• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چڑیوں کے لئے تنبیہہ اور بہروپ بھرنا
مکڑیاں اپنے قیمتی جالے عموماً پرسکون جگہوں پر بناتی ہیں تاکہ جانور یا قدرتی حالات جالوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ مکڑیاں اپنے جالوں کو محفوظ رکھنے کے لئے نہایت دلچسپ طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ طریقہ وسطی امریکہ میں پائی جانے والی Argiopeمکڑی کے جالے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مکڑیاں اپنے جالوں پر چمکیلے،سفید آڑے ترچھے نشان بناتی ہیں۔ یہ نشانات چڑیوں کے لئے تنبہہ کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ جالے کے اندر جانے کا خطرہ نہ مول لیں۔مکڑیاں ان نشانات کوچھپنے کے لئے بھی استعمال میں لاتی ہیں۔مکڑی ان نشانات کے پیچھے چھپ جاتی ہے اور یوں شکار اسے دیکھ نہیں پاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مکڑیوں کے جالوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے نمونے
آجکل صنعتی منصوبہ بندی کرنے کا سب سے مقبول ترین طریقہ یہ ہے کہ فطرت میں پائے جانے والے نمونے استعمال کئے جائیں کیونکہ فطرت کے ماڈل ہر لحاظ سے بے عیب ہوتے ہیں۔بشمول دیگر اشیاء ، توانائی بچانے والی خصوصیات، جمالیاتی صفات،بے عیب عملی امکانیت اور منصوبہ بندی کے لئے سوچے سمجھے اقدامات فطرت میں بہترین شکل میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ایسے ماڈل جنہیں انسان اپنی صلاحیتوں ، کئی برسوں کے جمع کردہ علم اور مختلف عملوں کے نتیجے میں بناتا ہے عموماً فطرت میں پائی جانے والی مماثل اشیاء کی ادنیٰ نقل سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتے اور اس بات کا اندازہ ان مصنوعی اشیاء کا فطرت کے اصل نمونوں سے مقابلہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔
مکڑیاں ان جانداروں میں سے ایک ہیں جنہیں نمونے کے طور پر پیش نظر رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر کلغی دار یا شبنم مکڑی (dew spider)کا جالا جمالیاتی اور انجینئری نقطۂ نظر سے بالکل بہترین ہے۔ یہ مکڑیاں اپنے جالے افقی زاویے پر اس طریقے سے تعمیر کرتی ہیں کہ وہ سبز ہ زار کے گھاس پرپھیلی ہوئی ایک چادر معلوم ہوتے ہیں۔ مکڑیاں گھاس کے عمودی پتوں کو وزن سہنے والے سہاروں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جالے کا پورا وزن برابر تقسیم کر دیتی ہیں۔
انسان نے بڑے بڑے علاقے ڈھانپنے کے لئے یہی طریقۂ کار نقل کیا ہے۔ میونخ اولمپک سٹیدیم اور جدہ ایئر پورٹ ٹرمینل ،جن کا جدید تعمیرات کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے، انہیں مکڑیوں کے جالوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں۔
