کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
قادری صاحب کی طولانی اور ہمارے جواب ربانی
باب نہم قائم کرکے القادری صاحب، ہینڈ نگ لگاتے ہیں ’’ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایاں پہلوؤں پر اجمالی نظر‘‘ پھر اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے نمبر کے اعتبار سے عنوان قائم کرتے ہیں ۔
1۔ شرعی پہلو
شرعی پہلو کا عنوان قائم کرکے پھر نمبر، ۱۔پر لکھتے ہیں’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تذکیر ‘‘ اس سے قبل کے ہم اس استدلال و استنباط پر تبصرہ کریں آپ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ قادری صاحب کے ہاں ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عید مسرت ہے عید شرعی نہیں ‘‘ (صفحہ ۔757)
اب بتائیے جب خود ہی تسلیم کرلیا کہ یہ ’’جشن شرعی عید نہیں ہے‘‘ تو پھر اس کا شرعی پہلو کہاں سے آگیا ؟
استدلالاً جو آیت نقل کی ہے ’’ ذکر ھم بایام اللّٰہ ‘‘ تو یہ استدلال بوجوہ صحیح نہیں ہے ۔
اس لیئے کہ جناب مقلد ہیں اور مقلد فقط قول امام ہی پیش کرسکتا ہے، استدلال و استنباط اور اجتہاد نہیں کرسکتا او رقول امام یہاں مفقود ہے۔
ایام اللہ ۔ میں صرف نعمتیں ہی مراد نہیں بلکہ مصائب و ابتلاء بھی شامل ہیں اور میلاد و جشن میں ابتلاء ومصائب کہاں ہوتے ہیں اور یہاں تو مراد یہ ہے کہ ایام اللہ کے ساتھ نصیحت کا سامان کرو اور قادری صاحب ترجمہ ہی بدل دیتے ہیں کہ انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ ؟
ذکر ھم وغیرہ کے الفاظ اور جگہ بھی آئے ہیں کیا سب جگہ عید وجشن ہی مراد ہوگا ؟
ایام صیغہ جمع ہے جبکہ جشن ومیلاد ایک مخصوص تاریخ و دن کو منایا جاتا ہے فقط ایک دن تو پھر ایام سے یوم پر استدلال کیسے ہوا ؟
۲۔ یوم نزول مائدہ کو بطور عید منانا:
اس عنوان کے تحت سورۃ مائدہ آیت نمبر 114 لکھ کر اس سے استدلال کرتے ہیں ۔ ( صفحہ 677)
اس کا جواب ہم پچھلے مباحث میں لکھ چکے ہیں کہ اس آیت میں بیان کردہ عمل نصاریٰ کا ہے اور دین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی تصدیق نہیں ملتی۔لہٰذا یہ انہی کے ساتھ خاص ہوا۔
اور نعمتیں تو اس قدر ہیں کہ ’’لاتحصوھا‘‘ تو کیا ہر ہر نعمت پرجشن میلاد ہوگا ؟
مائدہ ہی سبب فرحت عید تھانہ کہ یوم نزول مائدہ ، سمجھ لیجئے ۔
اور یہ خود ساختہ استدلال 1400سال میں صرف جناب القادری صاحب کو ہی سوجھا ہے حالانکہ جناب کٹر مقلد ہیں پھر نہ جانے اجتہادی ملکہ انہیں کیسے حاصل ہوجاتا ہے؟
2:تاریخی پہلو ۔ (صفحہ 678)
اس عنوان کے تحت وہی ابو سعید مظفر الدین کو کبری (م 630 ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس مروجہ جشن کو منعقد کیا تھا۔
یہ مسئلہ بھی پہلے گزر چکا ہے کہ بادشاہ مذکور ایک مسرف بادشاہ تھا جو باقاعدہ رقص بھی کیا کرتا تھا، جیسا کہ کتب تاریخ میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔
اور ابن دحیہ جس نے بادشاہ ھذا کو کتاب لکھ دی تھی میلاد پر وہ خود ایک گستاخ سلف صالحین اور وضاع آدمی تھا جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔
اور پھر کیا تاریخ اسلام کی ابتداء ساتویں صدی سے ہوتی ہے؟ اس سے قبل کے 600سال کہاں گئے؟ اس میں یقیناًمروجہ میلاد موجود نہ تھا آخر کیوں؟
صفحہ 680۔ پر لکھتے ہیں:’’ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے‘‘۔
یعنی القادری صاحب مروجہ جشن مسرت ومیلاد کو کہتے ہیں کہ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس مسئلہ میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟پھر بھی یہ شرعی نہیں بقول آپ کے؟
صحابہ واتباع صحابہ اس ’’اصل ‘‘ کو کیوں نہ پاسکے؟
