• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جال پھینکنے والی مکڑی:Dinopis
یہ خوفناک مکڑی یا ڈینوپس Dinopis (سائنسی نام)نہایت انوکھا اور حیران کن شکاری طریقۂ کار استعمال کرتی ہے۔ایک مستحکم جالا بن کر شکار کا انتظارکرنے کے بجائے یہ چند خاص خصوصیات کا حامل جالا بنتی ہے اور اسے شکار کے اوپر پھینک دیتی ہے۔اس کے بعد شکار کو اس جالے میں لپیٹ دیتی ہے۔جالے میں پھنسے شکار کا برا انجام ہوتا ہے۔مکڑی شکار کو چھوٹے بنڈل کی صورت میں نئے دھاگوں میں لپیٹ دیتی ہے تاکہ اپنی غذا کو بعدمیں کھانے کے لئے تازہ رکھ سکے۔۷
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مکڑی اپنے شکار کو ایک منصوبے کے تحت شکار کرتی ہے۔منصوبہ بندی اور اس کے نتیجے میں صحیح حجم، شکل اور قوت کا جالا بنانا جو اس شکاری طریقے کے لئے بالکل موزوں ہو اور پھر شکار کا لپیٹے جانا ،سب ایسے افعال ہیں جن کے لئے ذہانت پر مبنی اعلیٰ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔مزید برآں اگر مکڑی کے جالے کی ساخت کی خصوصیات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ خصوصیات بالکل بے عیب ظاہر ہوتی ہیں۔
Dinopisکا جالا ہر لحاظ سے منصوبہ بندی کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ مکڑی جس ریشم کو استعمال میں لاتی ہے اس کی کیمیائی ساخت ہی اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔مکڑی اپنے جال کو جس طریقے سے استعمال کرتی ہے وہ بھی بالخصوص دلچسپ ہے۔مکڑی جب شکار کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے تو اس کا جالا تنکوں سے بنے ایک تنگ پنجرے جیسا لگتا ہے۔لیکن جالے کی یہ بے ضررشکل دراصل ایک فریب ہوتا ہے۔شکار کو دبوچنے کے لئے جب یہ مکڑی حرکت میں آتی ہے تو اپنی ٹانگوں سے جالے کا اندرونی حصہ باہر کی طرف الٹادیتی ہے۔یوں یہ جالا موت کا پھندا بن جاتا ہے جس سے بچ کر فرار ہونا ممکن نہیں۔
لیکن مکڑی ایسی بہترین میکانیکی منصوبہ بندی اور کیمیائی ساخت والا جالا کس طرح تعمیر کرلیتی ہے؟ ایسے کام جن کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہو ، چاہے وہ کتنے ہی آسان کیوں نہ ہوں،انہیں سرانجام دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ہر ایک کام کے لئے مختلف منصوبے اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اس کی حسبِ ذیل توضیح کر سکتے ہیں۔مکڑی کا جالا بیان کرتے وقت ہم اکثر اِن الفاظ ’لیس (جھالر) جیسا‘ کا استعمال کرتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکڑیاں اپنے جالوں سے واقعی لیس بناتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آئیے ہم یہ فرض لیتے ہیں کہ سڑک پر چلتے ایک آدمی کو کپاس اورلیس بنانے والے اوزار مثلاً گچھے دار لیس یاجھالربننے والی پھرکی(tatting shuttle)،سوئیاں ، دھاگے وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ کیا ہم ایک ایسے شخص سے جسے لیس بنانے کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں، پہلی ہی کوشش میں لیس بنانے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ یا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک لیس دار میز پوش اُن گرہوں سے اچانک بن جائے جو محض اتفاقاً لگ گئی ہوں۔یقیناً نہیں۔