دنیا بھر میں مکڑیاں یہ نمونے، جنہیں انسان نے نقل کرتے ہوئے بنایا ہے،اُس وقت سے استعمال کر رہی ہیں جب سے وہ پہلی بار نمودار ہوئیں۔بے شک ایسے نمونوں کا خیال اُبھرنے اورپھر انہیں استعمال میں لانے کے لئے انجینئی کے اچھے خاصے علم کی ضرورت ہے۔ مگر مکڑیاں نہ توساختیاتی انجینئری اور نہ ہی تعمیراتی منصوبہ بندی کے متعلق کچھ جانتی ہیں کیونکہ انھوں نے ایسی کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔وہ دوسرے جانداروں کی طرح صرف انہیں اصولوں کے تحت عمل کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ بوقتِ پیدائش انہیں عطا کرتا ہے۔ ان کے تعمیراتی معجزات کا یہی ایک واحد سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک آیت میں فرماتا ہے کہ تمام ذی حیات مخلوقات اسی کے زیرِ اختیار ہیں۔

ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴿١٠٢﴾
’یہ ہے اللہ تمہارا رب ۔ کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ ہرچیز کا خالق۔ لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ ‘
(سورۃ الانعام:۱۰۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تخلیق کا معجزہ

هَـٰذَا خَلْقُ اللَّـهِ فَأَرُ‌ونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ۚ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١١﴾
’یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘ (سورۃ لقمان:۱۱)
مکڑیوں کی بعض انواع اپنے پرُاثر زہر اور خاص نکیلے دانتوں سے مینڈک، خرگوش حتیٰ کہ چڑیاں بھی پکڑ سکتی ہیں۔

بہترین تخلیق کی ایک مثال
یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مکڑیاں ’انجینئر‘ہیں اور ان کے بنائے ہوئے جالے تعمیرات اور انجنیئری کا حیرت انگیز نمونہ ہیں۔مکڑیاں قاتل مشینیں بھی ہیں جو میکانیکی دام تیار کرتی ہیں۔ یہ زیرِ آب آشیانے بنانے ، اپنے جالوں میں بیٹھ کر پھندے (lasso)کے ذریعے شکار کو پکڑنے اور کیمیائی زہر خارج کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ دھاگے کا سہارا لے کر اپنے قد سے کئی گنا زیادہ اونچائی سے چھلانگ لگا سکتی ہیں اورا پنے جسم میں فولاد سے زیادہ مضبوط دھاگے تیار کرنے اور شکار کی غرض سے بہروپ بھر لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔جب ہم مکڑیوں کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کی ساخت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا سامنامزید معجزات سے ہوتا ہے۔
سب مکڑیوں کے جسم میں متعدد خصوصیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انہیں تخلیق کیا گیا ہے، جیسے کہ بننے والے کارخانے کی مانندکام کرنے وا لی کنگیاں (combs)،کیمیائی اشیاء بنانے والی تجربہ گاہیں، تیز انہضامی خصوصیات پیدا کرنے والے اعضا،خفیف ترین ارتعاش محسوس کرنے والے حواس،زہر داخل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مضبوط نکیلے دانت وغیرہ وغیرہ۔ان تمام خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مکڑی نظریۂ ارتقاء کی تغلیط کرتی ہے اور ایک مرتبہ پھر اتفاق جیسے مضحکہ خیز مفروضے کو برباد کر دیتی ہے۔
آئیے مکڑی کے اعضا اور انکی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جسم
