• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان

( لیکن بکریوں کا اشعار کرنا بالاتفاق جائز نہیں )
تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن المنذر انکر مالک و اصحاب الرائے تقلیدہا زاد غیرہ و کانہم لم یبلغہم الحدیث و لم نجد لہم حجۃ الاقول بعضہم انہا تضعف عن التقلید و ہی حجۃ ضعیفۃ لان المقصود من التقلید العلامۃ و قد اتفقوا انہا لا تشعر لانہا تضعف عنہ فتقلّد بما لا یضعفہا و الحنفیۃ فی الاصل یقولون لیست الغنم من الہدی فالحدیث حجۃ علیہم من جہۃ اخریٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ امام مالک اور اصحاب الرائے نے بکریوں کے لیے ہار سے انکار کیا ہے گویا کہ ان کو حدیث نبوی پہنچی ہی نہیں ہے، اور ہم نے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں پائی سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ بکری ہار لٹکانے سے کمزور ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے کیوں کہ ہار لٹکانے سے اس کو نشان زدہ برائے قربانی حج کرنا مقصود ہے، بکری کا متفقہ طور پر اشعار جائز نہیں ہے۔ اس سے وہ فی الواقع کمزور ہو سکتی ہے اور ہار لٹکانے سے کمزور ہو نے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور حنفیہ اصولاً کہتے ہیں کہ بکری ہدی ہی نہیں ہے پس یہ حدیث ان پر دوسرے طریق سے بھی حجت ہے۔ بعض نے کہا کہ بکری ہدی اس لیے نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کو بکری بطور ہدی نہیںبھیجی۔ یہ خیال غلط ہے کیوں کی حدیث باب دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے قبل قطعی طور پر بکری کو بطور ہدی بھیجا پس یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے۔

غالباً حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی حضرات کے خیال کی اصلاح کے لیے ”باب تقلید الغنم“ منعقد فرمایا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی اصلاحی بصیرت کاملہ کی دلیل ہے۔ اللہ پاک ایسے امام حدیث کو فردوس بریں میں بہترین جزائیں عطا فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جو لوگ ایسے امام کی شان میں گستاخانہ کلمات منہ سے نکالتے ہیں اللہ پاک ان کو نیک سمجھ عطا فرمائے کہ وہ اس دریدہ دہنی سے باز آئیں یا جو حضرات ان کی شان اجتہاد کا انکار کرتے ہیں اللہ ان کو توفیق دے کہ وہ اپنے اس غلط خیال پر نظر ثانی کرسکیں۔

حدیث نمبر : 1701
حدثنا أبو نعيم، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أهدى النبي صلى الله عليه وسلم مرة غنما‏.‏
ہم سے نعیم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے (بیت اللہ ) بکریاں بھیجی تھیں۔

گو اس حدیث میں بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے کا ذکر نہیں ہے جو باب کا مطلب ہے لیکن آگے کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔

حدیث نمبر : 1702
حدثنا أبو النعمان، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الأعمش، حدثنا إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل القلائد للنبي صلى الله عليه وسلم فيقلد الغنم، ويقيم في أهله حلالا‏.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادہ خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو بھی قلادہ پہنایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے گھر اس حال میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔

حدیث نمبر : 1703
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، حدثنا منصور بن المعتمر،‏.‏ وحدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل قلائد الغنم للنبي صلى الله عليه وسلم فيبعث بها، ثم يمكث حلالا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے حماد نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے (دوسری سند ) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریوں کے قلادے خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (بیت اللہ کے لیے ) بھیج دیتے اور خود حلال ہی ہونے کی حالت میں اپنے گھر ٹھہر رہتے۔

حدیث نمبر : 1704
حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت لهدى النبي صلى الله عليه وسلم ـ تعني القلائد ـ قبل أن يحرم‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے خود قلادے بٹے ہیں۔ ان کی مراد احرام سے پہلے کے قلادوں سے تھی۔

