• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : میدان عرفات میں خطبہ مختصر پڑھنا

حدیث نمبر : 1663
حدثنا عبد الله بن مسلمة، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن عبد الملك بن مروان، كتب إلى الحجاج أن يأتم، بعبد الله بن عمر في الحج، فلما كان يوم عرفة جاء ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ وأنا معه حين زاغت الشمس أو زالت، فصاح عند فسطاطه أين هذا فخرح إليه فقال ابن عمر الرواح‏.‏ فقال الآن قال نعم‏.‏ قال أنظرني أفيض على ماء‏.‏ فنزل ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ حتى خرج، فسار بيني وبين أبي‏.‏ فقلت إن كنت تريد أن تصيب السنة اليوم فاقصر الخطبة وعجل الوقوف‏.‏ فقال ابن عمر صدق‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبدالملک بن مروان (خلیفہ ) نے حجاج کو لکھا کہ حج کے کاموں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرے۔ جب عرفہ کا دن آیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا، سورج ڈھل چکا تھا، آپ نے حجاج کے ڈیرے کے پاس آکر بلند آواز سے کہا حجاج کہا ہے؟ حجاج باہر نکلا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا چل جلدی کر وقت ہو گیا۔ حجاج نے کہا ابھی سے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں۔ حجاج بولا کہ پھر تھوڑی مہلت دے دیجئے، میں ابھی غسل کرکے آتا ہوں۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (اپنی سواری سے ) اتر گئے۔ حجاج باہر نکلا اور میرے اور میرے والد (ابن عمر ) کے بیچ میں چلنے لگا، میں نے اس سے کہا کہ آج اگر سنت پر عمل کی خواہش ہے تو خطبہ مختصر پڑھ اور وقوف میں جلدی کر۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سالم سچ کہتا ہے۔

خطبہ مختصر پڑھنا خطیب کی سمجھ داری کی دلیل ہے، عیدین ہو یا جمعہ، پھر حج کا خطبہ تو اور بھی مختصر ہونا چاہئے کہ یہی سنت نبوی ہے۔ جو محترم علمائے کرام خطبات جمعہ وعیدین میں طویل طویل خطبات دیتے ہیں ان کو سنت نبوی کا لحاظ رکھنا چاہئے جو ان کی سمجھ بوجھ کی دلیل ہوگی۔ و باللہ التوفیق
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : میدان عرفات میں ٹھہرنے کا بیان

حدیث نمبر : 1664
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عمرو، حدثنا محمد بن جبير بن مطعم، عن أبيه، كنت أطلب بعيرا لي‏.‏ وحدثنا مسدد، حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع محمد بن جبير، عن أبيه، جبير بن مطعم قال أضللت بعيرا لي، فذهبت أطلبه يوم عرفة، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم واقفا بعرفة، فقلت هذا والله من الحمس فما شأنه ها هنا
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جبیر بن مطعم نے، ان سے ان کے باپ نے کہ میں اپنا ایک اونٹ تلاش کر رہا تھا (دوسری سند ) اور ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمر بن دینار نے، انہوں نے محمد بن جبیر سے سنا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا تھا تو میں عرفات میں اس کو تلاش کرنے گیا، یہ دن عرفات کا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔ میری زبان سے نکلا قسم اللہ کی ! یہ تو قریش ہیں پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔

تشریح : جاہلیت میں دوسرے تمام لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے، لیکن قریش کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اہل و عیال ہیں، اس لیے ہم وقوف کے لیے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش میں سے تھے مگر آپ اور تمام مسلمان اور غیر قریش کے امتیاز کے بغیر عرفات ہی میں وقوف پذیر ہوئے۔ عرفات حرم سے باہر ہے اس لیے راوی کو حیرت ہوئی کہ ایک قریش اور اس دن عرفات میں۔ لفظ حمس حماست سے مشتق ہے۔ قریش کے لوگوں کو حمس اس وجہ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین میں حماست یعنی سختی رکھتے تھے۔

