• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : عورتوں کا رات میں اور ( صبح کے وقت ) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا

حدیث نمبر : 864
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض‏"‏‏. ‏ ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون العتمة فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرے سے ) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا ( اس وقت ) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈو بن ے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھاکرتے تھے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سوگئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔ اس کے بعد جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔ اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے اور ابویوسف رحمہ اللہ نے کہا بڑھیا ہر ایک نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہے اور جوان کا آنا مکروہ ہے۔ قسطلانی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔

حدیث نمبر : 865
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن حنظلة، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن‏"‏‏. ‏ تابعه شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : لوگوں کانماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا

حدیث نمبر : 866
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عثمان بن عمر، أخبرنا يونس، عن الزهري، قال حدثتني هند بنت الحارث، أن أم سلمة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرتها أن النساء في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كن إذا سلمن من المكتوبة قمن، وثبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن صلى من الرجال ما شاء الله، فإذا قام رسول الله صلى الله عليه وسلم قام الرجال‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ہند بنت حارث نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فوراً بعد ( باہر آنے کے لیے ) اٹھ جاتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔ جب تک اللہ کو منظور ہوتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔

اس حدیث سے بھی عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 867
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، ح وحدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة، قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح، فينصرف النساء متلفعات بمروطهن، ما يعرفن من الغلس‏.
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالکؒ سے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک ؒنے یحیٰ بن سعید انصاری سے خبر دی، انہیں عمرہ بن ت عبد الرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ لیتے پھر عورتیں چادریں لپیٹ کر ( اپنے گھروںکو ) واپس ہو جاتی تھیں۔ اندھیرے سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی۔

حدیث نمبر : 868
حدثنا محمد بن مسكين، قال حدثنا بشر، أخبرنا الأوزاعي، حدثني يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة الأنصاري، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني لأقوم إلى الصلاة وأنا أريد أن أطول فيها، فأسمع بكاء الصبي، فأتجوز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ انصاری نے، ان سے ان کے والد ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں، میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز لمبی کروں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ مجھے اس کی ماں کو تکلیف دینا برا معلوم ہوتا ہے۔

تشریح : فاتجوزای فاخفف قال ابن سابط التجوز ھھنا یراد بہ تقلیل القراۃ والدلیل علیہ مارواہ ابن ابی شیبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرافی الرکعۃ الاولی بسورۃ نحو ستین آیۃ فسمع بکاءصبی فقرا فی الثانیۃ بثلاث آیات ومطابقۃ الحدیث للترجمۃ تفھم من قولہ کراھیۃ ان اشق علی امۃلانہ یدل علی حضور النساءالی المساجد مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو اعم من ان یکون باللیل او بالنھار قالہ العینی ( حاشیہ بخاری شریف، ص: 120 ) یعنی یہاں تخفیف کرنے سے قرات میں تخفیف مراد ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پہلی رکعت میں تقریباً ساٹھ آیتیں پڑھیں جب کسی بچے کارونا معلوم ہوا تو دوسری رکعت میں آپ نے صرف تین آیتوں پر اکتفافرمایااور باب اور حدیث میں مطابقت اس سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عورتوں کی تکلیف کو مکروہ جانتاہوں۔معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں مساجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں رات ہو یا دن یہ عام ہے۔

حدیث نمبر : 869
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل‏.‏ قلت لعمرة أو منعن قالت نعم‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے یحیٰ بن سعید سے خبر دی، ان سے عمرہ بن ت عبدالرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیںاگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے توان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں۔

تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ہمارے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں جانا منع ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ یہ زمانہ پایا نہ منع کیا اور شریعت کے احکام کسی کے قیاس اور رائے سے نہیں بدل سکتے۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ یہ ام المؤمنین کی رائے تھی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ زمانہ پاتے تو ایساکرتے اور شاید ان کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا منع ہوگا اس لیے بہتر یہ ہے کہ فساد اور فتنے کا خیال رکھا جائے اور اس سے پرہیز کیا جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوشبو لگا کر اور زینت کر کے عورتوں کونکلنے سے منع کیا۔ اسی طرح رات کی قید بھی لگائی اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب یہ حدیث بیان کی کہ اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجد میں جانے سے نہ روکوتو ان کے بیٹے واقد یا بلال نے کہا کہ ہم تو روکیں گے۔ عبداللہ نے ان کو ایک گھونسہ لگایا اور سخت سست کہا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ مرنے تک بات نہ کی اور یہی سزا ہے اس نالائق کی جو آنحضرت کی حدیث سن کر سر نہ جھکائے اور ادب کے ساتھ تسلیم نہ کرے۔ وکیع نے کہا کہ شعار یعنی قربانی کے اونٹ کا کوہان چیر کر خون نکال دینا سنت ہے۔ ایک شخص بولا ابو حنیفہ تو اس کو مثلہ کہتے ہیں۔ وکیع نے کہا تو اس لائق ہے کہ قید رہے جب تک توبہ نہ کرے، میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول لاتا ہے۔ اس روایت سے مقلدین بے انصاف کو سبق لینا چاہیے اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان کے سامنے کوئی حدیث کے خلاف کسی مجتہد کا قول لاتا تو گردن مارنے کا حکم دیتے ارے لوگوہائے خرابی یہ ایمان ہے یاکفر کہ پیغمبر کافرمودہ سن کر پھر دوسرے کی رائے اور قیاس کو اس کے خلاف منظور کرتے ہوتم جانو اپنے پیغمبر کو جو جواب قیامت کے دن دینا ہو وہ دے لینا وماعلینا الا البلاغ ( مولانا وحید الزماں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 870
حدثنا يحيى بن قزعة، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن هند بنت الحارث، عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم قام النساء حين يقضي تسليمه، ويمكث هو في مقامه يسيرا قبل أن يقوم‏.‏ قال نرى ـ والله أعلم ـ أن ذلك كان لكى ينصرف النساء قبل أن يدركهن أحد من الرجال‏.‏
ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں زہری سے بیان کیا، ان سے ہند بن ت حارث نے بیان کیا، اس سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ کے سلام پھیرتے ہی عورتیں جانے کے لیے اٹھ جاتی تھیں اور انحضور تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے کھرے نہ ہوتے۔ زہری نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں، آگے اللہ جانے، یہ اس لیے تھا تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے نکل جائیں۔

