- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
زندگی کی پیچیدہ ساخت
وہ بنیادی وجہ جس کی وجہ سے نظریۂ ارتقاء زندگی کی ابتداء کے بارے میں اسقدر شدید تعطل کا شکار ہو گیایہ ہے کہ بظاہر سادہ ترین نظر آنے والے جاندار بھی ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ ایک جاندار کا خلیہ انسان کی ایجاد کردہ تمام تر تکنیکی مصنو عات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے ۔ حتیٰ کہ آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تجر بہ گاہوں میں غیر نامیاتی اشیاء کو یکجا کر ے ایک جاندار خلیہ تیار نہیں کیا جاسکتا۔
ایک خلیہ بنانے کے لئے درکار حالات و شرائط کی تعداد اسقدر زیادہ ہے کہ ’اتفاقات‘ سے ان کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ ۵۰۰ امینو ترشوں پر مشتمل ایک اوسط لحمیے(جو خلیے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے) کا اتفاقاً متشکل ہو جانے کاامکان ۵۰ ۹ ۱۰ میں سے۱ ہے۔ریاضی میں ایسی امکانیت جو جو ۵۰ ۱۰/۱ سے کم ہو عملی طور پر ناممکن تصور کی جاتی ہے۔
ڈی ان اے سالمہ ،جو خلیے کے مرکز (nucleus)میں پایا جاتا ہے اور جینیا تی معلومات کا ذخیرہ رکھتا ہے ،معلومات کا ایک حیران کن مخزن ہے ۔ حساب لگایا گیا ہے کہ اگر ڈی این اے میں رمز کی شکل میں موجود معلومات کو تحریر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی لائبریری تیار ہو جائے گی جس میں مخزن العلوم ( انسائیکلوپیڈیا) کی ۹۰۰ جلدیں ہوں گی اور ہر جلد۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہو گی۔
اس مقام پر ایک بے حددلچسپ دہری مشکل ظاہر ہوتی ہے۔ڈی این اے صرف چند خاص لحمیات (خامروں) کی مدد سے ہی اپنی نقل تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ان خامروں کی ترکیب صرف اس معلومات کے ذریعے ہی ممکن ہے جو ڈی این اے میں رمز یا کوڈ کے طور پر درج ہے۔چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اس لئے نقل ثانی بنانے کے لئے ان دونوں کابیک وقت موجود ہوناضروری ہے۔یوں یہ مناظرہ کہ زندگی خودبخود وجود میں آئی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے ۔کیلی فورنیا کی سان ڈیاگو یونیورسٹی سے وابستہ مشہور ارتقاء پرست پروفیسر Leslie Orgel نے 'Scientific American'رسالے کے شمارۂ ماہ ستمبر ۱۹۹۴ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا۔
’ یہ بات قطعی طور پر بعید از امکان ہے کہ لحمیات اور نیوکلیائی ترشے (nucleic acids)، جو دونوں ہی ساختیاتی لحاظ سے پیچیدہ ہیں ، بیک وقت ایک ہی مقام سے اضطراری طور پر نمودار ہوئے۔مگر ایک کے بغیر دوسرے کا موجود ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے،چناچہ پہلی نگاہ میں یہی نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ زندگی دراصل کبھی بھی کیمیائی ذرائع سے وجود میں نہیں آئی ہو گی۔۳۹
بلاشک اگر زندگی کی ابتداء فطری وجوہات سے ممکن نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ زندگی مافوق الفطرت طریقے سے ’تخلیق‘ کی گئی۔یہ حقیقت واضح طور پر نظریۂ ارتقاء کو باطل کردیتی ہے جس کا اولین مقصد تخلیق کو جھٹلانا ہے۔
وہ بنیادی وجہ جس کی وجہ سے نظریۂ ارتقاء زندگی کی ابتداء کے بارے میں اسقدر شدید تعطل کا شکار ہو گیایہ ہے کہ بظاہر سادہ ترین نظر آنے والے جاندار بھی ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ ایک جاندار کا خلیہ انسان کی ایجاد کردہ تمام تر تکنیکی مصنو عات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے ۔ حتیٰ کہ آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تجر بہ گاہوں میں غیر نامیاتی اشیاء کو یکجا کر ے ایک جاندار خلیہ تیار نہیں کیا جاسکتا۔
ایک خلیہ بنانے کے لئے درکار حالات و شرائط کی تعداد اسقدر زیادہ ہے کہ ’اتفاقات‘ سے ان کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ ۵۰۰ امینو ترشوں پر مشتمل ایک اوسط لحمیے(جو خلیے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے) کا اتفاقاً متشکل ہو جانے کاامکان ۵۰ ۹ ۱۰ میں سے۱ ہے۔ریاضی میں ایسی امکانیت جو جو ۵۰ ۱۰/۱ سے کم ہو عملی طور پر ناممکن تصور کی جاتی ہے۔
ڈی ان اے سالمہ ،جو خلیے کے مرکز (nucleus)میں پایا جاتا ہے اور جینیا تی معلومات کا ذخیرہ رکھتا ہے ،معلومات کا ایک حیران کن مخزن ہے ۔ حساب لگایا گیا ہے کہ اگر ڈی این اے میں رمز کی شکل میں موجود معلومات کو تحریر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی لائبریری تیار ہو جائے گی جس میں مخزن العلوم ( انسائیکلوپیڈیا) کی ۹۰۰ جلدیں ہوں گی اور ہر جلد۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہو گی۔
اس مقام پر ایک بے حددلچسپ دہری مشکل ظاہر ہوتی ہے۔ڈی این اے صرف چند خاص لحمیات (خامروں) کی مدد سے ہی اپنی نقل تیار کر سکتا ہے۔ تاہم ان خامروں کی ترکیب صرف اس معلومات کے ذریعے ہی ممکن ہے جو ڈی این اے میں رمز یا کوڈ کے طور پر درج ہے۔چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اس لئے نقل ثانی بنانے کے لئے ان دونوں کابیک وقت موجود ہوناضروری ہے۔یوں یہ مناظرہ کہ زندگی خودبخود وجود میں آئی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے ۔کیلی فورنیا کی سان ڈیاگو یونیورسٹی سے وابستہ مشہور ارتقاء پرست پروفیسر Leslie Orgel نے 'Scientific American'رسالے کے شمارۂ ماہ ستمبر ۱۹۹۴ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا۔
’ یہ بات قطعی طور پر بعید از امکان ہے کہ لحمیات اور نیوکلیائی ترشے (nucleic acids)، جو دونوں ہی ساختیاتی لحاظ سے پیچیدہ ہیں ، بیک وقت ایک ہی مقام سے اضطراری طور پر نمودار ہوئے۔مگر ایک کے بغیر دوسرے کا موجود ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے،چناچہ پہلی نگاہ میں یہی نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ زندگی دراصل کبھی بھی کیمیائی ذرائع سے وجود میں نہیں آئی ہو گی۔۳۹
بلاشک اگر زندگی کی ابتداء فطری وجوہات سے ممکن نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ زندگی مافوق الفطرت طریقے سے ’تخلیق‘ کی گئی۔یہ حقیقت واضح طور پر نظریۂ ارتقاء کو باطل کردیتی ہے جس کا اولین مقصد تخلیق کو جھٹلانا ہے۔