حدیث نمبر : 1665
حدثنا فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، قال عروة كان الناس يطوفون في الجاهلية عراة إلا الحمس، والحمس قريش وما ولدت، وكانت الحمس يحتسبون على الناس يعطي الرجل الرجل الثياب يطوف فيها، وتعطي المرأة المرأة الثياب تطوف فيها، فمن لم يعطه الحمس طاف بالبيت عريانا، وكان يفيض جماعة الناس من عرفات، ويفيض الحمس من جمع‏.‏ قال وأخبرني أبي عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن هذه الآية نزلت في الحمس ‏{‏ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس‏}‏ قال كانوا يفيضون من جمع فدفعوا إلى عرفات‏.
ہم سے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حمس کے سوا بقیہ سب لوگ جاہلیت میں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، حمس قریش اور اس کی آل اولا دکوکہتے تھے، (اور بنی کنانہ وغیرہ، جیسے خزاعہ ) لوگوں کو (اللہ کے واسطے ) کپڑے دیا کرتے تھے۔ (قریش ) کے مرد دوسرے مردوں کو تاکہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں اور (قریش کی ) عورتیں دوسری عورتوں کو تاکہ وہ انہیں پہن کر طواف کرسکیں، اور جن کو قریش کپڑا نہیںدیتے وہ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے۔ دوسرے سب لوگ تو عرفات سے واپس ہوتے لیکن قریش مزدلفہ ہی سے (جو حرم میں تھا ) واپس ہو جاتے۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ بن زبیر نے مجھے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی کہ ” پھر تم بھی (قریش ) وہیں سے واپس آؤ جہاں سے اور لوگ واپس آتے ہیں (یعنی عرفات سے، سورۃ بقرہ ) انہوں نے بیان کیا کہ قریش مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے اس لیے انہیں بھی عرفات سے لوٹنے کا حکم ہوا۔

تشریح : کعبہ شریف سے میدان عرفات تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ جگہ حرم سے خارج ہے، اس اطراف میں وادی عرفہ، قریہ عرفات، جبل عرفات، مشرقی سڑک واقع ہیں، یہاں سے طائف کے لیے راستہ جاتا ہے۔ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام خلیل اللہ علیہ السلام کو مناسک سکھلاتے ہوئے اس میدان تک لائے تو کہا ” ہل عرفت“ آپ نے مناسک حج کو جان لیا؟ اس وقت سے اس کا نام میدان عرفات ہوا۔ ( در منشور ) یہ جگہ ملت ابراہیمی میں ایک اہم تاریخی جگہ ہے اور اس میں وقوف کرنا ہی حج کی جان ہے اگر کسی کا یہ وقوف فوت ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا : قفوا علی مشاعرکم فانکم علی ارث ابیکم ابراہیم یعنی میدان عرفات میں جہاں اتر چکے ہو وہاں پر وقوف کرو، تم سب اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی موروثہ زمین پر ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے قانون اساسی کا اعلان اسی مقام پر فرمایا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کا مشہور خطبہ عرفات اسی کی یادگار ہے۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : کنت ردف النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفات فرفع یدیہ فمالت ناقتہ فسقط خطامہا فتناول الخطام باحدی یدیہ وہو رافع یدہ الاخری ( رواہ النسائی ) عرفا ت میں آنحضرت صلی اللہ کی اونٹنی پر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جھک گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس کی نکیل چھوٹ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ اس کے اٹھانے کے لیے نیچے جھکا دیا اور دوسرا ہاتھ دعاؤں میں بدستور اٹھائے رکھا۔ میدان عرفات میں یہی وقوف یعنی کھڑا ہونا اور شام تک دعاؤں کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانا یہی حج کی روح ہے، یہ فوت ہوا تو حج فوت ہو گیا اور اگر اس میں کوئی شخص شریک ہوگیا اس کا حج ادا ہو گیا۔

جمہور کے نزدیک عرفات کا یہ وقوف ظہر عصر کی نماز جمع کرکے نمرہ میں ادا کرلینے کے بعد ہونا چاہئے، حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں : انہ صلی اللہ علیہ وسلم و الخلفاءالراشدین بعدہ لم یقفوا الا بعد الزوال و لم ینقل عن احد انہ وقف قبلہ ( نیل ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاءراشدین سب کا یہی عمل رہا ہے کہ زوال کے بعد ہی عرفات کا وقوف کیا ہے، زوال سے پہلے وقوف کرنا کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔ وقوف سے مرادظہر اور عصر ملا کر پڑھ لینے کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا اور وہاں شام تک کھڑے کھڑے دعائیں کرنا ہے، یہی وقوف حج کی جان ہے، اس مبارک موقع پر جس قدر بھی دعائیں کی جائیںکم ہیں، کیوں کہ آج اللہ پاک اپنے بندوں پر فخر کر رہا ہے جو دور دراز ملکوں سے جمع ہو کر آسمان کے نیچے ایک کھلے میدان میں اللہ پاک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعائیں کررہے ہیں، اللہ پاک حاجی صاحبان کی دعائیں قبول کرے اور ان کو حج مبرور نصیب ہو آمین۔ جو حاجی میدان میں عرفات میں جاکر بھی حقہ بازی کرتے رہتے ہیں وہ بڑے بدنصیب ہیں خدا ان کو ہدایت بخشے۔ ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : عرفات سے لوٹتے وقت کس چال سے چلے