مکڑی کا جسم بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ آپس میں جڑے ہوئے سر اور وسطی حصے(cephalothorax) پر مشتمل ہے اور دوسرا پیٹ یا پچھلے حصے (abdomen) پر۔سر اور وسطی حصے (thorax)میں آٹھ آنکھیں، آٹھ ٹانگیں، دو زہریلے نکیلے دانت اور دو محاسے (feelers)ہوتے ہیں۔ نرم اور لچکدار پچھلے حصے کے سرے پر عضوِ تارکش(spinnerets)کے علاوہ نظامِ تنفس کے لئے سوراخ بھی پائے جاتے ہیں۔وسطی اور پچھلا حصہ چھوٹی ڈنٹھل نما ساخت pedicelکے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔کسی اور جاندار کی کمر یا درمیانی حصہ مکڑی کے درمیانی حصے جتنا پتلا نہیں ہوتا۔ایک ملی میٹر سے بھی تنگ اس ڈنٹھل میں سے کھانا ہضم کرنے کی نالی، رگیں، سانس کی نالی اور اعصابی نظام گزرتے ہیں۔عام مفہوم میں اس بات کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ مکڑی کے جسم کے دونوں حصوں کو ایک خاص طولی نظام (linear system)آپس میں جوڑتا ہے۔یہ لکیریں مکڑی کے جسم کی ساخت میں موجود عمدہ میکانیکی عملوں ( زہر کے غدّے، ریشم پیدا کرنے والے غدّے، پورے جسم کا اعصابی نظام، نظامِ تنفس اور دورانِ خون کا نظام) کودماغ کے ساتھ ملاتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

کار آمد ٹانگیں
مکڑی کے پاس ٹانگوں کے چار جوڑے ہوتے ہیں جو مشکل ترین حالات میں چلنے اور چڑھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ہر ٹانگ سات حصوں پر مشتمل ہے۔ہر ایک ٹانگ کے سرے پر بال ہوتے ہیں جنہیں scopula کہتے ہیں۔ان بالوں کی بدولت مکڑی دیواروں پر حتیٰ کہ اُلٹی ہو کر بھی چل سکتی ہے۔
مکڑی کی ٹانگوں کی خاص ساخت اسے محض ناہموارسطح پرہی چلنے کے قابل نہیں بناتی۔باوجود اس کے کہ مکڑیوں کی بینائی تیز نہیں ، وہ اپنی ٹانگوں کی ساخت کی بدولت رات کے وقت بھی آرام سے چل پھرسکتی ہیں۔مکڑیوں کی بعض انواع صرف روشنی کو محسوس کر سکتی ہیں یا دوسرے الفاظ میں انسانی کی کل بینائی کی دس فی صد کی مالک ہوتی ہیں۔لیکن اس کے باوجود مکڑیاں رات کے وقت جالے بنالیتی ہیں اور ان پر آسانی کے ساتھ چلتی پھرتی بھی ہیں۔
مکڑیاں جالے کے چپچپے حصوں سے بچتے ہوئے صرف خشک حصوں پر قدم رکھ کر چلتی ہیں۔وہ جالے کے چپچپے حصے پر شاذو نادر ہی قدم رکھتی ہیں اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ اس پر چپکتی نہیں ۔اس کے لئے مکڑیاں اس بات کی مرہون ہیں کہ ان کی ٹانگیں ایک خاص سیال سے ، جو ان کے غدوں میں پیدا ہوتا ہے، ڈھکی ہوتی ہیں۔ٹانگوں کے سرے پر کنگھیاں موجود ہوتی ہیں۔ مکڑی کے پیٹ کے سرے پر عضوِ تارکش spinneretsپائے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کئی سو ٹونٹیوں (spigots)سے ڈھکا ہوتا ہے۔مکڑی کے پیٹ میں واقع غدود سے پیدا ہونے والا سیال ریشم اِن ٹونٹیوں کی مدد سے جسم سے باہر خارج کیا جاتا ہے اور پھر( کنگھیوں کی مدد سے) ریشم کی شکل میں بن لیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اعلیٰ حسیائی صلاحیتیں
چھلانگ لگانے والی مکڑیوں کو چھوڑ کر ، زیادہ تر مکڑیوں کی بینائی کسی حد تک کمزور ہوتی ہے اور وہ صرف مختصر فاصلے تک دیکھ سکتی ہیں۔اس کمزوری یا نقص کی کمی کو ، جو ایک شکاری کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، مکڑی کا خصوصی طور پر حساس پیشگی انتباہ کا نظام (early warning system) پورا کرتا ہے۔
