہقی، جلد: 2 ص74، دار قطنی، ص: 108، جزءبخاری، ص:9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکی، ص: 4 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔ ( تخریج زیلعی، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغنی، ص: 110 )
عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص: 13 ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62 )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
عن ابی الزبیر ان جابر بن عبداللہ کان اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع فعل مثل ذلک و یقول رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل ذلک۔ ( رواہ ابن ماجۃ، ص: 62 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص:12 )
حضرت جابررضی اللہ عنہ ہمیشہ رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس لیے رفع یدین کرتا ہوں کہ میں بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا کرتا تھا۔ ( بیہقی، جدل: 2 ص: 74، جزءسبکی، ص: 5، بخاری، ص: 13)

اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن ابی موسی قال ہل اریکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر و رفع یدیہ ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیہ ثم قال ہذا فاصنعوا ( رواہ الدارمی، جزءرفع الیدین، سبکی، ص: 5 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع واذا رفع راسہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں کہا۔ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی۔ جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔ لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( دارمی، دار قطنی، ص: 109، تلخیص الحبیر ص : 81، جزءبخاری، ص: 13، بیہقی، ص: 74 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔

مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔ ہی صحیحۃ یہ حدیث صحیح ہے۔ ( العرف الشذی، ص: 125 )
عن ابی ہریرۃ انہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر للصلوٰۃ جعل یدیہ حذو منکبیہ و اذا رکع فعل مثل ذلک و اذا رفع للسجود فعل مثل ذلک و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( رواہ ابوداود )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔ ( ابوداؤد، جلد:1 ص: 197، بیہقی، جلد:2 ص: 74، و رجالہ رجال صحیح تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعی، جلد:1 ص: 315 )
عن عبیدبن عمیرعن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عندالرکوع واذا رفع راسہ۔ ( جزءبخاری، ص: 3 ) حضرت عبیدبن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔
عن البراءبن عازب قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ و اذا ارار ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الحاکم و البیہقی )
براءبن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( حاکم، بیہقی، جلد: 2 ص: 77 )
عن قتادۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا رکع و اذا رفع رواہ عبدالرزاق فی جامعہ۔ ( سبکی، ص: 8 ) قال الترمذی و فی الباب عن قتادۃ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ترمذی ص36 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع آیاہے جو دوام اور ہمشیگی کی دلیل ہے۔
عن سلیمان ابن یسار ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ فی الصلوٰۃ ( رواہ مالک فی الموطا جلد: 1ص: 98، سبکی، : 8 ) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے اور اسی طرح عمیر لیثی سے بھی روایت آئی ہے ( ابن ماجہ، ص: 62، جزءسبکی، ص: 7 )
وفی الباب عن عمیر اللیثی ( ترمذی، ص: 36، تحفۃ الاحوذی، ج: 1ص219 )
وعن وائل بن حجر قال قلت لا نظرن الی صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف یصلی فنظرت الیہ قام فکبر و رفع یدیہ حتی حاذتا اذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ فلما اراد ان یرکع رفع یدیہ مثلہا فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ مثلہا ( رواہ احمد ) حضرت وائل بن حجر ( جو ایک شہزادے تھے ) فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے تو رفع یدین کرتے اور سینہ پر ہاتھ رکھ لیتے، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ ( مسند احمد وغیرہ ) سینہ پر ہاتھ کا ذکر مسند ابن خزیمہ میں ہے۔
عن ابی حمید قال فی عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا اعلمکم بصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا فاذکر قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلوۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت ہکذا کان یصلی بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 4 )
اس حدیث میں کان یصلی قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ ( جزءبخاری، ص: 8، ابوداؤد، ص : 194 )
عن عبداللہ بن الزبیر انہ صلی بہم یشیر بکفیہ حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینہض فقال ابن عباس من احب ان ینظر الی صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیقتد بابن الزبیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ ( ابوداؤد، ص: 198 )
عن الحسن ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا اراد ان یکبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ ( رواہ ابونعیم، جزءسبکی، ص: 8 ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82 )

صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رفع یدین کیا کرتے تھے:
عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف ابی بکر فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر مثلہ۔ ( رواہ البیہقی و رجالہ ثقات، جلد: 2 ص: 73 )
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔ ( تلخیص، ص: 82، سبکی، ص: 6 ) اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار ( کان یرفع ) موجود ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے
و عن عمر نحوہ رواہ الدار قطنی فی غرائب مالک و البیہقی و قال الحاکم انہ محفوظ ( تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82 ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر فاروق بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔
عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج فیہم عمر فقال اقبلوا علی بوجوہکم اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی یصلی ویامر بہا فقام و رفع یدیہ حتی حاذی بھما منکبیہ ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلک حین رفع کہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ فقال القوم ہکذا رسول اللہ صلی اللہ یصلی بنا پھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے۔ ( اخرجہ البیہقی فی الخلافیات تخرییج زیلعی و قال الشیخ تقی الدین رجال اسنادہ معرفون ) ( تحقیق الراسخ، ص: 38 )
حضرت عمر فاروق، حضرت علی و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم
امام بخاری فرماتے ہیں: ( 1 ) عمر بن خطاب ( 2 ) علی بن ابی طالب ( 3 ) عبداللہ بن عباس ( 4 ) ابوقتادہ ( 5 ) ابواسید ( 6 ) محمد بن مسلمہ ( 7 ) سہل بن سعد ( 8 ) عبداللہ بن عمر ( 9 ) انس بن مالک ( 10 ) ابوہریرہ ( 11 ) عبداللہ بن عمرو ( 12 ) عبداللہ بن زبیر ( 13 ) وائل بن حجر ( 14 ) ابوموسی ( 15 ) مالک بن حویرث ( 16 ) ابوحمید ساعدی ( 17 ) ام درداءانہم کانوا یرفعون عند الرکوع ( جزءبخاری، ص: 6 ) کہ یہ سب کے سب رکوع جانے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔


طاؤس و عطاءبن رباح کی شہادت:

عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون ایدیہم اذا افتتحوا الصلوٰۃ و اذا رکعوا کہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )

حضرت طاؤس کہتے ہیں رایت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون ایدیہم کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ :
عن عاصم قال رایت انس بن مالک اذا افتتح الصلوۃ کبر و رفع یدیہ و برفع کلما رکع و رفع راسہ من الرکوع عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 12 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ :
انہ کان اذا کبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )
حضرت ام درداءرضی اللہ عنہا:
سلیمان بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رایت ام درداءترفع یدیہا فی الصلوۃ حذو منکبیہا حین تفتتح الصلوۃ و حین ترکع فاذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدہا کہ میں نے ام درداءکو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔ ( جزءرفع الیدین، امام بخاری، ص: 12 )
ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔ جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔ چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔

منکرین رفع یدین کے دلائل اور ان کے جوابات:


( 1 ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مالی اراکم رافعی ایدیکم کانہا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوۃ ( صحیح مسلم باب الامر بالسکون فی الصلوۃ والنہی عن الاشارۃ بالید ورفعہما عند السلام ) یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں حرکت نہ کیا کرو۔
منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ
( 1 ) اول تو منکرین کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔
( ب ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و اشار بیدہ الی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماشانکم تشیرون بایدکم کانہا اذناب خیل شمس تمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو ویسلم علی اخیہ من علی یمینہ و شمالہ اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو اذا سلم احدکم فلیلتفت الی صاحبہ و لا یومی ( یرمی ) بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔ ( مسلم شریف )
( ج ) تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔ جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں من احتج بحدیث جابر بن سمرۃ علی منع الرفع عند الرکوع فلیس لہ حظ من العلم کہ جو شخص جابر بن سمرہ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔ کیوں کہ اسکنوا فی الصلوۃ فانما کان فی التشہد لا فی القیام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکنوا فی الصلوٰۃ تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں ( جزءرفع یدین، بخاری، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفہ ، صئ223 )
اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔
( 2 ) منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی فلم یرفع الا مرۃ اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے ( ابوداؤد، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36 )
اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس ہو بصحیح علی ہذا اللفظ یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔
اور ترمذی میں ہے یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں ( ترمذی، ص:36، تلخیص ، ص: 83 )
اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ( مسند احمد، جلد: 3ص: 16 ) اور حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
( 3 ) تیسری دلیل
براءبن عازب کی حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار رفع یدین کیا۔ ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔ اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں ہذا الحدیث لیس بصحیح کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ ( ابوداؤد جلد: 1 ص: 200 )
و قد رواہ ابن المدینی و احمد و الدار قطنی و ضعفہ البخاری اس حدیث کو بخاری رحمۃ اللہ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔ ( تنویر، ص: 16 )
( 4 ) چوتھی دلیل
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے ( طحاوی ) اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔ کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیہ ہے۔
نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔ فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔ وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ ( تعلیق الممجد، ص: 193 )
انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔
( 5 ) پانچویں دلیل۔
کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلی بار ہی کرتے تھے۔ ( دار قطنی )
دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات میں لکھا ہے۔ لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 83 )
ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا اصل لہم ان کا اصل و ثبوت نہیں ( تلخیص الممجد، ص: 83 )
آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2 ص: 8 )
اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔ حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیہ میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا

حدیث نمبر : 740
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة‏.‏ قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال إسماعيل ينمى ذلك‏.‏ ولم يقل ينمي‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے۔

تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔ ( مرعاۃ المفاتیح )

یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔
اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔ ( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 ) یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔

تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے: حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور ) یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔

امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )
چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ فصل لربک وانحر کی تفسیر میں روایت کیاہے یعنی ضع یدک الیمنی علی الشمال عندالنحر یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔

بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے : ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عندہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔

اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت فی اسنادہذاالحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدارہذاالحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائیدمسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:
حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔

دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔
پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ واللہ ہوالموفق۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : نماز میں خشوع کا بیان

حدیث نمبر : 741
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ هل ترون قبلتي ها هنا والله ما يخفى على ركوعكم ولا خشوعكم، وإني لأراكم وراء ظهري‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد سے بیان کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ( قبلہ کی طرف ) ہے۔ خدا کی قسم تمہارا رکوع اور تمہارا خشوع مجھ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

آپ مہرنبوت سے دیکھ لیاکرتے تھے اوریہ آپ کے معجزات میں سے ہے۔

حدیث نمبر : 742
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أقيموا الركوع والسجود، فوالله إني لأراكم من بعدي ـ وربما قال من بعد ظهري ـ إذا ركعتم وسجدتم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رکوع اور سجود پوری طرح کیا کرو۔ خدا کی قسم! میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں یا اس طرح کہا کہ پیٹھ پیچھے سے جب تم رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو ( تو میں تمہیں دیکھتا ہوں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس بارے میں کہ تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟

حدیث نمبر : 743
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ كانوا يفتتحون الصلاة ب ـ ‏{‏الحمد لله رب العالمين‏}‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے قتادہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نماز الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔

تشریح : یعنی قرآن کی قرات سورۃ فاتحہ سے شروع کرتے تھے تو یہ منافی نہ ہوگی اس حدیث کے جو آگے آتی ہے۔ جس میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا منقول ہے اور الحمدللہ رب العالمین سے سورۃ فاتحہ مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے کیونکبسم الل سورۃ فاتحہ کی جزو ہے تومقصود یہ ہے کہ بسم اللہ پکارکر نہیں پڑھتے تھے۔ جیسے کہ نسائی اورابن حبان کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ کو پکار کرنہیں پڑھتے تھے۔ روضہ میں ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ پڑھنا چاہئیے۔ جہری نمازوں میں پکار کر اورسری نمازوں میں آہستہ اور جن لوگوں نے بسم اللہ کا نہ سننا نقل کیاہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کم سن تھے جیسے انس رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مغفل اوریہ آخری صف میں رہتے ہوں گے، شاید ان کوآواز نہ پہنچی ہوگی اور بسم اللہ کے جہر میں بہت حدیثیں وارد ہیں۔ گو ان میں کلام بھی ہو مگر اثبات مقدم ہے نفی پر۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 744
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا عبد الواحد بن زياد، قال حدثنا عمارة بن القعقاع، قال حدثنا أبو زرعة، قال حدثنا أبو هريرة، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسكت بين التكبير وبين القراءة إسكاتة ـ قال أحسبه قال هنية ـ فقلت بأبي وأمي يا رسول الله، إسكاتك بين التكبير والقراءة ما تقول قال ‏"‏ أقول اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياى بالماء والثلج والبرد‏"‏‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرات کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں اللهم باعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد ( ترجمہ ) اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔

تشریح : دعائے استفتاح کئی طرح پرواردہے مگر سب میں صحیح دعا یہی ہے اور سبحانک اللہم جسے عموماً پڑھا جاتا ہے وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ مگراس روایت کی سند میں ضعف ہے، بہرحال اسے بھی پڑھا جاسکتاہے۔ مگرترجیح اسی کو حاصل ہے، اور اہل حدیث کا یہی معمول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : ( سورج گہن کے وقت نماز )

حدیث نمبر : 745
حدثنا ابن أبي مريم، قال أخبرنا نافع بن عمر، قال حدثني ابن أبي مليكة، عن أسماء بنت أبي بكر، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف، فقام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع ثم رفع، ثم سجد فأطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فأطال السجود، ثم قام فأطال القيام ثم ركع فأطال الركوع ثم رفع فأطال القيام ثم ركع فأطال الركوع ثم رفع فسجد فأطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فأطال السجود ثم انصرف فقال ‏"‏ قد دنت مني الجنة حتى لو اجترأت عليها لجئتكم بقطاف من قطافها، ودنت مني النار حتى قلت أى رب وأنا معهم فإذا امرأة ـ حسبت أنه قال ـ تخدشها هرة قلت ما شأن هذه قالوا حبستها حتى ماتت جوعا، لا أطعمتها، ولا أرسلتها تأكل‏"‏‏. ‏ قال نافع حسبت أنه قال ‏"‏ من خشيش أو خشاش الأرض‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں نافع بن عمر نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے اسماء بنت ابی بکر سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز پڑھی۔ آپ جب کھڑے ہوئے تو دیر تک کھڑے رہے پھر رکوع میں گئے تو دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر ( دوبارہ ) رکوع میں گئے اور دیر تک رکوع کی حالت میں رہے اور پھر سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ پھر سر اٹھایا اور پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر رکوع کیا اور دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر ( دوبارہ ) رکوع کیا اور آپ دیر تک رکوع کی حالت میں رہے۔ پھر سر اٹھایا۔ پھر آپ سجدہ میں چلے گئے اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جنت مجھ سے اتنی نزدیک ہو گئی تھی کہ اگر میں چاہتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تم کو توڑ کر لا دیتا اور مجھ سے دوزخ بھی اتنی قریب ہو گئی تھی کہ میں بول پڑا کہ میرے مالک میں تو اس میں سے نہیں ہوں؟ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا۔ نافع بیان کرتے ہیں کہ مجھے خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ اس عورت کو ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب ملا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھے رکھا تھا تاآنکہ بھوک کی وجہ سے وہ مر گئی، نہ تو اس نے اسے کھانا دیا اور نہ چھوڑا کہ وہ خود کہیں سے کھا لیتی۔ نافع نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے یوں کہا کہ نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے وغیرہ کھا لیتی۔

تشریح : سورج گہن یاچاند گہن ہر دومواقع پر نماز کا یہی طریقہ ہے۔ نماز کے بعد خطبہ اوردعا بھی ثابت ہے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو جانوروں پرظلم کرے گا آخرت میں اس سے اس کا بھی بدلہ لیاجائے گا۔ حافظ نے ابن رشید سے حدیث اورباب میں مطابقت یوں نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مناجات اورمہربانی کی درخواست عین نماز کے اندر مذکور ہے تو معلوم ہوا کہ نماز میں ہرقسم کی دعا کرنا درست ہے۔ بشرطیکہ وہ دعائیں شرعی حدوں میں ہوں۔
 
Top