• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مزدلفہ سے کب چلا جائے؟

حدیث نمبر : 1684
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت عمرو بن ميمون، يقول شهدت عمر ـ رضى الله عنه ـ صلى بجمع الصبح، ثم وقف فقال إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون أشرق ثبير‏.‏ وأن النبي صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم أفاض قبل أن تطلع الشمس‏.‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے ) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! تو چمک جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔

تشریح : ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے مزدلفہ میں جو منیٰ کو آتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں جبل معروف ہناک و ہو علی یسار الذاہب الی منیٰ وہو اعظم جبال مکۃ عرف بہ جبل من ہذیل اسمہ ثبیر دفن فیہ یعنی ثبیر مکہ کا ایک عظیم پہاڑ ہے جو منی جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے اور یہ ہذیل کے ایک آدمی ثبیر نامی کے نام پر مشہور ہے جو وہاں دفن ہوا تھا۔ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے سے پہلے منی کے لیے چل دینا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے مزید تفصیل یوں ہے ثم رکب القصواءحتی اتی المشعر الحرام فاستقبل القبلۃ فدعا اللہ تعالیٰ و کبرہ و ہللہ و وحدہ فلم یزل واقفا حتی اسفر فدفع قبل ان تطلع الشمس یعنی عرفات سے لوٹتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواءپر سوار ہوئے، یہاں سے مزدلفہ میں مشعر الحرام میں آئے اور وہاں آکر قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب اجالا ہونے تک ٹھہرے رہے، مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عہد جاہلیت میں مکہ والے سورج نکلنے کے بعد یہاں سے چلا کرتے تھے، اسلام میں سورج نکلنے سے پہلے چلنا قرار پایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : دسویں تاریخ صبح کو تکبیر اور لبیک کہتے رہنا جمرہ عقبہ کی رمی تک اور چلتے ہوئے (سواری پر کسی کو ) اپنے پیچھے بٹھا لینا

تشریح : دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں جاکر نماز فجر سے فارغ ہو کر سورج نکلنے کے بعد رمی جمار کرنا ضروری ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : قال ابن المنذرالسنۃ ان لا یرمی الا بعد طلوع الشمس کما فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لا یجوز الرمی قبل طلوع الفجر لان فاعلہ مخالف للسنۃ و من رمی حینئذ لا اعادۃ علیہ اذ لا اعلم احدا قال لا یجزئہ ( فتح ) یعنی ابن منذر نے کہا کہ سنت یہی ہے کہ رمی جمار سورج نکلنے کے بعد کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے اور طلوع فجر سے پہلے رمی جمار درست نہیں اس کا کرنے والا سنت کا مخالف ہوگا۔ ہاں اگر کسی نے اس وقت رمی جمار کر لیا تو پھر اس پر دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جس نے اسے غیر کافی کہا ہو۔ حضرت اسماءرضی اللہ عنہاسے رات میں رمی جمارکرنا بھی منقول ہے جیسا کہ اس کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کمزور مردوں عورتوں کے لیے اجازت ہے کہ وہ رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کرکے منیٰ آجائیں اور آنے پر خواہ رات ہی کیوں نہ ہو رمی جمار کرلیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : اذہب بضعفاءنا و نساءنا فلیصلوا الصبح بمنی و یرموا جمرۃ العقبۃ قبل ان تصیبہم دفعۃ الناس ( فتح الباری ) یعنی آپ ہمارے ضعیفوں اور عورتوں وغیرہ کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ لے جائیے تاکہ وہ صبح کی نماز منی میں ادا کرلیں اور لوگوں کے اژدہام سے پہلے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو جائیں۔ واللہ اعلم بالصواب

حدیث نمبر : 1685
حدثنا أبو عاصم الضحاك بن مخلد، أخبرنا ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أردف الفضل، فأخبر الفضل أنه لم يزل يلبي حتى رمى الجمرة‏.‏
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں عطاءنے، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزدلفہ سے لوٹتے وقت ) فضل (بن عباس رضی اللہ عنہما ) کو اپنے پیچھے سوار کرایا تھا۔ فضل رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمی جمرہ تک برابر لبیک پکارتے رہے۔

