• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس شخص کے بارے میں جو شخص نماز کی طاق رکعت ( پہلی اور تیسری ) میں تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اٹھ جائے

حدیث نمبر : 823
حدثنا محمد بن الصباح، قال أخبرنا هشيم، قال أخبرنا خالد الحذاء، عن أبي قلابة، قال أخبرنا مالك بن الحويرث الليثي، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، فإذا كان في وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا‏.‏
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، ابوقلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق رکعت میں ہوتے تواس وقت تک نہ اٹھتے جب تک تھوڑی دیر بیٹھ نہ لیتے۔

تشریح : طاق رکعتوں کے بعد یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے جب اٹھے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر اٹھنا، اس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس بارے میں کہ رکعت سے اٹھتے وقت زمین کا کس طرح سہارا لے

حدیث نمبر : 824
حدثنا معلى بن أسد، قال حدثنا وهيب، عن أيوب، عن أبي قلابة، قال جاءنا مالك بن الحويرث فصلى بنا في مسجدنا هذا فقال إني لأصلي بكم، وما أريد الصلاة، ولكن أريد أن أريكم كيف رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي‏.‏ قال أيوب فقلت لأبي قلابة وكيف كانت صلاته قال مثل صلاة شيخنا هذا ـ يعني عمرو بن سلمة ـ قال أيوب وكان ذلك الشيخ يتم التكبير، وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الأرض، ثم قام‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابو قلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپ نے ہماری اس مسجد میں نماز پڑھائی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نماز پڑھارہا ہوںلیکن میری نیت کسی فرض کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ میں صرف تم کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ نبی کریم کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ میں ابو قلابہ سے پوچھا کہ مالک رضی اللہ عنہ کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح۔ ایوب نے بیان کیا کہ شیخ تمام تکبیرات کہتے تھے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تھوڑی دیر بیٹھتے اور زمین کا سہارا لے کر پھر اٹھتے۔

تشریح : یعنی جلسہ استراحت کرکے پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھتے جیسے بوڑھا شخص دونوں ہاتھوں پر آٹاگوندھنے میں ٹیکا دیتا ہے حنفیہ نے جو اس کے خلاف ترمذی کی حدیث سے دلیل لی کہ آں حضرت اپنے پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے تو یہ حدیث ضعیف ہے علاوہ اس کے اس سے یہ نکلتا ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا اور کبھی نہیں کیا اہل حدیث کا یہی مذہب ہے وہ جلسہ استراحت کو مستحب کہتے ہیں اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضعف یا علالت کی وجہ سے ایساکیا اور یہ کہنا کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں ہے قیاس ہے بمقابلہ نص اور وہ فاسد ہے۔ ( مولانا وحید الزماں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو تکبیر کہے

وكان ابن الزبير يكبر في نهضته.
اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت تکبیر کہا کرتے تھے۔
حدیث نمبر : 825
حدثنا يحيى بن صالح، قال حدثنا فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، قال صلى لنا أبو سعيد فجهر بالتكبير حين رفع رأسه من السجود، وحين سجد، وحين رفع، وحين قام من الركعتين وقال هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے یحیٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلج بن سلیمان نے، انہوں نے سعید بن حارث سے، انہوں نے کہا کہ ہمیںابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو پکار کر تکبیر کہی پھر جب سجدہ کیا تو ایسا ہی کیا پھر سجدہ سے سر اٹھایا تو بھی ایسا ہی کیا اسی طرح جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوئے اس وقت بھی آپ نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا۔

حدیث نمبر : 826
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، قال حدثنا غيلان بن جرير، عن مطرف، قال صليت أنا وعمران، صلاة خلف علي بن أبي طالب ـ رضى الله عنه ـ فكان إذا سجد كبر، وإذا رفع كبر، وإذا نهض من الركعتين كبر، فلما سلم أخذ عمران بيدي فقال لقد صلى بنا هذا صلاة محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ أو قال لقد ذكرني هذا صلاة محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ آپ نے جب سجدہ کیا، سجدہ سے سر اٹھایا دورکعتوں کے بعد کھڑے ہوئے تو ہر مرتبہ تکبیر کہی۔ جب آپ نے سلام پھیردیا تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ انہوں نے واقعی ہمیں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھائی ہے یا یہ کہا کہ مجھے انہوں نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔

