• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تو بولاس مکڑی کس طرح اتنے باکمال منصوبے کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے؟منصوبہ بندی کرنا ان جانداروں کا خاصا ہے جو سوچنے سمجھنے کی طاقت رکھتے ہیں جیسے کہ انسان۔ علاوہ ازیں مکڑی کے دماغ میں ان سب باتوں کا ادراک کرنے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔لیکن پھر ایسی صورت میں مکڑی کو حیرت انگیز صفات والا طریقۂ شکار کیسے حاصل ہوا؟یہ وہ سوال ہے جس کا سائنسدان آج تک جواب تلاش کر نے کے لئے کوشاں ہیں۔
ارتقاء پرستوں کے مطابق مکڑی اپنی تمام تر خصوصیات کے لئے ’اتفاقات‘ کی ممنون ہے۔ مکڑی نے محض اتفاق سے پھندا بنانے کا ارادہ کر لیا، کیمیائی پیداوار کی ،یہ بات بھی اتفاق سے ہی اس کے علم میں تھی کہ اسے موتھ کو اپنی طرف کھینچنا ہے اور اس نے نشانے پر پھندے سے ضرب لگانے کی مہارت بھی اتفاق سے حاصل کر لی۔دیگر تمام خوبیاں بھی جو پھندے سے شکار کرنے کے لئے مکڑی کو درکار ہوتی ہیں، مکمل طور پر ’اتفاق‘ کے باعث و جود میں آئیں۔ یہ بات صاف ظاہرہے کہ ’اتفاق‘ پر مبنی تمام دعوے محض خواب خیالی ہیں جن کی کوئی سائنسی یا عقلی بنیاد نہیں۔یہ دیکھنے کے لیے کہ ارتقاء پرستوں کی خواب خیالیاں سائنسی حقائق سے کتنی دور ہیں ، آئیے ہم ایک مختصر سا منظر ،عدم امکان کے باوجود ،اپنے تصور میں لاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
منظر نامہ:
بہت عرصہ پہلے جب ایک مکڑی کو یہ احساس ہوا کہ وہ دوسری مکڑیوں کی طرح جالا نہیں بن سکتی تو اس نے بڑے غور سے اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ایک دن اس نے دیکھا کہ مادہ پتنگے(moths)نر پتنگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک کیمیاوی مرکب(chemical)استعمال کر رہے ہیں۔یہ دیکھ کر مکڑی نے سوچا کہ نرپتنگے کو پکڑنے کے لئے اسے بھی ایسا ہی ایک کیمیکل پیدا کرنا ہو گا، چنانچہ مکڑی نے اپنے جسم میں ایک کیمیائی تجربہ گاہ بنائی اور کیمیکل تیار کرنے لگی۔لیکن ابھی اس کے مسائل حل نہیں ہوئے کیونکہ جب تک مکڑی پتنگوں کو پکڑ لینے کے قابل نہ ہو جاتی، انھیں متوجہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔اس موقع پر مکڑی کو ایک اور ترکیب سوجی اور اس نے اپنے دھاگے سے ایک ایسا ہتھیار بنایا جو گُرز اور پھندے کی ملی جلی شکل تھا۔
مگر محض ایک ہتھیار بنا لینا ہی کافی نہیں تھا ۔پہلی مرتبہ شکار کرتے وقت اگر شکار پر کاری ضرب نہ لگتی تو مکڑی کی تمام تر کوششیں ضائع چلی جاتیں اور وہ بھوک سے مر جاتی۔مگر ایسا نہیں ہوا ۔ مکڑی نے پتنگے کاشکار کر لیا اور یوں وہ ایک شاندار شکاری طریقہ تشکیل دینے میں’کامیاب‘ ہو گئی۔ اب اس نے یہ طریۂ شکار پوری تفصیل کے ساتھ دوسری مکڑیوں کو سکھانے کا ارادہ کیا۔اور اس علم کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا طریقہ بھی نکال لیا۔