حدیث نمبر : 1686-1687
حدثنا زهير بن حرب، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا أبي، عن يونس الأيلي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن أسامة بن زيد ـ رضى الله عنهما ـ كان ردف النبي صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى المزدلفة، ثم أردف الفضل من المزدلفة إلى منى ـ قال ـ فكلاهما قالا لم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة‏.‏
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، ان سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے یونس ایلی نے، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما عرفات سے مزدلفہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منی جاتے وقت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں حضرات نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل لبیک کہتے رہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : سورۃ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں پس جو شخص تمتع کرے حج کے ساتھ عمرہ کا یعنی حج تمتع

‏{‏فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدى فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجعتم تلك عشرة كاملة ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام‏}‏‏.‏
سورۃ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں پس جو شخص تمتع کرے حج کے ساتھ عمرہ کا یعنی حج تمتع کرکے فائدہ اٹھائے تو اس پر ہے جو کچھ میسر ہو قربانی سے اور اگر کسی کو قربانی میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے ایام حج میں اور سات دن کے روزے گھر واپس ہونے پر رکھے، یہ پورے دس دن (کے روزے ) ہوئے، یہ آسانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد کے پاس نہ رہتے ہوں۔

حدیث نمبر : 1688
حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا النضر، أخبرنا شعبة، حدثنا أبو جمرة، قال سألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن المتعة، فأمرني بها، وسألته عن الهدى، فقال فيها جزور أو بقرة أو شاة أو شرك في دم قال وكأن ناسا كرهوها، فنمت فرأيت في المنام كأن إنسانا ينادي حج مبرور، ومتعة متقبلة‏.‏ فأتيت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فحدثته فقال الله أكبر سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم قال وقال آدم ووهب بن جرير وغندر عن شعبة عمرة متقبلة، وحج مبرور‏.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں نضر بن شمیل نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے ) یا کسی قربانی (اونٹ، یا گائے بھینس کی ) میں شریک ہو جائے، ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔ پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ اب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کہا کہ وہب بن جریر اور غندر نے شعبہ کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے عمرۃ متقبلۃ و حج مبرور (اس میں عمرہ کا ذکر پہلے ہے یعنی یہ عمرہ مقبول اور حج مبرور ہے۔ )

تشریح : حضرت عمر اور عثمان غنی رضی اللہ عنہما سے تمتع کی کراہیت منقول ہے لیکن ان کا قول احادیث صحیحہ اور خود نص قرآنی کے برخلاف ہے، اس لیے ترک کیا گیا اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی رائے جو خلفائے راشدین میں سے ہیں حدیث کے خلاف مقبول نہ ہو تو اور مجتہد یا مولوی کس شمار میں ہیں۔ ان کا فتوی حدیث کے برخلاف لچر اور پوچ ہے۔ ( وحیدی ) اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ صحیح مرفوع احادیث کے مقابلہ پر قول امام کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے پس اللہ کے ہاں جس دن حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ان کا کیا جواب ہو سکے گا۔ صد افسوس کہ یہود و نصاریٰ میں تقلید شخصی کی بیماری تھی جس نے مسلمانوں کو بھی پکڑ لیا اور وہ بھی اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبۃ : 31 ) کے مصداق بن گئے یعنی ان لوگوں نے اپنے مولویوں درویشوں کو خدا کے سوا اپنا رب ٹھہرا لیا، یعنی خدا کی طرح ان کی فرمانبرداری کو اپنے لیے لازم قرار دے لیا۔ اسی کا نام تقلید جامد ہے جو سب بیماریوں کی جڑ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کے جانور پر سوار ہونا (جائز ہے )