تقلید کہتے ہیں قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتیوں وغیرہ کا ہار بنا کر ڈالنا، یہ عرب کے ملک میں نشان تھا ہدی کا۔ ایسے جانور کوعرب لوگ نہ کوٹتے تھے نہ اس سے متعرض ہوتے، اور اشعار کے معنی خود کتاب میں مذکور ہیں یعنی اونٹ کا کوہان داہنی طرف سے ذرا سا چیر دینا اور خون بہا دینا یہ بھی سنت ہے اور جس نے اس سے منع کیا اس نے غلطی کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اون کے ہار بٹنا

حدیث نمبر : 1705
حدثنا عمرو بن علي، حدثنا معاذ بن معاذ، حدثنا ابن عون، عن القاسم، عن أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت قلائدها من عهن كان عندي‏.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم نے بیان کیا، ان سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس جو اون تھی ان کے ہار میں نے قربانی کے جانوروں کے لیے خود بٹے تھے۔

اس سے بھی ثابت ہوا کہ قربانی کے جانوروں کے گلوں میں اون کی رسیوں کے ہار ڈالنا سنت ہے اور یہ اونٹ گائے بکری سب کے لیے ہے جو جانور بھی قربانی کئے جاتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جوتوں کا ہار ڈالنا

حدیث نمبر : 1706
حدثنا محمد، أخبرنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى، عن معمر، عن يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن نبي الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يسوق بدنة، قال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ قال إنها بدنة‏.‏ قال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ قال فلقد رأيته راكبها يساير النبي صلى الله عليه وسلم والنعل في عنقها‏.‏ تابعه محمد بن بشار. حدثنا عثمان بن عمر: أخبرنا علي بن المبارك، عن يحيى، عن عكرمة، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالاعلیٰ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں عکرمہ نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قربانی کا اونٹ لئے جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ سوار ہو جا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے دیکھا کہ وہ اس پر سوار ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا ہے اور جوتے (کا ہار ) اس اونٹ کے گردن میں ہے۔ اس روایت کی متابعت محمد بن بشار نے کی ہے۔ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، ہم کو علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ نے انہیں عکرمہ نے او رانہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (مثل سابق حدیث کے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کے جانوروں کے لیے جھول کا ہونا

وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ لا يشق من الجلال إلا موضع السنام، وإذا نحرها نزع جلالها، مخافة أن يفسدها الدم، ثم يتصدق بها‏.‏
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صرف کوہان کی جگہ کے جھول کو پھاڑتے اور جب اس کی قربانی کرتے تو اس ڈر سے کہ کہیں اسے خون خراب نہ کردے جھول اتار دیتے اور پھر اس کو بھی صدقہ کر دیتے۔

حدیث نمبر : 1707
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتصدق بجلال البدن التي نحرت وبجلودها‏.‏
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کر دی تھی۔

معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں کی ہر چیز حتی کہ جھول تک بھی صدقہ کردی جائے اور قصائی کو ان میں سے اجرت میں کچھ نہ دیا جائے، اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی ہدی راستہ میں خریدی او راسے ہار پہنایا

حدیث نمبر : 1708
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، قال أراد ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ الحج عام حجة الحرورية في عهد ابن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ فقيل له إن الناس كائن بينهم قتال، ونخاف أن يصدوك‏.‏ فقال ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏ إذا أصنع كما صنع، أشهدكم أني أوجبت عمرة‏.‏ حتى كان بظاهر البيداء قال ما شأن الحج والعمرة إلا واحد، أشهدكم أني جمعت حجة مع عمرة‏.‏ وأهدى هديا مقلدا اشتراه حتى قدم، فطاف بالبيت وبالصفا، ولم يزد على ذلك، ولم يحلل من شىء حرم منه حتى يوم النحر، فحلق ونحر ورأى أن قد قضى طوافه الحج والعمرة بطوافه الأول، ثم قال كذلك صنع النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میںحجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے ) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ ” تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ “ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، پھر جب آپ بیداءکے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کر لیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر ) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کرکے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کر لیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔

اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : کسی آدمی کا اپنی بیویوں کی طرف سے ان کی اجازت بغیر گائے کی قربانی کرنا

