• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
زندگی کی پیچیدہ ساخت
وہ بنیادی وجہ جس کی وجہ سے نظریۂ ارتقاء زندگی کی ابتداء کے بارے میں اسقدر شدید تعطل کا شکار ہو گیایہ ہے کہ بظاہر سادہ ترین نظر آنے والے جاندار بھی ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ ایک جاندار کا خلیہ انسان کی ایجاد کردہ تمام تر تکنیکی مصنو عات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے ۔ حتیٰ کہ آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تجر بہ گاہوں میں غیر نامیاتی اشیاء کو یکجا کر ے ایک جاندار خلیہ تیار نہیں کیا جاسکتا۔
ایک خلیہ بنانے کے لئے درکار حالات و شرائط کی تعداد اسقدر زیادہ ہے کہ ’اتفاقات‘ سے ان کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ ۵۰۰ امینو ترشوں پر مشتمل ایک اوسط لحمیے(جو خلیے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے) کا اتفاقاً متشکل ہو جانے کاامکان ۵۰ ۹ ۱۰ میں سے۱ ہے۔ریاضی میں ایسی امکانیت جو جو ۵۰ ۱۰/۱ سے کم ہو عملی طور پر ناممکن تصور کی جاتی ہے۔
ڈی ان اے سالمہ ،جو خلیے کے مرکز (nucleus)میں پایا جاتا ہے اور جینیا تی معلومات کا ذخیرہ رکھتا ہے ،معلومات کا ایک حیران کن مخزن ہے ۔ حساب لگایا گیا ہے کہ اگر ڈی این اے میں رمز کی شکل میں موجود معلومات کو تحریر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی لائبریری تیار ہو جائے گی جس میں مخزن العلوم ( انسائیکلوپیڈیا) کی ۹۰۰ جلدیں ہوں گی اور ہر جلد۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہو گی۔
اس مقام پر ایک بے حددلچسپ دہری مشکل ظاہر ہوتی ہے۔ڈی این اے صرف چند خاص لحمیات (خامروں) کی مدد سے ہی اپنی نقل تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ان خامروں کی ترکیب صرف اس معلومات کے ذریعے ہی ممکن ہے جو ڈی این اے میں رمز یا کوڈ کے طور پر درج ہے۔چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اس لئے نقل ثانی بنانے کے لئے ان دونوں کابیک وقت موجود ہوناضروری ہے۔یوں یہ مناظرہ کہ زندگی خودبخود وجود میں آئی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے ۔کیلی فورنیا کی سان ڈیاگو یونیورسٹی سے وابستہ مشہور ارتقاء پرست پروفیسر Leslie Orgel نے 'Scientific American'رسالے کے شمارۂ ماہ ستمبر ۱۹۹۴ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا۔
’ یہ بات قطعی طور پر بعید از امکان ہے کہ لحمیات اور نیوکلیائی ترشے (nucleic acids)، جو دونوں ہی ساختیاتی لحاظ سے پیچیدہ ہیں ، بیک وقت ایک ہی مقام سے اضطراری طور پر نمودار ہوئے۔مگر ایک کے بغیر دوسرے کا موجود ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے،چناچہ پہلی نگاہ میں یہی نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ زندگی دراصل کبھی بھی کیمیائی ذرائع سے وجود میں نہیں آئی ہو گی۔۳۹
بلاشک اگر زندگی کی ابتداء فطری وجوہات سے ممکن نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ زندگی مافوق الفطرت طریقے سے ’تخلیق‘ کی گئی۔یہ حقیقت واضح طور پر نظریۂ ارتقاء کو باطل کردیتی ہے جس کا اولین مقصد تخلیق کو جھٹلانا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عملِ ارتقاء کے تخیلاتی میکانیکی عمل