اور کیا جسکی ’’اصل ‘‘ قرآن وحدیث میں ہو وہ عمل بھی ’’بدعت ‘‘ ہوسکتا ہے؟
خواہ آپ اسے ’’بدعت حسنہ ‘‘ ہی کہیں؟
3۔ ثقافتی پہلو :
اس عنوان کے تحت قادری صاحب نے اپنے مخصوص اکتادینے والے انداز میں طویل گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں لکھا ہے: لہٰذا اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت یعنی یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ (صفحہ 684)
قارئین ! ثقافت وکلچر ہونے کا جواب پچھلے اوراق میں دیا جاچکا ہے۔ دیکھ لیجئے۔ القادری صاحب نے یہاں ’’مروجہ میلادوجشن کو‘‘ اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت قرار دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت کی ابتداء اور انتہا کب ہوئی؟
کیونکہ مروجہ میلاد تو یقیناًقرون ثلاثہ مفضلہ میں نہ تھا ۔ کیا اس وقت ثقافت اسلامی مکمل نہ تھی؟اور اگر یہ سب سے بڑی علامت ہے تو کیا صحابہ و اتباع صحابہ اور ائمہ ومحدثین اس ثقافت اسلامی سے نہ آشنا تھے؟ حتی کہ خود سرور گرامی قدر امام کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ؟ معاذ اللہ۔
اور پھر میلا دی لوگ ’’یوم میلا د‘‘ کا اعتبار ہی کب کرتے ہیں جوکہ سوموار کا دن ہے بلکہ وہ تو تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں جس میں شدید اختلاف ہے۔!!!
4۔تربیتی پہلو :(صفحہ 685)
اس عنوان کے تحت قادری صاحب کے ’’کلام عارفانہ‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مروجہ جشن میلاد مناکر اپنے بچوں کو حب رسولؐ کی تعلیم دیں کیونکہ یہ اس کامؤثر ترین ذریعہ ہے۔اور جو مثالیں انہوں نے دی ہیں وہ ماؤزے تنگ، لینن اور خمینی وغیرہ کی ہیں۔
اگر مروجہ جشن میلاد ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے تو کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ پھر مروجہ جشن نہ منانے والے تو حب رسولؐ سے محروم ہی رہے ہوں گے اور اس طرح وہ ایمان سے ہی ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے نا ؟
القادری صاحب،حب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عین ایمان ہے اور اس کے حصول کے اصول متعین ہوچکے ہیں نہ کہ تمہارے خود ساختہ جشن وجلوس ۔
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔(ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری سنت کا تارک ملعون ہے ۔ (مستدرک حاکم، ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازمی تھامو۔(ابوداؤد )
القادری صاحب ! کتنی سنتیں ہیں آپ کے پاس ؟ نماز سنت کے خلاف ، روزہ کی نیت سنت کے خلاف، اذان سے قبل سنت کی خلاف ورزی اور پھر مروجہ جشن میلاد از خلاف خود سنت رسولﷺ وخلاف سنت صحابہ رسولﷺ ہے۔
پیغمبر زماں صلی اللہ علیہ وسلم تو’’دن ‘‘ کا اعتبار کرکے روزہ رکھیں اور میلاد ی لوگ ! اس دن کو عید کا دن قرار دیں ۔ حالانکہ عید کے دن روزہ نہیں رکھا جاتا ۔
باب نہم قائم کرکے القادری صاحب، ہینڈ نگ لگاتے ہیں ’’ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایاں پہلوؤں پر اجمالی نظر‘‘ پھر اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے نمبر کے اعتبار سے عنوان قائم کرتے ہیں ۔
- شرعی پہلو
- تاریخی پہلو
- ثقافتی پہلو
- تربیتی پہلو
- دعوتی پہلو
- ذوقی وحبی پہلو
- روحانی وتوسلی پہلو ( صفحہ ۔ 674)
1۔ شرعی پہلو
شرعی پہلو کا عنوان قائم کرکے پھر نمبر، ۱۔پر لکھتے ہیں’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تذکیر ‘‘ اس سے قبل کے ہم اس استدلال و استنباط پر تبصرہ کریں آپ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ قادری صاحب کے ہاں ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عید مسرت ہے عید شرعی نہیں ‘‘ (صفحہ ۔757)