حدیث نمبر : 1709
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، قالت سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس بقين من ذي القعدة، لا نرى إلا الحج، فلما دنونا من مكة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هدى، إذا طاف وسعى بين الصفا والمروة أن يحل، قالت فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر‏.‏ فقلت ما هذا قال نحر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أزواجه‏.‏ قال يحيى فذكرته للقاسم، فقال أتتك بالحديث على وجهه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے ) نکلے تو ذی قعدہ میں سے پانچ دن باقی رہے تھے ہم صرف حج کا ارادہ لے کر نکلے تھے، جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ جب طواف کرلیں اور صفا و مروہ کی سعی بھی کرلیں تو حلال ہو جائیں گے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ قربانی کے دن ہمارے گھر گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ (لانے والے نے بتلایا ) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے یہ قربانی کی ہے، یحییٰ نے کہا کہ میں نے عمرہ کی یہ حدیث قاسم سے بیان کی انہوں نے کہا عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔

تشریح : یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ان تذبحوا بقرۃ ( البقرۃ : 67 ) وارد ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون ( بھارتی قانون ) کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اما التعبیر بالذبح مع ان حدیث الباب بلفظ النحر فاشارۃ الی ما ورد فی بعض طرقہ بالذبح و سیاتی بعد سبعۃ ابواب من طریق سلیمان بن بلال عن یحییٰ بن سعید و نحر البقر جائز عندالعماءالا ان الذبح مستحب عندہم لقولہ تعالیٰ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ و خالف الحسن بن صالح فاستحب نحرہا و اما قولہ من غیر امرہن فاخذہ من استفہام عائشۃ عن اللحم لما دخل بہ علیہا و لو کان ذبحہ بعلمہا لم تحتج الی الاستفہام لکن لیس ذلک دافعا للاحتمال فیجوز ان یکون علمہا بذلک تقدم بان یکون استاذنہن فی ذلک لکن لما ادخل اللہم علیہا احتمل سندہا ان یکون ہو الذی وقع الاستیدان فیہ و ان یکون غیر ذلک فاستفہمت عنہ لذلک ( فتح ) یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔ گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی ”بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے“ یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ” من غیر امرہن“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔ پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : منیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نحر کیا وہاں نحر کرنا

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نحر کا مقام منی میں جمرہ عقبہ کے نزذیک قریب مسجد خیف کے پاس تھا، ہر چند سارے منی میں کہیں بھی نحر کرنا درست ہے مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اتباع سنت میں بڑا تشدد تھا وہ ڈھونڈ کر ان ہی مقامات میں نماز پڑھا کرتے تھے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی اور اسی مقام میں نحر کرتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کیا تھا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1710
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، سمع خالد بن الحارث، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، أن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ كان ينحر في المنحر‏.‏ قال عبيد الله منحر رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے خالد بن حارث سے سنا، کہا ہم سے عبید اللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نحر کرنے کی جگہ نحر کرتے تھے، عبید اللہ بن بتایا کہ مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نحر کرنے کی جگہ سے تھی۔

حدیث نمبر : 1711
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أنس بن عياض، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يبعث بهديه من جمع من آخر الليل، حتى يدخل به منحر النبي صلى الله عليه وسلم مع حجاج فيهم الحر والمملوك‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا ہم سے موسی بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی قربانی کے جانوروں کو مزدلفہ سے آخر رات میں منیٰ بھجوا دیتے، یہ قربانیاں جن میں حاجی لوگ نیز غلام اور آزاد دونوں طرح کے لوگ ہوتے، اس مقام میں لے جاتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نحر کیا کرتے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانیاں لے جانے کے لیے کچھ آزاد لوگوں کی تخصیص نہ تھی بلکہ غلام بھی لے جاتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اپنے ہاتھ سے نحر کرنا

حدیث نمبر : 1712
حدثنا سهل بن بكار، حدثنا وهيب، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس ـ وذكر الحديث ـ قال ونحر النبي صلى الله عليه وسلم بيده سبع بدن قياما، وضحى بالمدينة كبشين أملحين أقرنين‏.‏ مختصرا‏.‏
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے او رانہوں نے مختصر حدیث بیان کی اور یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹ کھڑے کرکے اپنے ہاتھ سے نحر کئے اور مدینہ میں دو چت کبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی۔