کسی بھی منصوبے کا ازخودنمودار ہو جانا ناممکن ہے۔کیونکہ کسی بھی منصوبے کے ظہور کے لئے ذہانت ، مہارت اور معلومات پہنچانے کے ذریعے کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بنانے، مزید برآں ان منصوبوں کو بغیر کسی خامی کے سرانجام دینے کے لئے ، ایک جاندار کا ’ ذہین ‘ ہونا لازمی ہے۔تاہم یہ قبول کر لینا ممکن نہیں کہ ایک کیڑا ذہین ہو سکتا ہے اور منصوبے سوچ سکتا ہے۔یہ محض فرسودہ استدلال کی کڑی ہے جسے سچ تک پہنچنے کی کوشش میں استعمال کیا جاتا ہے اور حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی۔یہی وجہ ہے کہ ایک ایسی قوت یقیناً موجود ہے جس نے کیڑے کو ذہانت عطا کی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ایک ایسی طاقت ہے جس نے کیڑے کو وہ سب حرکات سکھائیں جو وہ (کیڑا) کرتا ہے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ (طاقت) کیڑے سے حرکات کرواتی ہے۔دوسرے الفاظ میں کیڑے کا یقیناً ایک خالق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ بات ایک واضح سچائی ہے کہ یہ جاندار اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے۔لیکن ارتقاء پرست اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں اور امکانات پر اپنے نظریے استوار کرتے ہیں۔اپنے نظریات کی دانستہ غلامی نے انہیں سوچنے سمجھنے ، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔اور یہ ایک ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں جہاں یہ ایک واضح سچائی کو دیکھ نہیں سکتے اور جو کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہیں اسے قبول نہیں کرتے۔
ارتقاء پرستوں کے مطابق Dinopisنے اپنا جالا ان تمام خصوصیات کے ساتھ جنہیں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، اتفاق سے بُن لیااور اتفاق سے ہی اسے استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ہر ذہین شخص یہ بات جانتا ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔لیکن ایک لمحے کے لئے ہم یہ قبول کر لیتے ہیں کہ ایسا ، واضح طور پرخارج از امکان ہونے کے باجود، ممکن تھا اور پہلی Dinopis مکڑی نے (درج بالا)جالااتفاقاً بنا ہی لیا۔ (ہم اِن سوالات کو کہ Dinopisمکڑی پہلے پہل کیسے وجود میں آئی اور اس نے اپنا جالابنانے کے لئے ضروری کیمیائی مادے اپنے جسم کے اندر کیسے پیدا کر لئے ، معلوم حقیقت سمجھتے ہوئے نظرانداز کریں گے) ۔
اس صورت میں مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دینا ضروری ہے :
اگرپہلا جالا اتفاقاً بُناگیاتھا تو دوسرا اور تیسرا جالا کیسے بُنا گیا؟ مکڑی نے بالکل ویسا ہی جالا جیسا اس نے اتفاق سے بُنا تھا،دوبارہ کیسے بنا لیا؟ایک نومولود مکڑی یہ بات کیسے جانتی تھی کہ لیس نما جالا کیسے بنتے ہیں،دوسرے جالوں سے مختلف خصوصیات کا حامل جالا کیسے بنا یاجاتا ہے اور یہ کہ اُسے جالا اپنے شکار کے اوپر پھینکنا ہوگا۔
ان سوالات کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ مکڑی کو،جو کچھ بھی سیکھنے یازبانی یاد کرنے کے قابل نہیں اورجس کے پاس یہ کام سرانجام دینے کے لئے بقدرِ ضرورت پختہ دماغ بھی نہیں،یہ تمام خصوصیات اللہ تعالیٰ نے عطا کیں جو تمام ذی روح اشیاء کا قادرِ مطلق خالق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پورشیا مکڑی۔دھوکا دہی کی ماہر