حدیث نمبر : 871
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا ابن عيينة، عن إسحاق، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم في بيت أم سليم، فقمت ويتيم خلفه، وأم سليم خلفنا‏.‏
ہم سے ابونعیم بن دکین نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میری ماں ) ام سلیم کے گھر میں نماز پڑھائی۔ میں اور یتیم مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے تھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : صبح کی نماز پڑھ کر عورتوں کا جلدی سے چلا جانا اور مسجد میں کم ٹھہرنا

حدیث نمبر : 872
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا فليح، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، رضى الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي الصبح بغلس فينصرفن نساء المؤمنين، لا يعرفن من الغلس، أو لا يعرف بعضهن بعضا‏.‏
ہم سے یحیٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبدالرحمن بن قاسم سے بیان کیا، ان سے اس کے باپ ( قاسم بن محمد بن ابی بکر ) نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے۔ مسلمانوں کی عورتیں جب ( نماز پڑھ کر ) واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہوتی یا وہ ایک دوسری کو نہ پہچان سکتیں۔

تشریح : نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔ لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔ اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔ اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔ اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔ آیت شریفہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم ( الجمعہ:3 ) کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : عورت مسجد جانے کے لیے اپنے خاوند سے اجازت لے

حدیث نمبر : 873
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، عن معمر، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ ‏"‏ إذا استأذنت امرأة أحدكم فلا يمنعها‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان کے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان سے باپ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی ( نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کی ) اس سے اجازت مانگے تو شوہر کو چاہیے کہ اس کو نہ روکے۔

تشریح : اجازت دے اس لیے کہ بیوی کوئی ہماری لونڈی نہیں ہے بلکہ ہماری طرح وہ بھی آزاد ہے صرف معاہدہ نکاح کی وجہ سے وہ ہمارے ما تحت ہے۔ شریعت محمدی میں عورت اور مرد کے حقوق برابر تسلیم کئے گئے ہیں اب اگر اس زمانہ کے مسلمان اپنی شریعت کے برخلاف عورتوں کو قیدی اور لونڈی بنا کر رکھیں تو اس کا الزام ان پر ہے نہ کہ شریعت محمدی پر۔ جن پادریوں نے شریعت محمدی کو بدنام کیا ہے کہ اس شریعت میں عورتوں کو مطلق آزادی نہیں، یہ ان کی نادانی ہے۔ ( مولانا وحید الزماںمرحوم )

حنفیہ کے ہاں مساجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا درست نہیں ہے، اس سلسلہ میں ان کی بڑی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں قالت لوادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساءلمنعھن المسجد کما منعت نساءبنی اءسرائیل اخرجہ الشیخان یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو پا لیتے جو آج عورتوں نے نئی ایجاد کر لی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مساجد سے منع فرمادیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب ابکار المنن فی تنقید آثار السنن، ص :101پر فرماتے ہیں لایترتب علی ذلک تغیر الحکم لانھا علقتہ علی شرط لم یوجد بناءعلی ظن ظفتہ فقالت لو رای لمنع فیقال لم یرد ولم یمنع فاستمر الحکم حتی ان عائشۃ لم تصرح بالمنع وان کان کلامھا یشعر بانھا کانت تری المنع وایضا فقد علم اللہ سبحانہ ما سیحدثن فما اوحی الی نبیہ بمنعھن لو کان ما احدثن یستلزم منعھن من المساجد لکان منعھن من غیرھاکالاسواق اولی وایضا فالاحداث انما وقع من بعض النساءلا من جمیعھن فان تعین المنع فلیکن لم احدثت قالہ الحافظ فی فتح الباری ( ج:1 ص: 471 ) وقال فیہ والاولی ان ینظر الی ما یخشی منہ الفساد فیجتنب لا شارتہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ذلک بمنع التطیب والزینۃ وکذلک التقیید باللیل انتھی اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ اس قول عائشہ کی بنا پر مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم متغیر نہیں ہو سکتا اس لیے کہ حضرت عائشہ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق فرمایا وہ پائی نہیں گئی۔ انہوں نے یہ گمان کیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو منع فرمادیتے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ نہ آپ نے دیکھا نہ منع فرمایا پس حکم نبوی اپنی حالت پر جاری رہا یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگر چہ ان کے کلام سے منع کے لیے اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ عورتوں میں کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے مگر پھر بھی اللہ پا ک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عورتوں کو مساجد سے روکنے کے بارے میں وحی نازل نہیں فرمائی اور اگر عورتوں کی نئی نئی باتوں کی ایجاد پر ان کو مساجد سے روکنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی ان کو ضرور ضرور منع کیا جاتا اور یہ بھی ہے کہ نئے نئے امور کا احداث بعض عورتوں سے وقوع میں آیا نہ سب ہی سے۔ پس اگر منع کرنا ہی متعین ہوتا تو صرف ان ہی عورتوں کے لیے ہونا تھا جو احداث کی مرتکب ہوتی ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایسا فرمایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ان امور پر غور کیا جائے جن سے فساد کا ڈر ہو پس ان سے پرہیز کیا جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورتوں کے لیے خوشبو استعمال کر کے یا زیب وزینت کر کے نکلنا منع ہے، اسی طرح رات کی بھی قید لگائی گئی۔ مقصد یہ کہ حنفیہ کا قول عائشہ رضی اللہ عنہ کی بنا پر عورتوں کو مساجد سے روکنا درست نہیں ہے اور عورتیں قیود شرعی کے تحت مساجد میں جاکر نماز با جماعت میں شرکت کر سکتی ہیں۔ عیدگاہ میں ان کی حاضری کے لیے خصوصی تاکید ہوئی ہے جیسا کہ اپنے مقام پر مفصل بیان کیا گیا ہے۔

