Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجالائے
وإذا سعى على غير وضوء بين الصفا والمروة.
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کرلی تو کیا حکم ہے؟
تشریح : باب کی حدیثوں سے پہلا حکم تو ثابت ہوتاہے لیکن دوسرے حکم کاان میں ذکر نہیں ہے اور شاید یہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیاہے جس میں امام مالک رحمہ اللہ سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔ ابن عبد البر نے کہااس زیادت کو صرف یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری نے نقل کیا ہے۔ اورابن ابی شیبہ نے باسناد صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ حیض والی عورت سب کا م کرے مگر بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف نے کرے۔ ابن بطال نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرا مطلب باب کی حدیث سے یوں نکالا کہ اس میں یوں ہے سب کام کرے جیسے حاجی کرتے ہیں صرف بیت اللہ کاطواف نہ کرے، تو معلوم ہوا کہ صفا مروہ کا طواف بے وضو اور بے طہارت درست ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ اگر طواف کے بعد عورت کو حیض آجائے صفا مروہ کی سعی سے پہلے تو صفا مروہ کی سعی کرے۔ وحیدی )
حدیث نمبر : 1650
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت قدمت مكة وأنا حائض، ولم أطف بالبيت، ولا بين الصفا والمروة، قالت فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "افعلي كما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے باپ نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہوں نے نے فرمایا کہ میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لئے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ( ارکان حج ) ادا کرلوہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے سے پہلے نہ کرنا۔
حدیث نمبر : 1651
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب،. قال وقال لي خليفة حدثنا عبد الوهاب، حدثنا حبيب المعلم، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال أهل النبي صلى الله عليه وسلم هو وأصحابه بالحج، وليس مع أحد منهم هدى، غير النبي صلى الله عليه وسلم وطلحة، وقدم علي من اليمن، ومعه هدى فقال أهللت بما أهل به النبي صلى الله عليه وسلم. فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه أن يجعلوها عمرة، ويطوفوا، ثم يقصروا ويحلوا، إلا من كان معه الهدى، فقالوا ننطلق إلى منى، وذكر أحدنا يقطر، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فقال "لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت، ولولا أن معي الهدى لأحللت". وحاضت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فنسكت المناسك كلها، غير أنها لم تطف بالبيت، فلما طهرت طافت بالبيت. قالت يا رسول الله تنطلقون بحجة وعمرة، وأنطلق بحج فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر أن يخرج معها إلى التنعيم، فاعتمرت بعد الحج.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب معلم نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے او ر ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا۔ آنحضور رضی اللہ عنہ او رطلحہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تھے او ران کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ( سب لوگ اپنے حج کے احرام کو ) عمرہ کا کرلیں۔ پھر طواف اور سعی کے بعد بال ترشوا لیں اور احرام کھول ڈالیں لیکن وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم منیٰ میں اس طرح جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا، اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تومیں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتااو ر جب قربانی کا جانور ساتھ نہ ہوتا تو میں بھی ( عمرہ او رحج کے درمیان ) احرام کھول ڈالتا او رعائشہ رضی اللہ عنہ ( اس حج میں ) حائضہ ہوگئی تھیں۔ اس لئے انہوں نے بیت اللہ کہ طواف کے سوا اور دوسرے ارکان حج ادا کئے۔ پھر پاک ہولیں تو طواف بھی کیا۔ انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ سب لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے جارہے ہیں لیکن میں نے صرف حج ہی کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم لئے جائیں ( اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ) اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہ نے حج کے بعد عمرہ کیا۔
حدیث نمبر : 1652
حدثنا مؤمل بن هشام، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن حفصة، قالت كنا نمنع عواتقنا أن يخرجن، فقدمت امرأة فنزلت قصر بني خلف، فحدثت أن أختها كانت تحت رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة غزوة، وكانت أختي معه في ست غزوات، قالت كنا نداوي الكلمى ونقوم على المرضى. فسألت أختي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت هل على إحدانا بأس إن لم يكن لها جلباب أن لا تخرج قال "لتلبسها صاحبتها من جلبابها، ولتشهد الخير، ودعوة المؤمنين". فلما قدمت أم عطية ـ رضى الله عنها ـ سألنها ـ أو قالت سألناها ـ فقالت وكانت لا تذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قالت بأبي. فقلنا أسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كذا وكذا قالت نعم بأبي. فقال "لتخرج العواتق ذوات الخدور ـ أو العواتق وذوات الخدور ـ والحيض، فيشهدن الخير، ودعوة المسلمين، ويعتزل الحيض المصلى". فقلت الحائض. فقالت أو ليس تشهد عرفة، وتشهد كذا وتشهد كذا
ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر اسیک خاتون آئیں او ربنی خلف کے محل میں ( جو بصرے میں تھا ) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن ( ام عطیہ رضی اللہ عنہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے گھرمیں تھیں۔ ان کے شوہر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے او رمیری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم ( میدان جنگ میں ) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیںاور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عید گاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہئے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہئے۔ پھر جب امام عطیہ رضی اللہ عنہ خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہو ںنے بیان کیا ام عطیہ رضی اللہ عنہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں او رحائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں؟ انہو ںنے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں؟ ( پھر عید گاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے )
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھاکیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔ بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔ یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے ( وحیدی )
ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف:
کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔ خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بدہ ترین جر م ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔ اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔ جیسا کہ ارشادِہے یحرفون الکلم عن مواضعہ ( المائدہ:13 ) یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماءیہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماءاسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔
اصل مسئلہ!
عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عیدگاہ جایا کرتی تھیں۔ بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماءاحناف نے عورتوں کا میدان عیدگاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔ بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں ردو بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔
اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔ ” تفہیم البخاری“ ہمارے سامنے ہے۔ جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔ مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔
یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر ( عیدگاہ میں ) مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے ” اگر ہمارے پاس چادر ( برقعہ ) نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم ( مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟“ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتاکہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔ اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اللہ توفیق دے کہ علماءکرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔ وبا للہ التوفیق۔
باب : حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجالائے
وإذا سعى على غير وضوء بين الصفا والمروة.
اور اگر کسی نے صفا اور مروہ کی سعی بغیر وضو کرلی تو کیا حکم ہے؟
تشریح : باب کی حدیثوں سے پہلا حکم تو ثابت ہوتاہے لیکن دوسرے حکم کاان میں ذکر نہیں ہے اور شاید یہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیاہے جس میں امام مالک رحمہ اللہ سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔ ابن عبد البر نے کہااس زیادت کو صرف یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری نے نقل کیا ہے۔ اورابن ابی شیبہ نے باسناد صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ حیض والی عورت سب کا م کرے مگر بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف نے کرے۔ ابن بطال نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرا مطلب باب کی حدیث سے یوں نکالا کہ اس میں یوں ہے سب کام کرے جیسے حاجی کرتے ہیں صرف بیت اللہ کاطواف نہ کرے، تو معلوم ہوا کہ صفا مروہ کا طواف بے وضو اور بے طہارت درست ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ اگر طواف کے بعد عورت کو حیض آجائے صفا مروہ کی سعی سے پہلے تو صفا مروہ کی سعی کرے۔ وحیدی )
حدیث نمبر : 1650
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت قدمت مكة وأنا حائض، ولم أطف بالبيت، ولا بين الصفا والمروة، قالت فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "افعلي كما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے باپ نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہوں نے نے فرمایا کہ میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لئے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ( ارکان حج ) ادا کرلوہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے سے پہلے نہ کرنا۔
حدیث نمبر : 1651
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب،. قال وقال لي خليفة حدثنا عبد الوهاب، حدثنا حبيب المعلم، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال أهل النبي صلى الله عليه وسلم هو وأصحابه بالحج، وليس مع أحد منهم هدى، غير النبي صلى الله عليه وسلم وطلحة، وقدم علي من اليمن، ومعه هدى فقال أهللت بما أهل به النبي صلى الله عليه وسلم. فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه أن يجعلوها عمرة، ويطوفوا، ثم يقصروا ويحلوا، إلا من كان معه الهدى، فقالوا ننطلق إلى منى، وذكر أحدنا يقطر، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فقال "لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت، ولولا أن معي الهدى لأحللت". وحاضت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فنسكت المناسك كلها، غير أنها لم تطف بالبيت، فلما طهرت طافت بالبيت. قالت يا رسول الله تنطلقون بحجة وعمرة، وأنطلق بحج فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر أن يخرج معها إلى التنعيم، فاعتمرت بعد الحج.