دوسری بہت سی مکڑیوں کے برعکس پورشیا مکڑی (Portia Fimbriata)جالا بنا کر شکار پکڑنے کے علاوہ جالے سے دور بھی شکار پکڑتی ہے۔پورشیا کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے حشرات الارض کھانے کے بجائے اپنی ہی نوع کی مکڑیاں کھانے کو ترجیح دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پورشیا مکڑی کا میدانِ عمل عموماً دوسری مکڑیوں کا جالا ہوتا ہے۔یہ شکار کرتے وقت ایک عمدہ اور دلچسپ حکمتِ عملی سے کام لیتی ہے۔
پورشیا مکڑی دوسری مکڑیوں کے جالے پر عموماً اس وقت جا بیٹھتی ہے جب ہوا چل رہی ہو یا پھر کوئی کیڑا اپنے آپ کو جالے سے چھڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔ہوا اور کیڑے سے پیدا ہونے والی یہ تیزلرزشیں دبے پاؤں آنے والی پورشیا کی تھرتھراہٹ چھپا دیتی ہیں۔دیکھنے میں یہ مکڑی پھل یا پودے کے ایک ٹکڑے سے ملتی جلتی ہے جو ہوا سے اڑ کر جالے میں اٹک گیا ہو۔ان دوسری مکڑیوں کے برعکس جو شکار کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹ پڑتی ہیں ، پورشیا مکڑی آہستہ سے حرکت کرتی ہے۔جالے پر بیٹھ جانے کے بعد پورشیا مکڑی جالے میں پھنسے ہوئے کیڑے کی طرح جال کو چھیڑتی ،کھینچتی اور مارتی ہے۔جال کا مالک جب نزدیک آتا ہے تو پورشیا بالکل تیار گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔۸
پورشیا مکڑیاں اپنی نوع کی مکڑیوں کی نقل اتار کر ان کو دھوکا دیتی ہیں۔مثال کے طور پر پورشیا مکڑی Euryattusمکڑی کی جفتی کی رسم کی نقل اتارتی ہے۔یہ Euryattusمکڑی ریشم کے تاروں سے لٹکتے ہوئے ایک مڑے ہوئے پتے کے اندرہتی ہے۔مادہ مکڑی کے گھر کے اوپر بیٹھ کر پورشیا پتے کو ہلاتی ہے اور اور نر Euryattus کی طرح اس کے اوپر ناچتی ہے۔ایک لمحے کے لئے دھوکا کھا کر مادہ مکڑی گھر سے باہر نکل آتی ہے۔۹
پورشیا کس طرح مختلف مکڑیوں کے اشاروں سے اپنا اشارہ مشابہ کر لیتی ہے؟اور اس نے ایسا مختلف طریقۂ شکار کیوں چنا؟یہ کہنا غیر منطقی ہو گا کہ مکڑی کسی ’تقلیدی مہارت‘ کی مالک ہے اور اسی وجہ سے اس نے ایسا دلچسپ شکاری طریقہ چنا۔مکڑی اس طریقے سے اس لئے شکار کرتی ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی تخلیق کیا۔ایسی مثا لوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فنِ تخلیق کی بے مثل خصوصیات دکھاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مکڑی کے مچھلیاں پکڑنے کے طریقے
کچھ مکڑیاں غیر متوقع علاقوں میں بھی شکار کرتی ہیں۔مثال کے طور پر پانی والی مکڑی Dolomedesکی شکار گاہ پانی کی سطح ہے ۔یہ مکڑی زیادہ تر نشیبی مقامات مثلاً مرطوب اور نالوں میں پائی جاتی ہے۔
آبی مکڑی، جو اچھی بینائی سے محروم ہوتی ہے،اپنا زیادہ تر وقت پانی کے کنارے دھاگے بن بن کر انہیں اپنے گردوپیش پھیلانے میں گزارتی ہے۔یہ دھاگے بیک وقت دو فریضے سر انجام دیتے ہیں۔یہ دوسری مکڑیوں کے لئے تنبیہ کا کام دیتے ہیں اور مکڑی کے مزموعہ علاقے کی حد مقرر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر متوقع خطرے کی صورت میں فرار کے ہنگامی راستے کا کام بھی دیتے ہیں۔