عورات بنی اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں: قلت منع النساءالمساجد کان فی بنی اسرائیل ثم اباح اللہ لھن الخروج الی المساجد لامۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ببعض القیود کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا استاذنتکم النساءباللیل الی المساجد فاذنوا لھن وقال لا تمنعوااماءاللہ مساجد اللہ الخ ( حوالہ مذکور ) یعنی میں کہتا ہوں کہ عورتوں کو بنی اسرائیل کے دور میں مساجد سے روک دیا گیا تھا پھر امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں اسے بعض قیود کے ساتھ مباح کر دیا گیا جیسا کہ فرمان رسالت ہے کہ رات میں جب عورتیں تم سے مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں تو تم ان کو اجازت دے دو اور فرمایا کہ اللہ کی مساجد سے اللہ کی بندیوں کو منع نہ کرو جیسا کہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

بخاری شریف میں عبداللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی مرویات بکثرت آئی ہیں اس لیے مناسب ہوگا کہ قارئین کرام کو ان بزرگوں کے مختصر حالات زندگی سے واقف کرا دیا جائے تا کہ ان حضرات کی زندگی ہمارے لیے بھی مشعل راہ بن سکے یہاں بھی متعدد احادیث ان حضرات سے مروی ہیں۔


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے والدہ گرامی کا نام ام فضل لبابہ اور باپ کانام حضرت عباس تھا۔ ہجرت سے صرف تین سال پیشتر اس احاطہ میں پیدا ہوئے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام خاندان والوں کے ساتھ قید محن میں محصور تھے۔ آپ کی والدہ گرامی بہت پیشتر ایمان لا چکی تھیں اور گو آپ کا اسلام لانا فتح مکہ کے بعد کا واقعہ بتایا جاتا ہے تاہم ایک مسلم ماں کی آغوش میں آپ اسلام سے پوری طرح مانوس ہو چکے تھے اور پیدا ہوتے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن آپ کے منہ میں پڑچکاتھا۔ بچپن ہی سے آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ وصحبت کا موقع ملا اور اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے رہے، اسی عمر میں کئی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔
ابھی تیرہ ہی سال کے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی۔ عہد فاروقی میں سن شباب کو پہنچ کر اس عہد کی علمی صحبتوں میں شریک ہوئے اور اپنے جوہر دماغی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے اور برابر ہمت افزائی کرتے پیچیدہ مسائل حل کراتے اور ذہانت کی داد دیتے تھے۔ 17ھ میں یہ عالم ہو گیا تھا کہ جب مہم مصرمیں شاہ افریقہ جرجیہ سے مکالمہ ہوا تو وہ آپ کی قابلیت علمی دیکھ کر متحیر رہ گیا تھا۔ 25 ھ میں آپ امیر الحج بنا کر مکہ معظمہ بھیجے گئے اور آپ کی عدم موجودگی ہی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا۔
علم وفضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ایک وحید العصر اور یگانہ روزگار ہستی تھے۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، شاعری آیات قرآنی کے شان نزول اور ناسخ منسوخ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ ایک دفعہ شقیق تابعی کے بیان کے مطابق حج کے موقع پر سورۃ نور کی تفسیر جو بیان کی وہ اتنی بہتر تھی اگر اسے فارس اور روم کے لوگ سن لیتے تو یقینااسلام لے آتے ( مستدرک حاکم )
قرآن کریم کے فہم میں بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے۔ تفسیر میں آپ ہمیشہ جامع اور قرین عقل مفہوم کو اختیار کرتے تھے۔ سورۃ کوثر میں لفظ کوثر کی مختلف تفاسیر کی گئیں مگر آپ نے اسے خیر کثیر کے مفہوم سے تعبیر کیا۔ قرآن کریم کی آیت پاک لَا تَحسَبَنَّ الَّذِینَ یَفرَحُونَ بِمَا اَتَوا ( آل عمران : 188 ) الخ یعنی“جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور جونہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔” یہ چیز فطرت انسانی کے خلاف ہے اور بہت کم لوگ اس جذبہ سے خالی نظر آتے ہیں۔مسلمان اس پر پریشان تھے۔ آخر مروان نے آپ کو بلا کر پوچھا کہ ہم میں سے کون ہے جو اس جذبہ سے خالی ہے۔ فرمایا ہم لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز بتایا یہ ان اہل کتاب کے متعلق ہے جن سے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امر کے متعلق استفسار کیا، انہوں نے اصل بات کو جو ان کی کتاب میں تھی، چھپا کر ایک فرضی جواب دے دیا اور اس پر خوشنودی کے طالب ہوئے اور اپنی اس چالاکی پر مسرور ہوئے۔ ہمارے نزدیک عام طور پر اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جو لوگ خفیہ طور پر درپے آزار رہتے ہیں بظاہر ہمدرد بن کر جڑیں کاٹتے رہتے ہیں اور منہ پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں خدمت کی،فلاں احسان کیا اور اس پر شکریہ کے طالب ہوتے ہیں اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے اور دل میں کہتے ہیں کہ خوب بے وقوف بنایا وہ لوگ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتے کہ یہ ایک فریب ہے۔