تشریح : بعض ائمہ بنی امیہ نے بآواز بلند اس طرح تکبیر کہنا چھوڑدیا تھا جو اسوہ نبوی کے خلاف تھا اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دور سلف میں مسلمانوں کو اسوہ رسول کی اطاعت کا بے حد اشتیاق رہتا تھا خاص طور پر نمازکے بارے میں ان کی کوشش ہوتی کہ وہ عین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز ادا کر سکیں۔ اس دور آخر میں صرف اپنے اپنے فرضی اماموں کی تقلید کا جذبہ باقی رہ گیا ہے حالانکہ ایک مسلمان کا اولین مقصد سنت نبوی کی تلاش ہونا چا ہیے۔ ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صاف فرمادیا ہے کہ ہر وقت صحیح حدیث کی تلاش میں رہو اگر میرا کوئی مسئلہ حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے چھوڑ دو اورصحیح حدیث نبوی پر عمل کرو۔ حضرت امام کی اس پاکیزہ وصیت پر عمل کرنے والے آج کتنے ہیں؟ یہ ہر سمجھ دار مسلمان کے غور کرنے کی چیز ہے یونہی لکیر کے فقیر ہو کر رسمی نمازیں ادا کرتے رہنا اور سنت نبوی کو تلاش نہ کرنا کسی بابصیرت مسلمان کا کام نہیں وقفنا اللہ لما یحب ویرضی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : تشہد میں بیٹھنے کامسنون طریقہ

وكانت أم الدرداء تجلس في صلاتها جلسة الرجل، وكانت فقيهة‏.‏
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا فقیہہ تھیں اور وہ نماز میں ( بوقت تشہد ) مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔

حدیث نمبر : 827
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن عبد الله بن عبد الله، أنه أخبره أنه، كان يرى عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يتربع في الصلاة إذا جلس، ففعلته وأنا يومئذ حديث السن، فنهاني عبد الله بن عمر وقال إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى وتثني اليسرى‏.‏ فقلت إنك تفعل ذلك‏.‏ فقال إن رجلى لا تحملاني‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے عبد الرحمن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عبد اللہ سے انہوں نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ہمیشہ دیکھتے کہ آپ نماز میں چار زانو بیٹھتے ہیں میں ابھی نو عمر تھا میں نے بھی اسی طرح کرنا شروع کر دیا لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ( تشہد میں ) دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بایاں پھیلادے میں نے کہا کہ آپ تو اسی ( میری ) طرح کرتے ہیں آپ بولے کہ ( کمزوری کی وجہ سے ) میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آخرمیں کمزوری کی وجہ سے تشہد میں چار زانو بیٹھتے تھے یہ محض عذر کی وجہ سے تھا ورنہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا رہے اور بائیں کو پھیلا کر اس پر بیٹھا جائے اسے تورک کہتے ہیں عورتوں کے لیے بھی یہی مسنون ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 828
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن خالد، عن سعيد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء،‏.‏ وحدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، ويزيد بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء، أنه كان جالسا مع نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فقال أبو حميد الساعدي أنا كنت أحفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه، وإذا ركع أمكن يديه من ركبتيه، ثم هصر ظهره، فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه، فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما، واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة، فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى، وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الأخرى وقعد على مقعدته‏.‏ وسمع الليث يزيد بن أبي حبيب ويزيد من محمد بن حلحلة وابن حلحلة من ابن عطاء‏.‏ قال أبو صالح عن الليث كل فقار‏.‏ وقال ابن المبارك عن يحيى بن أيوب قال حدثني يزيد بن أبي حبيب أن محمد بن عمرو حدثه كل فقار‏.‏
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے خالد سے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، اور ان سے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمدنے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکادیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے، اور ابوصالح نے لیث سے کُلُّ قَفَارٍ مَکَانَہ نقل کیاہے اور ابن المبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انھوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں کُلُّ فَقَار بیان کیا۔