دوسرا اہم نقطہ جس سے ڈارون کے نظریے کی تردید ہوتی ہے یہ ہے کہ اس نظریے نے جن دو تصورات کو (فطری انتخاب اور جینیاتی تبدیلیاں) ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ کے طور پر پیش کیا تھا، وہ حقیقت میں کسی ’ارتقائی قوت‘ کے حامل نہیں ہیں۔
ڈارون نے اپنے ارتقائی دعوے کی بنیاد مکمل طور پر ’ فطری انتخاب‘ (Natural Selection)کے میکانیکی عمل پر استوار کی تھی۔اس نے اس میکانیکی عمل کو جس قدر اہمیت دی وہ اس کی کتاب کے نام ’انواع کی ابتدا ء بذریعہ فطری انتخاب‘ (The Origin of Species, By Means of Natural Selection)سے ہی ظاہر ہے۔
فطری انتخاب کا موقف یہ ہے کہ ایسے جاندار جو زیادہ طاقتور ہوں گے اور اپنے مسکن کے قدرتی حالات سے زیادہ موافقت رکھتے ہوں گے، زندگی کی جدوجہد میں زندہ رہ سکیں گے۔مثال کے طور پر ہرنوں کے ایک ریوڑ میں سے ،جو جنگلی جانوروں کے خطرے میں گھراہے، تیز دوڑنے والے ہرن ہی زندہ بچ سکیں گے۔چنانچہ( نسل بعد نسل) ہرنوں کاگلہ زیادہ تیز دوڑنے والے اور مضبوط جانوروں پر مشتمل ہوگا۔تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میکانیکی عمل ہرنوں کو ارتقائی عمل سے گزار کر انہیں ایک دوسری جاندار نوع مثلاً گھوڑوں میں تبدیل نہیں کر دے گا۔
چناچہ فطری انتخاب کا عمل کسی ارتقائی طاقت کا حامل نہیں۔ڈارون بھی اس حقیقت سے واقف تھا اور اس نے اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں کہا کہ:’’فطری انتخاب اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک موافق تبدیلیاں اتفاقاً وقوع پذیر نہیں ہو جاتیں‘۔۴۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لامارک کا گہرا اثر
پس یہ ’ موافق تغیرات یا تبدیلیاں ‘ یا سازگار حالات کیسے وقوع پذیر ہو سکتے ہیں؟ ڈارون نے اپنے دور میں رائج قدیم اور ناپختہ سائنسی سوجھ بوجھ کے نقطۂ نظر سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ڈارون سے قبل موجود ایک فرانسیسی حیاتیات دان لامارک Lamarckکے مطابق جانداروں نے اپنی زندگی میں حاصل کردہ امتیازی اوصاف اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کر دیئے۔ یہ اوصاف ایک کے بعددوسری نسل میں جمع ہوتے گئے اور یوں ایک نئی نوع متشکل ہو گئی۔ مثلاً لامارک کے مطابق زرافے سینگ والے ہرنوں(antelopes) میں سے بذریعہ ارتقائی عمل وجود میں آئے۔اونچے درختوں کے پتے کھانے کی کوشش میں زرافوں کی گردنیں نسل درنسل لمبی ہوتی چلی گئیں۔
ڈارون نے بھی اسی قسم کی مثالیں پیش کیں۔مثلاً اس نے اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں لکھا کہ غذا تلاش کرنے کے لئے پانی میں جانے والے ریچھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو وہیل مچھلیوں میں تبدیل کر لیا۔۴۱