یعنی دھیمی چال سے یا جلدی، چونکہ مزدلفہ میں آکر مغرب اور عشاءکی نمازیں ملا کر پڑھتے ہیں عرفات سے لوٹتے وقت جلد چلنا مسنون ہے جیسے حدیث آگے موجود ہے۔

حدیث نمبر : 1666
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، أنه قال سئل أسامة وأنا جالس، كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في حجة الوداع حين دفع قال كان يسير العنق، فإذا وجد فجوة نص‏.‏ قال هشام والنص فوق العنق‏.‏ قال أبو عبد الله فجوة متسع، والجميع فجوات وفجاء، وكذلك ركوة وركاء‏.‏ مناص ليس حين فرار‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا (میں بھی وہیں موجود تھا ) کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس ہونے کی چال کیا تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں اٹھا کر چلتے تھے ذرا تیز، لیکن جب جگہ پاتے (ہجوم نہ ہوتا ) تو تیز چلتے تھے، ہشام نے کہا کہ ” عنق “ تیز چلنا اور ” نص “ عنق سے زیادہ تیز چلنے کو کہتے ہیں۔ ” فجوہ “ کے معنی کشادہ جگہ، اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسے زکوۃ مفرد زکاءاس کی جمع اور سورۃ ص میں مناص کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنی بھاگنا ہے۔

تو اس سے نص مشتق نہیں جو حدیث میں مذکور ہے، یہ تو ایک ادنی بھی جس کی عربیت سے ذرا سی استعداد ہو سمجھ سکتا ہے کہ مناص کو نص سے کیا علاقہ، نص مضاعف ہے اور مناص معتل ہے۔ اب یہ خیال کرنا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مناص کو نص سے مشتق سمجھا ہے اس لیے یہاں اس کے معنی بیان کردیئے جسے عینی نے نقل کیا ہے یہ بالکل کم فہمی ہے، اصل یہ ہے کہ اکثر نسخوں میں یہ عبارت ہی نہیں ہے اور جن نسخوں میں موجود ہے ان کی توجیہ یوں ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو کم استعدادی سے یہ وہم ہوا ہوگا کہ مناص اور نص کا مادہ ایک ہی ہے امام بخاری نے مناص کی تفسیر کرکے اس وہم کا رد کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنا

حدیث نمبر : 1667
حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن موسى بن عقبة، عن كريب، مولى ابن عباس عن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم حيث أفاض من عرفة مال إلى الشعب فقضى حاجته فتوضأ فقلت يا رسول الله أتصلي فقال ‏"‏الصلاة أمامك‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب نے اور ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (راہ میں ) ایک گھاٹی کی طرف مڑے اور وہاں قضاءحاجت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی ) نماز پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز آگے چل کر پڑھی جائے گی۔ (یعنی عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے قضاءحاجت وغیرہ کے لیے راستہ میں رکنے میں کوئی حرج نہیں ہے )

حدیث نمبر : 1668
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جويرية، عن نافع، قال كان عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يجمع بين المغرب والعشاء بجمع، غير أنه يمر بالشعب الذي أخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فيدخل فينتفض ويتوضأ، ولا يصلي حتى يصلي بجمع‏.‏
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ نے نافع سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزدلفہ میں آ کر نماز مغرب اور عشاءملا کر ایک ساتھ پڑھتے، البتہ آپ اس گھاٹی میں بھی مڑتے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مڑے تھے۔ وہاں آپ قضاءحاجت کرتے پھر وضو کرتے لیکن نماز نہ پڑھتے، نماز آپ مزدلفہ میں آ کر پڑھتے تھے۔