تشریح : صحیح ابن خزیمہ میں دس بیٹھنے والے اصحاب کرام رضی اللہ عنہ میں سہل بن سعد اور ابوحمید ساعدی اور محمد بن مسلمہ اور ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم کے نام بتلائے گئے ہیں باقی کے نام معلوم نہیں ہو سکے یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ کہیں مجمل اور کہیں مفصل مروی ہے اس میں دوسرے قعدے میں تو اس کا ذکر ہے یعنی سرین پر بیٹھنا دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں کو آگے کر کے تلے سے دائیں طرف باہر نکالنا اور دونوں سرین زمین سے ملا کر بائیں ران پر بیٹھنا یہ تورک چار رکعت والی نماز میں اور نماز فجر کی آخری رکعت میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اس شخص کی دلیل جو پہلے تشہد کو ( چار رکعت یا تین رکعت نماز میں ) واجب نہیں جانتا ( یعنی فرض ) کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں۔

تشریح : باوجود یکہ لوگوں نے سبحا ن اللہ کہا لیکن آپ نہ بیٹھے اگر تشہد پہلا فرض ہوتا تو ضرور بیٹھ جاتے جیسے کوئی رکوع یا سجدہ بھول جائے اور یاد آئے تو اسی وقت لوٹنا لازم ہے ہمارے امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یہ تشہد واجب ہے کیوں کہ آنحضرت نے اس کو ہمیشہ کیار ور بھول گئے تو سجدہ سہوسے اس کا تدارک کیا ( مولانا وحید الزماں )

حدیث نمبر : 829
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني عبد الرحمن بن هرمز، مولى بني عبد المطلب ـ وقال مرة مولى ربيعة بن الحارث ـ أن عبد الله ابن بحينة ـ وهو من أزد شنوءة وهو حليف لبني عبد مناف، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم الظهر فقام في الركعتين الأوليين لم يجلس، فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة، وانتظر الناس تسليمه، كبر وهو جالس، فسجد سجدتين قبل أن يسلم ثم سلم‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ شعیب نے ہمیں خبر دی، انہوں نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن ہرمز نے بیان کیا جو مولی بن عبد المطلب ( یا مولی ربیعہ بن حارث ) تھے، کہ عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول اور بن ی عبد مناف کے حلیف قبیلہ ازدشنوء ہ سے تعلق رکھتے تھے، نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوںپر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوگئے، چنانچہ سارے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دوسجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔

تشریح : علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر یوں باب منعقد فرمایا ہے باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھو یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں جو لفظ “فقولا التحیات”وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں فیہ دلیل لمن قال بوجوب التشھد الاوسط وھو احمد فی المشھود عینہ واللیث واسحاق وھو قول الشافعی والیہ ذھب داود ابو ثور ورواہ النووی عن جمھور المحدثین یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔

حدیث مذکور سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگریہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکوربنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنا

حدیث نمبر : 830
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا بكر، عن جعفر بن ربيعة، عن الأعرج، عن عبد الله بن مالك ابن بحينة، قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر فقام وعليه جلوس، فلما كان في آخر صلاته سجد سجدتين وهو جالس‏.‏
قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بکر بن مضر نے جعفر بن ربیعہ سے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے، کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کو چاہیے تھا بیٹھنا لیکن آپ ( بھول کر ) کھڑے ہو گئے پھر نماز کے آخر میں بیٹھے ہی بیٹھے دو سجدے کئے۔

تشریح : یعنی تشہد نہیں پڑھا۔ حدیث میں علیہ الجلوس کے لفظ بتلاتے ہیں کہ آپ کو بیٹھنا چاہیے تھا مگرآپ بھول گئے جلوس سے تشہد مراد ہے۔ ترجمہ سے باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : آخری قعدہ میں تشہد پڑھنا

حدیث نمبر : 831
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا الأعمش، عن شقيق بن سلمة، قال قال عبد الله كنا إذا صلينا خلف النبي صلى الله عليه وسلم قلنا السلام على جبريل وميكائيل، السلام على فلان وفلان‏.‏ فالتفت إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إن الله هو السلام، فإذا صلى أحدكم فليقل التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين‏.‏ فإنكم إذا قلتموها أصابت كل عبد لله صالح في السماء والأرض، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے ( ترجمہ ) سلام ہو جبریل اور میکائیل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر ( اللہ پر سلام ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود “ سلام ” ہے۔ ( تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو ) اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے ( ترجمہ ) تمام آداب بن دگی، تمام عبادات اور تمام بہترین تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بن دوں پر سلام۔ جب تم یہ کہو گے تو تمہارا سلام آسمان وزمین میں جہاں کوئی اللہ کا نیک بن دہ ہے اس کو پہنچ جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بن دے اور رسول ہیں۔