تاہم مینڈل کے دریافت کردہ موروثیت کے قوانین(Laws of Inheritance) نے، جن کی بیسویں صدی میں فروغ پانے والے علمِ جینیات (science of genetics) نے تصدیق کی ، مکمل طور پر اس من گھڑت موقف کو باطل قرار دیا کہ ماحول کے زیرِ اثر پیدا ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیاں یا خصوصیات (acquired traits)آنے والی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔اس طرح فطری انتخاب بحیثیت ’ ارتقائی میکانیکی عمل‘ تائید سے محروم ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نو ڈارونیت اور جینیاتی تبدیلیاں
اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ڈارون پسندوں نے ۱۹۳۰ کی دہائی کے آخر میں ’جدید مصنوعی نظریہ‘ (Modern Synthetic Theory) پیش کیا جسے عر فِ عام میں ’نو ڈارونیت‘(Neo-Darwinism)کہتے ہیں۔ نو ڈارونیت نے فطری انتخاب کے ساتھ ساتھ جینیاتی تبدیلیوں کوبھی ’موافق و مفیدتغیرات کا سبب ‘ قرار دیا۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں جانداروں کی جین میں پیدا ہونے والے ایسے بگاڑ ہوتے ہیں جو نقل ثانی میں غلطیوں یا شعاع ریزی جیسے خارجی عوامل کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں نوڈارونیت ہی ارتقاء کی علامت ہے۔ اس نظریے کا موقف یہ ہے کہ زمین پر موجودلاکھوں جاندار اشیاء ایک ایسے عمل کے نتیجے میں وجود میں آئیں جس کے دوران ان جاندارنامیوں کے بے شمار پیچیدہ اعضاء مثلاً کان، آنکھیں، پھپھڑے اور پر ’جینیاتی تبدیلیوں‘ (Mutations)یعنی جینیاتی بگاڑ سے گزرے۔تاہم ایک واضح سائنسی حقیقت اس نظریے کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے: جینیاتی تغیرات جانداروں کے بالیدہ ہونے کا سبب نہیں بنتے بلکہ وہ ہمیشہ انہیں نقصان ہی پہنچاتے ہیں۔
اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے۔ ڈی این اے کی ساخت نہایت پیچیدہ ہے اور اس پر ہونے والے اٹکل پچو اثرات اسے صرف نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں۔امریکی ماہرِ جینیات B.G.Ranganathanاس امر کی یوں تشریح کرتے ہیں۔
’ جینیاتی تبدیلیاں چھوٹی ، اٹکل پچو اور نقصان دہ ہوتی ہیں۔ یہ شاذو نادر ہی واقع ہوتی ہیں اور زیادہ تر امکان یہ ہوتا ہے کہ یہ غیر مؤثر ہوں گی۔ جینیاتی تبدیلیوں کی یہ چارخصوصیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تغیرات کے نتیجے میں کوئی ارتقائی ترقی نہیں ہوتی۔ مختلف اعضاء رکھنے والے جاندار نامیے میں اٹکل پچو تبدیلی یا تو غیر مؤثر ثابت ہو گی یا پھر ضرر رساں۔ایک گھڑی کی ساخت میں بے ترتیب تبدیلی اُسے بہتر تو نہیں بنا سکتی۔زیادہ امکان تو یہی ہے کہ یہ تبدیلی اسے نقصان دے گی یا زیادہ سے زیادہ غیر مؤثر ثابت ہوگی۔زلزلہ کسی شہر کو بہتر تو نہیں بنا دیتا بلکہ اپنے ساتھ تباہی و بربادی ہی لاتا ہے۔‘ ۴۲
یہ امر باعث تعجب نہیں کہ اب تک ایسی کوئی بھی مفید تبدیلی مشاہدے میں نہیں آئی جو جینیاتی رمز یا کوڈ کو ترقی دے۔تمام جینیاتی تبدیلیاں نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں۔یہ بات اب سمجھ میں آچکی ہے کہ وہ جینیاتی تبدیلی جسے ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حقیقت میں ایک ایسا جینیاتی حادثہ ہوتا ہے جو جاندار نامیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور انہیں ناکارہ کر دیتا ہے۔(جینیاتی تغیر کا انسانوں پرسب سے عام اثر سرطان کی صورت میں ہوتا ہے)۔