یہ انتباہی نظام چھونے کی حس یا قوتِ لامسہ پر مبنی ہے۔مکڑی کا بدن ایسے بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے جو ارتعاش کو فوراً محسوس کر لیتے ہیں۔ہر ایک بال عصبے کے سرے(nerve ending)سے جڑا ہوتا ہے۔لمس حتیٰ کہ آواز اور بو سے پیدا ہونے والاارتعاش ان بالوں میں تحرک یا ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔بالوں کی تھرتھراہٹ عصبی ریشوں کے سروں کو متحرک کر دیتی ہے اور یہ عصبے دماغ کو تیزی سے پیغام ارسال کر دیتے ہیں۔ اس طریقے سے مکڑیاں خفیف ترین تھرتھراہٹ کو بھی محسوس کر لیتی ہیں۔
مکڑیاں بے حرکت شکار کا ادراک نہیں کر سکتیں مگر جانداروں کے پیدا کردہ ارتعاش کو محسوس کر کے حساب لگا لیتی ہیں کہ جالے پر کیڑا کس جگہ پھنسا ہے۔ اگر مکڑی مکمل طور پر مطمئن نہ ہو کہ جالے پر کیڑا کہاں واقع ہے تو وہ جالے پر اپنی ٹانگیں مار کر ، اسے ہلا جلا کر یہ معلوم کر تی ہے کہ کیڑا کس جگہ پھنسا ہے۔اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے پھر وہ شکارکی جگہ کا پتہ لگا لیتی ہے۔
مکڑی کی ٹانگیں وہ اعضا ہیں جو ان حسیائی بالوں سے اچھی طرح مزّین ہوتے ہیں۔بال کھوکھلے اور بے لچک ساخت کے ہوتے ہیں۔مکڑیاں ایک میٹر کی دوری پر واقع شورکے مخرج سے نکلنے والے ارتعاش کو محسوس کر لیتی ہیں کہ وہ کہاں سے نکل رہاہے۔علاوہ ازیں اس کی ٹانگوں کے بالوں میں ایک اور حسی نظام موجود ہوتا ہے جو درجۂ حرارت کو فوراً محسوس کر لیتا ہے۔مکڑی کے جسم کی سطح پر بے بال حصے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر انتہائی حساس عصبی سرے پائے جاتے ہیں۔ان تمام خصوصیات کی وجہ سے مکڑیاں اپنے ارد گرد حتیٰ کہ اپنی کھال پر بھی ہونے والی ہر حرکت اور کسی بھی شے کی آمد کو محسوس کر لیتی ہیں۔
اگر مکڑی اپنی ایک ٹانگ کھو دے تو کچھ دیر بعد اسکی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے۔مکڑی اپنی یہ ٹانگ ، جو زمین پر ٹکتی بھی نہیں ، چلنے کیلئے استعمال نہیں کرتی۔ دراصل مکڑی ا پنی اصل ٹانگوں کی نصف تعداد ،یعنی چار ٹانگوں کے سا تھ کافی آرام سے چل سکتی ہے۔دوسری ٹانگ پیدا ہونے کا واحد سبب، گو کہ وہ چھوٹی ہوتی ہے، یہ ہے کہ مکڑی کو اس پر موجود حساس بالوں کی ضرورت ہے۔
مکڑیوں میں ارتعاش کو محسوس کرنے کی حسیت اسقدر بالیدہ ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا اندازہ لگا لیتی ہیں کہ (ارتعاش کا )منبع جالے پر پھنسا ہوا شکارہے یا جفتی کی غرض سے آئی ہوئی نر مکڑی۔
چند سال پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ جالے اپنی لچکدار ساخت کی وجہ سے ارتعاش ارسال نہیں کر سکتے۔ لیکن حال ہی میں بنائی گئی مشینوں کے ذریعے ، جنہیں ڈاپلر لیزر وائیبرومیٹری "Doppler Laser Vibrometry" کہتے ہیں ، کی گئی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔اب یہ حقیقیت معلوم ہوگئی ہے کہ جالے اپنی لچکدار ساخت کے باوجود ارتعاش منتقل کرتے ہیں اور وہ ارتعاش کے درجے میں اضافہ کرتے ہیں ۔۳۲۔تاہم ابھی تک اس کی کوئی سائنسی وجہ دریافت نہیں ہو سکی۔
