• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب لا جواب ہوگئے!!
صفحہ 769 پر لکھتے ہیں:’’میلاد النبی ﷺ پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت میں۔‘‘
قارئین کرام! ہم سمجھے کہ اب تو قادری صاحب ضرور بالضرور دلیل شرعی دے ہی دیں گے مگر انہوں نے توپھر لفاظی بے جا شروع کردی کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میلاد نہ منانے والے ہزاروں خوشیاں منا تے ہیں اس وقت قرآن و حدیث کو کیوں نہیں دیکھتے؟؟
اللہ اکبر ! سبحان اللہ! واہ قادری صاحب واہ!! یہی آپکامبلغ علم ہے۔مبارک ہو جناب!
ارے کیا اتنا بھی نہیں معلوم کے عادات و عبادات میں فرق ہوتا ہے، کیا عادات کو قرآن و حدیث میں تلاش کیا جاتا ہے؟ نبی مکرم ﷺ کی نسبت سے جو عمل کیا جائے گا وہ عبادت کے درجے میں ہوگا اور عبادات کی دلیل شرعی دینا ہوتی ہے۔ مگر قادری صاحب نے دلیل شرعی نہ دی کیونکہ ان کےپاس ہے ہی نہیں اور ویسے دلیل شرعی دے بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ وہ تو خود میلاد مروجہ کو کہتے ہیں یہ عید شرعی نہیں (صفحہ 757) اور یہ بھی فرماتے ہیں: اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ (صفحہ 705)
میلاد منانا عمل توحید ہے، (مگر قادری توحید ہے کیا؟؟)
صفحہ 773 پر لکھتے ہیں:
اور پھر وضاحت کرتے ہیں کہ جسکی ولادت منائی جائے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔
قارئین! ہم عرض کرتے ہیں کہ بظاہر تو بالکل صحیح بات ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت کہ قادری صاحب نے اپنے درس میں معراج النبی ﷺ بیان کرتے ہوئے کہا:
ہک ، ہک، ہک ہے، جہڑا ہک نوں دو آکھے ، کافر تے مشرک ہے
(یہ سی ڈی میں بیان ہے) یعنی خالق و مخلوق (اللہ اور رسول )کو الگ الگ ماننا کفر و شرک ہے اب بتائیے عمل توحید کے دعوے دار کون؟
دوسری بات یہ ہے کہ عمل توحید فقط دعوے سے ہی توحید ی نہیں ہوجاتا بلکہ توحید نام ہے متابعت رسول ﷺ کا (شرح عقیدہ طحاویہ )اور مروجہ میلاد میں متابعت رسول ﷺ نہیں بلکہ مخالفت رسول ﷺ ہوتی ہے ۔ ہم میلاد یوں کو اس مسئلہ پر بدعتی کہتے ہیں جبکہ یہ فرمان الہی بھی قابل غور ہے۔
ام لھم شرکاء شر عوالھم من الدین مالم یاذن بہ اللہ
صفحہ 774 پر لکھتے ہیں:’’جشن میلاد النبی ﷺ پر خرچ کرنا اسراف نہیں‘‘
اور پھر تفصیلی بحث میں کار خیر میں مطلقاً اسراف کا انکار کیا ہے ۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کلو اواشربو ا ولا تسرفوا۔ کھانے اور پینے میں اسراف ممکن ہے جبھی تو کہا گیا ولا تسرفوا۔ اور کھانا پینا کارخیر ہی ہےنہ کہ شر!!!
اور پھر ضرورت سے بڑھ کر روشنی ، چراغاں اور مشعل برداری جیسے کام تو برامکہ قوم کی طرف سے آئے ہیں جو کہ آتش پرست تھے اور یہ سجاوٹ و تزئین مساجد تو تشبہ بالیھود ہے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے نیز علامت قیامت میں بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس عمل کے لئے کیا جاتا ہے جو دلائل شرعیہ سے آراستہ نہیں ہے۔ تو پھر یہ کار خیر کیسے ہوگیا؟! اور جب کارخیر ہی نہ رہا تو اس کےلئے کار خیرمیں اسراف نہیں، سے استدلال کیسا؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کا شکوہم....یلادیوں کی خدمت میں
آگے کے صفحات میں قادری صاحب کوئی خاص بات نہ کرسکے البتہ میلادیوں کےلئے چند باتیں انہوں نے لکھی ہیں وہ پیش خدمت ہیں۔ فرماتے ہیں:
یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوس میلاد میں ڈھول ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ،نوجوانوں کے رقص و سرور اور اختلاط مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز امور بے حجابانہ سر انجام دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے اور ادب و تعظیم رسول ﷺ کے سراسر منافی ہے۔اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلاف ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو میلاد النبی ﷺ کا منکر ٹھہرا کر اصلاح احوال کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔
ان نام نہادعقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ جشن میلاد النبی ﷺ ان ادب ناشناس جھلاء کی اسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی اور تقدس سے محروم ہو کر محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ اگر ان غیر اخلاقی و غیر شرعی امور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شائد جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریر ختم ہوجائیں گی اور کاروبار ی حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں گے۔کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نا م نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ لوگ میلاد النبی ﷺ کے تقدس اور عظمت کو پامال کررہے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں:
ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا ۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش مندی اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے احتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہوسکتا ہے۔
قارئین کرام ! دیکھ لیا آ پ نے! سن لیا آپ نے! اب ہماری سنئے!!