اب بتائیے جب خود ہی تسلیم کرلیا کہ یہ ’’جشن شرعی عید نہیں ہے‘‘ تو پھر اس کا شرعی پہلو کہاں سے آگیا ؟
استدلالاً جو آیت نقل کی ہے ’’ ذکر ھم بایام اللّٰہ ‘‘ تو یہ استدلال بوجوہ صحیح نہیں ہے ۔
اس لیئے کہ جناب مقلد ہیں اور مقلد فقط قول امام ہی پیش کرسکتا ہے، استدلال و استنباط اور اجتہاد نہیں کرسکتا او رقول امام یہاں مفقود ہے۔
ایام اللہ ۔ میں صرف نعمتیں ہی مراد نہیں بلکہ مصائب و ابتلاء بھی شامل ہیں اور میلاد و جشن میں ابتلاء ومصائب کہاں ہوتے ہیں اور یہاں تو مراد یہ ہے کہ ایام اللہ کے ساتھ نصیحت کا سامان کرو اور قادری صاحب ترجمہ ہی بدل دیتے ہیں کہ انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ ؟
ذکر ھم وغیرہ کے الفاظ اور جگہ بھی آئے ہیں کیا سب جگہ عید وجشن ہی مراد ہوگا ؟
ایام صیغہ جمع ہے جبکہ جشن ومیلاد ایک مخصوص تاریخ و دن کو منایا جاتا ہے فقط ایک دن تو پھر ایام سے یوم پر استدلال کیسے ہوا ؟
۲۔ یوم نزول مائدہ کو بطور عید منانا:
اس عنوان کے تحت سورۃ مائدہ آیت نمبر 114 لکھ کر اس سے استدلال کرتے ہیں ۔ ( صفحہ 677)
اس کا جواب ہم پچھلے مباحث میں لکھ چکے ہیں کہ اس آیت میں بیان کردہ عمل نصاریٰ کا ہے اور دین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی تصدیق نہیں ملتی۔لہٰذا یہ انہی کے ساتھ خاص ہوا۔
اور نعمتیں تو اس قدر ہیں کہ ’’لاتحصوھا‘‘ تو کیا ہر ہر نعمت پرجشن میلاد ہوگا ؟
مائدہ ہی سبب فرحت عید تھانہ کہ یوم نزول مائدہ ، سمجھ لیجئے ۔
اور یہ خود ساختہ استدلال 1400سال میں صرف جناب القادری صاحب کو ہی سوجھا ہے حالانکہ جناب کٹر مقلد ہیں پھر نہ جانے اجتہادی ملکہ انہیں کیسے حاصل ہوجاتا ہے؟
2:تاریخی پہلو ۔ (صفحہ 678)
اس عنوان کے تحت وہی ابو سعید مظفر الدین کو کبری (م 630 ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس مروجہ جشن کو منعقد کیا تھا۔
یہ مسئلہ بھی پہلے گزر چکا ہے کہ بادشاہ مذکور ایک مسرف بادشاہ تھا جو باقاعدہ رقص بھی کیا کرتا تھا، جیسا کہ کتب تاریخ میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔
اور ابن دحیہ جس نے بادشاہ ھذا کو کتاب لکھ دی تھی میلاد پر وہ خود ایک گستاخ سلف صالحین اور وضاع آدمی تھا جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔
اور پھر کیا تاریخ اسلام کی ابتداء ساتویں صدی سے ہوتی ہے؟ اس سے قبل کے 600سال کہاں گئے؟ اس میں یقیناًمروجہ میلاد موجود نہ تھا آخر کیوں؟
صفحہ 680۔ پر لکھتے ہیں:’’ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے‘‘۔
یعنی القادری صاحب مروجہ جشن مسرت ومیلاد کو کہتے ہیں کہ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس مسئلہ میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟پھر بھی یہ شرعی نہیں بقول آپ کے؟
صحابہ واتباع صحابہ اس ’’اصل ‘‘ کو کیوں نہ پاسکے؟
اور کیا جسکی ’’اصل ‘‘ قرآن وحدیث میں ہو وہ عمل بھی ’’بدعت ‘‘ ہوسکتا ہے؟
خواہ آپ اسے ’’بدعت حسنہ ‘‘ ہی کہیں؟
3۔ ثقافتی پہلو :
اس عنوان کے تحت قادری صاحب نے اپنے مخصوص اکتادینے والے انداز میں طویل گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں لکھا ہے: لہٰذا اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت یعنی یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ (صفحہ 684)
قارئین ! ثقافت وکلچر ہونے کا جواب پچھلے اوراق میں دیا جاچکا ہے۔ دیکھ لیجئے۔ القادری صاحب نے یہاں ’’مروجہ میلادوجشن کو‘‘ اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت قرار دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت کی ابتداء اور انتہا کب ہوئی؟
