کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
کچھ لوگ میری کتاب حادثہ کربلا اورسبائی سازش سے متعلق بار بار یہ اعتراض اٹھارہے ہیں کہ میں نے اس میں بعض جگہ ضعیف اور بعض جگہ کذاب شعیہ راویوں کی روایات سے استدلال کیا ہے۔
اگر ان لوگوں نے میری کتاب کا مقدمہ بغور پڑھ لیا ہوتا تو اس طرح کا اعتراض نہ کرتے۔
سب سے پہلے میں اسی کتاب کے مقدمہ سے کچھ سطور نقل کرتاہوں:
غورکیجیے کہ اگرہمارا یہ دعوی ہوتا کہ اس کتاب میں ہم نے صرف صحیح روایات ہی درج کی ہیں تو ہم مقدمہ میں اس موضوع پر اپنی دوسری ایسی کتاب کا تذکرہ کیوں کرتے جس میں صرف صحیح روایات کا التزام کیا گیا ہے؟
اسی طرح کتاب کے اندر ص 19 سے صفحہ 24 تک تاریخی روایات کی حقیقت سے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھ لیا جائے ۔
یہاں پر ہم نے شروع میں لکھا:
البتہ اس کتاب میں ہم نے بہت سے مقامات پر اصول حدیث کے معیار پر صحیح وثابت روایات بھی درج کی ہیں اور ایسے ہرمقام پر ہم نے روایت کے اخیر میں اس کی صحت بیان کردی ہے۔
اور جو روایات اصول حدیث کے معیار پر صحیح قرار نہیں پاتیں انہیں ہم نے درج تو کیا ہے لیکن ان پر صحت کا حکم نہیں لگایا ہے۔
اعتراض کرنے والوں کا اعتراض اس وقت درست ہوتا جب ہم نے اپنی کتاب سے متعلق یہ دعوی کیا ہوتا کہ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار صرف صحیح روایات ہی درج کریں گے ۔
اسی طرح اس وقت بھی اعتراض درست ہوتا جب ہم نے ہر روایت کے بعد اس کی صحت کا فیصلہ کیا ہوتا ۔
ایک شخص ایک کتاب میں کسی مقام پربعض روایات کو صحیح کہہ کر پیش کرے اور دوسرے مقام پر دیگر روایات کو بغیرصحیح کہہ کرپیش کرے تو دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔کیونکہ دوسرے مقام پر مؤلف نے صحت کا دعوی نہیں کیا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اگر بعض روایات خود میری نظر میں اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتیں تو پھر میں نے انہیں اپنی کتاب میں درج کیوں کیا؟
اس کے جواب میں عرض ہے اول تو یہ کوئی احکام پرلکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ تاریخی واقعات پر لکھی ہوئی کتاب ہے اوردوسرے یہ کہ اسی موضوع پر لکھنے والے یزید کے مخالفین یزید کی مذمت ثابت کرتے ہوئے ہرطرح کی تاریخی روایات سے استدلال کرتے ہیں ۔
تو ان کے سامنے اسی ذخیرہ سے وہ دوسری روایات بھی نکال کر دکھا نا ہمارا حق ہے جس سے یزید کی برات ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے ناقص علم کی حد تک یزید کی مخالفت میں لکھی گئی پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی کتاب یا تحریر یا مقالہ نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔
اسی طرح کی یزید کی مخالف میں کی گئی تقاریر میں سے کوئی ایک بھی تقریر ایسی نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔
حتی کہ اہل حدیث حضرات میں سے بھی ماضی میں جن لوگوں نے یزید کے خلاف کچھ کہا ہے خواہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہوں یا امام ابن کثیر رحمہ اللہ ہوں یا امام ذہبی رحمہ اللہ ہوں ان میں سے کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے یزید کے خلاف بولتے ہوئے ضعیف یا کذاب راوی کی روایات سے استدلال نہ کیا ہو۔
اورمعاصرین میں بھی اہل حدیث حضرات میں جس نے بھی یزیدکے خلاف لکھا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے ضعیف یا کذاب کی روایت سے استدلال نہ کیا ہے۔
اگرکسی کے پاس یزید کے مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تحریر ہو جس میں صرف صحیح روایات پیش کی گئی ہوں تو وہ ایسی تحریر دکھا ئے۔
تحریر کے علاوہ عصر حاضر میں جو یزید کے خلاف تقریری سلسلہ جاری ہے ان میں بھی یزید کی مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تقریر نہیں دکھائی جاسکتی جس میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہ کیا گیا ہو۔