بلاشبہ ایک تباہ کن میکانیکی عمل ’ارتقائی میکانیکی عمل‘ نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف فطری انتخاب ’ اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتا‘ جیسا کہ ڈارون نے بھی تسلیم کیا۔ یہ حقیقت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ فطرت میں کوئی ’ ارتقائی میکانیکی عمل ‘پایا نہیں جاتا۔چونکہ ایسا کوئی ارتقائی میکانیکی عمل وجود نہیں رکھتالہذا ارتقاء کے نام کا کوئی تخیلاتی عمل بھی کبھی وقوع پذیر نہیں ہواہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فوصل ریکارڈ : عبوری شکلوں کی عدم موجودگی
فوصل ریکارڈ اس بات کا سب سے واضح ثبوت ہیں کہ نظریہ ارتقاء کا تجویز کردہ مناظرہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا ۔
نظریۂ ا رتقاء کے مطابق ہر جاندار شے اپنے کسی پیش رو سے وجود میں آئی ہے۔ماضی میں پہلے سے موجود ایک نوع وقت کے ساتھ ساتھ کسی اور شے میں تبدیل ہو گئی اور تمام انواع اسی طرح سے وجود میں آئیں۔اس نظریے کی رو سے یہ قلب ماہیت یا تبدیلِ ہئیت بتدریج آگے بڑھتی ہے جس میں کئی ملین برس لگتے ہیں۔
اگر واقعتاً ا یسا تھا تو تبدیلِ ہئیت کے اس طویل دور میں درمیانی حالت پر قائم بیشمار انواع زندہ رہی ہوں گی۔
مثال کے طور پرماضی میں چندنصف مچھلی/ نصف رینگنے والے جانور ضرور گزرے ہوں گے جن میں مچھلیوں کے اوصاف پہلے سے ہی موجود تھے اور اِن اوصاف کے ساتھ ساتھ انہوں نے رینگنے والے جانوروں کی کچھ خصوصیات بھی حاصل کر لی تھیں۔یا چندایسے خزندہ ۔ پرندے (reptile-birds) زندہ رہے ہوں گے جنھوں نے پہلے سے موجود رینگنے والے جانوروں کے اوصاف کے ساتھ ساتھ پرندوں کے کچھ اوصاف بھی اپنا لئے تھے۔چونکہ یہ جانور عبوری مرحلے میں تھے اس لئے وہ معذور ، نامکمل اور اپاہج رہے ہوں گے ۔ارتقاء پرست ان تخیلاتی جانداروں کو،جن کے متعلق انہیں یقین ہے کہ وہ ماضی میں موجود تھے، ’عبوری اشکال ‘ (Transitional forms)کا نام دیتے ہیں۔
اگر ایسے جانور واقعی موجود تھے تو ان کی تعداد اوراقسام کروڑوں حتیٰ کہ اربوں میں ہو نی چاہیے۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان عجیب و غریب جانوروں کی باقیات فوصل ریکارڈ میں بھی پائی جانی چاہئیں۔اپنی کتاب ’انواع کی ابتدا‘ میں ڈارون نے وضاحت کی:
’اگر میرا نظر یہ سچاہے تو جانداروں کی لاتعداد عبوری قسمیں، جو ایک گروہ کی تمام انواع کو آپس میں منسلک کرتی ہیں، یقیناً زندہ رہی ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی سابقہ موجودگی کا ثبوت صرف آثارِ متحجرہ میں ہی مل سکتا ہے۔‘۴۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ڈارون کی امیدوں پر پانی کا پھرنا
گو انیسویں صدی کے وسط سے ارتقاء پرست دنیا بھر میں فوصل تلاش کرنے کی ان تھک کوشش کر رہے ہیں، تاہم ،آج تک کوئی عبوری شکلیں پردۂ اخفا سے نکل کر سامنے نہیں آئیں۔ کھدائی کے ذریعے بر آمد ہونے والے تمام فوصل سے پتا چلا کہ ارتقاء پرستوں کی توقعات کے بر عکس زندگی کرۂ ارض پر اچانک اورکامل شکل میں نمودار ہوئی۔ مشہور برطانوی ماہرِ حجریات Derek V.Agerارتقاء پسند ہونے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرتاہے۔
