• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پاسیبولسPasilobus مکڑی کا دام
Pasilobusمکڑی جو صرف نیو گِنی New Guineaمیں پائی جاتی ہے دام تیار کرنے میں بڑی ماہر ہے۔اس کے بنے ہوئے جالے بہت چپچپے ہوتے ہیں۔ پورا جالا دو مستحکم کناروں کے درمیان لٹکا ہوتا ہے۔ایک سرے پر گرہ بہت کسی ہوئی ہوتی ہے مگر دوسرے سرے کی گرہ خاصی ڈھیلی چھوڑ دی جاتی ہے۔یہ کسی غلطی یا مکڑی کی بے توجہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک شکاری حکمتِ عملی ہے۔اور اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب شکار مکڑی کے نزدیک پہنچتا ہے۔ جوں ہی کوئی پتنگا جال میں آ پھنستا ہے ،جالے کا ڈھیلی گرہ والا سرا کھل جاتا ہے۔ چونکہ جالے کادوسرا سِرا بندھا رہتا ہے اس لئے پتنگا ہوا میں پلندے کی طرح لٹکتا رہتا ہے۔بعد میں مکڑی شکار کے قریب پہنچ کر اس کے پورے جسم پر ، سر سے شروع کرتے ہوئے چپچپا مادہ اسپرے کر دیتی ہے۔یوں مکڑی شکار کو زندہ پکڑ لیتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اچھلنے کودنے والی مکڑی کی خصوصیات

بے عیب چھلانگ لگانا
مکڑیوں کی بیشتر انواع جال بنتی ہیں اور پھر(کیڑوں کا اس جال میں آکر پھنسنے کا) انتظار کرتی ہیں۔ لیکن ان مکڑیوں کے برعکس چھلانگ لگانے والی مکڑی اپنے شکار پر خود اُچھل کر (جیسا کے اس کے نام سے ظاہر ہے)حملہ آور ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔مکڑی اس فعل میں اس قدر مہارت رکھتی ہے کہ اپنے سے نصف میٹر دور ہوا میں اڑتے ہوئے کیڑے کو بھی شکار کر لیتی ہے۔
حملے کے بعد مکڑی اچانک شکار پر جھپٹتی ہے اور اپنے مضبوط جبڑے اس میں گاڑھ دیتی ہے۔ یہ چھلانگ عموماً گھنی جگہوں میں پودوں کے درمیان لگائی جاتی ہے۔یہ کام کامیابی کے ساتھ سر انجام دینے کے لئے مکڑی کو ایک موزوں زاویے کے ساتھ ساتھ شکار کی رفتار اور سمت کا بھی حساب لگانا ہوتا ہے ۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شکار پکڑ لینے کے بعد مکڑی اپنے آپ کو کس طرح موت سے بچاتی ہے۔مکڑی کی جان کو خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے اسے ہوا میں جست لگانی ہوتی ہے اور اس اونچائی سے (جو عموماً درخت کی چوٹی ہوتی ہے)چھلانگ لگاتے وقت مکڑی کا واپس زمین پر گر جانے کا امکان ہوتا ہے۔لیکن مکڑی اس حادثے کا شکار نہیں ہوتی۔کیونکہ چھلانگ لگانے سے قبل مکڑی ایک دھاگا بن کر اس کا سرا اُس شاخ سے باندھ دیتی ہے جس پر وہ بیٹھی ہوتی ہے۔یہ طریقہ اسے زمین پر گرنے سے بچا کر ہوا میں لٹک جانے میں مدد دیتا ہے۔دھاگا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ مکڑی اور اس کے پکڑے ہوئے شکار ، دونوں کا وزن سہہ لیتا ہے۔

مشن:شکار کو تاک کر نشانہ باندھنا۔