مکڑی ایک چھوٹی سی صوتی لہرسے لے کر اپنے جالے پر پیدا ہونے والے ارتعاش تک ہر قسم کی تنبیہہ کا بڑے واضح طور پر ادراک کر لیتی ہے۔جالے پر چلنے والایہ انتہائی کارآمد اور مفید پیشگی انتباہی نظام(مکڑی) ، مکڑی کے نقطۂ نظر سے ایک ایسا میکانیکی عمل ہے جو کارآمد ترین خصوصیات کا حامل ہے۔اگر ہم اس حقیقت کو زیرِ غور لائیں کہ مکڑی کے جسم پر موجودہزاروں بالوں میں سے ہر ایک بال عصبے کے سر ے سے جڑا ہوتاہے اوروہاں سے پھر دماغ سے جاملتا ہے اور یہ کہ مکڑی ملنے والے انتباہی اشارات کا تیزی کے ساتھ اندازہ لگا لیتی ہے، تو اس نظام کی پیچیدگی مزید نمایاں ہو جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
زہر پمپ کرنے والے نکیلے دانت
مکڑی کی آنکھوں کے سامنے دو نکیلے دانت پائے جاتے ہیں۔یہ دانت وہ ہتھیار ہیں جنہیں مکڑی شکار کرنے اور اپنی حفاظت کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہر دانت کی پچھلی طرف زہر کا غدہ پایا جاتا ہے جس کا جان لیوا زہر بِس کی کنڈی (venom hook)میں گرتا ہے۔ مکڑی جب شکار کو بے حرکت کرنا چاہے تو اپنے دانت اس میں گاڑھ دیتی ہے۔پھر اپنے دانتوں میں موجود سوراخوں کے راستے زہرکوشکار کے جسم میں پمپ کر دیتی ہے۔
مکڑیاں یہ خوفناک اور مہلک اوزار اپنے آشیانے بنانے اور چھوٹی اشیاء اٹھاکر چلنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔دانتوں کے اطراف میں محاسوں (antennae)کیجگہ دو اضافی حصے، جنہیں pedipalps(دو لخت محاسے)کہتے ہیں ،پائے جاتے ہیں۔مکڑی اپنے جالے پر پھنسے شکار کا جائزہ لینے کے لئے انہیں استعمال کرتی ہے۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ،مکڑی کے حسی نظام ایک خاص ڈیزائن کے حامل ہیں۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ نظام نظریۂ ارتقاء کے ارتقائی افزائش کے دعوے کو باطل قرار دے دیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے نظاموں کی، جن کے ذریعے مکڑی اپنے ہی جسم کے اندر مہلک زہر پیدا کر لیتی ہے ،اتفاق کے ذریعے تشریح کرنا بھی ناممکن ہے ۔
بِس کی کیمیائی ترکیب کیڑے مکوڑوں کو مارنے میں مدد دیتی ہے۔یہ زہر ایک مخصوص غیر موصل یا محجوز(insulated) حصے میں موجود ہوتا ہے تاکہ مکڑی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔اسی طرح مکڑی کے لمبے دانت بھی نہایت کارگزار ہوتے ہیں۔زہر پمپ کرنے والے میکانیکی عمل کی نسیج کاٹ (tissue-cutting)دانتوں کے اندر موجودگی، شکار کے اندر زہر منتقل کرنے میں مدد دیتی ہے۔یوں یہ دانت کیمیائی اور جسمانی ہتھیار کے طور پربھی کام کرتے ہیں۔ ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مکڑی کے جسم کا ہرحصہ خاص منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ہے جس کی اتفاقات،جینیاتی تغیرات یا کسی اور تخیلاتی ارتقائی میکانیکی عمل کے ذریعے تشریح نہیں کی جاسکتی ۔اللہ تعالیٰ نے مکڑی کو اسکی تمام خصوصیات سمیت پیدا کیا۔یہ تمام خصوصیات ہمارے لئے اللہ کے فنِ تخلیق کا ثبوت ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شکار کو مفلوج کر نا اور ہضم کا عمل