’ اصل نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم فو صل ریکارڈ کا مفصل مطالعہ کریں ،خواہ وہ (صنف بندی میں )درجوں (Orders)کی سطح پر ہو یا انواع (species)کی سطح پر ، ہم بار باریہ دیکھتے ہیں کہ درجہ بہ درجہ ارتقاء سے گزرنے کے بجائے ایک گروہ دوسرے گروہ کے مفقود ہو جانے کے بعد اچانک بڑی تعداد میں نمودار ہوا۔‘۴۴
اس کا مطلب یہ ہے کہ فوصل ریکارڈ کے مطابق تمام جاندار اپنی مکمل شکل میں بغیر کسی درمیانی حالت کے اچانک نمودار ہوئے ۔یہ امر ڈارون کے مفروضات کے عین بر عکس ہے۔اس کے علاوہ یہ اس بات کا طاقتور ثبوت بھی ہے کہ جاندار تخلیق کیے گئے ہیں۔کسی بھی جاندارکے کسی ارتقائی جدِامجد کے بغیر اچانک ہر جزو میں کامل نمودار ہونے کی واحد توجیہہ یہی ہے کہ اُسے تخلیق کیا گیا ہے۔ مشہور ارتقائی ماہر حیاتیات Douglas Futuyamaبھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
’نظریہ تخلیق اور نظریہ ارتقاء کے مابین جاندار اشیاء کی ابتدا سے متعلق تمام ممکنہ تشریحات پیش ہو چکی ہیں۔ جاندار زمین پر یا تو پوری طرح بالیدہ (کامل )نمودار ہوئے یا ایسا نہیں ہوا۔ اگر وہ مکمل حالت میں نمودار نہیں ہوئے تو پھر وہ لازماً پہلے سے موجود ایک نوع میں سے کسی ترمیمی عمل کے ذریعے بالیدہ ہوگئے ہوں گے۔اور اگر وہ مکمل بالیدہ حالت(fully developed state) میں نمودار ہوئے تھے تو پھر یقیناً انہیں کسی قادر کل فہیم ہستی نے تخلیق کیاہوگا۔‘ ۴۵
فوصل اس امرکا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جاندار پوری طرح بالیدہ اور مکمل حالت میں زمین پر نمودار ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’ جانداروں کی ابتداء ‘ ڈارون کے قیاس کے بر عکس بذریعہ ارتقاء نہیں بلکہ بذریعہ تخلیق ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انسانی ارتقاء کا افسانہ
وہ جسے نظریۂ ارتقاء کے حامی جس موضوع کو بالعموم زیرِ بحث لاتے ہیں وہ ’انسان کی ابتداء ‘(origin of man)ہے۔ڈارونی نظریے کا دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر کے جدید انسان ماضی کے بوزنہ نما (ape-like)جانوروں سے بذریعہ ارتقاء وجود میں آئے۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آج سے چار یا پانچ ملین برس قبل شروع ہونے والے اس قیاسی عملِ ارتقاء کے دوران جدید انسان اور اس کے آباؤ اجداد کے درمیان کچھ ’عبوری شکلیں ‘ زمین پر رہی تھیں۔یہ ایک مکمل طور پر تخیلاتی منظر نامہ ہے جس کے مطابق چار بنیادی ’ زمرے‘ فہرست کئے گئے ہیں۔
۱۔ آسٹرالوپیتھیکس(Australopithecus)
۲۔قدیم انسان(Homo habilis)
۳۔سیدھا کھڑا ہو کر چلنے والا انسان (Homo erectus)
۴۔موجودہ انسان(Homo sapiens)
ارتقاء پرست انسانوں کے نام نہاد اولین بندر نما آباؤ اجداد کو ’آسٹرالو پیتھیکس‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ’ جنوب افریقی بوزنہ ‘ ہے۔ یہ جاندار دراصل بوزنے کی ایک قدیم قسم کے سوا اور کچھ نہیں جو اب ناپید ہو چکی ہے۔برطانیہ اور امریکا کے دو عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ علم تشریح الاعضاء Lord Solly Zuckermanاور Professor Charles Oxnardکی آسٹرالو پیتھیکس کے مختلف نمونوں پر کی گئی جامع تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ جانور عام بوزنوں کی نوع سے تعلق رکھتے تھے جو ناپید ہوگئی اور انسانوں سے کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتے تھے ۔