مکڑی کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا شکاری طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنی چار ٹانگیں پانی پر رکھ دیتی ہے جبکہ باقی چار ٹانگیں خشکی پر رہتی ہیں۔ ایسا کرتے وقت مکڑی اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے نہایت حسنِ تدبیر سے کام لیتی ہے ۔آبی مکڑی پانی میں داخل ہونے والی ٹانگوں کو اپنے دانتوں میں سے گزار کر ایک آب روک تہ سے ڈھک دیتی ہے۔اس کے بعد پانی کے کنارے پہنچ کر نہایت احتیاط سے اپنا جسم آگے بڑھاتے ہوئے پانی کی سطح پر اترتی ہے۔ یہ اپنے دانت اور محاس اس طرح پانی کے اندر ڈالتی ہے کہ سطح آب منتشر نہیں ہوتی۔مکڑی کسی جانور کے آنے کاانتظار کرتی ہے۔اس کی آنکھیں آس پاس کا جائزہ لیتی ہیں جبکہ ٹانگیں پانی میں پیدا ہونے والے ارتعاش کو محسوس کرتی ہیں۔اپنا پیٹ بھرنے کے لئے مکڑی کو کم از کم تصویر میں دکھائی گئی "Golyan"مچھلی جتنی بڑی مچھلی پکڑنا ضروری ہے۔
شکار کرتے وقت مکڑی اس وقت تک بے حس و حرکت کھڑی رہتی ہے جب تک مچھلی اس کے جبڑوں سے ۵.۱ سینٹی میٹر کے فاصلے پر نہیں آجاتی۔پھر وہ ایکدم پانی میں داخل ہو کر مچھلی کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ لیتی ہے اور اپنے زہریلے دانتوں سے اسے کاٹتی ہے۔اس کے بعد مکڑی فوراً اوندھی ہو جاتی ہے تاکہ مچھلی، جو مکڑی سے کافی بڑی ہوتی ہے ،اسے پانی کے اندر نہ کھینچ لے۔زہر تیزی سے اپنا اثر دکھاتا ہے۔وہ نہ صرف شکار کو ہلاک کر دیتا ہے بلکہ اس کے اندرونی اعضاء کو تحلیل کر کے ایک شوربے میں بدل دیتا ہے جس سے وہ باآسانی ہضم ہو جاتے ہیں۔جب شکار مر جائے تو مکڑی اسے کنارے پر لا کر کھا جاتی ہے۔۱۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس مقام پر بے شمار سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ مکڑی کو وہ لاکھ(موم سے ملتا جلتا مادہ ) جو اسے ڈوبنے سے بچاتی ہے ،کہاں سے حاصل ہوئی اور اس نے کس طرح اپنی ٹانگوں پر اس کی تہ چڑھانا سیکھا تاکہ ڈوبنے سے بچ سکے؟مکڑی نے موم کا فارمولا کیسے حاصل کیا اور اسے کس طرح بنایا؟یقیناً مکڑی نے یہ سب چیزیں ، جن میں سے ہر ایک ذہانت کی علامت ہے، اپنی مرضی سے رونما نہیں کر لیں۔ دیگر تمام جانداروں کی طرح مکڑی کی یہ نوع بھی اللہ تعالیٰ کی وحی سے اتنے ذہانت آمیز طریقے سے کام کرتی ہے اور ایسی منصوبہ بندی کرنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔اپنی آیات میں سے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہر جاندار کو اس کا رزق مہیا کرتا ہے۔
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْ‌ضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِ‌زْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّ‌هَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦﴾
’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے۔ سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے ۔‘(سورۃ ھود:۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
گھنٹہ والی مکڑی کا غوطہ لگانے کا طریقہ