یہ سب منظرنامے کے محض حصے ہیں اور اسے تحریر کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔اس منظر کو حقیقت میں بدلنا ہو گا۔آئیے اس مقصد کے لئے ہم،اوپر بیان کئے گئے تخیلاتی منظر نامے کے دائرے میں رہتے ہوئے ،کچھ متبادل تخیلاتی صورتوں(Imaginary alternatives) پر غور کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تخیلاتی متبادل صورت ۱:
اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جنہیں ارتقاء پرست ’’مادرِفطرت‘‘ کہتے ہیں یعنی درخت،پھول،آسمان،پانی،بارش،سورج وغیرہ۔اس کے علاوہ کائنات میں موجود تمام طبعی قوتیں بھی ہیں جنہوں نے باہمی ہم آہنگی سے ایک مکمل متحرک نظام قائم کیا ہوا ہے۔اس سارے عمل کے دوران بولاس مکڑی کو فراموش نہیں کیا جاتا اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مکڑی کو ایک اچھا شکاری طریقہ حاصل ہو جائے۔
تخیلاتی متبادل صورت۲:
محض ا تفاق،جسے ارتقاء پرست ایک متحرک قوت کہتے ہیں، دوسرے شکاریوں کے ساتھ ساتھ بولاس مکڑی کی اعانت کو بھی پہنچتا ہے اور شکار کرنے کی مہارت حاصل کرلینے کے قابل بنادیتا ہے۔
قدرتی بات ہے کہ یہ سب باتیں تخیلات کے سوا اور کچھ نہیں اور صرف ایک متحرک خیال کی پیداوار ہیں۔ اس متحرک خیال کے مالک ارتقاء پرست ہیں۔اصل جواب کی طرف بڑھنے سے پہلے آئیے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ مناظرے کس قدر غیر منطقی، کالعدم اور بے بنیاد ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
*بلاشک مکڑی ایک کیمیاوی انجینئر نہیں اس کے لئے پتنگے کے خارج کردہ کیمیاوی مرکبات کا مطالعہ کرنا، ان کی ترکیب نحوی کرنا اور پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بالکل ویسا ہی کیمیاوی مرکب اپنے جسم کے اندر پیدا کر لینانا ممکن ہے۔اس بات کا اقرار عقل و فہم،منطق اور سائنس کے کلی مخالف ہے۔
*مکڑی پتنگے کے خارج کردہ کیمیاوی مرکب کو ( جسے وہ خود بناتی ہے) شکار کرنے کے سواکسی اور استعمال میں نہیں لا سکتی۔اگر اس نے یہ کیمیاوی مرکب اتفاق سے پیدا کر بھی لیا تھا،تب بھی اسے پتنگے اور اپنی کی بو کے درمیان مماثلت کو سمجھنا ضروری تھا اور پھر اس مشابہت کا تجزیہ کر لینے کے بعد مکڑی کے پاس ’ذہانت‘ کاہونالازمی تھا جس سے وہ اُس کیمیاوی مرکب کو اپنے مفادمیں استعمال کرسکے۔
*اگر ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مکڑی نے کسی طرح پتنگے کی خارج کردہ بو کی نوعیت کے بارے میں ’جان‘ لیا تھا اور پھر وہ ’اتنی تیز فہم تھی‘کہ اسے اپنے حق میں استعمال کر سکے ،تو اس صورت میں بھی مکڑی میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ کیمیاوی مرکب پیداکرنے کے لئے اپنے اندر ضروری طبعی تبدیلیاں لا سکے۔تاہم کسی بھی جاندار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے جسم میں اپنی مرضی سے نئے یا زائد عضو یا کیمیاوی پیداوار کے نظام کا اضافہ کر لے۔اس بات کو حقیقیت مان لینا تو درکنار،محض ایسا سوچنا بھی کہ مکڑی ایسا کچھ کر سکتی ہے استدلال کی دنیا کو کوسوں دور چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔
یہ بات چاہے کتنی ہی ناممکن کیوں نہ ہو آئیے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مکڑی نے وہ تمام خصوصیات جنہیں ہم بیان کر چکے ہیں ، واقعی ’اتفاق‘ سے حاصل کر لیں۔اب مکڑی کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ پتنگے کو پکڑنے کے لئے پھندے کو استعمال میں لانے کا ’سوچے‘ اور یوں پھندا ’ڈیزائن‘ کر لینے کے بعد اپنی مرضی سے اسے تخلیق کر لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اگر بولاس مکڑی کی خصوصیات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہتر طور پر سمجھ آ جاتی ہے کہ اتفاقات پر مبنی نظرۂ ارتقاء کس قدر مضحکہ خیز ہے۔محض اتفاقات مکڑی کو وہ تمام خدوخال جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مثلاً ذہانت، منصوبہ بندی اور تدبیریں، مہیا نہیں کر سکتے۔علاوہ ازیں یہ بات بھی واضح ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بھی مکڑی یہ تمام خدوخال ازخود پیدا کر لینے سے قاصر ہو گی۔یہ سمجھنے کے لئے بہت زیادہ غورو فکر کرنے یا کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔اس عیاں سچائی کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی عام سوجھ بُوجھ ہی کافی ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ارتقاء پرستوں کے نظریے صریحاً غلط اور جھوٹے ہیں ۔باقی صرف سچ ہی رہ جاتا ہے:جس صورتِ حال کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کے لئے ایک خاص عملِ تخلیق کی ضرورت ہے ۔وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام جانداروں، نباتات، حیوانات اور حشرات الارض کو پیدا کیا۔اللہ تعالیٰ لا محدود طاقت ،علم،ذہانت اور دانائی کا مالک ہے۔

رَ‌بُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ‌ ﴿٦٦﴾
’’جو پروردگارہے آسمانوں کا اور زمین کااور جو کچھ ان کے درمیان ہے،وہ زبردست اور بڑابخشنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ ص:۶۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحرا میں رہنے کے لئے فرشی دروازہ(trap door)
صحرائی موسم جانداروں کے لئے جان لیوا حد تک گرم ثابت ہو سکتے ہیں۔تاہم بعض جاندار ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں جو انھیں صحرا میں (سخت گرمی کے باوجود ) زندہ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ان جانوروں کے شکاری طریۂ کار، جسم کی ساخت یا پھر طور طریقوں کے انداز انہیں صحرائی ماحول میں آرام سے زندگی گزارنے کے قابل بناتے ہیں۔اس کتاب کے موضوع (یعنی مکڑی )کی ایک نوع ایسی خصوصیات کی مالک ہے جو صحرا میں زندگی گزارنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔یہ جاندار جو’فرشی دروازے والی مکڑی ‘کہلاتا ہے صحرا کے فرش میں ایک منفصل بل بنا کر اسے گرمی سے بچاؤ اورشکار کو پکڑنے کے لئے دام کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے۔