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب معلم نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے او ر ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا۔ آنحضور رضی اللہ عنہ او رطلحہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تھے او ران کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ( سب لوگ اپنے حج کے احرام کو ) عمرہ کا کرلیں۔ پھر طواف اور سعی کے بعد بال ترشوا لیں اور احرام کھول ڈالیں لیکن وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم منیٰ میں اس طرح جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا، اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تومیں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتااو ر جب قربانی کا جانور ساتھ نہ ہوتا تو میں بھی ( عمرہ او رحج کے درمیان ) احرام کھول ڈالتا او رعائشہ رضی اللہ عنہ ( اس حج میں ) حائضہ ہوگئی تھیں۔ اس لئے انہوں نے بیت اللہ کہ طواف کے سوا اور دوسرے ارکان حج ادا کئے۔ پھر پاک ہولیں تو طواف بھی کیا۔ انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ سب لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے جارہے ہیں لیکن میں نے صرف حج ہی کیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم لئے جائیں ( اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھیں ) اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہ نے حج کے بعد عمرہ کیا۔
حدیث نمبر : 1652
حدثنا مؤمل بن هشام، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن حفصة، قالت كنا نمنع عواتقنا أن يخرجن، فقدمت امرأة فنزلت قصر بني خلف، فحدثت أن أختها كانت تحت رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة غزوة، وكانت أختي معه في ست غزوات، قالت كنا نداوي الكلمى ونقوم على المرضى. فسألت أختي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت هل على إحدانا بأس إن لم يكن لها جلباب أن لا تخرج قال "لتلبسها صاحبتها من جلبابها، ولتشهد الخير، ودعوة المؤمنين". فلما قدمت أم عطية ـ رضى الله عنها ـ سألنها ـ أو قالت سألناها ـ فقالت وكانت لا تذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قالت بأبي. فقلنا أسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كذا وكذا قالت نعم بأبي. فقال "لتخرج العواتق ذوات الخدور ـ أو العواتق وذوات الخدور ـ والحيض، فيشهدن الخير، ودعوة المسلمين، ويعتزل الحيض المصلى". فقلت الحائض. فقالت أو ليس تشهد عرفة، وتشهد كذا وتشهد كذا
ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر اسیک خاتون آئیں او ربنی خلف کے محل میں ( جو بصرے میں تھا ) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن ( ام عطیہ رضی اللہ عنہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے گھرمیں تھیں۔ ان کے شوہر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے او رمیری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم ( میدان جنگ میں ) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیںاور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عید گاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہئے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہئے۔ پھر جب امام عطیہ رضی اللہ عنہ خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہو ںنے بیان کیا ام عطیہ رضی اللہ عنہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں او رحائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں؟ انہو ںنے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں؟ ( پھر عید گاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے )
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھاکیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔ بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔ یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے ( وحیدی )
ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف:
کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔ خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔ اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بدہ ترین جر م ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔ اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔ جیسا کہ ارشادِہے یحرفون الکلم عن مواضعہ ( المائدہ:13 ) یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماءیہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماءاسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔
اصل مسئلہ!
عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عیدگاہ جایا کرتی تھیں۔ بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماءاحناف نے عورتوں کا میدان عیدگاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔ بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں ردو بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔
اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔ ” تفہیم البخاری“ ہمارے سامنے ہے۔ جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔ مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔
یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر ( عیدگاہ میں ) مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے ” اگر ہمارے پاس چادر ( برقعہ ) نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم ( مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟“ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتاکہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔ دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔ اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ اللہ توفیق دے کہ علماءکرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔ وبا للہ التوفیق۔