جالے میں پھنس جانے والے جانوروں کو مکڑی دوسرے دھاگے میں پور ی طرح لپیٹ دیتی ہے۔ یہ دھاگا وہ اس وقت تیار کرتی ہے جب شکار جالے پر اچھی طرح پھنس جاتا ہے۔اس کے بعد وہ شکا ر کو اپنے دانتوں سے پکڑ کر اسے مکمل طور پر زہر سے بھر دیتی ہے جس سے شکار ہلاک ہوجاتا ہے۔
مکڑی صرف سیال مادے ہضم کر سکتی ہے۔مکڑی کے منہ کے گرد بال پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے ایک ملی میٹر کے ہزارویں حصے سے بڑے ننھے ذرات چھان دیئے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے مکڑی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جانور کے ریشوں کو ہضم کرنے سے پہلے انہیں مائع میں تبدیل کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ مکڑی ہاضم خامروں کے ذریعے کیڑوں کی نسیجیں (tissues)الگ الگ کر دیتی ہے ۔جب یہ ریشے اچھی طرح مائع بن جاتے ہیں تو پھر مکڑی مائع کھینچنے کے مضبوط نظام کی بدولت سیال کو پی جاتی ہے۔مثلاً شہد کی مکھی کو مار دینے کے بعد Misumenoides Formosigesمکڑی اس کے جسم میں دو سوراخ کرتی ہے ،ایک سر یا گردن میں اور دوسرا اس کے پیٹ میں۔اس کے بعد وہ ان سوراخوں میں سے مکھی کے جسم کا رس چوس لیتی ہے۔
مکڑی جن نسیجوں کو چوس لیتی ہے انھیں اپنے جسم کے معدی ترشوں کے ساتھ ملا لیتی ہے۔ جب شکار کے جسم میں خلا کا دباؤ مکڑی کی مائع کھینچنے کی قوت سے زیادہ ہو جاتا ہے تو مکڑی اپنے پیٹ کے ارد گرد موجود (مائع) کھینچنے والے پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتی ہے۔ یوں مکڑی کے جسم میں موجود ہاضم خامرے مکھی کے جسم کے مختلف حصوں میں داخل ہو کر وہاں کے ریشے بھی تحلیل کر دیتے ہیں۔پھر مکڑی پیٹ میں کئے گئے دوسرے سوراخ میں سے رس چوس لیتی ہے۔اور یہ توارد اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مکھی مکمل طور پر خالی نہیں ہو جاتی۔غذا کامنبع ہونے کے علاوہ مکھی کا جسم مکڑی کے نظامِ ہضم کا ایک عارضی اضافی حصہ بھی بن جاتا ہے۔ بالآخر مکھی انڈے کے خالی چھلکے جیسی لگنے لگتی ہے اور ایک خول کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
کیڑے مکوڑے مکڑیوں کی واحد غذا نہیں۔ مینڈک، چوہے، مچھلیاں، سانپ یا چھوٹے پرندے سب مکڑیوں کے شکار کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ’پرندہ مکڑیاں‘ تو اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ خرگوش اور مرغیاں شکار کر کے ہضم کر لیتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پانی پر چلنے والی مکڑی
پانی پر چلنے والی مکڑیاں ایک خاص ساخت کی مالک ہوتی ہیں جس کی مدد سے وہ پانی پر چل سکتی ہیں۔ ان مکڑیوں کے پیروں کے سروں پر آب روک موم یا لاکھ سے ڈھکے بالوں کی موٹی مخملی چوٹی پائی جاتی ہے۔ان کی مدد سے مکڑی بغیر ڈوبے پانی پر چل سکتی ہے۔مکڑی کی پانی کی سطح پر کھڑے رہنے کی صلاحیت اسقدر اعلیٰ ہے کہ اگر مکڑی اپنے موجودہ وزن سے پچیس گنا زیادہ بھاری بھی ہوتی تو تب بھی پانی کی سطح پر باآسانی چل سکتی۔