ایشیا اور افریقہ کے گرم علاقوں میں پائی جانے والی آبی مکڑیاں اپنا بیشتر وقت زیرِ آب گزارتی ہیں ۔چناچہ یہ اپنا گھر بھی پانی کے اندر بناتی ہیں۔
اپنا آشیانہ بنانے کیلئے مکڑی سب سے پہلے پانی میں پودوں کے تنوں یا پتوں کے درمیان ایک چبوترہ تعمیر کرتی ہے۔مکڑی چبوترے کو تنوں کے ساتھ ریشم کے دھاگوں سے جوڑ دیتی ہے۔یہ دھاگے مکڑی کے گھر کی نشاندہی کرتے ہیں اور چبوترے کو استحکام بخشتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ راڈار (radar)کا کام بھی کرتے ہیں اور شکار کی آمد سے خبر دار کرتے ہیں۔
چبوترہ تیار کرلینے کے بعد مکڑی اپنی ٹانگوں اور دھڑکے ذریعے ہوا کے بلبلے اس کے نیچے لے جاتی ہے۔اس طرح جالا اوپر کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔اور جوں جوں مزید ہوا کا اضافہ ہوتا جا تا ہے جالا گھنٹہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔یہ’ گھنٹہ‘ وہ گھر ہے جہاں مکڑی رہتی ہے۔
دن میں مکڑی اپنے گھر میں انتظار کرتی ہے۔جب کوئی چھوٹا جانور ، خاص طور سے ایک کیڑا یالاروا پاس سے گزرتا ہے تو مکڑی اچانک تیزی سے باہر نکل کر اسے جھپٹ کر پکڑ لیتی ہے اور اسے کھانے کے لئے واپس اپنے گھر میں گھسیٹ کر لے جاتی ہے۔پانی کی سطح پر گرنے والا کیڑا پانی میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔مکڑی انہیں محسوس کر کے سطح آب پر آ جاتی ہے اور کیڑے کو پکڑ کر اسے پانی کے نیچے گھسیٹ لیتی ہے۔مکڑی پانی کی سطح پر جالا بھی استعمال کرتی ہے اوراس جالے میں گرنے والے کیڑوں اور دوسرے جانوروں کے مابین کوئی فرق نہیں کرتی۔
موسم سرما کی آمد کے نزدیک جمنے سے بچاؤ کے لئے مکڑی کو چند احتیاطی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی وجہ سے سردی نزدیک آنے پر آبی مکڑی پانی کی گہرائی میں چلی جاتی ہے۔اس مرتبہ وہ سردی کی گھنٹی بناتی ہے اور اس کے اندر ہوا بھر دیتی ہے۔بعض دوسری مکڑیاں شکمی ماصے والی چھوٹی لجلجی مچھلیوں(sea-snails)کے خالی خولوں کے اندر بسیرا کر لیتی ہیں۔یہ مکڑی گھنٹے کے اندر کبھی داخل نہیں ہوتی اور پورے موسمِ سرما میں بمشکل کوئی توانائی صرف کرتی ہے۔اس طرح توانائی بچتی ہے اور آکسیجن کی ضرورت گھٹ جاتی ہے۔ان احتیاطی تدابیر کا مقصد یہ ہے کہ مکڑی جوبلبلے گھنٹہ میں لے جاتی ہے وہ سردیوں میں چار سے پانچ مہینوں تک استعمال کرنے کے لئے کافی ہوں۔۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جیسا کہ ہم نے دیکھا مکڑی کا ہوا کا بلبلہ اور اس کا شکاری طریقہ زیرِ آب زندہ رہنے کے لئے معیاری طریقۂ کارہیں۔کسی بھی جاندار کے لئے اتفاقاً زیرِ آب زند گی گزارنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالنا ناممکن ہے۔اگر کسی جاندار کے پاس زیرِ آب زندہ رہنے کے لئے درکارخصوصیات نہ ہوں تو وہ پانی میں پہلی مرتبہ داخل ہوتے ہی مر جائے گا۔اس کے پاس اتفاق یا کسی اورچیز کا انتظار کرنے کا وقت ہی نہیں ہو گا۔لہٰذا ایک زمینی جانور جوموزوں مہارتوں کی بناء پر زیرِ آب زندہ رہ سکے، اپنے وجود کے لئے ان مہارتوں کے ظہور کا مرہون ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امتیازی خصوصیات اور صلاحیتوں والی اس آبی مکڑی کو اللہ تعالیٰ نے بہترین انداز میں تخلیق کیا۔
إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ رَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَ‌بِّي عَلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٦﴾
’میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو ۔بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔‘(سورۃ ھود: ۵۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پہیہ نمامکڑی
جنوب مغربی افریقہ کے Namibian صحرا میں پائی جانے والی مکڑیوں کی بعض انواع خطرے کے وقت اپنی ٹا نگیں مکمل طور پر جسم کے اندر سمیٹ لیتی ہیں اور اپنا جسم بالکل پہیے جیسا بنا لیتی ہیں۔ اس کے بعد اپنے پہیے نما جسم سے مسلسل قلابازیاں کھاتے ہوئے تیزی کے سا تھ خطرے سے دور ہو جاتی ہیں۔
یہ مکڑیاں ۵.۲۔۳ سنٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں اور دو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑی تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ اس رفتار کا اندازہ لگانے کے لئے ہم ایک مثال دیتے ہیں۔پہیے کی صورت میں مکڑی کے جسم کی محوری گردش ۴۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی گاڑی کے پہیوں کی محوری گردش کے برابر ہوتی ہے۔
مکڑی کی کچھ انواع دشمن سے بچ نکلنے کے لئے یہ طریقہ استعمال کرتی ہیں۔اکثر اوقات یہ دشمن اچانک حملہ کرنے والی جنگلی مادہ بھڑ (raider wasp)ہوتی ہے۔مکڑی ، جوریت کے ٹیلوں کی چوٹی پر اپنا آشیانہ بناتی ہے ، جب محسوس کرے کہ کوئی آشیانے کو کھودنے لگا ہے تووہ ایکدم باہر آجاتی ہے۔ پہلے اپنی رفتار بڑھانے کے لئے وہ چند قدم بڑھاتی ہے۔ اس کے بعد اپنی پانچ جوڑوں والی ٹانگیں اندر سمیٹ لیتی ہے اور ڈھلان کی طرف لڑھکتے ہوئے پہیے کی طرح رفتار پکڑتی ہوئی فرار ہو جاتی ہے۔اگر مکڑی ریت کے ٹیلوں کی تلیٹی پر اپنا گھر بناتی تو ضرورت کے مطا بق اپنی رفتار تیز نہ کر پاتی اور شکار کر لی جاتی۔اسی وجہ سے مکڑی ٹیلوں کی چوٹی پر گھر بنانے کو ترجیح دیتی ہے۔حفظ ماتقدم کے طور پر مکڑی کا ٹیلے کے اوپر آشیانہ بنانا ، بغیر کسی دشمن سے واسطہ پڑے، ایک شعوری رد عمل ہے۔بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مکڑی کو ایسا کرنے پر اُکسایا۔اللہ تعالیٰ بغیر کسی سابقہ مثال کے تخلیق کرتا ہے اور وہ تمام مخلوقات سے باخبر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پچکاری مارنے والی مکڑی
مکڑی کی یہ نوع ،جو Scytodesکہلاتی ہے اپنے شکاروں پر زہر اور چپچپے مادے کا آمیزہ پچکاری کی صورت میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دیتی ہے۔یہ سیال مادے مکڑی کی آنکھوں کے پیچھے ایک بہت غدّے glandمیں پیدا ہوتے ہیں۔اس غدے کے دو خانے ہوتے ہیں ۔ ایک خانے میں زہر اور دوسرے میں چپچپا مادہ ہوتا ہے۔مؤخرالذکر خانے کے گرد پٹھے ہوتے ہیں جنہیں سکیڑنے پر مکڑی کے دانتوں سے گوند کی دھار زور سے خارج ہوتی ہے۔آڑھی ترچھی شکل میں نکلنے والا یہ چپچپا مادہ ایک ایسا جالا بن جاتا ہے جو شکار کو اسی پتے یا ٹہنی پر جس پر وہ چل رہا ہو چپکا دیتا ہے۔۱۲ ۔شکار کو یوں بے حرکت کر دینے اور ٹہنی یا پتے پر چپکانے کے بعد آخر میں مکڑی جہاں شکار لٹکا ہو، وہاں پہنچ کر اسے کھا جاتی ہے۔
 
Top