حتی کہ ہمارے دور میں مقررین اہل حدیث میں سے دو لوگوں نے یزید کے خلاف تقریر کی ہے ایک ہمارے محترم بھائی اورہمارے دوست ابوزید ضمیر حفظہ اللہ ہیں جو ہندوستان کے ہیں اورجن سے ہم دلی محبت رکھتے ہیں ان سے بارہا مل چکے ہیں ان کے گھر بھی جاچکے ہیں، ہمارے ان فاضل بھائی اوردوست نے بھی یزید کے خلاف تقریرکی ہے لیکن کیا ہمارے فاضل بھائی یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف اورکذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟
اسی طرح دوسرے پاکستان کے جناب حافظ عمرصدیق صاحب ہیں کیا یہ صاحب یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟
اب جبکہ ہرچہار جانب یزید کی مخالفت میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال کیا جارہا ہے اور امیریزید کو مطعون کیا جارہا ہے تو ان کا دفاع کرتے ہوئے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم بھی ان روایات کو پیش کریں جن سے یزید کا دفاع ہوتاہے گرچہ وہ ضعیف یا کذاب شیعوں کی روایات ہوں ؟
بالخصوص جب کہ معاملہ الزام تراشی کا نہیں بلکہ دفاع کا ہو۔یزید کے ساتھ سوء ظن کا نہیں بلکہ حسن ظن کا ہو کیونکہ امیر یزید رحمہ اللہ مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان پرالزام تراشی جائز نہیں بلکہ ہرمسلمان کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہئے الایہ کہ پختہ ثبوت مل جائے۔اوریزید کے خلاف بدگمانی کے لئے کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ امیر یزید رحمہ اللہ کی شخصیت اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ ان کا دفاع صرف اورصرف ضعیف روایات سے ہی ہوسکتا ہے لیکن چونکہ ان پرلگائے گئے الزامات کے لئے ضعیف اور کذاب شیعوں کی روایات سے استدلال کیا جاتاہے اس لئے جب اسی طرح کی روایات یزید کے دفاع میں بھی ملتی ہیں تو انہیں بھی پیش کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے بالخصوص جبکہ یہ روایات ان کذابین کی بیان کردہ ہو جو یزید کے مخالف اوررافضی اور شیعہ ہوں کیونکہ الفضل ماشہدت بہ الاعداء۔ یعنی فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔
خلاصہ کلام یہ کہ کربلا اور یزید کے موضوع پر ہماری دو کتاب ہوگی ایک ’’حادثہ کربلا اورسبائی سازش‘‘ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار پر صحیح روایات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع یزید میں ملنے والی وہ روایات بھی پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پرپوری نہ اترتی ہوں لیکن ان سے کسی مسلمان پر الزام بھی نہ آتاہو۔
اوردوسری کتاب ’’حادثہ کربلا اور یزید صرف صحیح روایات کی روشنی میں ‘‘ ہوگی اس کتاب میں ہم صرف اورصرف انہیں روایات کو پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پر صحیح یا کم ازکم حسن ہوں ۔
اگر ان لوگوں نے میری کتاب کا مقدمہ بغور پڑھ لیا ہوتا تو اس طرح کا اعتراض نہ کرتے۔
سب سے پہلے میں اسی کتاب کے مقدمہ سے کچھ سطور نقل کرتاہوں:
یہاں مقدمہ میں ہم نے صاف طور سے واضح کردیا کہ اس کتاب میں تاریخی لحاظ سے اس موضوع پربحث کی گئی ہے، اور اس کے فورا بعد ہم نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس سلسلے کی ہمارے ایک دوسری کتاب ’’حادثہ کربلا ویزید،صرف صحیح روایات کی روشنی میں‘‘ ہے جو اصول حدیث کی روشنی میں صرف صحیح روایات پر مشتمل ہے۔یہ کتاب میرے پاس مخطوط تھی ،اب کچھ حذف واضافہ کے ساتھ اس کتاب کی طباعت ہورہی ہے،اس کتاب میں عام طورسے تاریخی لحاظ سے اس موضوع پربحث کی گی ہے لیکن اسی سلسلے کی ہماری ایک دوسری کتاب ہے ''حادثہ کربلا ویزید،صرف صحیح روایات کی روشنی میں'' اس کتاب میں ہم نے اصول حدیث کے لحاظ سے ہرہرروایت کوپرکھنے کے بعد ہی داخل کتاب کیا ہے اورہمارے خیال سے اس موضوع پراس انداز کی یہ پہلی کتاب ہے ان شاء اللہ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ دوسری کتاب بھی جلد ہی طبع ہوجائے۔[حادثہ کربلا اورسبائی سازش: ص 6]۔
غورکیجیے کہ اگرہمارا یہ دعوی ہوتا کہ اس کتاب میں ہم نے صرف صحیح روایات ہی درج کی ہیں تو ہم مقدمہ میں اس موضوع پر اپنی دوسری ایسی کتاب کا تذکرہ کیوں کرتے جس میں صرف صحیح روایات کا التزام کیا گیا ہے؟
اسی طرح کتاب کے اندر ص 19 سے صفحہ 24 تک تاریخی روایات کی حقیقت سے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھ لیا جائے ۔