ع۔لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔​
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنات....حقیقی بحث
مؤلف کا یہ مضمون www.urduvb.com پر شائع ہوا تھا۔
میلاد النبی ﷺ کے موقع پر عید کا سا، سامان کرنے والے اورجلوس نکالنے والے کہتے ہیں کہ ابولہب جیسے لوگوں نے میلاد النبیﷺ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لونڈی آزاد کی تھی اور اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں ہر پیر کو کمی کی جاتی ہے اور اسے پیاس بجھانے کے لئے پانی بھی دیا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بخاری شریف میں بیان ہوئی ہے۔
جبکہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے جس کی تفصیل بیان کر دینا مقصود ہے تاکہ ’’لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحی من حیی عن بینۃ ‘‘کا مصداق ہوجائے مگرتفصیل سے قبل اس روایت کو بیان کر دینا ضروری ہے جس سے استدلال کرتے ہوئے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جلوس و جشن کا اہتمام ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت آشکار کرنا ضروری ہے کہ بخاری میں آنے والی یہ روایت کس انداز سے روایت کی گئی ہے، کیا یہ وہی صحیح ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا؟
روایت یہ ہے (طوالت سے بچنے کے لئے صرف ترجمہ پیش خدمت ہے)
’’ام المومنین ام حبیبہؓ بنت ابی سفیانؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری بہن (ابوسفیان کی لڑکی) سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے پسند کرو گی ( کہ تمہاری بہن ہی تمہاری سوکن بنے؟)(وہ کہتی ہیں) میں نے عرض کیا کہ ہاں میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پھر پسند نہ کرتی ، اگر میرے ساتھ میری بہن بھلائی میں شریک ہو تو میں کیونکر نہ چاہونگی ۔(غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میرے لئے حلال نہیں۔سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کے رسول ﷺ لوگ کہتے ہیں آپ ابو سلمہ کی بیٹی سے جو ام سلمہ کے بطن سے ہے نکاح کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی ، وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کو اور ابو سلمہ کو (یعنی اس لڑکی کے باپ کو) ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو ایسا مت کرو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لئے نہ کہو۔‘‘
عروہ رحمہ اللہ نے کہا ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی، ابولہب نے اسے آزاد کر دیا تھا ، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔جب ابو لہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے اس کو خواب میں دیکھا(برے حال میں) تو پوچھا کیا گزری ؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جد ا ہو اہوں ، کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی پلایا گیا تھا بمقدار اس کے (یعنی اس نے اشارہ کیا اس گڑھے کی طرف جو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہوتا ہے۔) اور یہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے تھا۔(صحیح بخاری ، کتاب النکاح)
یہ حدیث کہیں مختصر اً اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے، رقم احادیث اس طرح ہیں۔ ۵۱۰۶، ۵۱۰۷، ۵۱۳۳ اور ۵۳۷۲۔
اب پچھلے دعاوی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حدیث پر غور کریں!
کیا اس میں یہ ہے کہ ابولہب نے لونڈی (ثویبہ) کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن آزاد کیا تھا اور اس کی وجہ میلاد النبی کی خوشی تھی؟
کیا اس میں یہ ہے کہ جو پانی اسے پلایا گیا تھا اس سے اس کے عذاب میں تخفیف (کمی) آئی تھی؟
کیا اس میں یہ ہے کہ ہر سوموار (پیر)کو پانی پلایا جاتاہے؟
یقیناًاس میں سے کسی سوال کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ہمیں ماننا ہوگا کہ اقارب اور اجانب کی زبان زد عام دعوے بلا دلیل ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ان دعووں کی کوئی دلیل نہیں اجانب کو تو جانے دیں حیرت تو ان اقارب پر ہے جو بلا دلیل بات نہ کرنے نہ سننے اور نہ ہی ماننے کے دعوے دار ہیں۔ وہ بھی ابولہب اور اس کی لونڈی کے بارے میں ایسا ہی کچھ بیان کرتے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
احباب علم و دانش کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ذمہ داراسٹیجوں سے آج غیر ذمے دارانہ بیانات بڑھتے جارہے ہیں!