ارتقاء پرست انسانی ارتقاء کے اگلے مرحلے کو ’ہومو‘ یعنی ’انسان‘ کے درجے میں رکھتے ہیں۔ارتقاء پرستوں کے دعوے کے مطابق ’ہومو‘ سلسلے کے جاندار آسٹرالوپیتھیکس کی نسبت زیادہ بالیدہ ہیں ۔ ارتقاء پرست اِن مخلوقات کے مختلف رکازات (fossils)کو خاص ترتیب سے رکھ کر ایک قیاسی ارتقائی خاکہ بناتے ہیں۔یہ خاکہ تصوراتی ہے کیونکہ یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوا کہ ہومو سلسلے کے مختلف زمروں کے درمیان کسی قسم کا ارتقائی تعلق موجود ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں نظریۂ ارتقاء کے ممتاز ترین حامیوں میں سے ایک حامی ارنسٹ میر (Ernst Mayr)اس حقیقیت کا ان الفاظ میں اقرار کرتا ہے :’جدیدانسان تک پہنچنے والی کڑی دراصل گم ہو گئی ہے۔‘۴۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

ارتقاء پرست چاروں متذکرہ کڑیوں کا یوں خاکہ بنا کر:’ آسٹرالوپیتھیکس <قدیم انسان<سیدھا کھڑا ہو کر چلنے والا انسان<موجودہ انسان ، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نوع دوسری نوع کی جدِ امجد ہے۔تاہم قدیم انسان پر تحقیق کرنے والے ماہرینِ کی حالیہ دریافتوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ آسٹرالوپیتھیکس،قدیم انسان اور سیدھا کھڑے ہو نے والے انسان ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جاتے تھے۔۴۸
مزید برآں انسانوں کا ایک خاص گروہ جو Homo erectus کے درجے میں آتا ہے، جدید عہد تک زندہ تھا۔Homo sapiens neandarthalensisاور Homo sapiens sapiens (جدید آدمی) ایک ہی خطے میں ایک سا تھ آباد تھے۔۴۹
یہ صورتِ حال اس دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے آباؤ اجداد تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ قدیم حیاتیات Stephen Jay Gould ارتقاء پرست ہونے کے باوجود نظریہ ارتقاء میں اس گتھی کے بارے میں کہتا ہے :
’ اگرنوعِ انسانی کی تین نسلیں (اے افریقی، تنومند جنوب افریقی بندر اور قدیم انسان) ایک ہی دور میں موجود رہیں اور ان میں سے ایک بھی نسل واضح طور پر دوسری نسل میں سے نہیں نکلی تو ہمارے زینے(سلسلۂ مدارج) کا کیا بنا؟ مزید برآں ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی زمین پر اپنے عرصۂ زندگی میں کوئی ارتقائی رجحانات نہیں دکھائے۔‘ ۵۰
مختصراً ،ارتقائے انسان کا یہ افسانہ جو میڈیا یا کورس کی کتابوں میں ’نیم بندر، نیم انسان‘ جانوروں کی مختلف تصاویر بنا بنا کر جھوٹی اور مبالغہ آمیز اشاعت کے ہتکنڈے استعمال کرتے ہوئے اچھالا گیا ہے ، سائنسی بنیاد سے محروم ایک کہانی کے سو اور کچھ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