یہاں پر ہم نے شروع میں لکھا:
آگے مزید لکھا:حادثہ کربلا کا مرجع تاریخی روایات ہیں جن کی جمع و تحقیق میں وہ اہتمام نہیں ہوا جو احادیث کے باب میں ہوتا ہے، مزید یہ کہ اکثرتاریخی روایات کے بیان کرنے والے ایسے رواة ہیں جو ضعیف ہی نہیں بلکہ کذاب اور شیعہ ہیں ، اورمؤرخین نے حادثہ کربلا کے بیان میں ان سب کی مرویات یکجا کردی ہیں۔
اوراخیر میں ان روایات سے متعلق اپنا موقف درج کرتے ہوے لکھا:روایات کربلا کی صرف یہی ایک خصوصیت نہیں ہے کہ ان کا اکثر حصہ من گھڑت اور غیرمستندہے بلکہ اس کے ساتھ ایک دوسری مصیبت یہ بھی ہے کہ واضح تضاد اورتعارض جگہ جگہ موجودہے۔
ان سطور کو پڑھنے کے بعد ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں اس بات کا دعوی ہی نہیں کیا ہے کہ اس میں ہم صرف وہیں روایات درج کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پر صحیح قرار پاتی ہوں بلکہ اس کے برعکس ہم نے یہ وضاحت کررکھی ہے اس میں عام طور سے تاریخی روایات درج ہوں گی لیکن ان روایات سے اگر کسی مسلمان شخص پر الزام عائد ہوتا ہے تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔لہٰذا کربلا کی وہ روایات قطعاً قابل قبول نہیں ہیں جو شان صحابیت اورتابعین کے بلند معیار پر پورا نہیں اترتیں ، خواہ ان کا تعلق حسین رضی اللہ عنہ سے ہو یا یزید رحمہ اللہ سے ، علاوہ بریں ، کربلا کی روایات میں ایک مجموعہ روایات ایسا بھی ہے جس سے نہ تو حسین رضی اللہ عنہ پر کوئی حرف آتا ہے اورنہ ہی یزید کی کردار کشی ہوتی ہے بلکہ اس مجموعہ روایات کی رو سے وہ تمام تر الزامات لغو قرار پاتے ہیں جو ایک دوسرے مجموعہ روایات کو بنیاد بناکر حسین رضی اللہ عنہ یا یزید رحمہ اللہ پر عائد کئے جاتے ہیں۔
اگر روایات کربلا کی حقیقت و نوعیت کو سمجھ کر، صحابہ و تابعین اورسلف صالحین کی عظمت و فضیلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے غور کیا جائے توان روایات سے متعلق معتدل موقف یہی معلوم ہوتاہے کہ تاریخی اعتبارسے ان کا صرف وہ حصہ قبول کیا جائے جو شان صحابیت اورتابعین و اسلاف کے معیار پر پورا اترتاہو اوران کے مجموعی طرز عمل سے مناسبت رکھتا ہو ، قطع نظر اس بات کے کہ ان کا تعلق حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب سے ہے یا یزید رحمہ اللہ اوران کے اصحاب سے ۔
البتہ اس کتاب میں ہم نے بہت سے مقامات پر اصول حدیث کے معیار پر صحیح وثابت روایات بھی درج کی ہیں اور ایسے ہرمقام پر ہم نے روایت کے اخیر میں اس کی صحت بیان کردی ہے۔
اور جو روایات اصول حدیث کے معیار پر صحیح قرار نہیں پاتیں انہیں ہم نے درج تو کیا ہے لیکن ان پر صحت کا حکم نہیں لگایا ہے۔
اعتراض کرنے والوں کا اعتراض اس وقت درست ہوتا جب ہم نے اپنی کتاب سے متعلق یہ دعوی کیا ہوتا کہ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار صرف صحیح روایات ہی درج کریں گے ۔
اسی طرح اس وقت بھی اعتراض درست ہوتا جب ہم نے ہر روایت کے بعد اس کی صحت کا فیصلہ کیا ہوتا ۔
ایک شخص ایک کتاب میں کسی مقام پربعض روایات کو صحیح کہہ کر پیش کرے اور دوسرے مقام پر دیگر روایات کو بغیرصحیح کہہ کرپیش کرے تو دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔کیونکہ دوسرے مقام پر مؤلف نے صحت کا دعوی نہیں کیا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اگر بعض روایات خود میری نظر میں اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتیں تو پھر میں نے انہیں اپنی کتاب میں درج کیوں کیا؟
اس کے جواب میں عرض ہے اول تو یہ کوئی احکام پرلکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ تاریخی واقعات پر لکھی ہوئی کتاب ہے اوردوسرے یہ کہ اسی موضوع پر لکھنے والے یزید کے مخالفین یزید کی مذمت ثابت کرتے ہوئے ہرطرح کی تاریخی روایات سے استدلال کرتے ہیں ۔
تو ان کے سامنے اسی ذخیرہ سے وہ دوسری روایات بھی نکال کر دکھا نا ہمارا حق ہے جس سے یزید کی برات ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے ناقص علم کی حد تک یزید کی مخالفت میں لکھی گئی پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی کتاب یا تحریر یا مقالہ نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔
اسی طرح کی یزید کی مخالف میں کی گئی تقاریر میں سے کوئی ایک بھی تقریر ایسی نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔
حتی کہ اہل حدیث حضرات میں سے بھی ماضی میں جن لوگوں نے یزید کے خلاف کچھ کہا ہے خواہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہوں یا امام ابن کثیر رحمہ اللہ ہوں یا امام ذہبی رحمہ اللہ ہوں ان میں سے کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے یزید کے خلاف بولتے ہوئے ضعیف یا کذاب راوی کی روایات سے استدلال نہ کیا ہو۔
اورمعاصرین میں بھی اہل حدیث حضرات میں جس نے بھی یزیدکے خلاف لکھا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے ضعیف یا کذاب کی روایت سے استدلال نہ کیا ہے۔
اگرکسی کے پاس یزید کے مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تحریر ہو جس میں صرف صحیح روایات پیش کی گئی ہوں تو وہ ایسی تحریر دکھا ئے۔
تحریر کے علاوہ عصر حاضر میں جو یزید کے خلاف تقریری سلسلہ جاری ہے ان میں بھی یزید کی مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تقریر نہیں دکھائی جاسکتی جس میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہ کیا گیا ہو۔
حتی کہ ہمارے دور میں مقررین اہل حدیث میں سے دو لوگوں نے یزید کے خلاف تقریر کی ہے ایک ہمارے محترم بھائی اورہمارے دوست ابوزید ضمیر حفظہ اللہ ہیں جو ہندوستان کے ہیں اورجن سے ہم دلی محبت رکھتے ہیں ان سے بارہا مل چکے ہیں ان کے گھر بھی جاچکے ہیں، ہمارے ان فاضل بھائی اوردوست نے بھی یزید کے خلاف تقریرکی ہے لیکن کیا ہمارے فاضل بھائی یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف اورکذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟
اسی طرح دوسرے پاکستان کے جناب حافظ عمرصدیق صاحب ہیں کیا یہ صاحب یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟
اب جبکہ ہرچہار جانب یزید کی مخالفت میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال کیا جارہا ہے اور امیریزید کو مطعون کیا جارہا ہے تو ان کا دفاع کرتے ہوئے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم بھی ان روایات کو پیش کریں جن سے یزید کا دفاع ہوتاہے گرچہ وہ ضعیف یا کذاب شیعوں کی روایات ہوں ؟
بالخصوص جب کہ معاملہ الزام تراشی کا نہیں بلکہ دفاع کا ہو۔یزید کے ساتھ سوء ظن کا نہیں بلکہ حسن ظن کا ہو کیونکہ امیر یزید رحمہ اللہ مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان پرالزام تراشی جائز نہیں بلکہ ہرمسلمان کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہئے الایہ کہ پختہ ثبوت مل جائے۔اوریزید کے خلاف بدگمانی کے لئے کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ امیر یزید رحمہ اللہ کی شخصیت اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ ان کا دفاع صرف اورصرف ضعیف روایات سے ہی ہوسکتا ہے لیکن چونکہ ان پرلگائے گئے الزامات کے لئے ضعیف اور کذاب شیعوں کی روایات سے استدلال کیا جاتاہے اس لئے جب اسی طرح کی روایات یزید کے دفاع میں بھی ملتی ہیں تو انہیں بھی پیش کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے بالخصوص جبکہ یہ روایات ان کذابین کی بیان کردہ ہو جو یزید کے مخالف اوررافضی اور شیعہ ہوں کیونکہ الفضل ماشہدت بہ الاعداء۔ یعنی فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔
خلاصہ کلام یہ کہ کربلا اور یزید کے موضوع پر ہماری دو کتاب ہوگی ایک ’’حادثہ کربلا اورسبائی سازش‘‘ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار پر صحیح روایات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع یزید میں ملنے والی وہ روایات بھی پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پرپوری نہ اترتی ہوں لیکن ان سے کسی مسلمان پر الزام بھی نہ آتاہو۔
اوردوسری کتاب ’’حادثہ کربلا اور یزید صرف صحیح روایات کی روشنی میں ‘‘ ہوگی اس کتاب میں ہم صرف اورصرف انہیں روایات کو پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پر صحیح یا کم ازکم حسن ہوں ۔