علم حدیث کے بھی اساطین سمجھے جاتے تھے۔ 1660حادیث آپ سے مروی ہیں۔ عرب کے گوشہ میں پہنچ کر خرمن علم کا انبار لگا لیا۔ فقہ وفرائض میں بھی یگانہ حیثیت حاصل تھی۔ ابوبکر محمد بن موسیٰ ( خلیفہ مامون رشید کے پوتے ) نے آپ کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے تھے۔ علم فرائض اور حساب میں بھی ممتاز تھے۔ عربوں میں شاعری لازمہ شرافت سمجھی جاتی تھی بالخصوص قریش کی آتش بیانی تو مشہور تھی۔ آپ شعر گوئی کے ساتھ فصیح بھی تھے۔ تقریر اتنی شیریں ہوتی تھی کہ لوگوں کی زبان سے بے ساختہ مرحبا نکل جاتا تھا۔ غرض یہ کہ آپ اس عہد کے جملہ علوم کے منتہی اور فاضل اجل تھے۔
آپ کا مدرسہ یا حلقہ درس بہت وسیع اور بہت مشہور تھااور دوردور سے لوگ آتے اور اپنی دلچسپی اور مذاق کے مطابق مختلف علوم کی تحصیل کرتے۔ مکان کے سامنے اتنا اژدھام ہوتا تھا کہ آمد ورفت بند ہو جاتی تھی۔ ابو صالح تابعی کا بیان ہے کہ آپ کی علمی مجلس وہ مجلس تھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہے، ہر فن کے طالب وسائل باری باری آتے اور آپ سے تشفی بخش جواب پاکر واپس لوٹتے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک کتابی تعلیم کا رواج نہ ہوا تھااور نہ کتابیں موجود تھیں، علوم وفنون کا انحصار محض حافظہ پر تھا۔ خدا نے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق لوگوں کے حافظے بھی اتنے قوی کر دیئے تھے کہ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایک شخص کو دس دس بیس بیس ہزار احادیث اور اشعار کا یاد کر لینا تو ایک عامۃ الورود واقعہ تھا، سات سات اور آٹھ آٹھ لاکھ احادیث کے حافظ موجود تھے۔ جنہیں حافظہ کے ساتھ فہم ذہانت سے بھی حصہ ملا تھا۔ وہ مطلع انوار بن جاتے تھے۔ آج دو ہزار احادیث کے حافظ بھی بمشکل ہی کہیں نظر آتے ہیں اور ہمیں اس زمانے کے بزرگوں کے حافظہ کی داستانیں افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ سفرو حضر ہر حالت میں فیض رسانی کا سلسلہ جاری تھا اور طالبان ہجوم کا ایک سیلاب امنڈا رہتا تھا۔
نومسلموں کی تعلیم وتلقین کے لیے آپ نے مخصوص ترجمان مقرر کر رکھے تھے تاکہ انہیں اپنے سوال میں زحمت نہ ہو ایران وروم تک سے لوگ جوق در جوق چلے آتے تھے، تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی اور ان میں کثرت ان بزرگوں کی تھی جو حافظہ کے ساتھ ساتھ فہم وفراست اور ذہانت کے بھی حامل تھے۔ علمی مذاکروں کے دن مقرر تھے۔ کسی روز واقعات مغازی کا تذکرہ کرتے۔ کسی دن شعروشاعری کا چرچہ ہوتا۔ کسی روز تفسیر قرآن پر روشنی ڈالتے۔ کسی روز فقہ کا درس دیتے۔ کسی روز ایام عرب کی داستان سناتے۔ بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کی صحبت میں بیٹھتا، اس کی گردن بھی آپ کے کمال علم کے سامنے جھک جاتی۔
تمام جلیل القدر اور ذی مرتبہ صحابہ کرام کو آپ کی کم سنی کے باوجود آپ کے فضل وعلم کا اعتراف تھا۔ جضرت فاروق اعظم آپ کے ذہن رسا کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ حضرت طاؤس یمانی فرمایا کرتے تھے میں نے پانچوں صحابہ کو دیکھا۔ ان میں جب کسی مسئلہ پر اختلاف ہوا تو آخر ی فیصلہ آپ ہی کی رائے پر ہوا۔ حضرت قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کا فتوی سنت نبوی کے مشابہ نہیں دیکھا۔ حضرت مجاہد تابعی کہا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتوی نہیں دیکھا۔ ایک بزرگ تابعی کا بیان ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ سنت کا عالم، صائب الرائے اور بڑا دقیق النظر کسی کو نہیں پایا۔ حضرت ابی بن کعب بھی بہت بڑے تھے۔انہوں نے ابتدا ہی میں آپ کی ذہانت وطباعی دیکھ کر فرمایا تھا کہ ایک روز یہ شخص امت کا زبردست عالم اور منتہی فاضل ہوگا۔
تمام معاصرین آپ کی حد درجہ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سوار ہونے لگے تو حضرت زید بن ثابت نے پہلے توآپ کی رکاب تھام لی اور پھر بڑھ کر ہاتھ چومے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کریم سے غیر معمولی شیفتگی وگرویدگی حاصل تھی۔ جب حضور کی بیماری کی کرب اور وفات کی حالت یاد ہوتی بے قرار ہو جاتے۔ روتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ بچپن ہی سے خدمت نبوی میں مسرت حاصل ہونے لگی اور خودحضور بھی آپ سے خدمت لے لےا کرتے تھے۔ احترام کی یہ حالت تھی کہ کم سنی کے باوجود نماز میں بھی آپ کے برابر کھڑا ہونا گستاخی تصور کرتے تھے اور بے حد ادب ملحوظ رکھتے تھے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی تھی خدا وند ابن عباس کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ ایک مرتبہ اور آپ کے ادب سے خوش ہو کر آپ کے لیے فہم وفراست کی دعا عطا فرمائی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ جوان ہو کر سرآمدروزگار بن گئے اور مطلع اخلاق روشن ہوگیا۔ صحابہ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر وشراور قضا وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نابینا ہو چکے تھے مگر جب معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے پاس لے چلو۔ عرض کی کیا کروگے؟ فرمایا ناک کاٹ لوں گا اور گردن ہاتھ میں آگئی تو اسے توڑ دوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ “تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے” میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بری رائے یہیں تک محدود نہ رہے گی بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے بھی منکر ہو جائیں گے۔