چھلانگ لگانے والی مکڑی کی اس ماہروتجر بہ کار نوع (species)کی دیگر طبعی خصوصیات بھی کامل اور بے عیب ہیں۔مکڑی کے سر کے درمیان میں سے دو آنکھیں دوربین کی مانند آگے کی جانب بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ دو بڑی آنکھیں اپنے خانوں (sockets)میں دائیں سے بائیں اور اوپر نیچے حرکت کر سکتی ہیں۔آنکھوں میں موجود چار متوازی درجوں والے پردۂ چشم(retinas) ،جو ہری اور ماورائے بنفشی طولِ موج(green and ultraviolet wavelengths)کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں، مکڑی کو دور کی بہترین نظرعطا کرتے ہیں۔سر کے پہلو میں موجود دوسری چار آنکھیں اتنی صفائی سے نہیں دیکھ سکتیں تاہم اپنے ارد گرد ہونے والی ہر حرکت کا پتہ لگا لیتی ہیں۔اس طرح یہ جانور اپنے پیچھے کی طرف موجود شکار یا دشمن کا باآسانی ادراک کر لیتا ہے۔ ۱۳
آئیے اس مکڑی کے بارے میں اب تک ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اس پر غور کرتے ہیں۔مکڑی کی جسمانی ساخت ایسی ہے جو اسے تیزی سے حرکت کرنے اور ایک ہی جست میں شکار کو پکڑ لینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح مکڑی کی آنکھیں شکار کو کسی بھی سمت سے دیکھ لینے میں مدد دیتی ہیں۔
یہ ایک قدرتی بات ہے کہ مکڑی نے خود یہ نہیں سوچا ہوگا کہ یہ اضافی آنکھیں اس کے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں اور یوں اس نے انہیں خود ہی پیدا کر لیا ہوگا۔یہ آنکھیں ’اتفاق‘ سے بھی خود ہی وجود میں نہیں آگئیں۔ بلکہ اس جانور کو ان تمام خصوصیات سمیت اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔نظریۂ ارتقاء جو یہ واضح نہیں کر سکا کہ صرف ایک آنکھ ہی کیسے وجود میں آئی ، چھلانگ لگانے والی مکڑی کی آٹھ آنکھوں اور ان کے بیچ مکمل ربطِ دہی (coordination)کی بابت کوئی رائے پیش کرنے سے قاصر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہر لحاظ سے بہترین بہروپ بھرنے کی صلاحیت:
اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ اوپر تصویر کے سیدھے ہاتھ پر آپ کو کیا نظر آرہا ہے توآپ یقیناً یہی کہیں گے ’پتے کے اوپر اور نیچے چند چیونٹیاں‘۔لیکن تصویر میں پتے کے نیچے جو جانور منتظر ہے وہ چیونٹی نہیں بلکہ چھلانگ لگانے والی مکڑی کی قسم Myrmarachneہے۔مکڑی اور چیونٹیوں کے درمیان صرف ٹانگوں کی تعداد گن کر ہی فرق کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ مکڑیوں کی آٹھ جبکہ چیونٹیوں کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں۔
اچھلنے کودنے والی مکڑی چیونٹیوں کو کس طرح دھوکا دے دیتی ہے؟یہ مکڑی محض چیونٹیوں جیسا روپ دھار کر ہی انہیں دھوکا نہیں دیتی بلکہ چیونٹیوں کے رویوں کی بھی نقل اتارتی ہے۔مثلاً اپنی ٹانگوں کی تعداد چھپانے کے لئے اچھلنے کودنے والی مکڑی اپنی سامنے والی دو ٹانگیں چیونٹی کے ہلتے ہوئے انٹینے (antennae)سے مشابہ کرنے کے لئے اوپر اٹھا لیتی ہے۔۱۴۔ اس طرح مکڑی کی یہ آنکھیں چیونٹی کے انٹینے کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔اس مقام پر ہمیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا:(ٹانگیں اوپر اٹھا لینے کا) مطلب یہ ہوا کہ مکڑی گنتی کر سکتی ہے۔ مکڑی نے پہلے اپنی اور پھر چیونٹیوں کی ٹانگوں کی تعداد گنی اور دونوں کا موازنہ کیا۔ فرق بھانپ لینے کے بعد یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی کہ اسے اپنی زائد ٹانگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اور یوں بڑے محتاط طریقے سے اس نے اپنی زائد ٹانگیں چیونٹی کے انٹینے سے مشابہ کر لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہاں کئی نقطے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلی بات یہ کہ مکڑی طبعی لحاظ سے چیونٹی سے یکسر مختلف ہے۔چیونٹی جیسا لگنے کے لئے مکڑی کے لئے صرف اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے چیونٹی کی چال اور جسمانی وضع کی بھی نقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا کرنے کے لئے اسے ایک ماہر مشاہد ہونے کے ساتھ ساتھ جو کچھ وہ دیکھتی ہے اسکی نقالی کرنے میں ماہر ہونے کی بھی ضرورت ہے بالکل اداکاری کرتے ہوئے ایک اداکار کی طرح۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا مکڑی نقل کرنے کے ایسے طریقے استعمال کرتی ہے جن کے لئے سوچنا، پھر ان سوچوں کو عملی جامہ پہنانااور نقل اتارتے وقت ضروری طبعی تبدیلیوں کا احساس کرنا ضروری ہے۔کسی بھی باسمجھ اور صاحبِ فہم شخص کے لئے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ مکڑی یہ سب کچھ از خود نہیں کر سکتی۔اول تو یہ کہ مکڑی کا دماغ اس قسم کی سوچ وبچار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔تو آخر مکڑی کی صلاحیتوں کا منبع کیا ہے؟ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مکڑی کی ان دیگر چند خصوصیات کا جائزہ لینا فائدہ مند ہو گا جو بہروپ مکمل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
مکڑی کے بہروپ میں صرف درج بالا چیزیں ہی شامل نہیں۔چیونٹی کی طرح لگنے کے لئے مکڑی کو اپنی آنکھیں چھپانا بھی ضروری ہے جو چیونٹی کی آنکھوں کی مانند بڑے نقطے کی طرح نہیں ہوتیں۔مگرمکڑی کی ایک خصوصیت نے یہ مشکل حل کر دی ہے ۔مکڑی کے سر کے اطراف میں دو کالے نقطے ہوتے ہیں جو بُننے والی مکڑی(weaver ant)کی چشمِ مرکب (compound eyes)جیسے لگتے ہیں۔۱۵
آئیے ذرا رک کر غور کیجیئے :مکڑی کو اس بات کا علم نہیں کہ اس کے سر کے اطراف میں دو نقطے ہیں۔کسی ایسی صورت حال کا ذکر کرنا جہاں ایک مکڑی کسی چیز کا علم رکھتے ہوئے ،شعوروآگاہی کے ساتھ ایک حکمتِ عملی تشکیل دے ، عقلمندی کی بات نہیں۔ اگر ایسا ہے تومکڑی کو، جو چیونٹیوں کو کھاتی اور ان کی نقل اتارتی ہے، اپنے سر کے پہلو میں یہ جعلی آنکھیں کیسے حاصل ہو گئیں۔مکڑی نے سب کچھ کس طرح ’سیکھا‘، گِنا اور نقل اتاری؟ اگر مکڑی ان جعلی آنکھوں کی مالک نہ ہوتی تو اس کا کیا انجام ہوتا؟ایسی صورت میں مکڑی خواہ کتناہی اچھا سوانگ کیوں نہ بھر لیتی ، چیونٹیاں اسے پہچان لیتیں اور خطرہ بھانپ لینے کے بعد اگر چیونٹیاں مکڑی سے پہلے کوئی ردِّ عمل کر تیں تو مکڑی ہلاک ہو جاتی۔یہ چیونٹیاں اپنے طاقتور جبڑوں سے مکڑی کو قتل کر ڈالتیں۔جیسا کہ صاف ظاہر ہے مکڑی کے لئے صرف چیونٹیوں کی نقل اتار لینا ہی کافی نہیں بلکہ بہروپ کو کامیاب بنانے کے لئے مکڑی کے پاس پیدائشی طور پر جعلی آنکھوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