تشریح : یہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کمال متابعت سنت تھی حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ ضرورت حاجت بشری اس گھاٹی پر ٹھہرے تھے کوئی حج کا رکن نہ تھا مگر عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں ٹھہرتے اور حاجت وغیرہ سے فارغ ہو کر وہاں وضو کرلیتے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1669
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن محمد بن أبي حرملة، عن كريب، مولى ابن عباس عن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ أنه قال ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات فلما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم الشعب الأيسر الذي دون المزدلفة أناخ، فبال ثم جاء فصببت عليه الوضوء، فتوضأ وضوءا خفيفا‏.‏ فقلت الصلاة يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏الصلاة أمامك‏"‏‏. ‏ فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتى المزدلفة، فصلى ثم ردف الفضل رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة جمع‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرملہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب نے اور ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ میں عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ مزدلفہ کے قریب بائیں طرف جو گھاٹی پڑتی ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وضو کا پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکا سا وضو کیا۔ میں نے کہا یارسول اللہ ! اور نماز؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” نماز تمہارے آگے ہے۔ “ (یعنی مزدلفہ میں پڑھی جائے گی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے جب مزدلفہ میں آئے تو (مغرب اور عشاءکی ) نماز (ملاکر ) پڑھی۔ پھر مزدلفہ کی صبح (یعنی دسویں تاریخ ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سوار ہوئے۔

حدیث نمبر : 1670
قال كريب فأخبرني عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن الفضل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة‏.‏
کریب نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فضل رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے تا آنکہ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں )

تشریح : ہلکا وضو یہ کہ اعضاءوضو کو ایک ایک بار دھویا یا پانی کم ڈالا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ وضو کرنے میں دوسرے آدمی سے مدد لینا بھی درست ہے نیز اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ظاہر ہوا کہ حاجی جب رمی جمار کے لیے جمرہ عقبہ پر پہنچے اس وقت سے لبیک پکارنا موقوف کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو سکون و اطمینان کی ہدایت کرنا اور کوڑے سے اشارہ کرنا

حدیث نمبر : 1671
حدثنا سعيد بن أبي مريم، حدثنا إبراهيم بن سويد، حدثني عمرو بن أبي عمرو، مولى المطلب أخبرني سعيد بن جبير، مولى والبة الكوفي حدثني ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أنه دفع مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه وسلم وراءه زجرا شديدا وضربا وصوتا للإبل فأشار بسوطه إليهم وقال ‏"‏أيها الناس عليكم بالسكينة، فإن البر ليس بالإيضاع‏"‏‏. ‏ أوضعوا أسرعوا‏.‏ خلالكم من التخلل بينكم، وفجرنا خلالهما‏.‏ بينهما‏.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سوید نے بیان کیا، کہا مجھ سے مطلب کے غلام عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہیں والیہ کوفی کے غلام سعید بن جبیر نے خبر دی، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنما نے بیان کیا کہ عرفہ کے دن (میدان عرفات سے ) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سخت شور (اونٹ ہانکنے کا ) اور اونٹوں کی مار دھاڑ کی آواز سنی تو آپ نے ان کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! آہستگی و وقار اپنے اوپر لازم کرلو، (اونٹوں کو ) تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ( سورۃ بقرہ میں ) ” اوضعوا “ کے معنی : ریشہ دوانیاں کریں، ” خلالکم “ کا معنی تمہارے بیچ میں، اسی سے (سورہ کہف ) میں آیا ہے فجرنا خلالھا یعنی ان کے بیچ میں۔

چونکہ حدیث میں ”ایضاع“ کا لفظ آیا ہے تو امام بخاری نے اپنی عادت کے موافق قرآن کی اس آیت کی تفسیر کردی جس میں ولا اوضعوا خلالکم آیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی خلالکم کے بھی معنی بیان کر دیئے پھر سورۃ کہف میں بھی خلالکم کا لفظ آیا تھا اس کی بھی تفسیر کردی ( وحیدی ) حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چاہتے ہیں کہ احادیث میں جو الفاظ قرآنی مصادر سے آئیں ساتھ ہی آیات قرآنی سے ان کی وضاحت فرما دیں تاکہ مطالعہ کرنے والوں کو حدیث اور قرآن پر پورا پورا عبور حاصل ہو سکے۔ جزا اللہ خیرا عن سائر المسلمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مزدلفہ میں دو نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھنا

حدیث نمبر : 1672
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن موسى بن عقبة، عن كريب، عن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ أنه سمعه يقول دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، فنزل الشعب، فبال ثم توضأ، ولم يسبغ الوضوء‏.‏ فقلت له الصلاة‏.‏ فقال ‏"‏الصلاة أمامك‏"‏‏. ‏ فجاء المزدلفة، فتوضأ، فأسبغ، ثم أقيمت الصلاة، فصلى المغرب، ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله، ثم أقيمت الصلاة فصلى، ولم يصل بينهما‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں کریب نے، انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا کہ میدان عرفات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو کر گھاٹی میں اترے (جو مزدلفہ کے قریب ہے ) وہاں پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہیں کیا (خوب پانی نہیں بہایا ہلکا وضو کیا ) میں نے نماز کے متعلق عرض کی تو فرمایا کہ نماز آگے ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لائے وہاں پھر وضو کیا اور پوری طرح کیا پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ ڈیروں پر بٹھا دیئے پھر دوبارہ نماز عشاءکے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (سنت یا نفل ) نماز نہیں پڑھی تھی۔

اس حدیث سے مزدلفہ میں جمع کرنا ثابت ہوا جو باب کا مطلب ہے اور یہ بھی نکلا کہ اگر دو نمازوں کے بیچ میں جن کو جمع کرنا ہو آدمی کوئی تھوڑا سا کام کر لے تو قباحت نہیں۔ یہ بھی نکلا کہ جمع کی حالت میں سنت وغیرہ پڑھنا ضروری نہیں، یہ جمع شافعیہ کے نزدیک سفر کی وجہ سے ہے اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک حج کی وجہ سے ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مغرب اور عشاءمزدلفہ میں ملا کر پڑھنا اور سنت وغیرہ نہ پڑھنا

حدیث نمبر : 1673
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال جمع النبي صلى الله عليه وسلم بين المغرب والعشاء بجمع، كل واحدة منهما بإقامة، ولم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما‏.‏
ہم سے آدم بن ابی العلاءنے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مزدلفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءایک ساتھ ملا کر پڑھیں تھیں ہر نماز الگ الگ تکبیر کے ساتھ نہ ان دونوں کے درمیان کوئی نفل و سنت پڑھی تھی اور نہ ان کے بعد۔

عینی نے اس سلسلہ میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں آخری قول یہ کہ پہلی نماز کے لیے اذان کہے اور دونوں کے لیے الگ الگ تکبیر کہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کا یہی قول ہے اسی کو ترجیح ہے۔

حدیث نمبر : 1674
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان بن بلال، حدثنا يحيى بن سعيد، قال أخبرني عدي بن ثابت، قال حدثني عبد الله بن يزيد الخطمي، قال حدثني أبو أيوب الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع في حجة الوداع المغرب والعشاء بالمزدلفة‏.‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن یزید خطمی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں آکر مغرب اور عشاءکو ایک ساتھ ملا کر پڑھا تھا۔

مزدلفہ کو جمع کہتے ہیں کیوں کہ وہاں آدم اور حواءجمع ہوئے تھے۔ بعض نے کہا کہ وہاں دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، ابن منذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مزدلفہ میں دونوں نمازوں کے بیچ میں نفل و سنت نہ پڑھے۔ ابن منذر نے کہا جو کوئی بیچ میں سنت یا نفل پڑھے گا تو اس کا جمع صحیح نہ ہوگا۔ ( وحیدی )
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و انما جمع بین الظہر و العصر و بین المغرب و العشاءلان للناس یومئذ اجتماعاً لم یعہد فی غیر ہذا الموطن و الجماعۃ الواحدۃ مطلوبۃ و لا بد من اقامتہا فی مثل ہذا الجمع لیراہ من ہنالک و لا تیسر اجتماعہم فی وقتین و ایضاً فلان للناس اشتغالاً بالذکر و الدعا وہما وظیفۃ ہذا الیوم و رعایۃ الاوقات وظیفۃ جمیع السنۃ و انما یرجح فی مثل ہذا الشئی البدیع النادر ثم رکب حتی اتی الموقف و استقبل القبلۃ فلم یزل واقفا حتی غربت الشمس و ذہبت الصفرۃ قلیلا ثم دفع ( حجۃ اللہ البالغۃ ) یوم عرفات میں ظہراور عصر کو ملا کر پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاءکو، اس لیے کہ اس روز ان مقامات مقدسہ میں لوگوں کا ایسا اجتماع ہوتا ہے جو بجز اس مقام کے اور کہیں نہیں ہوتا اور شارع علیہ السلام کو ایک جماعت کا ہونا مطلوب ہے اور ایسے اجتماع میں ایک جماعت کا قائم کرنا ضروری ہے تاکہ سب لوگ اس کو دیکھیں اور دو وقتوں میں سب کا مجتمع ہونا مشکل تھا، نیز اس روز لوگ ذکر اور دعا میں مشغول ہوتے ہیں اور وہ اس روز کا وظیفہ ہیں اور اوقات کی پابندی تمام سال کا وظیفہ ہے اور ایسے وقت میں بدیع اور نادر چیز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ( نمرہ سے نماز ظہر و عصر سے فارغ ہو کر ) عرفات میں موقف میں تشریف لائے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوا اور زردی کم ہو گئی پھر وہاں سے مزدلفہ کو لوٹے۔ خلاصہ یہ کہ یہاں ان مقامات پر ان نمازوں کو ملا کر پڑھنا شارع علیہ السلام کو عین محبوب ہے۔ پس جس کام سے محبوب راضی ہوں وہی کام دعویداران محبت کو بھی بذوق و شوق انجام دینا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جس نے کہا کہ ہر نماز کے لیے اذان اور تکبیر کہنا چاہئے اس کی دلیل