اب آئیے اس روایت کی حقیقت کی طرف مگر اس سے قبل یہ سمجھ لیجئے کہ ائمہ محدثین و دیگر اہل علم و فضل نے صحیح بخاری شریف کی مرفوع متصل روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے، نہ کہ معلقات و مرسلات اور منقطع روایات کو۔ کمالا یخفی علی اھل العلم و المعرفۃ
۱) یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہرہے۔ قال عروۃ....... کے الفاظ پر غور کیجئے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: مرسل ارسلہ عروۃ ولم یذکر من حدثہ بہ (فتح الباری) یعنی یہ خبر مرسل ہے عروہ رحمہ اللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور یہ بیان نہیں کیا کہ ان سے کس نے اس (خبر) کو بیان کیا ہے۔
شیخ ابوبکر الجزائری حفظہ اللہ لکھتے ہیں: یہ خبر مرسل ہے اور مرسل سے نہ احتجاج کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی عقیدہ و عبادت ثابت ہوتی ہے۔ (الانصاف فیما قیل فی المولد من الغلو والا حجاف)
ڈاکٹر طاہر القادری بھی لکھتے ہیں : یہ روایت اگر چہ مرسل ہے، لیکن مقبول ہے۔(میلاد النبی صفحہ ۳۹۳)
یاد رہے کہ فقہ حنفی میں رد و قبول کے پیمانے بھی جناب کی طرح شوخ ہو سکتے ہیں۔ وہاں آیات کو اپنے احباب کے نظرئیے کی مخالفت میں دیکھ کر منسوخ قرار دیدیا جاتا ہے۔ (اصول کرخی دیکھئے)
تنبیہ: یہ جو مرسل کی بات ہو رہی ہے تو اس سے مراد صرف وہ ٹکڑا ہے جو قال عروہ سے شروع ہوکر آخر تک چلا جاتا ہے۔ پوری روایت نہیں کہ وہ تو متصل ہی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں دیکھا جاسکتاہے۔
۲) دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ خبر متصل بھی ہوتی تو دلیل نہیں بن سکتی تھی کیونکہ یہ ایک خواب کا معاملہ ہے۔ یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھ رکھی ہے۔ حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں: ائمہ نے تصریح کی ہے کہ خواب کے ذریعے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے ۔ چند سطور کے بعد لکھتے ہیں: اگر سویا ہواآدمی خواب میں دیکھے کہ نبی علیہ السلام اسے کسی چیز کا حکم دے رہے ہیں تو کیا اس کی تعمیل ضروری ہے یا یہ ضروری ہے کہ اسے ظاہری شرع پر پیش کیا جائے؟ فرماتے ہیں دوسری بات قابل اعتماد ہے(فتح الباری)
غور کیجئے کہ حالت خواب میں دیا جانے والا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ظاہر شرع پر پیش کیا جائے گا! یاد رہے کہ خواب کا حجت شریعہ نہ ہونا خود مکتب بریلی کے ہاں بھی مسلمہ ہے ۔ (دیکھئے میلاد النبی از سعید احمد کاظمی)
آج بہت سے احناف نے اپنے معتقدات کی دلیل خوابوں کو ہی بنا رکھا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کی خدمت میں ایک خواب عرض کیا جاتا ہے جو سنداً تو صحیح ثابت ہے۔ دیکھتے ہیں یہ خواب ان کے ہاں کیا حیثیت رکھتاہے۔
مشہور ثقہ امام قاضی ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان التنوخی البغدادی رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۸ھ) نے کہا کہ میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن دارقطنی حدیث ۱۱۱۲)
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : وسند ہ صحیح ، اسکی سند صحیح ہے (موطا امام امالک بروایۃ ابن القاسم) تحت حدیث ۱۲۱ صفحہ ۲۰۹۔ اب ظاہر ہے کہ حنفی کہلوانے والے حضرات اس سچے اور نیک آدمی کے خواب کو کبھی بھی صحیح باور نہیں کرینگے ۔ تو معلوم ہوا کہ کسی امتی کا خواب حجت نہیں ہوسکتا اگر چہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لینے کا دعوی ہی کیوں نہ کرے۔
۳) تیسری بات یہ ہے کہ اس مرسل خبر میں ظاہری الفاظ سے یہ معنی لیا جاسکتا ہے کہ ابولہب کا لونڈی آزاد کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے عمل سے قبل تھا مگر یہ بات اہل سیر کی بیان کردہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابولہب کے لونڈی آزاد کرنے میں اور نبی علیہ السلام کے دودھ پلانے کی مدت میں ایک طویل عرصہ حائل ہے (یہ بات بھی حافظ ابن حجر نے لکھی ہے فتح الباری میں)
اس بات کی وضاحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں اس طرح کی ہے:
ابن سعد کہتے ہیں کہ ہمیں واقدی نے ایک سے زیادہ اہل علم سے یہ خبر نقل کی ہے کہ وہ کہتے تھے: ثویبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مر ضعہ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ صلہ رحمی فرمایا کرتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ثویبہ کا اکرام کیا کرتی تھیں تا حال کہ وہ (ابھی) ابولہب کی ملکیت ہی میں تھیں ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ابولہب سے کہا اسے (یعنی ثویبہ کو) مجھے بیچ دو تو ابولہب نے اس بات سے انکار کردیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدینہ) ہجرت فرمائی اس وقت ابولہب نے ثویبہ کو آزاد کردیا...... (الاصابہ جزء ۴)
طبقات ابن سعد کا مطالعہ کرنے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کی تائید ملتی ہے ۔
حافظ ابن عبدالبر اور امام ابن جوزی کے کلام سے اس قول (یعنی اہل سیر کے قول) کی تائید ہوتی ہے۔
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے الاستیعاب فی اسماع الاصحاب میں لکھا ہے۔ ثویبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حمزہ بن عبدالمطلب اور ابو سلمہ بن عبدالاسد کو دودھ پلایاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثویبہ کا اکرام فرماتے ، ثویبہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس آیا جایا کرتی تھیں جبکہ نبی علیہ السلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما چکے تھے، سیدہ خدیجہ بھی ان کے اکرام و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتیں ۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو (اس وقت ) ابولہب نے ثویبہ کو آزاد کردیا..... (ملخصاً۔ الاستیعاب)
امام المحب الطبری نے ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی میں اس کلام کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے الوفا فی احوال المصطفی میں لکھا ہے: سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایاتھا (چند دن ) پھر حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں....... سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ثویبہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتی تھیں۔ آپ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھما (ثویبہ کا) اکرام فرماتے اور وہ (ثویبہ) اس وقت (بھی) ابولہب کی لونڈی تھیں، پھر (اس کے بعد) ابو لہب نے انہیں آزاد کر دیا......
ان تمام دلائل و براہین سے بالکل واضح ہے کہ ابولہب کا لونڈی کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن (خوشی میں ) آزاد کرنا ثابت ہی نہیں بلکہ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد ہجرت مدینہ سے بھی بعد میں کسی وقت ابو لہب نے بغیر کسی خوشی اور غمی کے ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔
اس کے برعکس اگر کسی نے اس (ثویبہ) کی آزادی کو پیدائش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کے ساتھ خاص مانا ہے تو اسے شدید مغالطہ لگا ہے یا پھر اہل بدعت نے دیدہ دانستہ حقیقت کو پردہ میں چھپادیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ازدواجی زندگی کا آغاز آپ کی عمر کے پچیس سال مکمل ہونے کے بعد ہوا اور اس وقت تک ثویبہ ابولہب کی ملکیت میں تھیں ، آزاد نہ تھیں ۔ کما مرآنفاً.....
۴) چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اس مرسل خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اس کا عمل صالح ( مرنے کے بعد) نفع دیتاہے(یعنی کبھی کبھی) مگر یہ بات تو نصوص قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے وقد منا الی ما عملو من عمل فجعلناہ ھبآء ثوراً (سورۃ فرقان آیت ۲۳) ترجمہ: اور جو عمل ان (کافروں نے) کئے ہوں گے ، ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔
اور ابولہب کے مال کا اس کو نفع نہ دینا تو قرآن سے ہی ثابت ہے۔ تبت یدا ابی لھب و تب، ما اغنی عنہ مالہ وما کسب (سورة اللھب آیت۲۔۱) ترجمہ: ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ برباد ہوجائے نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کا عمل۔
قرآن مجیدنے صراحت کردی ہے کہ ابولہب کو اس کے مال و عمل نے کوئی نفع نہیں پہنچایا۔ لہذا اس صراحت کو مرسل خبر عروہ سے ہرگز ہر گز رد نہیں کیا جاسکتا اور تمام اہل علم جانتے ہیں کہ لونڈی بھی مال کی ایک شکل ہے، اگر خوشی میں آزاد بھی کی ہوتی تو اسے مرنے کے بعد نفع نہ دیتی اور آزاد کرنا ( اس موقع خاص پر) تو ثابت ہی نہیں۔ جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ قرآن کے ظاہر سے ٹکر ا کر صحیح روایات کو رد کردینے والے کس طرح مرسل خبر کو حجت قرار دیتے ہیں؟!