یوں تو آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اہم ودلکش ہے لیکن جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی طرف سے برائی و مخاصمت کا ظہور اس کی حقیقی عظمت اور خوبیوں کے اعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خلافت کا دعوی کیا اور آپ کو بھی اپنی بیعت پر مجبور کر نے کی سعی کی، اس زور وشور کے ساتھ کہ جب آپ نے اس سے انکار کیا تو یہی نہیں کہ آپ کو زندہ آگ میں جلا ڈالنے کی دھمکی دی بلکہ آپ کے کاشانہ معلی کے ارد گرد خشک لکڑیوں کے انبار بھی اسی مقصد سے لگوادیئے اور بمشکل آپ کی جانبری ہو سکی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہی کی بدولت جوار حرم چھوڑ کر آپ کو طائف نقل وطن کرنا پڑی۔ ظاہر ہے کہ یہ زیادتیاں تھیں اور آپ کو ان کے ہاتھ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی تھی لیکن جب ابن ملیکہ نے آپ سے کہا ہے کہ لوگوں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت شروع کر دی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اندر آخر وہ کون سی خوبیاں اور مفاخر ہیں جن کی بنا پر انہیں ادعائے خلافت کی جرات ہوئی ہے اور اتنے بڑے حوصلہ سے کام لیا ہے۔ فرمایا:“یہ تم نے کیاکہا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مفاخر کا حامل کون ہو سکتا ہے۔ باپ وہ ہیں جو حواری رسول کے معزز لقب سے ملقب تھے۔ ماں اسماءذات النطاق تھیں۔ نانا وہ ہیں جن کا اسم گرامی ابو بکر رضی اللہ عنہ اور“لقب”رفیق غار ہے۔ان کی خالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ تھیں اور ان کے والد محترم کی پھوپھی ام المؤمنین حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ حرم محترم رسول اکرم تھیں اور دادی حضرت صفیہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں، یہ تو ہیں ان کے خاندانی مفاخر۔ ذاتی حیثیت سے بہت بلند اور بے حد ممتاز ہیں، قاری قرآن ہیں، بے مثل بہادر اور عدیم النظیر مدبر ہیں، وہاۃ العرب میں سے ہیں۔بہت پاکباز ہیں۔ ان کی نماز یں پورے خشوع وخضوع کی نمازیں ہیں۔ پھر ان سے زیادہ خلافت کا مستحق کون ہو سکتا ہے، وہ کھڑے ہوئے ہیں اور بجا طور پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کا بیعت لینا بجا ہے، خدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو یہ ایک عزیزانہ احسان ہوگا اور میری پرورش کریں گے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔ 67 ھ میں آپ نے وفات پائی۔ انتقال کے وقت آیات کریمہ ( یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّۃُ ) ( الفجر: 27 ) کے مصداق ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما!
حضرت فاروق اعظم کے یگانہ روزگار صاحبزادے اور اپنے عہد کے زبردست جید عالم تھے۔باپ کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ زمانہ بعثت کے دوسرے سال کتم عدم سے پردہ وجود پر جلوہ افروز ہوئے۔ ہوش سنبھالا تو گھر کے دروبام اسلام کی شعاعوں سے منور تھے۔ باپ کے ساتھ غیر شعوری طور پر اسلام قبول کیا۔ چونکہ مکہ میں ظلم وطغیانی کی گرج برابر بڑھتی جا رہی تھی اس لیے اپنے خاندان والوں کے ساتھ آپ بھی ہجرت کر گئے۔ تیرہ برس ہی کی عمرتھی کہ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کم سنی کی وجہ سے واپس کر دیئے گئے۔ اگلے سال غزوہ احد میں بھی اسی بنا پر شریک نہ کئے گئے۔ البتہ پندرہ سال کی عمر ہوجانے پر غزوہ احزاب میں ضرور شریک ہوئے جو 5 ھ میں وقوع پذیر ہواتھا۔ 6ھ میں بیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا۔غزوہ خیبر میں بھی بڑی جانبازی کے ساتھ لڑے۔ اسی سفر میں حلال وحرام کے متعلق جو احکام دربار رسالت سے صادر ہوئے تھے آپ ان کے راوی ہیں۔ اس کے بعد فتح مکہ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک رہے۔ غزوہ تبوک میں جارہے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر کی طرف سے گزرتے ہوئے جہاں قدیم عاد وثمود کی آبادیوں کے کھنڈرات تھے، فرمایا کہ:
“ان لوگوں کے مساکن میں داخل نہ ہو جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر ظلم کیا کہ مبادا تم بھی اس عذاب میں مبتلا ہو جاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے اور اگر گزرنا ہی ہے تو یہ کرو کہ خوف خدا اور خشیت الٰہی سے روتے ہوئے گزرجاؤ۔”

