Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مزدلفہ سے کب چلا جائے؟
حدیث نمبر : 1684
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت عمرو بن ميمون، يقول شهدت عمر ـ رضى الله عنه ـ صلى بجمع الصبح، ثم وقف فقال إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون أشرق ثبير. وأن النبي صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم أفاض قبل أن تطلع الشمس.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے ) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! تو چمک جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
تشریح : ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے مزدلفہ میں جو منیٰ کو آتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں جبل معروف ہناک و ہو علی یسار الذاہب الی منیٰ وہو اعظم جبال مکۃ عرف بہ جبل من ہذیل اسمہ ثبیر دفن فیہ یعنی ثبیر مکہ کا ایک عظیم پہاڑ ہے جو منی جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے اور یہ ہذیل کے ایک آدمی ثبیر نامی کے نام پر مشہور ہے جو وہاں دفن ہوا تھا۔ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے سے پہلے منی کے لیے چل دینا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے مزید تفصیل یوں ہے ثم رکب القصواءحتی اتی المشعر الحرام فاستقبل القبلۃ فدعا اللہ تعالیٰ و کبرہ و ہللہ و وحدہ فلم یزل واقفا حتی اسفر فدفع قبل ان تطلع الشمس یعنی عرفات سے لوٹتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواءپر سوار ہوئے، یہاں سے مزدلفہ میں مشعر الحرام میں آئے اور وہاں آکر قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب اجالا ہونے تک ٹھہرے رہے، مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عہد جاہلیت میں مکہ والے سورج نکلنے کے بعد یہاں سے چلا کرتے تھے، اسلام میں سورج نکلنے سے پہلے چلنا قرار پایا۔
باب : مزدلفہ سے کب چلا جائے؟
حدیث نمبر : 1684
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت عمرو بن ميمون، يقول شهدت عمر ـ رضى الله عنه ـ صلى بجمع الصبح، ثم وقف فقال إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون أشرق ثبير. وأن النبي صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم أفاض قبل أن تطلع الشمس.
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے ) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! تو چمک جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہو گئے۔
تشریح : ثبیر ایک پہاڑ کا نام ہے مزدلفہ میں جو منیٰ کو آتے ہوئے بائیں جانب پڑتا ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں جبل معروف ہناک و ہو علی یسار الذاہب الی منیٰ وہو اعظم جبال مکۃ عرف بہ جبل من ہذیل اسمہ ثبیر دفن فیہ یعنی ثبیر مکہ کا ایک عظیم پہاڑ ہے جو منی جاتے ہوئے بائیں طرف پڑتا ہے اور یہ ہذیل کے ایک آدمی ثبیر نامی کے نام پر مشہور ہے جو وہاں دفن ہوا تھا۔ مزدلفہ سے صبح سورج نکلنے سے پہلے منی کے لیے چل دینا سنت ہے۔ مسلم شریف میں حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے مزید تفصیل یوں ہے ثم رکب القصواءحتی اتی المشعر الحرام فاستقبل القبلۃ فدعا اللہ تعالیٰ و کبرہ و ہللہ و وحدہ فلم یزل واقفا حتی اسفر فدفع قبل ان تطلع الشمس یعنی عرفات سے لوٹتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی قصواءپر سوار ہوئے، یہاں سے مزدلفہ میں مشعر الحرام میں آئے اور وہاں آکر قبلہ رو ہو کر تکبیر و تہلیل کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب اجالا ہونے تک ٹھہرے رہے، مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عہد جاہلیت میں مکہ والے سورج نکلنے کے بعد یہاں سے چلا کرتے تھے، اسلام میں سورج نکلنے سے پہلے چلنا قرار پایا۔