یہ وہ چند خصوصیات ہیں جن کی مکڑی کو زندہ رہنے کے لئے ضرورت ہے۔اگر ان میں سے ایک کی بھی کمی ہو تو چھلانگ لگانے والی مکڑی جلدہی مرجائے۔اس صورت میں یہ کہناناممکن ہے کہ مکڑی کو یہ خصوصیات ’انطباق ‘سے حاصل ہو گئیں۔مکڑی کو یہ تمام تر خصوصیات بیک وقت ملیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو ،ہر اس وصف کے ساتھ جس کی اس جاندار کو ضرورت ہے، بہترین شکل میں تخلیق کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گپت چھرے یا کمانی دار چاقو(flick-knife) جیسے جبڑے
Myrmarachne plataleoidesنوع کی نر مکڑی نہایت دلچسپ شکل کی مالک ہے۔اس نوع کی نرمکڑیوں کی لمبی ’ناک‘ہوتی ہے۔شکار پکڑتے وقت یا اگر حملے کا خطرہ ہو، تو مکڑی اپنا ناک شق کرتی ہے اور (ناک کے)دونوں حصوں میں تہ کئے ہوئے جبڑے باہر نکال لیتی ہے۔ان جبڑوں کے سروں پر بے نیام دانت ہوتے ہیں۔۱۶.مکڑی ان لمبے اورتیز دھار جبڑوں کو تلوار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
چھلانگ لگانے والی مکڑی کی الفت اور جان نثاری۔
اچھلنے کودنے والی مکڑی اپنے نوزائیدہ بچوں کو کچھ عرصے کے لئے اپنی پیٹھ پر اٹھائے پھرتی ہے۔اس طرح وہ نہ صرف اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر لیتی ہے بلکہ ان کی بہتر طور پر حفاظت بھی کر سکتی ہے۔۱۷۔مکڑی ، جو ایک طرف اپنے دشمنوں کے لئے ایک بے رحم قاتل مشین ثابت ہوتی ہے، دوسری طرف اپنے بچوں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتی ہے۔یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے ایسے ارتقاء پرستوں کے لئے بیشمار مشکل سوالات کھڑے کر دیئے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ فطرت میں جانداروں کے درمیان ’جُہدبالبقاء‘ (struggle for survival)پائی جاتی ہے اور صرف اہل یا صحت مند جانورہی زندہ رہ سکتے ہیں ۔لیکن جب ہم کائنات میں جانداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو کئی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں جو ارتقاء پرستوں کے دعووں کے کلی خلاف ہیں۔ایک ہی نوع کے جانداروں کے مابین شدید الفت کے ساتھ ساتھ مختلف نوع کے جانداروں کے درمیان بھی دلی تعلق کی واضح مثالیں ملتی ہیں۔جانداروں کا دوسرے جانوروں کے لئے قربانی دینے یا اپنے ہی بچوں کے لئے جان کی بازی لگا دینے کی حقیقت ارتقاء پرستوں کو سخت مشکل میں مبتلا کر دیتی ہے جب وہ مظاہرِفطرت پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ایک سائنسی رسالہ ا س موقف کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’سوال یہ ہے کہ جاندار ایک دوسرے کی مدد کیوں کرتے ہیں؟ڈارون کے نظریے کے مطابق ہرذی روح شے اپنی زندگی کی بقاء اور نسل کشی کے لئے مسلسل جنگ کی کیفیت میں مبتلا ہے۔چونکہ دوسروں کی مدد کرنے سے اس کی اپنی بقا کا امکان گھٹ جاتا ہے ، چنانچہ یہ رویّہ بہت عرصہ پہلے معدوم ہو جانا چاہیے تھا جبکہ (اس کے برعکس)یہ دیکھا گیا ہے کہ جاندار ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘۱۸
