Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : میدان عرفات میں خطبہ مختصر پڑھنا
حدیث نمبر : 1663
حدثنا عبد الله بن مسلمة، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن عبد الملك بن مروان، كتب إلى الحجاج أن يأتم، بعبد الله بن عمر في الحج، فلما كان يوم عرفة جاء ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ وأنا معه حين زاغت الشمس أو زالت، فصاح عند فسطاطه أين هذا فخرح إليه فقال ابن عمر الرواح. فقال الآن قال نعم. قال أنظرني أفيض على ماء. فنزل ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ حتى خرج، فسار بيني وبين أبي. فقلت إن كنت تريد أن تصيب السنة اليوم فاقصر الخطبة وعجل الوقوف. فقال ابن عمر صدق.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبدالملک بن مروان (خلیفہ ) نے حجاج کو لکھا کہ حج کے کاموں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرے۔ جب عرفہ کا دن آیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، سورج ڈھل چکا تھا، آپ نے حجاج کے ڈیرے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا حجاج کہا ہے؟ حجاج باہر نکلا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا چل جلدی کر وقت ہو گیا۔ حجاج نے کہا ابھی سے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں۔ حجاج بولا کہ پھر تھوڑی مہلت دے دیجئے، میں ابھی غسل کرکے آتا ہوں۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنی سواری سے ) اتر گئے۔ حجاج باہر نکلا اور میرے اور میرے والد (ابن عمر ) کے بیچ میں چلنے لگا، میں نے اس سے کہا کہ آج اگر سنت پر عمل کی خواہش ہے تو خطبہ مختصر پڑھ اور وقوف میں جلدی کر۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔
خطبہ مختصر پڑھنا خطیب کی سمجھ داری کی دلیل ہے، عیدین ہو یا جمعہ، پھر حج کا خطبہ تو اور بھی مختصر ہونا چاہئے کہ یہی سنت نبوی ہے۔ جو محترم علمائے کرام خطبات جمعہ وعیدین میں طویل طویل خطبات دیتے ہیں ان کو سنت نبوی کا لحاظ رکھنا چاہئے جو ان کی سمجھ بوجھ کی دلیل ہوگی۔ و باللہ التوفیق
باب : میدان عرفات میں خطبہ مختصر پڑھنا
حدیث نمبر : 1663
حدثنا عبد الله بن مسلمة، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن عبد الملك بن مروان، كتب إلى الحجاج أن يأتم، بعبد الله بن عمر في الحج، فلما كان يوم عرفة جاء ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ وأنا معه حين زاغت الشمس أو زالت، فصاح عند فسطاطه أين هذا فخرح إليه فقال ابن عمر الرواح. فقال الآن قال نعم. قال أنظرني أفيض على ماء. فنزل ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ حتى خرج، فسار بيني وبين أبي. فقلت إن كنت تريد أن تصيب السنة اليوم فاقصر الخطبة وعجل الوقوف. فقال ابن عمر صدق.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبدالملک بن مروان (خلیفہ ) نے حجاج کو لکھا کہ حج کے کاموں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرے۔ جب عرفہ کا دن آیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، سورج ڈھل چکا تھا، آپ نے حجاج کے ڈیرے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا حجاج کہا ہے؟ حجاج باہر نکلا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا چل جلدی کر وقت ہو گیا۔ حجاج نے کہا ابھی سے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں۔ حجاج بولا کہ پھر تھوڑی مہلت دے دیجئے، میں ابھی غسل کرکے آتا ہوں۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنی سواری سے ) اتر گئے۔ حجاج باہر نکلا اور میرے اور میرے والد (ابن عمر ) کے بیچ میں چلنے لگا، میں نے اس سے کہا کہ آج اگر سنت پر عمل کی خواہش ہے تو خطبہ مختصر پڑھ اور وقوف میں جلدی کر۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔
خطبہ مختصر پڑھنا خطیب کی سمجھ داری کی دلیل ہے، عیدین ہو یا جمعہ، پھر حج کا خطبہ تو اور بھی مختصر ہونا چاہئے کہ یہی سنت نبوی ہے۔ جو محترم علمائے کرام خطبات جمعہ وعیدین میں طویل طویل خطبات دیتے ہیں ان کو سنت نبوی کا لحاظ رکھنا چاہئے جو ان کی سمجھ بوجھ کی دلیل ہوگی۔ و باللہ التوفیق