جوش جہاد!عہد فاروقی میں جو فتوحات ہوئیں اس میں آپ سپاہیانہ حیثیت سے برابر لڑتے رہے، جنگ نہاوند میں بیمار ہوئے تو آپ نے ازخود یہ کیا“پیاز کو” دوا میں پکاتے تھے اور جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اسے نکال کر دواپی لیتے تھے۔ غالباً پیچش کا مرض لاحق ہوگیا ہو گا۔ شام ومصر کی فتوحات میں بھی مجاہدانہ حصے لیتے رہے۔ لیکن انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی موقع نہ ملا کہ حضرت فاروق اعظم اپنے خاندان وقبیلہ کے افراد کو الگ رکھتے رہے۔ عہد عثمانی میں آپ کی قابلیت کے مدنظر آپ کو عہد قضا پیش کیا گیا لیکن آپ نے یہ فرماکر انکار کر دیا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں جاہل، عالم مائل الی الدنیا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو صحیح اجتہاد کرتے ہیں انہیں نہ عذاب ہے نہ ثواب اور صاف کہہ دیا کہ مجھے کہیں عامل نہ بنائیے اس کے بعد امیر المومنین نے بھی اصرار نہ کیا البتہ اس عہد کے معرکہ ہائے جہاد میں ضرور شریک ہوتے رہے۔ تیونس،الجزائر، مراکش، خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں لڑے۔ جس قدر اصب اور عہدوں کی قبولیت سے گھبراتے تھے جہادوں میں اسی قدر جوش وخروش اور شوق ودل بستگی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔
آخر عہد عثمانی میں جو فتنے رونما ہوئے آپ ان سے بالکل کنارہ کش رہے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کی خدمت میں خلافت کا اعزاز پیش کیا اور عدم قبولیت کے سلسلے میں قتل کی دھمکی دی گئی لیکن آپ نے فتنوں کے نشو وارتقا کے پیش نظر اس عظیم الشان اعزاز سے بھی انکار کر دیااور کوئی اعتنا نہ کی۔ اس کے بعد آپ نے اس شرط پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ وہ خانہ جنگیوں میں کوئی حصہ نہ لیں گے۔ چنانچہ جنگ جمل وصفین میں شرکت نہ کی۔ تاہم متاسف تھے اور کہا کرتے تھے کہ: “گو میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا لیکن حق پر مقابلہ بھی افضل ہے” ( مستدرک )
فیصلہ ثالثی سننے کے لیے دومۃ الجندل میں تشریف لے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور شوق جہاد میں اس عہد کے تمام معرکوں میں نیز مہم قسطنطنیہ میں شامل ہوئے۔ یزید کے ہاتھ پر فتنہ اختلاف امت سے دامن بچائے رکھنے کے لیے بلا تامل بیعت کر لی اور فرمایا یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر یہ شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔ آج کل لوگ فتنوں سے بچنا تو درکنار اپنے مقاصد ذاتی کے لیے فتنے پیدا کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کے جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ پھر یہ بیعت حقیقتاً نہ کسی خوف کی بنا پر تھی اور نہ آپ کسی لالچ میں آئے تھے۔ طنطنہ اور حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ امر حق کے مقابلہ پر کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)