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اپنے بچوں کیلئے مادہ جانوروں کے پیار کی کسی ارتقائی طریقِ عمل سے وضاحت کرنا ناممکن ہے۔یہ ایک ایسی سالم اور ٹھوس حقیقت ہے کہ بیشتر ارتقاء پرست جیسے Cemal Yildirim بھی اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
’کیا بچے کے لئے پیار کی کسی ’اندھے ‘نظام کے ذریعے جس میں جذباتی عوامل شامل نہ ہوں(یعنی طبعی انتخابnatural selection) وضاحت کرنے کا کوئی امکان ہے؟یہ کہنایقیناًمشکل ہے کہ ماہرینِ حیاتیات اور ڈارون پرست اس سوال کا تسلی بخش جواب پیش کر سکے ہیں۔‘
یقیناًپیار، دردمندی اور بچے کی حفاظت کی خواہش جیسے تصورات کی کسی ’اندھے‘ نظام کی اصطلاح میں وضاحت کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو شعور اور ذہانت سے محروم جانوروں کے دل میں سارے طورطریقے اجاگر کرتا ہے۔کسی بھی جاندار کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ازخود، قربانی کا مظاہرہ کرے ، منصوبہ تیار کرے یا کوئی بھی اور کام سر انجام دے۔ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ریشم کا معجزہ

یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ مکڑی جالا بننے کے لئے اپنے ہی جسم میں پیدا کئے گئے ریشمی دھاگے استعمال کرتی ہے۔لیکن دھاگا پیدا کرنے کے مراحل اور اس کی عمومی خصوصیات سے ہر کوئی واقف نہیں۔مکڑی کا دھاگا، جس کا قطر ۱ ملی میٹر کے ہزارہویں حصے سے بھی کم ہو، اِسی موٹائی کی فولادی رسی سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ دھاگا اپنی لمبائی سے چار گنا زیادہ کھنچ سکتا ہے۔ ریشم کی ایک اور حیرت انگیز خاصیت یہ ہے کہ یہ نہایت ہلکا ہوتا ہے ۔ ہم اسے ایک مثال سے واضح کرسکتے ہیں۔ریشم کا ایک دھاگا اگر پوری دنیا کے گرد لپیٹ دیا جائے تو دھاگے کا وزن صرف ۳۲۰ گرام ہو گا۔۲۰
درج بالا تکنیکی تفصیلات نظرِ ثانی کے لائق ہیں۔ہم اس حقیقت پر محض ایک سرسری نگاہ نہیں ڈال سکتے کہ ریشم فولاد سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتاہے۔کیونکہ لوہا ،جسے دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط اشیاء میں سے ایک مانا جاتا ہے مختلف دھاتوں کا مرکب (alloy)ہے جو بڑے بڑے کارخانوں میں مسلسل عمل سے گزر کر تیار ہوتا ہے۔ تاہم لوہے سے پانچ گنا زیادہ مضبوط مکڑی کا جالا بڑے کار خانوں میں پیدا نہیں ہوتابلکہ اسے ایک مفصل پایہ (arachnid)تیار کرتا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی مکڑی اسے پیدا کر سکتی ہے۔فولاد بہت بھاری شے ہے اور اسی وجہ سے اسے استعمال میں لانا مشکل ہے۔یہ نہایت تیز درجہ حرارت میں بڑی بھٹیوں میں تیار کیا جاتا ہے اور سانچوں میں ٹھنڈا کر کے اسے کارآمد بنایاجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مکڑی کا جالابہت ہلکا ہوتا ہے۔یہ مکڑیوں کے چھوٹے سے جسموں کے اندر پیدا ہوتا ہے نہ کہ بڑی بڑی بھٹیوں اور سانچوں میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مکڑی کے دھاگے کا دوسرا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ یہ بہت لچکدار ہوتاہے۔