حدیث نمبر : 1675
حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا زهير، حدثنا أبو إسحاق، قال سمعت عبد الرحمن بن يزيد، يقول حج عبد الله ـ رضى الله عنه ـ فأتينا المزدلفة حين الأذان بالعتمة، أو قريبا من ذلك، فأمر رجلا فأذن وأقام، ثم صلى المغرب، وصلى بعدها ركعتين، ثم دعا بعشائه فتعشى، ثم أمر ـ أرى رجلا ـ فأذن وأقام ـ قال عمرو لا أعلم الشك إلا من زهير ـ ثم صلى العشاء ركعتين، فلما طلع الفجر قال إن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يصلي هذه الساعة إلا هذه الصلاة، في هذا المكان، من هذا اليوم‏.‏ قال عبد الله هما صلاتان تحولان عن وقتهما صلاة المغرب بعد ما يأتي الناس المزدلفة، والفجر حين يبزغ الفجر‏.‏ قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يفعله‏.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن یزید سے سنا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حج کیا، آپ کے ساتھ تقریباً عشاءکی اذان کے وقت ہم مزدلفہ میں بھی آئے، آپ نے ایک شخص کو حکم دیا اس نے اذان اورتکبیر کہی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت (سنت ) اور پڑھی اور شام کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میرا خیال ہے (راوی حدیث زہیر کا ) کہ پھر آپ نے حکم دیا اور اس شخص نے اذان دی اور تکبیر کہی عمرو (راوی حدیث ) نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ شک زہیر (عمرو کے شیخ ) کو تھا، اس کے بعد عشاءکی نماز دو رکعت پڑھی۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز (فجر ) کو اس مقام اور اس دن کے سوا اور کبھی اس وقت (طلوع فجر ہوتے ہی ) نہیں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف دو نمازیں (آج کے دن ) اپنے معمولی وقت سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب لوگ مزدلفہ آتے ہیں تو مغرب کی نماز (عشاءکے ساتھ ملا کر ) پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

تشریح : اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ نمازوں کا جمع کرنے والا دونوں نمازوں کے بیچ میں کھانا کھاسکتا ہے یا کچھ کام کرسکتا ہے۔ اس حدیث میں جمع کے ساتھ نفل پڑھنا بھی مذکور ہے۔ فجر کے بارے میں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اسی دن تاریکی میں پڑھی اور شاید مراد ان کی یہ ہو کہ اس دن بہت تاریکی میں پڑھی یعنی صبح صادق ہوتے ہی، ورنہ دوسرے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے راویت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بہت یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو پروانہ لکھا کہ صبح کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوں یعنی اندھیری ہو۔ اور یہ بھی صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا اس مقام کے اور کہیں جمع نہیں کیا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمع کرنا نقل کیا ہے۔ ( وحیدی )

آپ ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے نماز مغرب اور عشاءکے درمیان نفل بھی پڑھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پڑھنا ثابت ہے، لہٰذا ترجیح فعل نبوی ہی کو ہوگی۔ ہاں کوئی شحص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح پڑھ بھی لے تو غالباً وہ گنہگار نہ ہوگا اگرچہ یہ سنت نبوی کے مطابق نہ ہو گا۔ انما الاعمال بالنیات۔
دین میں اصل الاصول یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا بہرحال مقدم رکھی جائے۔ جہاں جس کام کے لیے حکم فرمایا جائے اس کام کو کیا جائے اور جہاں اس کام سے روک دیا جائے وہاں رک جائے، اطاعت کا یہی مفہوم ہے، اسی میں خیر اور بھلائی ہے۔ اللہ سب کو دین پر قائم رکھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ کی رات میں آگے منی روانہ کردینا، وہ مزدلفہ میں ٹھہریں اور دعا کریں اور چاند ڈوبتے ہی چل دیں۔