باب : عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 874
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا ابن عيينة، عن إسحاق، عن أنس، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم في بيت أم سليم، فقمت ويتيم خلفه، وأم سليم خلفنا‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میری ماں ) ام سلیم کے گھر میں نماز پڑھائی۔ میں اور یتیم مل کر آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے تھیں۔

حدیث نمبر : 875
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن هند بنت الحارث، عن أم سلمة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم قام النساء حين يقضي تسليمه، وهو يمكث في مقامه يسيرا قبل أن يقوم‏.‏ قالت نرى ـ والله أعلم ـ أن ذلك كان لكى ينصرف النساء قبل أن يدركهن الرجال‏.‏
ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے زہری سے بیان کیا، ان سے ہند بن ت حارث نے بیان کیا، ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ کے سلام پھیرتے ہی عورتیں جانے کے لیے اٹھ جاتی تھیں اور انحضور تھوڑی دیر ٹھہر ے رہتے کھڑے نہ ہوتے۔ زہری نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں، آگے اللہ جانے، یہ اس لیے تھا تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے نکل جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
(کتاب جمعہ کے بیان میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : لفظ جمعہ میم کے ساکن کے ساتھ اور جمعہ میم کے فتح کے ساتھ ہر دو طرح سے بولا گیا ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں قال فی الفتح قد اختلف فی تسمیۃ الیوم بالجمعۃ مع الاتفاق علی انہ کان لیسمی فی الجاہلیۃ والعروبۃ بفتح العین وضم الراءوبالوحدۃ الخ یعنی جمعہ کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عہد جاہلیت میں اس کو یو عروبہ کہا کرتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اس دن مخلوق کی خلقت تکمیل کو پہنچی اس لیے اسے جمعہ کہا گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تخلیق آدم کی تکمیل اسی دن ہوئی اس وجہ سے اسے جمعہ کہا گیا۔ ابن حمید میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت اسعد بن زرارہ کے ساتھ انصار نے جمع ہوکر نماز ادا کی اور حضرت اسعد بن زرارہ نے ان کو وعظ فرمایا پس اس کا نام انہوں نے جمعہ رکھ دیا کیوں کہ وہ سب اس میں جمع ہوئے یہ بھی ہے کہ کعب بن لوی اس دن اپنی قوم کو حرم شریف میں جمع کر کے ان کو وعظ کیاکرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ اس حرم سے ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ یوم عروبہ کا نام سب سے پہلے یوم جمعہ کعب بن لوی ہی نے رکھا۔ یہ دن بڑی فضیلت رکھتا ہے اس میں ایک ساعت ایسی ہے جس میں جو نیک دعاکی جائے قبول ہوتی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی روش کے مطابق نماز جمعہ کی فرضیت کے لیے آیت قرآنی سے استدلال فرمایا جیسا کہ باب ذیل سے ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری فرماتے ہیں وذکر ابن قیم فی الھدی ص 118, 102 ج 1 یوم الجمعۃ ثلاثا وثلاثین خصوصیۃ ذکر بعضھا الحافظ فی الفتح ملخصا من احب الوقوف علیھا فلیرجع الیھا ( مرعاۃ ج 2 ص: 272 ) یعنی جمعہ کے دن کے لیے 33 خصوصیات ہیں جیسا کہ علامہ ابن قیم نے ذکرفرمایا ہے کچھ ان میں سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کی ہیں، تفصیلات کے شائقین ان کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

باب : جمعہ کی نماز فرض ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ
‏‏إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع ذلكم خير لكم إن كنتم تعلمون‏‏
“ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کی یاد کے لیے چل کھڑے ہو اور خرید وفروخت چھوڑ دو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو ”۔ ( آیت میں ) فاسعوا فامضوا کے معنی میں ہے ( یعنی چل کھڑے ہو )

تشریح : ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اچانک تجارتی قافلہ اموال تجارت لے کر مدینہ میں آگیا اور اطلاع پاکر لوگ اس قافلے سے مال خرید نے کے لیے جمعہ کا خطبہ ونماز چھوڑ کر چلے گئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس وقت عتاب کے لیے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر یہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تو مدینہ والوں پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔” نہ جانے والوں میں حضرات شیخین بھی تھے ( ابن کثیر ) اسی واقعہ کی بنا پر خرید وفروخت چھوڑنے کا بیان ایک اتفاقی چیز ہے جو شان نزول کے اعتبار سے سامنے آئی، اس سے یہ استدلال کہ جمعہ صرف وہاں فرض ہے جہاں خرید وفروخت ہوتی ہو یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہاں جمعہ فرض ہے وہ جگہ شہر ہو یا دیہات تفصیل آگے آرہی ہے۔

حدیث نمبر : 876
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال حدثنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج، مولى ربيعة بن الحارث حدثه أنه، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ نحن الآخرون السابقون يوم القيامة، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا، ثم هذا يومهم الذي فرض عليهم فاختلفوا فيه، فهدانا الله، فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدا والنصارى بعد غد‏"‏‏.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی۔ یہی ( جمعہ ) ان کا بھی دن تھا جو تم پر فرض ہوا ہے۔ لیکن ان کا اس کے بارے میں اختلاف ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا اس لیے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاریٰ تیسرے دن۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ

باب : جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟

حدیث نمبر : 877
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی اور ان کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔

حدیث نمبر : 878
حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء، قال أخبرنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن عمر بن الخطاب، بينما هو قائم في الخطبة يوم الجمعة إذ دخل رجل من المهاجرين الأولين من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فناداه عمر أية ساعة هذه قال إني شغلت فلم أنقلب إلى أهلي حتى سمعت التأذين، فلم أزد أن توضأت‏.‏ فقال والوضوء أيضا وقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر بالغسل‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماءنے امام مالک سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے صحابہ مہاجرین میں سے ایک بزرگ تشریف لائے ( یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا بھلا یہ کون سا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں مشغول ہو گیا تھا اور گھر واپس آتے ہی اذان سنی، اس لیے میں وضو سے زیادہ اور کچھ ( غسل ) نہ کرسکا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا وضو بھی۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لیے فرماتے تھے۔

تشریح : یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تاخیرمیں آنے پر ٹوکا۔ آپ نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں غسل بھی نہ کر سکا بلکہ صرف وضوکر کے چلا آیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویا آپ نے صرف دیر میں آنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک دوسری فضیلت غسل کو بھی چھوڑ آئے ہیں۔ اس موقع پر قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے غسل کے لیے پھر نہیں کہا، ورنہ اگر جمعہ کے دن غسل فرض یا واجب ہوتا تو حضرت عمر کو ضرور کہنا چاہیے تھااور یہی وجہ تھی کہ دوسرے بزرگ صحابی جن کا نام دوسری روایتوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آتا ہے، نے بھی غسل کو ضروری نہ سمجھ کر صرف وضو پر اکتفا کیا تھا۔ ہم اس سے پہلے بھی جمعہ کے دن غسل پر ایک نوٹ لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران امام امر ونہی کر سکتا ہے۔ لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ انہیں خاموشی اور اطمینان کے ساتھ خطبہ سننا چاہیے۔ ( تفہیم البخاری )

حدیث نمبر : 879
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں مالک نے صفوان بن سلیم کے واسطہ سے خبر دی، انہیں عطاء بن یسار نے، انہیں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ

باب : جمعہ کے دن نماز کے لیے خوشبو لگانا

حدیث نمبر : 880
حدثنا علي، قال حدثنا حرمي بن عمارة، قال حدثنا شعبة، عن أبي بكر بن المنكدر، قال حدثني عمرو بن سليم الأنصاري، قال أشهد على أبي سعيد قال أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الغسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم، وأن يستن وأن يمس طيبا إن وجد‏"‏‏. ‏ قال عمرو أما الغسل فأشهد أنه واجب، وأما الاستنان والطيب فالله أعلم أواجب هو أم لا، ولكن هكذا في الحديث‏.‏ قال أبو عبد الله هو أخو محمد بن المنكدر ولم يسم أبو بكر هذا‏.‏ رواه عنه بكير بن الأشج وسعيد بن أبي هلال وعدة‏.‏ وكان محمد بن المنكدر يكنى بأبي بكر وأبي عبد الله‏.‏
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حرمی بن عمارہ نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے ابوبکر بن منکدر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن سلیم انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں گواہ ہوں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر میسر ہو، ضروری ہے۔ عمرو بن سلیم نے کہا کہ غسل کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ واجب ہے لیکن مسواک اور خوشبو کا علم اللہ تعالیٰ کو زیادہ ہے کہ وہ بھی واجب ہیں یا نہیں۔ لیکن حدیث میں اسی طرح ہے۔ ابوعبد اللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا کہ ابوبکر بن منکدر محمد بن منکدر کے بھائی تھے اور ان کا نام معلوم نہیں ( ابوبکر ان کی کنیت تھی ) بکیر بن اثج۔ سعید بن ابی ہلال اور بہت سے لوگ ان سے روایت کرتے ہیں۔ اور محمد بن منکدر ان کے بھائی کی کنیت ابو بکر اور ابو عبداللہ بھی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی نماز کو جانے کی فضیلت

حدیث نمبر : 881
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سمى، مولى أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن، ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابو بکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے خبر دی، جنہیں ابوصالح سمان نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی ( اگراول وقت مسجد میں پہنچا ) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو ملائکہ خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

تشریح : اس حدیث میں ثواب کے پانچ درجے بیان کئے گئے ہیں جمعہ میں حاضری کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور سب سے پہلا ثواب اسی کو ملے گا جو اول وقت جمعہ کے لیے مسجد میں آجائے۔ سلف امت کا اسی پر عمل تھا کہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد گھر جاتے، پھر کھانا کھا تے اور قیلولہ کرتے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو ثواب لکھنے والے فرشتے بھی مسجد میں آجاتے اور سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مرغ کے ساتھ انڈے کا بھی ذکر ہے اسے حقیقت پر محمول کیا جائے تو انڈے کی بھی حقیقی قربانی جا ئز ہوگی جس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ثابت ہو اکہ یہاں مجازاً قربانی کا لفظ بولاگیا ہے جو تقرب الی اللہ کے معنی میں ہے ( کما سیاتی
 
Top