کسی ایسی شے کا ملنا بہت مشکل ہے جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لچکدار بھی ہو۔مثال کے طور پر لوہے کی رسیاں یا تاریں مضبوط ترین اشیاء میں سے ایک ہیں مگر چونکہ وہ ربڑ کی طرح لچک دار نہیں ہوتیں اس لئے آہستہ آہستہ اپنی ساخت کھو دیتی ہیں۔ربڑ کی تاریں اگرچہ اپنی اصل شکل برقرار رکھتی ہیں مگر وہ اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ بھاری وزن اٹھا سکیں۔دوسری طرف ، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ،مکڑی کا ریشم اسی موٹائی کی فولادی تارسے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اسی موٹائی کے ربڑ سے ۳۰ فیصد زیادہ لچک دار.۲۱۔فنی اصطلاح میں مکڑی کا دھاگا ٹوٹ جانے کے خلاف قوت مزاحمت اور ٹوٹنے سے پہلے اپنی کھنچے جانے کی حد کے نقطۂ نظر سے ایک ایسی شے ہے جس کی مثل دنیا میں کوئی اور شے موجود نہیں۔
پچھلی چند دہائیوں میں مکڑیوں پر کی جانے والی تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات اپنے ساتھ کئی سوالات لائی ہے۔مثلاً اگر بنی نوع انسان کئی سو سالوں کی مدت میں جمع کردہ علم کے نتیجے میں فولاد اور ربڑ کی تاریں بناتا ہے تو پھرمکڑی کا دھاگا، جونہایت اعلیٰ ہوتا ہے، کس علم کے تحت بنایا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ہے کہ بنی نوع انسان (جالے کے) فارمولے یا ترکیب کو پوری طرح سمجھ کر اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکا؟مکڑی کے ریشم کو ایسی کون سی چیز ممتاز بناتی ہے؟ان سوالوں کا جواب ریشم کی ساخت میں پوشیدہ ہے۔ کیمیائی مرکب پیدا کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات نے صرف ایک حد تک مکڑی کے دھاگے کی بناوٹ دریافت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ریشم کی ساخت
مکڑیوں کا ریشم دوسرے معلوم ریشوں سے، چاہے وہ قدرتی ہوں یا مصنوعی ،کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کو جب اس بات کا احساس ہوا تو انھوں نے تجربے کرنے شروع کر دئیے تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ مکڑی کس طریقے سے ریشم بناتی ہے۔پہلے سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ مکڑی سے ریشم حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہوگا جتنا ریشم کے کیڑے سے ریشم حاصل کرنا۔لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غلط تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی (Aarhus University)کے ارتقائی عالمِ حیوانیات Fritz Vollrath اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ریشم کو مکڑیوں سے براہِ راست حاصل کر کے بنا نا ممکن نہیں۔ایسی صورت میں پھرسائنسدانوں نے ’ مکڑی کے مصنوعی ریشم کی پیداواری‘ کی تجویز متبادل طریقے کے طور پر پیش کی۔لیکن اس سے پہلے محقیقین کے لئے یہ جاننا ضروری تھا کہ مکڑی کس طرح ریشم پیدا کرتی ہے۔اس میں کئی سال صرف ہوئے۔عالمِ حیوانیات Vollrath نے اپنے دوسرے تجربے میں اس طریقے کا ایک اہم حصہ دریافت کر لیا۔