تشریح : یہ قعدہ کی دعا ہے جسے تشہد کہتے ہیں۔ بندہ پہلے کہتا ہے کہ تحیات۔ صلوات اور طیبات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ یہ تین الفاظ قول وفعل کے تمام محاسن کو شامل ہیں یعنی تمام خیر اور بھلائی خدا وند قدوس کے لیے ثابت ہے اور اسی کی طرف سے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا گیا اور اس میں خطاب کی ضمیر اختیار کی گئی ہے کیوں کہ صحابہ کو یہ دعا سکھائی گئی تھی اور آپ اس وقت موجود تھے۔ اب جن الفاظ کے ساتھ ہمیں یہ دعا پہنچی ہے اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ ( تفہیم البخاری ) سلام در حقیقت دعا ہے یعنی تم سلامت رہو اللہ پاک کو ایسی دعا دینے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہرایک آفت اورتغیر سے پاک ہے وہ ازلی ابدی ہے اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں وہ ساری کائنات کو خود سلامتی بخشنے والا اور سب کی پرورش کرنے والا ہے اسی لیے اس کا نام سلام ہوااسی دعا میں لفظ التحیات اور صلوات اور طیبات وارد ہوتے ہیں تحیات کے معنی سلامتی بقا عظمت ہر نقص سے پاکی ہر قسم کی تعظیم مرادہے یہ عبادات قولی پر صلوات عبادات فعلی پر اورطیبات عبادات مالی پربولاگیا ہے۔ ( فتح الباری )

پس یہ تینوںقسم کی عبادات ایک اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں جو لوگ ان عبادات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں وہ فرشتے ہوں یا انسان یا اور کچھ، وہ خالق کا حق چھین کر جو مخلوق کو دیتے ہیں۔ یہی وہ ظلم عظیم ہے جسے قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے “وَمَن یُشرِک بِاللّٰہِ فَقَد حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیہِ الجَنَّۃَ وَمَاوَاہُ النَّارُ” یعنی شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے عبادات قولی میں زبان سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کا نام لینا، عبادات فعلی میں رکوع سجدہ قیام، عبادات مالی میں ہر قسم کا صدقہ خیرات نیاز نذر وغیرہ وغیرہ مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : ( تشہد کے بعد ) سلام پھیرنے سے پہلے کی دعائیں

حدیث نمبر : 832
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرنا عروة بن الزبير، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة ‏"‏ اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا وفتنة الممات، اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم‏"‏‏. ‏ فقال له قائل ما أكثر ما تستعيذ من المغرم فقال ‏"‏ إن الرجل إذا غرم حدث فكذب، ووعد فأخلف‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے ( ترجمہ ) اے اللہ قبر کے عذاب سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ زندگی کے اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہوںسے اور قرض سے۔ کسی ( یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرض سے بہت ہی زیادہ پناہ مانگتے ہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہو جائے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا ہے۔

حدیث نمبر : 833
وعن الزهري، قال أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستعيذ في صلاته من فتنة الدجال
اور اسی سند کے ساتھ زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے سنا۔

تشریح : وَاِذَا وَعَدَ اَخلَفَ کے بعد بعض نسخوں میں یہ عبارت زائد ہے وقال محمد بن یوسف سمعت خلف بن عامر یقول فی المسیح والمسیح لیس بینھما فرق وھما واحد احدھما عیسیٰ علیہ السلام والاخر الدجال یعنی محمد بن یوسف نے کہا میں نے خلف بن عامر سے سنا مسیح اور مسیح میں کچھ فرق نہیں دونوں ایک ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مسیح کہہ سکتے ہیں اور دجال کوبھی۔