لقوله ‏{‏والبدن جعلناها لكم من شعائر الله لكم فيها خير فاذكروا اسم الله عليها صواف فإذا وجبت جنوبها فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر كذلك سخرناها لكم لعلكم تشكرون * لن ينال الله لحومها ولا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم كذلك سخرها لكم لتكبروا الله على ما هداكم وبشر المحسنين‏}‏‏.‏ قال مجاهد سميت البدن لبدنها‏.‏ والقانع السائل، والمعتر الذي يعتر بالبدن من غني أو فقير، وشعائر استعظام البدن واستحسانها، والعتيق عتقه من الجبابرة، ويقال وجبت سقطت إلى الأرض ومنه وجبت الشمس‏.‏ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر میں فرمایا ” ہم نے قربانیوں کو تمہارے لیے اللہ کے نام کی نشانی بنایا ہے، تمہارے واسطے ان میں بھلائی ہے سو پڑھو ان پر اللہ کا نام قطار باندھ کر، پھر وہ جب گر پڑیں اپنی کروٹ پر (یعنی ذبح ہو جائیں ) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے اور مانگنے والے دونوں طرح کے فقیروں کو، اسی طرح تمہارے لیے حلال کردیا ہم نے ان جانوروں کو تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارا تقویٰ، اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے کہ اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ تم کو اس نے راہ دکھائی اور بشارت سنا دے نیکی کرنے والوں کو۔ مجاہد نے کہا کہ قربانی کے جانور کو بدنہ اس کے موٹا تازہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، قانع سائل کو کہتے ہیں اور معتر جو قربانی کے جانور کے سامنے سائل کی صورت بنا کر آجائے خواہ غنی ہو یا فقیر، شعائر کے معنی قربانی کے جانور کی عظمت کو ملحوظ رکھنا اور اسے موٹا بنانا ہے۔ عتیق (خانہ کعبہ کو کہتے ہیں ) بوجہ ظالموں اور جابروں سے آزاد ہونے کے، جب کوئی چیز زمین پر گرجائے تو کہتے ہیں : وجبت، اسی سے وجبت الشّمس آتا ہے یعنی سورج ڈوب گیا۔

تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قولہ و القانع السائل الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر ای یطیف بہا متعرضا لہا و ہذا التعلیق اخرجہ ایضا عبد بن حمید من طریق عثمان بن الاسود قلت لمجاہد ما القانع؟ قال جارک الذی ینظر ما دخل بیتک و المعتر الذی یعتر بباک و یریک نفسہ و لا یسلک شیئا و اخرج ابن ابی حاتم من طریق سفیان بن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن مجاہد قال القانع ہو الطامع و قال مرۃ ہو السائل و من یسئلک و من طریق الثوری عن فرا ت عن سعید بن جبیر المعتر الذی یعتریک یزورک و لا یسئالک و من طریق ابن جریع عن مجاہد المعتر الذی یعتر بالبدن من غنی او فقیر و قال الخلیل فی العین القنوع المعتزل للسالۃ قنع لہ مال و خضع و ہو السائل و المعتر الذی یعترض و لا یسال و یقال قنع بکسر النون اذا رضی وقنع بفتحہا اذا سال و قرا الحسن المعتری وہو بمعنی المعتر ( فتح الباری ) یعنی قانع سے سائل مرا دہے اور ( لغا ت الحدیث ) میں قنوع کے ایک معنی مانگنا بھی نکلتا ہے اور معتر وہ غنی یا فقیر جو دل سے طالب ہو کر وہاں گھومتا رہے تاکہ اس کو گوشت حاصل ہو جائے زبان سے سوال نہ کرے معتر وہ فقیر جو سامنے آئے اس کی صورت سوالی ہو لیکن سوال نہ کرے لغات الحدیث اس تعلیق کو عبد بن حمید نے طریق عثمان بن اسود سے نکالا ہے میں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے قانع کی تحقیق کی کہا قانع وہ ہے جو انتظار کرتا رہے کہ تیرے گھر میں کیا کیا چیزیں آئی ہیں۔ ( اور کاش ان میں سے مجھ کو بھی کچھ مل جائے ) معتر وہ ہے جو وہاں گھومتا رہے اور تیرے دروازے پر امید وار بن کر آئے جائے مگر کسی چیز کا سوال نہ کرے، اور مجاہد سے قانع کے معنی طامع یعنی لالچی کے بھی آئے ہیں اور ایک دفعہ بتلایا کہ سائل مراد ہے اسے ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے اور سعید بن جبیر سے معتر کے وہی معنی نقل ہوئے جو اوپر بیان ہوئے اور مجاہد نے کہا کہ معتر وہ جوغنی ہو یا فقیر خواہش کی وجہ سے قربانی کے جانور کے ارد گرد پھرتا رہے اور خلیل نے قنوع کے معنی بتایاوہ جو ذلیل ہو کر سوال کرے، قنع الیہ کے معنی ” مال“ وہ اس کی طرف جھکا ”وشفع الیہ“ اور اس نے اس کی طرف جس سے کچھ چاہتا ہے چاپلوسی کی، مراد آگے سائل ہے اور قنع بکسر نون رضی کے معنی کے ہے اور قنع فتح نون کے ساتھ ”اذا سال“ کے معنی میں اور حسن کی قرات میں یہاں لفظ معتری پڑھا گیا ہے وہ بھی معتر ہی کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر : 1689
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يسوق بدنة فقال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ فقال إنها بدنة‏.‏ فقال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ قال إنها بدنة‏.‏ قال ‏"‏اركبها، ويلك‏"‏‏. ‏ في الثالثة أو في الثانية‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قربانی کاجانور لے جاتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ عیلیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجانا۔ اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا افسوس ! سوار بھی ہو جاؤ ( ” ویلک “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔

تشریح : زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز و نذر کے طور پر چھوڑ دیتے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چھوڑ دیا جائے۔ اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں، خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی آج کل بھی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں باقی دور دراز ممالک اسلامیہ سے آنے والوں کے لیے قدرت نے ریل، موٹر، جہاز وجود پذیر کرد ئیے ہیں۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔

حدیث نمبر : 1690
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، وشعبة، قالا حدثنا قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يسوق بدنة، فقال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ قال إنها بدنة‏.‏ قال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ قال إنها بدنة‏.‏ قال ‏"‏اركبها‏"‏‏. ‏ ثلاثا‏.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام اور شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا جانور لیے جارہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوا ر ہو جا اس نے نے پھر عرض کیا کہ یہ تو قربانی کا جانور ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا کہ سوار ہو جا۔

آپ کے بار بار فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا اس کے شعائر اسلام ہونے کے منافی نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے جائے

حدیث نمبر : 1691
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بالعمرة إلى الحج، وأهدى فساق معه الهدى من ذي الحليفة، وبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بالعمرة، ثم أهل بالحج، فتمتع الناس مع النبي صلى الله عليه وسلم بالعمرة إلى الحج، فكان من الناس من أهدى فساق الهدى، ومنهم من لم يهد، فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة، قال للناس ‏"‏من كان منكم أهدى فإنه لا يحل لشىء حرم منه حتى يقضي حجه، ومن لم يكن منكم أهدى فليطف بالبيت، وبالصفا والمروة، وليقصر، وليحلل، ثم ليهل بالحج، فمن لم يجد هديا فليصم ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجع إلى أهله‏"‏‏. ‏ فطاف حين قدم مكة، واستلم الركن أول شىء، ثم خب ثلاثة أطواف، ومشى أربعا، فركع حين قضى طوافه بالبيت عند المقام ركعتين، ثم سلم، فانصرف فأتى الصفا فطاف بالصفا والمروة سبعة أطواف، ثم لم يحلل من شىء حرم منه حتى قضى حجه ونحر هديه يوم النحر، وأفاض فطاف بالبيت، ثم حل من كل شىء حرم منه، وفعل مثل ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهدى وساق الهدى من الناس‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا یعنی عمرہ کرکے پھر حج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ قربانی لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کے لیے احرام باندھا، پھر حج کے لیے لبیک پکارا۔ لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا یعنی عمرہ کرکے حج کیا، لیکن بہت سے لوگ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے گئے تھے اور بہت سے نہیں لے گئے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو لوگوں سے کہا کہ جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو اس کے لیے حج پورا ہونے تک کوئی بھی ایسی چیز حلال نہیں ہوسکتی جسے اس نے اپنے اوپر (احرام کی وجہ سے ) حرام کر لیا ہے لیکن جن کے ساتھ قربانی نہیں ہے تو وہ بیت اللہ کا طوف کرلیں اور صفا اور مروہ کی سعی کرکے بال ترشوا لیں اور حلال ہو جائیں، پھر حج کے لیے (از سر نو آٹھویں ذی الحجہ کو احرام باندھیں ) ایسا شخص اگر قربانی نہ پائے تو تین دن کے روزے حج ہی کے دنوں میں اور سات دن کے روزے گھر واپس آکر رکھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا پھر حجر اسود کو بوسہ دیا، تین چکروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا اور باقی چار میں معمولی رفتار سے چلے، پھر بیت اللہ کا طواف پورا کرکے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی سلام پھیر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف آئے اور صفا اور مروہ کی سعی بھی سات چکروں میں پوری کی۔ جن چیزوں کو (احرام کی وجہ سے اپنے پر ) حرام کر لیا تھا ان سے اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال نہیں ہوئے جب تک حج بھی پورا نہ کرلیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ ) میںقربانی کا جانور بھی ذبح نہ کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ واپس ) آئے اور بیت اللہ کا جب طواف افاضہ کرلیا تو ہر وہ چیز آپ کے لیے حلال ہو گئی جو احرام کی وجہ سے حرام تھی جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لے کر گئے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا۔

حدیث نمبر : 1692
وعن عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته عن النبي صلى الله عليه وسلم في تمتعه بالعمرة إلى الحج فتمتع الناس معه بمثل الذي أخبرني سالم عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
عروہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کی خبر دی کہ اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے مجھے سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی تھی۔

تشریح : نووی نے کہا کہ تمتع سے یہاں قران مراد ہے، ہوا یہ کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صر ف حج کا احرام باندھا تھا پھر عمرہ کو اس میں شریک کرلیا اور قران کو بھی تمتع کہتے ہیں۔ ( وحیدی ) اسی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں رمل کا ذکر بھی آیا ہے۔ یعنی اکڑ کر مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے چلنا۔ یہ طواف کے پہلے تین پھیروں میں کیا اور باقی چار میں معمولی چال سے چلے، یہ اس واسطے کیا کہ مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کی نسبت یہ خیال کیا تھا کہ مدینہ کے بخار سے وہ ناتواں ہو گئے ہیں تو پہلی بار یہ فعل ان کا خیال غلط کرنے کے لیے کیا گیا تھا، پھر ہمیشہ یہی سنت قائم رہی۔ ( وحیدی ) حج میں ایسے بہت سے تاریخی یادگاری امو رہیں جو پچھلے بزرگوں کی یادگاریں ہیں اور اسی لیے ان کو ارکان حج سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں، رمل کا عمل بھی ایسا ہی تاریخی عمل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس شخص کے بارے میں جس نے قربانی کا جانور راستے میں خریدا

حدیث نمبر : 1693
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، قال قال عبد الله بن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهم ـ لأبيه أقم، فإني لا آمنها أن ستصد عن البيت‏.‏ قال إذا أفعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد قال الله ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏ فأنا أشهدكم أني قد أوجبت على نفسي العمرة‏.‏ فأهل بالعمرة، قال ثم خرج حتى إذا كان بالبيداء أهل بالحج والعمرة، وقال ما شأن الحج والعمرة إلا واحد‏.‏ ثم اشترى الهدى من قديد، ثم قدم فطاف لهما طوافا واحدا، فلم يحل حتى حل منهما جميعا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حمادنے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد سے کہا (جب وہ حج کے لیے نکل رہے تھے ) کہ آپ نہ جائیے کیوں کہ میرا خیال ہے کہ (بدامنی کی وجہ سے ) آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر میں بھی وہی کام کروں گا جو (ایسے موقعہ پر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے “ میں اب تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، چنانچہ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا، انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ نکلے اور جب بیداءپہنچے تو حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا اور فرمایا کہ حج اور عمرہ دونوں تو ایک ہی ہیں اس کے بعد قدید پہنچ کر ہدی خریدی پھر مکہ آکر دونوں کے لیے طواف کیا اور درمیان میں نہیں بلکہ دونوں سے ایک ہی ساتھ حلال ہوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جس نے ذو الحلیفہ میں اشعار کیا اور قلادہ پہنایا پھر احرام باندھا !