مکڑی کا ریشم بنانے کا یہ طریقہ غیر معمولی طور پر اس عمل سے ملتا جلتا ہے جس سے نائلون(nylon)جیسے صنعتی ریشے تیار کئے جاتے ہیں: مکڑیاں اپنے ریشم کو تیزاب کے ذریعے سخت بناتی ہیں۔Vollrathنے باغ میں پائی جانے والی مکڑی جسے Araneus diadematusکہتے ہیں،کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ایک نلکی کا بغور مشاہدہ کیا جس میں سے ریشم باہر نکلنے سے پہلے بہتا ہے۔اس نلکی میں داخل ہونے سے قبل ریشم سیال لحمیات پر مشتمل ہوتا ہے۔نلکی کے اندر مخصوص خلیے سیال لحمیات میں سے پانی کھینچ لیتے ہیں۔پانی سے حاصل کردہ ہائڈروجن ایٹم یا جوہر نلکی کے دوسرے حصے میں پمپ کئے جاتے ہیں جس سے تیزابی مائع پیدا ہوتا ہے۔ریشم کے لحمیات جب اس تیزاب سے جا ملتے ہیں تو یہ تہ ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ پل بناتے جاتے ہیں جس سے ریشم سخت ہو جاتا ہے۔۲۲۔لیکن ظاہر ہے ریشم کا بننا اتنا آسان نہیں جتنا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ریشم کی تیاری کے لئے دیگر اشیاء اور متنون خاصیتوں والے غشائی کیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مکڑی کے ریشم کا خام مال ’قراتین‘ (keratin)ہے۔یہ ایک ایسا لحمیہ ہے جو امینوترش زنجیرو ں amino acid chainsکی گوندھی ہوئی، بلدارڈوریوں کے طور پر نظرآتا ہے۔یہ مادہ بال،سینگ اور پروں میں بھی پایا جاتا ہے۔مکڑی اپنے جالے کے لئے سارا خام مواد شکار کو ہضم کر کے اُس سے حاصل کردہ امینو ترشوں کی ترکیب و تالیف سے حاصل کرتی ہے۔مکڑیاں اپنے جالے بھی کھا کر ہضم کر لیتی ہیں اور یوں اپنے جسم میں مزید جالے بنانے کے لئے مواد پیدا کر لیتی ہیں۔
مکڑی کے پیٹ کے تلے پر ایک جگہ ریشم بنانے کے غدے (silk glands) پائے جاتے ہیں۔ہر غدہ مختلف عناصر(elements) پیدا کرتا ہے۔ان عناصر کی مختلف تراکیب سے مختلف اقسام کے ریشمی دھاگے پیدا ہوتے ہیں۔غدوں کے درمیان بہت زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ریشم کی پیداواری کے دورانِ عمل مکڑی کے جسم میں موجود خصوصی طور پربالیدہ پمپ اور دباؤکے نظام استعمال میں لائے جاتے ہیں۔پیدا ہونے والا خام ریشم ریشوں کی صورت میں ٹونٹیوں کی مانند کام کرنے والے عضوِ تار کش(spinnerets) کے ذریعے باہر خارج کیا جاتا ہے۔مکڑی ان تارکش اعضاء میں جب چاہے پھوہار کے دباؤ کو بدل سکتی ہے۔یہ خاص طور پر ایک اہم خصوصیت ہے۔کیونکہ اس طرح خام قراتین بنانے والے سالموں کی ساخت بدل جاتی ہے۔صماموں(valves) میں نظامِ روک کے استعمال سے دھاگے کی بنائی کے دوران اس کے قطر ، قوتِ مزاحمت اور لچک میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔یوں دھاگا اپنی کیمیائی ترکیب میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت کے بغیر مطلوبہ طبیعی خصوصیات اختیا رکر لیتا ہے۔اگر دھاگے میں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہو تو ایک اور غدہ برسرِ عمل آتا ہے۔اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بے شمار خصوصیات کے حامل ننھے ریشمی دھاگے پچھلی ٹانگوں کے ماہرانہ استعمال سے مطلوبہ طریقے سے پھیلا دیے جاتے ہیں۔
 
Top