حدیث نمبر : 834
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو، عن أبي بكر الصديق ـ رضى الله عنه ـ‏.‏ أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم علمني دعاء أدعو به في صلاتي‏.‏ قال ‏"‏ قل اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لي مغفرة من عندك، وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن ابی حبیب سے بیان کیا، ان سے ابو الخیر مرثد بن عبداللہ نے ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے، ان سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو ( ترجمہ ) اے اللہ!میں نے اپنی جان پر ( گناہ کر کے ) بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھر پور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بے شک وشبہ تو ہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : تشہد کے بعد جو دعا اختیار کی جاتی ہے اس کا بیان اور یہ بیان کہ اس دعا کا پڑھنا کچھ واجب نہیں ہے

حدیث نمبر : 835
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن الأعمش، حدثني شقيق، عن عبد الله، قال كنا إذا كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة قلنا السلام على الله من عباده، السلام على فلان وفلان‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقولوا السلام على الله‏.‏ فإن الله هو السلام، ولكن قولوا التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين‏.‏ فإنكم إذا قلتم أصاب كل عبد في السماء أو بين السماء والأرض، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، ثم يتخير من الدعاء أعجبه إليه فيدعو‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے اعمش سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ ( پہلے ) جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم ( قعدہ میں ) یہ کہا کرتے تھے کہ اس کے بن دوں کی طرف سے اللہ پرسلام ہو اور فلاں پر اور فلاں پر سلام ہو۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ “ اللہ پر سلام ہو ” کیوں کہ اللہ تو خود سلام ہے۔ بلکہ یہ کہو ( ترجمہ ) آداب بن دگان اور تمام عبادات اور تمام پاکیزہ خیراتیں اللہ ہی کے لیے ہیں آپ پر اے نبی سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہم پر اور اللہ کے صالح بن دوں پر سلام ہو اور جب تم یہ کہو گے تو آسمان پر خدا کے تمام بن دوں کو پہنچے گا آپ نے فرمایا کہ آسمان اور زمین کے درمیان تمام بن دوں کو پہنچے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداس کے بن دے اور رسول ہیں۔ اس کے بعد دعا کا اختیار ہے جو اسے پسند ہو کرے۔

تشریح : یہ لفظ عام ہے دین اور دنیا کے متعلق ہر ایک قسم کی دعا مانگ سکتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ حنفیہ نے یہ کیسے کہا ہے کہ فلاں قسم کی دعا نماز میں مانگ سکتا ہے فلاں قسم کی نہیں مانگ سکتا۔ نماز میں بندے کو اپنے مالک کی بارگاہ میں بار یابی کا شرف حاصل ہوتا ہے پھر اپنی اپنی لیاقت اور حوصلے کے موافق ہر بندہ اپنے مالک سے معروضہ کرتا ہے اور مالک اپنے کرم اور رحم سے عنایت فر ماتا ہے اگر صرف دین کے متعلق ہی دعائیں مانگنا نماز میں جائز ہوں اور دعائیں جائز نہ ہوں تو دوسرے مطلب کس سے مانگے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ سے اپنی سب حاجتیں مانگو یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے یا ہانڈی میں نمک نہ ہو تو بھی اللہ سے کہو۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) مترجم کا کہناہے کہ ادعیہ ماثورہ ہمارے بیشتر مقاصد ومطالب پر مشتمل موجود ہیں ان کا پڑھنا موجب صد برکت ہوگا حدیث نمبر8337,832و 834 میں جامع دعائیں اور آخر میں سب مقاصد پر مشتمل پاکیزہ یہ دعا کافی ہے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : اگر نماز میں پیشانی یا ناک سے مٹی لگ جائے تو نہ پونچھے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو


امام بخاری نے کہا میں نے عبداللہ بن زبیر حمیدی کو دیکھا وہ اسی حدیث سے یہ دلیل لیتے تھے کہ نماز میں اپنی پیشانی نہ پونچھے۔

حدیث نمبر : 836
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال سألت أبا سعيد الخدري فقال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين حتى رأيت أثر الطين في جبهته‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ان سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے انہوں نے کہا کہ میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ مٹی کا اثر آپ کی پیشانی پر صاف ظاہر تھا۔

تشریح : معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی مبارک سے پانی اور کیچڑ کے نشانات کو صاف نہیں فرمایاتھا۔ امام حمیدی کے استدلال کی بنیاد یہی ہے۔
 
Top