مکڑی سب سے پہلے زمین میں ایک بل کھودتی ہے۔وہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سیال مادے( جسے وہ خود ہی تیار کرتی ہے)کے ساتھ چپکا کر بل کے اندرونی حصے کو پلستر کرتی ہے۔یہ عمل دیواروں کو محفوظ کر کے انہیں گرنے سے بچاتا ہے۔بعد میں مکڑی ایک دھاگا بن کر دیواروں کو اس سے ڈھانپ دیتی ہے۔پلستر کرنے کا یہ طریقہ حجزِحرارت (thermal insulation)کے اس طریقۂ کار یاتکنیک سے بہت ملتاہے جو ہم آجکل استعمال کرتے ہیں۔اس طرح آرائش گاہ کے اندرونی حصے کو گرم بیرونی درجہّ حرارت سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آشیانے کی دوسری خصوصیت اس کا دام کے طور پر استعمال ہے۔مکڑی اپنے ریشم سے آشیانے کے لئے ڈھکن بناتی ہے۔ڈھکن کا ایک کنارہ قلابے hinge (جومضبوط دھاگے سے بنا ہوتا ہے )کے ذریعے آشیانے سے جڑا ہوتا ہے۔یوں یہ ڈھکن دروازے کا کام دیتا ہے۔یہ دروازہ مکڑی کو شکار کی نظروں سے اوجھل ہو جانے میں بھی مدد دیتا ہے۔مکڑی ڈھکن کو جھاڑیوں ، جھنکاراورمٹی سے چھپا دیتی ہے۔اس کے بعد مکڑی پتوں کے نیچے دھاگے (جو باہرسے آشیانے کے اندر آتے ہیں)کھینچ کر تان دیتی ہے۔جب کوئی مکوڑا گھر کے قریب آکر ان پتوں یا مٹی پر قدم رکھتا ہے تو زیرِزمین دھاگے تھرتھرانے لگتے ہیں۔اسی تھر تھراہت کی بدولت مکڑی کو پتہ چل جاتا ہے کہ شکار نزدیک ہے۔ تیاری مکمل ہو جانے پر مکڑی آشیانے میں داخل ہو کر شکار کا انتظار کرتی ہے۔
فرشی دروازے والی مکڑی اپنے بھٹ میں دس سال تک رہ سکتی ہے۔وہ اپنی ساری زندگی اس تاریک بل میں گزار دیتی ہے اور تقریباًکبھی باہر نہیں آتی۔شکار کو دبوچنے کی غرض سے اگرڈ ھکن کھولے بھی تو اس کی پچھلی ٹانگیں آشیانے سے باہر نہیں آتیں۔اگر ڈھکن کو ٹہنی سے کھولا جائے تو مکڑی دروازے تک آکر اسے دوبارہ بند کرنے کی بے تحاشا کوشش کرے گی۔مادہ مکڑیاں آشیانے سے باہر نہیں نکلتیں جبکہ نر محض جفتی کے لئے مادہ تلاش کرنے کے لئے باہر آتے ہیں۔جب بچے پیدا کرنے کا وقت آجائے تو مادہ مکڑی اپنے دھاگے سے ڈ ھکن کو آنے جانے کے راستے سے چپکا کر، مضبوطی سے راہداری کو بند کر دیتی ہے۔یوں مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ مکڑی اپنے آشیانے سے باہر آئے بغیر اس کے اندرایک سال گزار سکتی ہے۔
فرشی دروازے والی مکڑیاں رات کے وقت شکار کرتی ہیں اور دن میں اپنے آشیانوں کے دوازے مضبوطی سے بند رکھتی ہیں۔اندھیرا چھانے لگے تو مکڑی ڈھکن کو آدھا اٹھا کر یہ دیکھتی ہے کہ آیا مکمل اندھیرا چھا گیا ہے یا نہیں۔اگر اندھیرا طاری ہو تو مکڑی ڈھکن آدھا کھول کر اپنی سامنے والی ٹانگیں باہر نکال لیتی ہے۔وہ اس انداز میں کئی گھنٹوں تک بیٹھ سکتی ہے۔جب شکار، خصوصاً چیونٹیاں قریب آجاتی ہیں تو مکڑی فوراًبرق رفتاری سے ان پر چھلانگ لگا کر انھیں بل کے اندر کھینچ لیتی ہے۔ڈھکن ا پنے وزن تلے دوبارہ بند ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوپر بیان کردہ طریقے کے مطابق جینا سیکھنے کے لئے کچھ ایسی صلاحیتیں،مثلاً تعمیری صلاحیت ،درکار ہوں گی جن کے لئے ذہانت کی ضرورت ہو ۔مکڑی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ محض اتفاق یا سعی اور خطا کے ذریعے بل کو تپش سے منفصل کر لے یا مٹی میں بہروپ بھر لے۔بل بنانے سے پہلے ہی مکڑی یہ بات ’جانتی‘ ہے کہ وہ بل کو حرارت سے محفوظ کرنے کے لئے اپنا ریشم استعمال کرے گی ، اسی ریشمی دھاگے سے بل کا ڈ ھکن بنائے گی ،اپنے بل کو دشمن سے چھپنے کے لئے اور ایک بے مثال دام کے طور پر استعمال کرے گی اورریشم سے ڈھکی دیواروں والے بل میں حفاظت کے ساتھ بچے دے گی۔اگر مکڑی کو پہلے سے یہ سب معلومات نہ ہوتیں تو صحرا کے بیچ نکلنے والی پہلی فرشی دروازے والی مکڑی گرمی یا بھوک سے مر جاتی۔اور اس کا مطلب اس نوع کا خاتمہ ہوتا۔