وقال نافع كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا أهدى من المدينة قلده وأشعره بذي الحليفة، يطعن في شق سنامه الأيمن بالشفرة، ووجهها قبل القبلة باركة‏.‏
اور نافع نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مدینہ سے قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر جاتے تو ذو الحلیفہ سے اسے ہار پہنا دیتے اور اشعار کردیتے اس طرح کہ جب اونٹ اپنا منہ قبلہ کی طرف کئے بیٹھا ہوتا تو اس کے داہنے کوہان میں نیزے سے زخم لگا دیتے۔

حدیث نمبر : 1694-1695
حدثنا أحمد بن محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، ومروان، قالا خرج النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة زمن الحديبية في بضع عشرة مائة من أصحابه، حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد النبي صلى الله عليه وسلم الهدى وأشعر وأحرم بالعمرة‏.‏
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما اور مروان نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ (حج کے لیے نکلے ) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔

تشریح : اشعار کے معنی قربانی کے اونٹ کے دائیں کوہان میں نیزے سے ایک زخم کردینا، اب یہ جانور بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان زدہ ہوجاتا تھا اور کوئی بھی ڈاکو چور اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اب بھی یہ اشعار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے جو سخت غلطی اور سنت نبوی کے بے ادبی ہے۔ امام ابن حزم نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سوا اور کسی سے اس کی کراہیت منقول نہیں، طحاوی نے کہا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا بلکہ اس میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے جس سے اونٹ کی ہلاکت کا ڈر ہو، اورحضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے جو مسلمانوں کے پیشوا ہیں، ہمارا یہی گمان ہے۔ اصل اشعار کو وہ کیسے مکروہ کہہ سکتے ہیں اس کا سنت ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ ( وحیدی ) قلادہ جوتیوں کا ہار جو قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال کر گویا اسے بیت اللہ میں قربانی کے لیے نشان لگا دیا جاتا تھا، قلادہ اونٹ بکری گائے سب کے لیے ہے اور اشعار کے بارے میں حضرت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں و فیہ مشروعیۃ الاشعار و ہو ان یکشط جلد البدنۃ حتی یسیل دم ثم یسلقہ فیکون ذلک علامۃ علی کونہا ہدیا و بذلک قال الجمہور من السلف و الخلف و ذکر الطحاوی فی اختلاف العلماءکراہیتہ عن ابی حنیفۃ و ذہب غیرہ الی استحبابہ للاتباع حتی صاحباہ ابویوسف و محمد فقالا ہو حسن قال و قال مالک یختص الاشعار بمن لہا سنام قال الطحاوی ثبت عن عائشۃ و ابن عباس التخییر فی الاشعار و ترکہ فدل علی انہ لیس بنسک لکنہ غیر مکروہ لثبوت فعلہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی اخرہ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث سے اشعار کی مشروعیت ثابت ہے وہ یہ کہ ہدی کے چمڑے کو ذرا سا زخمی کرکے اس سے خون بہاد دیا جائے بس وہ اس کے ہدی ہونے کی علامت ہے اور سلف اور خلف سے تمام جمہور نے اس کی مشروعیت کا اقرار کیا ہے اور امام طحاوی نے اس بارے میں علماءکا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیںحتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دو شاگردان رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے بہتر ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اشعار ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جن کے کوہان ہیں۔ طحاوی نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ اس کے یے اختیار ہے کہ یا تو اشعار کرے یا نہ کرے، یہ اسی امر کی دلیل ہے کہ اشعار کوئی حج کے مناسک سے نہیں ہے لیکن وہ غیر مکروہ ہے اس لیے کہ اس کا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ مطلقاً اشعار کو مکروہ کہنے پر بہت سے متقدمین نے حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات امام طحاوی نے دیئے ہیں، ان میں سے یہ بھی کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے مطلق اشعار کا انکار نہیں کیا بلکہ ایسے مبالغہ کے ساتھ اشعار کرنے کو مکروہ بتلایا ہے جس سے جانور ضعیف ہو کر ہلاکت کے قریب ہو جائے۔ جن لوگوں نے اشعار کو مثلہ سے تشبیہ دی ہے ان کا قول بھی غلط ہے۔ اشعار صرف ایسا ہی ہے جیسے کہ ختنہ اور حجامت اور نشانی کے لیے بعض جانوروں کے کان چیر دینا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب مثلہ کے ذیل میں نہیں آسکتے، پھر اشعار کیوں کر آسکتا ہے۔ اسی لیے ابوصائب کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں امام وکیع کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ امام نخعی سے اشعار کا مثلہ ہونا منقول ہے۔ امام وکیع نے خفگی کے لہجہ میں فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی نے ایسا کہا، حق تو یہ ہے کہ تجھ کو قید کر دیا جائے۔ ( فتح ) قرآن مجید کی آیت شریفہ یاایہا الذین امنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ.... ( الحجرات : 1 ) کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے کوئی امر صحیح طور پر ثابت ہو وہاں ہرگرز قیل و قال و قال و اقوال و آراء کو داخل نہ کیا جائے کہ یہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی ہے۔ مگر صد افسوس ہے کہ امت کا جم غفیر اسی بیماری میں مبتلا ہے، اللہ پاک سب کو تقلید جامد سے شفائے کامل عطا فرمائے آمین۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جب کسی ہدی کا اشعار کرتے تو اسے قبلہ رخ کر لیتے اور بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر اس کے کوہان کو زخمی کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1696
حدثنا أبو نعيم، حدثنا أفلح، عن القاسم، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت قلائد بدن النبي صلى الله عليه وسلم بيدى، ثم قلدها وأشعرها وأهداها، فما حرم عليه شىء كان أحل له‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے ہار میں نے اپنے ہاتھ سے خود بٹے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہار پہنایا، اشعار کیا، ان کو مکہ کی طرف روانہ کیا پھر بھی آپ کے لیے جو چیزیں حلال تھیں وہ (احرام سے پہلے صرف ہدی سے ) حرام نہیں ہوئیں۔

تشریح : یہ واقعہ ہجرت کے نویں سال کا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاجیوں کا سردار بنا کر مکہ روانہ کیا تھا، ان کے ساتھ قربانی کے اونٹ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجے تھے۔ نووی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص خود مکہ کو نہ جاسکے تو قربانی کا جانور وہاں بھیج دینا مستحب ہے اور جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ صرف قربانی روانہ کرنے سے آدمی محر م نہیں ہوتا جب تک خود احرام کی نیت نہ کرے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : گائے اونٹ وغیرہ قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹنے کا بیان

حدیث نمبر : 1697
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال أخبرني نافع، عن ابن عمر، عن حفصة، رضى الله عنهم قالت قلت يا رسول الله ما شأن الناس حلوا ولم تحلل أنت قال ‏"‏إني لبدت رأسي، وقلدت هديي، فلا أحل حتى أحل من الحج‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے کہ مجھے نافع نے خبر دی انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہا میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حلال ہو گئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو جما لیا ہے اور اپنی ہدی کو قلادہ پہناد یا ہے، اس لیے جب تک حج سے بھی حلال نہ ہو جاؤں میں (درمیان میں ) حلال نہیں ہو سکتا، (گوند لگا کر سر کے بالوں کا جما لینا اس کو تلبید کہتے ہیں۔ )

