Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان
( لیکن بکریوں کا اشعار کرنا بالاتفاق جائز نہیں )
تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن المنذر انکر مالک و اصحاب الرائے تقلیدہا زاد غیرہ و کانہم لم یبلغہم الحدیث و لم نجد لہم حجۃ الاقول بعضہم انہا تضعف عن التقلید و ہی حجۃ ضعیفۃ لان المقصود من التقلید العلامۃ و قد اتفقوا انہا لا تشعر لانہا تضعف عنہ فتقلّد بما لا یضعفہا و الحنفیۃ فی الاصل یقولون لیست الغنم من الہدی فالحدیث حجۃ علیہم من جہۃ اخریٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ امام مالک اور اصحاب الرائے نے بکریوں کے لیے ہار سے انکار کیا ہے گویا کہ ان کو حدیث نبوی پہنچی ہی نہیں ہے، اور ہم نے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں پائی سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ بکری ہار لٹکانے سے کمزور ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے کیوں کہ ہار لٹکانے سے اس کو نشان زدہ برائے قربانی حج کرنا مقصود ہے، بکری کا متفقہ طور پر اشعار جائز نہیں ہے۔ اس سے وہ فی الواقع کمزور ہو سکتی ہے اور ہار لٹکانے سے کمزور ہو نے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور حنفیہ اصولاً کہتے ہیں کہ بکری ہدی ہی نہیں ہے پس یہ حدیث ان پر دوسرے طریق سے بھی حجت ہے۔ بعض نے کہا کہ بکری ہدی اس لیے نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کو بکری بطور ہدی نہیںبھیجی۔ یہ خیال غلط ہے کیوں کی حدیث باب دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے قبل قطعی طور پر بکری کو بطور ہدی بھیجا پس یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے۔
غالباً حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی حضرات کے خیال کی اصلاح کے لیے ”باب تقلید الغنم“ منعقد فرمایا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی اصلاحی بصیرت کاملہ کی دلیل ہے۔ اللہ پاک ایسے امام حدیث کو فردوس بریں میں بہترین جزائیں عطا فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جو لوگ ایسے امام کی شان میں گستاخانہ کلمات منہ سے نکالتے ہیں اللہ پاک ان کو نیک سمجھ عطا فرمائے کہ وہ اس دریدہ دہنی سے باز آئیں یا جو حضرات ان کی شان اجتہاد کا انکار کرتے ہیں اللہ ان کو توفیق دے کہ وہ اپنے اس غلط خیال پر نظر ثانی کرسکیں۔
حدیث نمبر : 1701
حدثنا أبو نعيم، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أهدى النبي صلى الله عليه وسلم مرة غنما.
ہم سے نعیم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے (بیت اللہ ) بکریاں بھیجی تھیں۔
گو اس حدیث میں بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے کا ذکر نہیں ہے جو باب کا مطلب ہے لیکن آگے کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
حدیث نمبر : 1702
حدثنا أبو النعمان، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الأعمش، حدثنا إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل القلائد للنبي صلى الله عليه وسلم فيقلد الغنم، ويقيم في أهله حلالا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادہ خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو بھی قلادہ پہنایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے گھر اس حال میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔
حدیث نمبر : 1703
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، حدثنا منصور بن المعتمر،. وحدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل قلائد الغنم للنبي صلى الله عليه وسلم فيبعث بها، ثم يمكث حلالا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے حماد نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے (دوسری سند ) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریوں کے قلادے خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (بیت اللہ کے لیے ) بھیج دیتے اور خود حلال ہی ہونے کی حالت میں اپنے گھر ٹھہر رہتے۔
حدیث نمبر : 1704
حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت لهدى النبي صلى الله عليه وسلم ـ تعني القلائد ـ قبل أن يحرم.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے خود قلادے بٹے ہیں۔ ان کی مراد احرام سے پہلے کے قلادوں سے تھی۔
تقلید کہتے ہیں قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتیوں وغیرہ کا ہار بنا کر ڈالنا، یہ عرب کے ملک میں نشان تھا ہدی کا۔ ایسے جانور کوعرب لوگ نہ کوٹتے تھے نہ اس سے متعرض ہوتے، اور اشعار کے معنی خود کتاب میں مذکور ہیں یعنی اونٹ کا کوہان داہنی طرف سے ذرا سا چیر دینا اور خون بہا دینا یہ بھی سنت ہے اور جس نے اس سے منع کیا اس نے غلطی کی ہے۔
باب : بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان
( لیکن بکریوں کا اشعار کرنا بالاتفاق جائز نہیں )
تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن المنذر انکر مالک و اصحاب الرائے تقلیدہا زاد غیرہ و کانہم لم یبلغہم الحدیث و لم نجد لہم حجۃ الاقول بعضہم انہا تضعف عن التقلید و ہی حجۃ ضعیفۃ لان المقصود من التقلید العلامۃ و قد اتفقوا انہا لا تشعر لانہا تضعف عنہ فتقلّد بما لا یضعفہا و الحنفیۃ فی الاصل یقولون لیست الغنم من الہدی فالحدیث حجۃ علیہم من جہۃ اخریٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ امام مالک اور اصحاب الرائے نے بکریوں کے لیے ہار سے انکار کیا ہے گویا کہ ان کو حدیث نبوی پہنچی ہی نہیں ہے، اور ہم نے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں پائی سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ بکری ہار لٹکانے سے کمزور ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے کیوں کہ ہار لٹکانے سے اس کو نشان زدہ برائے قربانی حج کرنا مقصود ہے، بکری کا متفقہ طور پر اشعار جائز نہیں ہے۔ اس سے وہ فی الواقع کمزور ہو سکتی ہے اور ہار لٹکانے سے کمزور ہو نے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور حنفیہ اصولاً کہتے ہیں کہ بکری ہدی ہی نہیں ہے پس یہ حدیث ان پر دوسرے طریق سے بھی حجت ہے۔ بعض نے کہا کہ بکری ہدی اس لیے نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کو بکری بطور ہدی نہیںبھیجی۔ یہ خیال غلط ہے کیوں کی حدیث باب دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے قبل قطعی طور پر بکری کو بطور ہدی بھیجا پس یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے۔
غالباً حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی حضرات کے خیال کی اصلاح کے لیے ”باب تقلید الغنم“ منعقد فرمایا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی اصلاحی بصیرت کاملہ کی دلیل ہے۔ اللہ پاک ایسے امام حدیث کو فردوس بریں میں بہترین جزائیں عطا فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جو لوگ ایسے امام کی شان میں گستاخانہ کلمات منہ سے نکالتے ہیں اللہ پاک ان کو نیک سمجھ عطا فرمائے کہ وہ اس دریدہ دہنی سے باز آئیں یا جو حضرات ان کی شان اجتہاد کا انکار کرتے ہیں اللہ ان کو توفیق دے کہ وہ اپنے اس غلط خیال پر نظر ثانی کرسکیں۔
حدیث نمبر : 1701
حدثنا أبو نعيم، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أهدى النبي صلى الله عليه وسلم مرة غنما.
ہم سے نعیم نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لیے (بیت اللہ ) بکریاں بھیجی تھیں۔
گو اس حدیث میں بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے کا ذکر نہیں ہے جو باب کا مطلب ہے لیکن آگے کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
حدیث نمبر : 1702
حدثنا أبو النعمان، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الأعمش، حدثنا إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل القلائد للنبي صلى الله عليه وسلم فيقلد الغنم، ويقيم في أهله حلالا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادہ خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو بھی قلادہ پہنایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے گھر اس حال میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔
حدیث نمبر : 1703
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، حدثنا منصور بن المعتمر،. وحدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أفتل قلائد الغنم للنبي صلى الله عليه وسلم فيبعث بها، ثم يمكث حلالا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے حماد نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے (دوسری سند ) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں اسود نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریوں کے قلادے خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (بیت اللہ کے لیے ) بھیج دیتے اور خود حلال ہی ہونے کی حالت میں اپنے گھر ٹھہر رہتے۔
حدیث نمبر : 1704
حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت لهدى النبي صلى الله عليه وسلم ـ تعني القلائد ـ قبل أن يحرم.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے بیان کیا، ان سے عامر نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے خود قلادے بٹے ہیں۔ ان کی مراد احرام سے پہلے کے قلادوں سے تھی۔
تقلید کہتے ہیں قربانی کے جانوروں کے گلوں میں جوتیوں وغیرہ کا ہار بنا کر ڈالنا، یہ عرب کے ملک میں نشان تھا ہدی کا۔ ایسے جانور کوعرب لوگ نہ کوٹتے تھے نہ اس سے متعرض ہوتے، اور اشعار کے معنی خود کتاب میں مذکور ہیں یعنی اونٹ کا کوہان داہنی طرف سے ذرا سا چیر دینا اور خون بہا دینا یہ بھی سنت ہے اور جس نے اس سے منع کیا اس نے غلطی کی ہے۔