علاوہ ازیں ہر نوزائیدہ مکڑی اسی طریقے سے زندگی گزارتی ہے، ایک ہی طریقے سے آشیانہ بناتی اور اسی طریقے سے کھاتی ہے۔اس لئے پہلی مکڑی کے لئے محض ان حیران کن خصوصیات کا مالک ہونا ہی کافی نہیں تھا بلکہ اپنی معلومات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے قابل ہونا بھی ضروری تھا۔ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ معلومات مکڑی کے جین (gene)میں مستحکم ہو جائیں۔لیکن ان حقائق کے باوجود ہمیں کئی سوالات کا سامنا ہے۔فرشی دروازے والی مکڑی کو یہ خصوصیات کیسے حاصل ہو گئیں اور ان کو کس نے اس کی جین میں نصب کیا۔
یہ ذہانت آمیز طور طریقے، منصوبہ بندی کی اہلیت ، مدبرانہ انتخاب اور تکمیل اور بے عیب جسمانی بناوٹ ،جن کی نظریۂ ارتقاء کے حامی جبلّت، تخیلاتی عمل ، اتفاق یا مادرِ فطرت جیسے نظریوں سے وضاحت کرنا چاہتے ہیں، کی حقیقتاً صرف ایک ہی وضاحت ہو سکتی ہے۔ جاندار جن مہارتوں کے مالک ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیںیا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے جانداروں کوپہلے ہی سے ان مہارتوں سے آراستہ کر کے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ بے مثال علم کا مالک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دھوکہ دہی کی ماہر مکڑی
عام خیال کے برعکس مکڑیوں کی بہت سی اقسام جالا بنائے بغیر شکار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مکڑی جو اپنے شکار کو جالے کے بغیر پکڑتی ہے کیکڑا مکڑی (crab spider)ہے۔یہ مکڑی اپنے آپ کو پھولوں میں چھپا لیتی ہے اور شہد کی ان مکھیوں کا شکار کرتی ہے جو ان پر آبیٹھتی ہیں۔۶
کیکڑا مکڑی اپنا رنگ بدل سکتی ہے اور وہ اپنی اس صلاحیت کو پھولوں کے پیلے یا سفید رنگ سے میل کھانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔وہ پھول کے بیچ میں اپنی ٹانگیں مکمل طور پر چھپا کر شکار کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے۔مکڑی کا رنگ بالکل اس پھول جیسا ہوتا ہے جس میں وہ چھپ کر بیٹھی ہوتی ہے۔صرف گہرے معائنے سے ہی مکڑی اور پھول میں فرق کیا جا سکتا ہے۔
مکڑی اس وقت حرکت میں آتی ہے جب شہد کی مکھی رس چوسنے کے لئے اس پھول پر آبیٹھتی ہے جس پرمکڑی گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔ٹھیک اسی لمحے مکڑی آہستگی سے اپنی ٹانگیں مکھی کے گرد لپیٹتی ہے اورپھر یکایک اس کے سر پر کاٹ کر اپنا زہر سیدھا مکھی کے سر میں داخل کر دیتی ہے۔اس کے بعد مکڑی شکار کو کھا جاتی ہے۔ مکڑی اپنے آپ کو اس چالاکی سے پھول میں چھپا لیتی ہے کہ کبھی کبھار ایک تتلی یا شہد کی مکھی انجانے میں مکڑی کے عین اوپر آبیٹھتی ہے۔
