- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
نظریۂ ارتقاء قیاس پر مبنی دعویٰ ہے جسے کسی بھی سائنسی اصول کی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی یہ کسی معقول دلیل اور ثبوت پر مبنی ہے۔دوسری طرف اس کا یہ دعویٰ کہ ہر جاندار ان گنت اور قطعاً بعید ازامکان اتفاقات کے نتیجے میں نمودار ہوا ہو گا ،ذہانت اور سائنس سے یکسر خالی بنیاد پر مبنی ہے۔
اس کے باوجود ارتقاء وہ واحدامید ہے جسے بعض نظریاتی حلقوں نے اپنا لیا ہے تاکہ مجموعی معاشرے کو حقیقت سے دور رکھا جا سکے۔اور اسی وجہ سے اس نظریے کے خلاف تمام دلائل کے باوجود یہ ابھی تک ارتقاء کو ایجنڈے میں شامل رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔تاہم نظریۂ ارتقاء مکڑی، جس کا ہم نے کتاب میں جائزہ لیا ہے، کے سامنے اسی طرح بے بس ہے جسطرح فطرت میں تخلیق شدہ ہر ذی حیات شے کے سامنے۔یہ نظریہ اس امر کی وضاحت کرنے سے یکسر قاصر ہے کہ مکڑیوں کی خصوصیات کیسے رونما ہوئی ہوں گی۔
اگر ہم ارتقاء کے نقطۂ نظر سے مکڑیوں کی خصوصیات پر غور کریں تو یہ بات بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کس قدربے بنیاد اور مغالطہ آمیزدعویٰ ہے۔آئیے ہم کیڑے کی ایک ایسی نوع زیرِغور لاتے ہیں جسے ہم تمام مکڑیوں کا جدِامجد خیال کریں گے۔ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کیڑا دورِحاضر کی مکڑیوں کی طرح بہرہ اورتقریباً اندھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیڑا کسی بھی چیزکا شکار نہیں کر سکے گا اور یوں فوراً بھوک سے مر جائے گا۔لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کیڑا ، اتفاق یا کسی دوسری ناقابلِ توضیح قوت کے باعث زندہ رہ جانے میں کامیاب ہو گیا۔
ایک دن اس اندھے اور بہرے کیڑے کو شکار کرنے کے لئے جالا بنانے کا جودت خیال آیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیڑے کے پاس رہنے کا کوئی ایسا ٹھکانا ہو جو شکار پکڑنے کے لئے دام کا کام بھی دے۔لیکن یہ کیڑا تعمیراتی صلاحیت اور حساب کرنے کی اہلیت کا مالک نہیں جوجالا بنانے کے لئے ضروری ہیں۔مکڑی کو یکے بعددیگرے ہوا اور پھانسے جانے والے شکار کی رفتار ، سارے وزن جو جالا سہتاہے، ان اوزان کے پھیلاؤ ، پودوں اور پتوں وغیرہ کی وزن سہنے کی حد وغیرہ جن پر وہ اپنا جالا بنائے گی اور دوسری بہت سی تفصیلات کا حساب لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مقام پر یہ سوال ابھرتاہے کہ مکڑی کس طرح حساب و کتاب کر سکتی ہے؟لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ارتقا کی بنیادی منطق بھی یہی ہے۔ارتقاء چونکہ تخلیق سے انکار کرتا ہے اس لئے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں کہ کیڑے نے یہ پیشگی شمار خود ہی سرانجام دیے۔
اس کے باوجود ارتقاء وہ واحدامید ہے جسے بعض نظریاتی حلقوں نے اپنا لیا ہے تاکہ مجموعی معاشرے کو حقیقت سے دور رکھا جا سکے۔اور اسی وجہ سے اس نظریے کے خلاف تمام دلائل کے باوجود یہ ابھی تک ارتقاء کو ایجنڈے میں شامل رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔تاہم نظریۂ ارتقاء مکڑی، جس کا ہم نے کتاب میں جائزہ لیا ہے، کے سامنے اسی طرح بے بس ہے جسطرح فطرت میں تخلیق شدہ ہر ذی حیات شے کے سامنے۔یہ نظریہ اس امر کی وضاحت کرنے سے یکسر قاصر ہے کہ مکڑیوں کی خصوصیات کیسے رونما ہوئی ہوں گی۔
اگر ہم ارتقاء کے نقطۂ نظر سے مکڑیوں کی خصوصیات پر غور کریں تو یہ بات بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء کس قدربے بنیاد اور مغالطہ آمیزدعویٰ ہے۔آئیے ہم کیڑے کی ایک ایسی نوع زیرِغور لاتے ہیں جسے ہم تمام مکڑیوں کا جدِامجد خیال کریں گے۔ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کیڑا دورِحاضر کی مکڑیوں کی طرح بہرہ اورتقریباً اندھا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیڑا کسی بھی چیزکا شکار نہیں کر سکے گا اور یوں فوراً بھوک سے مر جائے گا۔لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کیڑا ، اتفاق یا کسی دوسری ناقابلِ توضیح قوت کے باعث زندہ رہ جانے میں کامیاب ہو گیا۔
ایک دن اس اندھے اور بہرے کیڑے کو شکار کرنے کے لئے جالا بنانے کا جودت خیال آیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیڑے کے پاس رہنے کا کوئی ایسا ٹھکانا ہو جو شکار پکڑنے کے لئے دام کا کام بھی دے۔لیکن یہ کیڑا تعمیراتی صلاحیت اور حساب کرنے کی اہلیت کا مالک نہیں جوجالا بنانے کے لئے ضروری ہیں۔مکڑی کو یکے بعددیگرے ہوا اور پھانسے جانے والے شکار کی رفتار ، سارے وزن جو جالا سہتاہے، ان اوزان کے پھیلاؤ ، پودوں اور پتوں وغیرہ کی وزن سہنے کی حد وغیرہ جن پر وہ اپنا جالا بنائے گی اور دوسری بہت سی تفصیلات کا حساب لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مقام پر یہ سوال ابھرتاہے کہ مکڑی کس طرح حساب و کتاب کر سکتی ہے؟لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ارتقا کی بنیادی منطق بھی یہی ہے۔ارتقاء چونکہ تخلیق سے انکار کرتا ہے اس لئے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں کہ کیڑے نے یہ پیشگی شمار خود ہی سرانجام دیے۔