حدیث نمبر : 1698
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا ابن شهاب، عن عروة، وعن عمرة بنت عبد الرحمن، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يهدي من المدينة، فأفتل قلائد هديه، ثم لا يجتنب شيئا مما يجتنبه المحرم‏.
ہم سے عبدا اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمن نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ہدی ساتھ لے کر چلتے تھے اور میں ان کے قلادے بٹا کرتی تھی پھر بھی آپ (احرام باندھنے سے پہلے ) ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے ایک محرم پرہیز کرتا ہے۔

دونوں حدیثوں میں قربانی کا لفظ ہے وہ عام ہے اونٹ اور گائے دونوں کو شامل ہے۔ تو باب کا مطلب ثابت ہو گیا یعنی قران کے اونٹ اور گایوں کے لیے ہار بٹنا، یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھوں سے یہ ہار بٹا کرتی تھیں پس عورتوں کے لیے اس قسم کی صنعت حرفت کے کام کرنا کوئی امر معیوب نہیں ہے جیسا کہ نام نہاد شرفاءاسلام کے تصورات ہیں جو عورتوں کے لیے اس قسم کے کاموں کو اچھا نہیں جانتے یہ انتہائی کم فہمی کی دلیل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قربانی کے جانور کا اشعار کرنا

وقال عروة عن المسور ـ رضى الله عنه ـ قلد النبي صلى الله عليه وسلم الهدى وأشعره وأحرم بالعمرة‏.
اور عروہ نے مسور سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ہار پہنایا اور اس کا اشعار کیا، پھر عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا۔

حدیث نمبر : 1699
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا أفلح بن حميد، عن القاسم، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت فتلت قلائد هدى النبي صلى الله عليه وسلم ثم أشعرها وقلدها ـ أو قلدتها ـ ثم بعث بها إلى البيت، وأقام بالمدينة، فما حرم عليه شىء كان له حل‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، ان سے قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے قلادے خود بٹے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشعار کیا اور ہار پہنایا، یا میں نے ہار پہنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے لیے انہیں بھیج دیا اور خود مدینہ میں ٹھہر گئے لیکن کوئی بھی ایسی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرام نہیں ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال تھی۔

کوئی شخص اپنے وطن سے کسی کے ہمراہ مکہ شریف قربانی کا جانور بھیج دے تو وہ حلال ہی رہے گا اس پر احرام کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس کے بارے میں جس نے اپنے ہاتھ سے (قربانی کے جانوروں کو ) قلائد پہنائے

حدیث نمبر : 1700
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن أبي بكر بن عمرو بن حزم، عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها أخبرته أن زياد بن أبي سفيان كتب إلى عائشة ـ رضى الله عنها ـ إن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال من أهدى هديا حرم عليه ما يحرم على الحاج حتى ينحر هديه‏.‏ قالت عمرة فقالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ ليس كما قال ابن عباس، أنا فتلت قلائد هدى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدى، ثم قلدها رسول الله صلى الله عليه وسلم بيديه، ثم بعث بها مع أبي فلم يحرم على رسول الله صلى الله عليه وسلم شىء أحله الله حتى نحر الهدى‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے خبر دی، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ جس نے ہدی بھیج دی اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تا آنکہ اس کی ہدی کی قربانی کر دی جائے، عمرہ نے کہا کہ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کر دی گئی۔

یہ 9ھ کا واقعہ ہے اس سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نائب کی حیثیت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حج کے لیے بھیجا تھا، آئندہ سال حجۃ الوداع کیا گیا۔ اس بارے میں حضرت عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما کا فتوی درست نہ تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تردید کردی۔ معلوم ہوا کہ غلطیوں کا امکان بڑی شخصیتوں سے بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس خیال سے بعد میں رجوع کر لیا ہو۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق جسے بھی معلوم ہو ظاہر کر دینا چاہئے اور اس بارے میں کسی بھی بڑی شخصیت سے مرعوب نہ ہونا چاہئے کیوں کہ الحق یعلو و لا یعلی یعنی امر حق ہمیشہ غالب رہتا ہے اسے مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔
 
Top