۵) پانچویں بات یہ ہے کہ ابولہب کا لونڈی آزاد کرنا اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کا یہ عمل ایک طبعی خوشی کے نتیجے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھتیجے تھے نہ کے اس نے آپ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کرتے ہوئے اس خوشی کا اظہار کیا تھا فقط ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی ،اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار و عداوت ہی ابولہب کی تباہی کا سبب بنی تھی اور آج جو لوگ اس خبر مرسل کو دلیل بنا کر فقط ایک مخصوص دن عید وجشن کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی فقط ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار ہیں؟؟
ویسے ان کا عمل بھی اسی کی عکاسی و غمازی کرتا ہے کیونکہ بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس طرح کے جشن ، جلوس اور خود ساختہ تیسری عید پر کوئی دلیل نہیں ملتی ؟
اور اس جلوس و جشن کا عید شرعی نہ ہونا تو خود طاہر القادری شوخ الاسلام کو بھی تسلیم ہے ۔ (دیکھئے: میلاد النبی از طاہر القادری)
طاہر القادری کا اسے عید فرحت قرار دینا بھی خود ساختہ شریعت سازی ہے کیونکہ اسلام میں جو دو عیدیں بتائی گئی ہیں وہ عید نفرت و عداوت یا عید رنج و الم نہیں بلکہ جہاں وہ عبادت کا درجہ رکھتی ہیں وہاں وہ فرحت و سرور کا باعث بھی ہیں۔
۶) چھٹی بات یہ ہے کہ جہاں تک ابولہب کے عذاب میں تخفیف و کمی آجانے کا معاملہ ہے تو یہ بات کہیں ہے ہی نہیں ، حتی کہ اس خبر مرسل میں بھی نہیں جسے لوگ دلیل کا درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ غیرانی سقیت..... مجھے (فقط) پانی پلایا گیاہے۔
نہ ہر سوموار کا ذکر ہے اور نہ ہی اس پانی کی بدولت عذاب میں کمی کا کوئی ذکر؟!
یہ تخفیف ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ابو لہب تو ’’سیصلی ناراً ذات لھب‘‘ کے بمصداق نار جہنم میں ہے اور وہاں تو پانی بھی ایسا ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔
وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمهل یشوی الوجوہ، بئس الشراب.... ترجمہ: اور اگر وہ (جہنم میں) فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) چہروں کو بھون ڈالے گا بہت برا یہ(پینے کا) پانی ہوگا۔ (سورۃ الکھف آیت۲۹)
اور مزید فرمایا گیا ’’تسقی من عین انیہ ‘‘ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا ۔ (سورۃ الغاشیہ)
و سقوا مآءً حمیما اور وہ کھولتا ہو ا پانی پلائے جائیں گے۔ (سورہ محمد)
اس سے واضح ہوا کہ خبر مرسل سے لفظ پانی کو لے کر عذاب کی تخفیف کا دعوی نصوص قرآنی سے متصادم ہے لہذا سراسر باطل ہے۔ پھر مرسل میں تو تخفیف کا بیان ہی نہیں۔ فافھم
جہنم میں جنت کا پانی نہیں ملے گا جو کہ پیاس بجھانے اور سیراب کرنے والا ہوگا۔ اور دوزخی بہشتیوں سے(گڑگڑاکر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاو یا جو رزق اللہ نے تمھیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے (کچھ ہمیں بھی دو)۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالی نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کردیا ہے (سورۃ اعراف آیت ۵۰)
تنبیہ : ابو طالب کے عذاب میں تخفیف علیحدہ مسئلہ ہے کہ وہ تو نصوص سے ثابت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام
یہ اس واقعہ کی حقیقت تھی جو بفضل اللہ تعالی بیان کر دی ہے کسی بھی واعظ و خطیب سے مذکورہ واقعہ سنیں اور اس تفصیل کے برعکس ہو تو ضرور بالضرور اسے اس حقیقت سے آگاہ کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
تفصیل کیلئے دیکھئے :
رسائل فی حکم الاحتفال بالمو لدالنبوی، جزء ثانی طبع رئاسہ ادارۃ البحوث العلمیہ والافتاء الریاض، ال العربية السعودیہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top