حدیث نمبر : 1676
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، قال سالم وكان عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقدم ضعفة أهله، فيقفون عند المشعر الحرام بالمزدلفة بليل، فيذكرون الله ما بدا لهم، ثم يرجعون قبل أن يقف الإمام، وقبل أن يدفع، فمنهم من يقدم منى لصلاة الفجر، ومنهم من يقدم بعد ذلك، فإذا قدموا رموا الجمرة، وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول أرخص في أولئك رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن یونس نے بیان کیا، اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیاکہ سالم نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے کمزوروں کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی میں مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آکر ٹھہرتے اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے تھے، پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی (منیٰ ) آجاتے تھے، بعض تو منیٰ فجر کی نماز کے وقت پہنچتے اور بعض اس کے بعد، جب منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازدت دی ہے۔

تشریح : یعنی عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ میں تھوڑی دیر ٹھہر کر چلے جانے کی اجازت دی ہے ان کے سوا اور دوسرے سب لوگوں کو رات میں مزدلفہ رہنا چاہئے، شعبی اور نخعی اور علقمہ نے کہا کہ جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس کا حج فوت ہوا اور عطا اور زہری کہتے ہیں کہ اس پر دم لازم آجاتا ہے اور آدھی رات سے پہلے وہاں سے لوٹنا درست نہیں ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1677
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم من جمع بليل‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ روانہ کردیا تھا۔

حدیث نمبر : 1678
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال أخبرني عبيد الله بن أبي يزيد، سمع ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول أنا ممن، قدم النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة في ضعفة أهله‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبید اللہ بن ابی یزید نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا کہ میں ان لوگوں میں تھاجنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور لوگوں کے ساتھ مزدلفہ کی رات ہی میں منیٰ بھیج دیا تھا۔

حدیث نمبر : 1679
حدثنا مسدد، عن يحيى، عن ابن جريج، قال حدثني عبد الله، مولى أسماء عن أسماء، أنها نزلت ليلة جمع عند المزدلفة، فقامت تصلي، فصلت ساعة، ثم قالت يا بنى هل غاب القمر قلت لا‏.‏ فصلت ساعة، ثم قالت هل غاب القمر قلت نعم‏.‏ قالت فارتحلوا‏.‏ فارتحلنا، ومضينا حتى رمت الجمرة، ثم رجعت فصلت الصبح في منزلها‏.‏ فقلت لها يا هنتاه ما أرانا إلا قد غلسنا‏.‏ قالت يا بنى، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن للظعن‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ ان سے اسماءکے غلام عبداللہ نے بیان کیا کہ ان سے اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے کہ وہ رات ہی میں مزدلفہ پہنچ گئیں اور کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں، کچھ دیر تک نماز پڑھنے کے بعد پوچھا بیٹے ! کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس لیے وہ دوبارہ نماز پڑھنے لگیں کچھ دیر بعد پھر پوچھا کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا ہاں، انہوں نے کہا کہ اب آگے چلو (منی کو ) چنانچہ ہم ان کے ساتھ آگے چلے، وہ (منی میں ) رمی جمرہ کرنے کے بعد پھر واپس آگئیں اور صبح کی نماز اپنے ڈیرے پر پڑھی میں نے کہا جناب ! یہ کیا بات ہوئی کہ ہم نے اندھیرے ہی میں نماز پرھ لی۔ انہوں نے کہا بیٹے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے، لیکن حنفیہ نے اس کو جائز نہیں رکھا اور امام احمد اور اسحاق اور جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ صبح صادق سے پہلے درست نہیں اگر کوئی اس سے پہلے مارے تو صبح ہونے کے بعد دوبارہ مارنا چاہئے اور شافعی کے نزدیک صبح سے پہلے کنکریاں مار لینا درست ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1680
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، حدثنا عبد الرحمن ـ هو ابن القاسم ـ عن القاسم، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت استأذنت سودة النبي صلى الله عليه وسلم ليلة جمع وكانت ثقيلة ثبطة فأذن لها‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات عام لوگوں سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت چاہی آپ رضی اللہ عنہا بھاری بھرکم بدن کی عورت تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔

حدیث نمبر : 1681
حدثنا أبو نعيم، حدثنا أفلح بن حميد، عن القاسم بن محمد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت نزلنا المزدلفة فاستأذنت النبي صلى الله عليه وسلم سودة أن تدفع قبل حطمة الناس، وكانت امرأة بطيئة، فأذن لها، فدفعت قبل حطمة الناس، وأقمنا حتى أصبحنا نحن، ثم دفعنا بدفعه، فلأن أكون استأذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما استأذنت سودة أحب إلى من مفروح به‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب ہم نے مزدلفہ میں قیام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو لوگوں کے اژدہام سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت دے دی تھیں، وہ بھاری بھرکم بدن کی خاتون تھیں، اس لیے آپ نے اجازت دے دی چنانچہ وہ اژدہام سے پہلے روانہ ہو گئیں۔ لیکن ہم وہیں ٹھہرے رہے اور صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے اگر میں بھی حضرت سودہضی اللہ عنہا کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتی تو مجھ کو تمام خوشی کی چیزوں میں یہ بہت ہی پسند ہوتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا

حدیث نمبر : 1682
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني عمارة، عن عبد الرحمن، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة بغير ميقاتها إلا صلاتين جمع بين المغرب والعشاء، وصلى الفجر قبل ميقاتها‏.‏
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمارہ نے عبدالرحمن بن یزید سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ دو نمازوں کے سوا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور کوئی نماز بغیر وقت نہیں پڑھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءایک ساتھ پڑھیں اور فجر کی نماز بھی اس دن (مزدلفہ میں ) معمول کے وقت سے پہلے ادا کی۔

یعنی بہت اول اوقت، یہ نہیں کہ صبح صادق ہونے سے پہلے پڑھ لی جیسے بعض نے گمان کیا اور دلیل اس کے آگے کی روایت ہے جس میں صاف یہ ہے کہ صبح کی نماز فجر طلوع ہوتے ہی پڑھی۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1683
حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال خرجنا مع عبد الله ـ رضى الله عنه ـ إلى مكة، ثم قدمنا جمعا، فصلى الصلاتين، كل صلاة وحدها بأذان وإقامة، والعشاء بينهما، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، قائل يقول طلع الفجر‏.‏ وقائل يقول لم يطلع الفجر‏.‏ ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن هاتين الصلاتين حولتا عن وقتهما في هذا المكان المغرب والعشاء، فلا يقدم الناس جمعا حتى يعتموا، وصلاة الفجر هذه الساعة‏"‏‏. ‏ ثم وقف حتى أسفر، ثم قال لو أن أمير المؤمنين أفاض الآن أصاب السنة‏.‏ فما أدري أقوله كان أسرع أم دفع عثمان ـ رضى الله عنه ـ فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يوم النحر‏.‏
ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحق نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کے طرف نکلے (حج شروع کیا ) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی گئیں ہیں، یعنی مغرب اور عشاء، مزدلفہ میں اس وقت داخل ہوں کہ اندھیرا ہو جائے اور فجر کی نماز اس وقت۔ پھر عبداللہ اجالے تک وہیں مزدلفہ میں ٹھہرے رہے اور کہا کہ اگر امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت چلیں تو یہ سنت کے مطابق ہوگا۔ (حدیث کے راوی عبدالرحمن بن یزید نے کہا ) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ ان کی زبان سے پہلے نکلے یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روانگی پہلے شروع ہوئی، آپ دسویں تاریخ تک جمرہ عقبہ کی رمی تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

یعنی حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے لوٹے، سنت یہی ہے کہ مزدلفہ سے فجر کی روشنی ہونے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ فجر کی نماز سے متعلق اس حدیث میں جو وارد ہے کہ وہ ایسے وقت میں پڑھی گئی کہ لوگوں کو فجر کے ہونے میں شبہ ہو رہا تھا، اس کی وضاحت مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءکو ملا کر ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ثم اضطجع حتی طلع الفجر فصلی الفجر حین تبین لہ الصبح باذان و اقامۃ الی اخر الحدیث پھر سو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے جب کہ فجر طلوع ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کھل جانے پر نماز فجر کو ادافرمایا اور اس کے لیے اذان اور اقامت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ پچھلی حدیث میں راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کو اندھیرے میں بہت اول وقت یعنی فجر ظاہر ہوتے ہی فوراً ادا فرما لیا، یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی نماز فجر غلس یعنی اندھیرے میں ادا فرمایا کرتے تھے جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے مگر یہاں اور بھی اول وقت طلوع فجر کے فوراً بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کو ادا فرما لیا۔
 
Top