بر طانیہ کے سب سے نامور اور محترم سائنسدانوں میں سے ایک سائنسدان لارڈ سولی ذکرمان Lord Solly Zuckerman جنھوں نے اس موضوع پربرسوں تک تحقیق کی اور آسٹرالوپیتھیکس فوصل کا پندرہ برس تک بالخصوص مطالعہ کیا ، ارتقاء پرست ہونے کے باوجود بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت میں ایسا کوئی شجرہ نصب پایا نہیں جاتا جو انسانوں کو بوزنہ نما مخلوق سے ملاتا ہو۔
Zuckerman نے ایک دلچسپ ’ سائنسی طیف‘ بنایا۔یہ طیف ان علوم پر مشتمل تھا جنہیں وہ سائنسی یا غیر سائنسی سمجھتا تھا۔ اس طیف کے مطا بق ’انتہائی سائنسی ‘ (the most scientific) علوم وہ ہیں جن کی بنیاد ٹھوس اعدادو شمارپر ہو جیسے کہ کیمیاا ور طبیعیا ت ۔ان کے بعد حیاتیا تی علوم اور بھر معاشرتی علوم آتے ہیں۔اس طیف کے آخری سرے پر،جسے سب سے زیادہ ’غیر سائنسی‘ تصور کیا جاتاہے، ’ اضافی حسی ادراک‘ (extra-sensory perceptions)یعنی ٹیلی پیتھی اور چھٹی حس جیسے تصورات رکھے گئے ہیں ۔ سب سے آخر میں ’انسانی ارتقاء‘کا اندراج کیا گیا ہے۔Zuckerman اپنے استدلال کو یوں پیش کرتا ہے۔
’ہم پھر معروضی سچ کی فہرست سے ہٹ کر سیدھا فرضی حیاتیاتی سائنس کے ایسے شعبوں مثلاً ماورائے حسی ادراک (extrasensory perception) یا انسانی رکاز کی تاریخ کی تشریح ،کی جانب بڑھتے ہیں کہ جہاں اہلِ یقین ( ارتقاء پرست) کے لئے ہر چیز کا ہونا ممکن ہے ۔اور جہاں(ارتقاء پر) پختہ یقین رکھنے والا بعض اوقات ایک ہی وقت میں بہت سی متضاد باتوں پر یقین کرلیتا ہے۔ ‘۵۱
انسانی ارتقاء کی یہ کہانی زمین سے بر آمد ہونے والے چند رکازوں کی بابت معتصبانہ توضیحات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ رکاز یا فوصل ایسے لوگوں نے دریافت کیے جو اپنے نظریے سے بلا سوچے سمجھے، اندھوں کی طرح چپکے ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آنکھ اور کان کا فنی نظام
ایک اور موضوع جس کا جواب نظریہ ارتقاء کی جانب سے اب تک موصول نہیں ہوا ، آنکھ اور کان کی قوتِ ادراک کا بہترین معیار ہے۔
آنکھ کے موضوع کی طرف آنے سے پہلے آئیے ہم اس سوال کا مختصراً جواب دیتے ہیں کہ ’ہم کس طرح دیکھتے ہیں‘۔کسی شے سے نکلنے والی شعاعیں پردۂ چشم پر اوپر سے نیچے کی سمت پڑتی ہیں۔یہاں روشنی کی یہ کرنیں خلیوں کے ذریعے برقی اشاروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں ا ور وہ دماغ کے عقب میں واقع ایک چھوٹی سی جگہ پہنچ جاتے ہیں جسے مرکزِ نگاہ کہتے ہیں۔دماغ کے اس مرکز میں ان برقی اشاروں کا ادراک مسلسل کئی مراحل سے گزرنے کے بعد تصویر کی شکل میں کیا جاتا ہے۔اس تکنیکی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، آئیے ہم کچھ غورو فکر کرتے ہیں۔
دماغ روشنی سے محجوز(insulated) ہوتاہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دماغ کا اندرونی حصہ بالکل تاریک ہے اور روشنی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی جہاں دماغ واقع ہے۔وہ جگہ جسے مرکز نگاہ (centre of vision)کہتے ہیں مکمل طور پر تاریک ہے جہاں تک روشنی کبھی نہیں پہنچ پاتی۔یہ شاید اس قدر تاریک مقام ہے جتنا تاریک مقام کوئی اور آپ نہ جانتے ہوں۔تاہم ، ہم اس تاریک ترین جگہ میں بھی ایک روشن ترین چمکتی دمکتی دنیا دیکھ سکتے ہیں۔
 
Top