کیامکڑی نے اتفاقاً یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ خود ہی اپنے اندر رنگ بدلنے کی صلاحیت پیدا کر لے؟کیا اس نے پھولوں کا مطالعہ کر کے ان کے گہرے اور ہلکے رنگ اپنے جسم پر نقل کر لئے؟یہ بات واضح ہے کہ مکڑ ی یہ سب کچھ کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی تھی ۔چند باہم مربوط عصبی خلیوں(nerve centres) کے علاوہ مکڑی کے پاس ایسا دماغ بھی نہیں ہے جس میں سوچنے کی اہلیت ہو۔ مزید برآں مکڑی رنگ کور(colour blind)ہوتی ہے۔وہ نہ پیلا اور نہ ہی گلابی رنگ دیکھ سکتی ہے۔اگر ہم ایک لمحے کے لئے یہ قبول کر بھی لیں کہ مکڑی کسی طرح اپنے آپ کو اُن ہلکے یا گہرے رنگوں سے ٹھیک ٹھیک ہم آہنگ بنا سکتی تھی جو اس نے دیکھے تو اس صورت میں بھی مکڑی کے لئے ان رنگوں کو اپنے جسم میں پیدا کرنا ناممکن تھا۔یہ اللہ تعالیٰ ہے، اعلیٰ قدرت کا مالک، جو مکڑی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ رنگوں میں فرق کر کے ان کی نقل تیار کر سکے۔
یہ بات عیاں ہے کہ پھولوں اور مکڑیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے رنگ سے ہم آہنگ بنایا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ایک جیسے رنگوں اور برش سے ایک ہی کرمچ(canvas)پردو تصویریں ایک جیسے گہرے اورمدھم رنگوں میں ایک دوسرے سے اتنی مماثل بنائی گئی ہیں کہ ان کی کسی پریوں کی کہانی جیسے ’اتفاق‘ سے وضاحت ناممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیڑھی والے گول جالے سے شکار کرنا
مکڑیوں کے جالے بیشمار جانداروں کے لئے موت کا پھندا ثابت ہوتے ہیں۔لیکن کچھ جاندار موت کے ان مہلک پھندوں میں شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک عام پتنگے پر مکڑی کے جالے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔کیونکہ پتنگے کے جسم پر لگے مہین ذرّات جال کے چپچپے حصوں کو بے اثر کر دیتے ہیں۔اسی خاصیت کی بدولت پتنگا باآسانی جال سے بچ نکلتا ہے۔
مگر پتنگے پھر بھی ایسے جالوں میں پھنس جاتے ہیں جن کی ساخت ایک عام جال سے مختلف ہوتی ہے۔مدارینی علاقے میں رہنے والیScoloderus مکڑی کا جال اکثر جالوں سے مختلف ہوتا ہے اورمکھی مار کاغذ(fly-paper) سے ملتا جلتا ہے۔اس طرح scoloderusآسانی سے پتنگے کا شکار کر لیتی ہے۔یہ مکڑی ایک میٹر لمبا اور ۱۵۔۲۰سینٹی میٹر چوڑا سیڑھی نما جال بنتی ہے۔اس جالے میں پھنسنے والے پتنگے جال کے نچلے حصے میں جا گرتے ہیں۔گرتے وقت پتنگے اپنے جسم پر لگی ہوئی حفاظتی تہ (مہین ذرات)جو انہیں عام جال میں چپکنے سے بچاتی ہے،کھو دیتے ہیں اور یوں Scoloderusمکڑی کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔
اس مکڑی کا شکاری طریقۂ کاردوسری نوع کی مکڑیوں سے بہت مختلف ہے۔اس شکاری طریقے کی غور طلب بات یہ ہے کہ مکڑی ایسی خصوصیات سے آراستہ جال بنتی ہے جو اسے اُس حشرے کو پکڑنے میں مدد دیتی ہیں جسے وہ شکار کرنا چاہتی ہے۔ مختلف ساخت کا جال بننے والی مکڑی کی یہ نوع ان بے شماردلائل میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ کی لامحدود فنِ تخلیق کی گواہی دیتے ہیں۔
 
Top