کیونکہ مروجہ میلاد تو یقیناًقرون ثلاثہ مفضلہ میں نہ تھا ۔ کیا اس وقت ثقافت اسلامی مکمل نہ تھی؟اور اگر یہ سب سے بڑی علامت ہے تو کیا صحابہ و اتباع صحابہ اور ائمہ ومحدثین اس ثقافت اسلامی سے نہ آشنا تھے؟ حتی کہ خود سرور گرامی قدر امام کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ؟ معاذ اللہ۔
اور جہاں تک العید الوطنی اور بادشاہوں کا اپنے دن منانا ہے توبات بالکل واضح ہے کہ وہ اپنے ایام کو قرآن وحدیث کا ثابت شدہ امر نہیں قرار دیتے اور نہ ہی اسے عبادت سمجھتے ہیں۔ جبکہ مروجہ جشن وجلوس کو تو خود القادری اور ان کی ذریت قرآن وحدیث کا ثابت شدہ امر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور اسے محبت رسولؐ کی علامت قرار دیتے ہیں جوکہ خالصتاً اللہ کی رضا ورضوان کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہی تو عبادت کی تعریف ہے۔ لہٰذا مروجہ جشن کو العید الوطنی اور پاکستان ڈے وغیرہ پر قیاس کرنا تو ویسے ہی گستاخی دکھائی دیتا ہے۔القادری صاحب کو چاہیے کہ اسلام میں بعد ا ز تکمیل نئے نئے ثقافتی میلے ایجاد کرنے سے بچیں تاکہ کل قیامت میں رسوا ہونے سے بچ سکیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
اور پھر میلا دی لوگ ’’یوم میلا د‘‘ کا اعتبار ہی کب کرتے ہیں جوکہ سوموار کا دن ہے بلکہ وہ تو تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں جس میں شدید اختلاف ہے۔!!!
4۔تربیتی پہلو :(صفحہ 685)
اس عنوان کے تحت قادری صاحب کے ’’کلام عارفانہ‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مروجہ جشن میلاد مناکر اپنے بچوں کو حب رسولؐ کی تعلیم دیں کیونکہ یہ اس کامؤثر ترین ذریعہ ہے۔اور جو مثالیں انہوں نے دی ہیں وہ ماؤزے تنگ، لینن اور خمینی وغیرہ کی ہیں۔
اگر مروجہ جشن میلاد ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے تو کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ پھر مروجہ جشن نہ منانے والے تو حب رسولؐ سے محروم ہی رہے ہوں گے اور اس طرح وہ ایمان سے ہی ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے نا ؟
خواہ وہ صحابہؓ، اتباع صحابہ اورائمہ محدثین ہی کیوں نہ ہوں ؟ معاذ اللہ ۔ کس قدر گندی اور گھٹیا سوچ ہے جناب کی !
اور کون نہیں جانتا کہ ’’مقلدین احناف‘‘ کے ہاں قرآن وحدیث کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے (دیکھئے حقیقۃ الفقہ)القادری صاحب ! اگر آپ کو حب رسول علیہ الصلاۃ والسلام کا پاس ہوتا اور اپنا ایمان بچانا مقصود ہوتا تو کبھی بھی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دامن چھڑاکر’’تقلید شخصی‘‘ سے خود کو آلودہ نہ کرتے۔
کبھی خود ساختہ طریقہ عبادات ایجاد نہ کرتے ۔
کبھی بدعات کو حسنہ کہہ کر احادیث کا استھزاء نہ کرتے ۔
کبھی قرآن وحدیث کو خودساختہ معنی نہ پہناتے۔
القادری صاحب،حب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عین ایمان ہے اور اس کے حصول کے اصول متعین ہوچکے ہیں نہ کہ تمہارے خود ساختہ جشن وجلوس ۔
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔(ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری سنت کا تارک ملعون ہے ۔ (مستدرک حاکم، ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازمی تھامو۔(ابوداؤد )
القادری صاحب ! کتنی سنتیں ہیں آپ کے پاس ؟ نماز سنت کے خلاف ، روزہ کی نیت سنت کے خلاف، اذان سے قبل سنت کی خلاف ورزی اور پھر مروجہ جشن میلاد از خلاف خود سنت رسولﷺ وخلاف سنت صحابہ رسولﷺ ہے۔
پیغمبر زماں صلی اللہ علیہ وسلم تو’’دن ‘‘ کا اعتبار کرکے روزہ رکھیں اور میلاد ی لوگ ! اس دن کو عید کا دن قرار دیں ۔ حالانکہ عید کے دن روزہ نہیں رکھا جاتا ۔