مقصد باب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اونٹوں کو نحر کیا اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اونٹ کو باندھ کر نحر کرنا

حدیث نمبر : 1713
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا يزيد بن زريع، عن يونس، عن زياد بن جبير، قال رأيت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أتى على رجل، قد أناخ بدنته ينحرها، قال ابعثها قياما مقيدة، سنة محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال شعبة عن يونس أخبرني زياد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زیاد بن جبیر نے کہ میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسے کھڑا کر اور باندھ دے، پھر نحر کر کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ شعبہ نے یونس سے بیان کیا کہ مجھے زیادہ نے خبر دی۔

معلوم ہوا کہ اونٹ کو کھڑا کرکے نحر کرنا ہی افضل ہے اور حنفیہ نے کھڑا اور بیٹھا دونوں طرح نحر کرنا برابر رکھا ہے اور اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما اس شخص پر انکار نہ کرتے، اس شخص کا نام معلوم نہیں ہوا۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ ان قول الصحابی من السنۃ کذا مرفوع عند الشیخین لاحتجاجہما بہذا الحدیث فی صحیحین۔ ( فتح ) یعنی اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی صحابی کا کسی کام کے لیے یہ کہنا کہ یہ سنت ہے یہ شیخین کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اس لیے کہ شیخین نے اس سے حجت پکڑی ہے اپنی صحیح ترین کتابوں بخاری و مسلم میں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اونٹوں کو کھڑا کرکے نحر کرنا

وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ سنة محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال ابن عباس رضى الله عنهما ‏{‏صواف‏}‏ قياما‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( سورۃ حج میں ) جو آیا ہے فاذکروا اسم اللہ علیہا صواف کے معنی یہی ہیں کہ وہ کھڑے ہوں صفیں باندھ کر۔

حدیث نمبر : 1714

حدثنا سهل بن بكار، حدثنا وهيب، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعا، والعصر بذي الحليفة ركعتين، فبات بها، فلما أصبح ركب راحلته، فجعل يهلل ويسبح، فلما علا على البيداء لبى بهما جميعا، فلما دخل مكة أمرهم أن يحلوا‏.‏ ونحر النبي صلى الله عليه وسلم بيده سبع بدن قياما، وضحى بالمدينة كبشين أملحين أقرنين‏.‏
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت پڑھی اور عصر کی ذو الحلیفہ میں دو رکعات۔ رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں گزاری، پھر جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر تہلیل و تسبیح کرنے لگے۔ جب بیداءپہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں (حج و عمرہ ) کے لیے ایک ساتھ تلبیہ کہا، جب مکہ پہنچے (اور عمرہ ادا کر لیا ) تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ حلال ہو جائیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کرکے نحر کئے اور مدینہ میں دو چت کبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے۔

یہی حدیث مختصراً ابھی پہلے گزر چکی ہے حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1715
حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعا، والعصر بذي الحليفة ركعتين‏.‏ وعن أيوب عن رجل عن أنس ـ رضى الله عنه ـ ثم بات حتى أصبح، فصلى الصبح، ثم ركب راحلته حتى إذا استوت به البيداء أهل بعمرة وحجة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت اور عصر کی ذو الحلیفہ میں دو رکعات پڑھی تھیں۔ ایوب نے ایک شخص کے واسطہ سے بروایت انس رضی اللہ عنہ کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں رات گزاری۔ صبح ہوئی تو فجر کی نماز پڑھی اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے، پھر جب مقام بیداءپہنچے تو عمرہ اور حج دونوں کا نام لے کر لبیک پکارا۔

ایوب کی روایت میں راوی مجہول ہے اگر امام بخاری نے متابعت کے طور پر اس سند کو ذکر کیا تو اس کے مجہول ہونے میں قباحت نہیں، بعض نے کہا کہ یہ شخص ابوقلابہ ہیں۔ ( وحیدی
 
Top