پانی کی سطح پر چلتے وقت آبی مکڑیاں اپنی پچھلی ٹانگیں پتوار (rudders)کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔انکی درمیانی ٹانگیں چلنے میں مدددیتی ہیں جبکہ سامنے والی چھوٹی ٹانگوں کا کام شکارکو پکڑنا ہے۔ آبی مکڑیاں اسقدر تیزی کے ساتھ حرکت کرتی ہیں کہ وہ پانی کی سطح پر اچانک ایک میٹر اونچی چھلانگ بھی لگا لیتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موٹر سے چلنے والی کشتی کی رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔
شکار کرتے وقت آبی مکڑی پانی کی سطح کو جالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔غلط قدم کے نتیجے میں پانی پر گرنے والی بھنبھیری جیسی مکھی(dragonfly)، مکھی یا تتلی ،مکڑی کی اس نوع کے لئے بہترین شکار بن جاتی ہے۔ جب ان کیڑوں کے پر پانی سے ٹکراتے ہیں تویہ پانی کی سطح پر اس طرح پھنس جاتے ہیں جیسے کہ مکھی مار کاغذ(fly-paper)پر چپکے ہوں۔کیڑوں کی وجہ سے پانی کی سطح پر پیدا ہونے والے ارتعاش کو مکڑی محسوس کر لیتی ہے۔مزید برآں، مکڑی اس ارتعاش کے ذریعے نہ صرف شکار کی جگہ کا پتہ لگا لیتی ہے بلکہ اس کے جسم کے حجم کا بھی اندازہ لگا لیتی ہے۔ وہ فوراً اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں شکار پانی پر پھنسا ہوتا ہے اور اسے دانت سے کاٹ کر اس کے جسم میں زہر داخل کر کے ہلاک کر دیتی ہے۔
مکڑی کے پیروں کے بالوں پر یہ تہ نہ جانے کس نے بنائی تاکہ وہ ڈوبنے سے بچ جائے؟ اس سوال کا دائرہ اس بات پر غور کر کے وسیع کیا جاسکتا ہے کہ آج تک جتنی بھی مکڑیاں پیدا ہوئیں ان سب کے پیر اسی طرح تہ سے ڈھکے تھے۔مکڑیاں یہ بات کیسے جانتی ہیں کہ پانی انہیں تیرتا ہوا رکھے گا۔انہیں آب روک سالموں کی خصوصیات اور ان سالموں کا پانی کے ساتھ ردّعمل کے متعلق کیسے معلوم ہے؟ اس نظام کی منصوبہ سازی مکڑیاں خود تو نہیں کر سکتی تھیں تو پھر یہ کس نے کی؟ پانی کے سطحی تناؤ پر منحصر یہ منظم نظام ازخود یا اتفاق سے تو وجود میں نہیں آسکتا تھا تو پھر یہ کیسے وجود میں آیا؟اور مکڑیوں نے یہ نظام اور اس شے کا کیمیائی فارمولا جو انہیں ڈوبنے سے بچاتی ہے ، مکڑیوں کی آنے والی نسلوں تک کیسے منتقل کیا؟
ان سوالات کے جواب ہمیں ایک بے عیب اور کامل تخلیق کی موجودگی سے متعارف کراتے ہیں۔مکڑیوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عیب اور مکمل شکل میں پیدا کیا۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کو ان تمام خصوصیات سے نوازا جن کی اسے ضرورت ہے بالکل اسی طرح اس نے ان مکڑیوں کو بھی پانی پر چلنے کی خاصیت عطا کی جس کی انہیں ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اختتام

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِ‌زْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٧٣﴾ فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧٤﴾
’اور وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بناؤ، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘(سورۃ النحل: ۷۴۔۷۳)
 
Top