• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کی طولانی اور ہمارے جواب ربانی
باب نہم قائم کرکے القادری صاحب، ہینڈ نگ لگاتے ہیں ’’ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایاں پہلوؤں پر اجمالی نظر‘‘ پھر اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے نمبر کے اعتبار سے عنوان قائم کرتے ہیں ۔
  1. شرعی پہلو
  2. تاریخی پہلو
  3. ثقافتی پہلو
  4. تربیتی پہلو
  5. دعوتی پہلو
  6. ذوقی وحبی پہلو
  7. روحانی وتوسلی پہلو ( صفحہ ۔ 674)
قارئین کرام دیکھ لیجئے کہ یہ تمام موضوعات اس سے قبل کہ مباحث میں مجملاً ومطولاً گزرہی چکے ہیں مگر القادری صاحب ایک نئے زاوئیے سے ترتیب بناکر اپنی کتاب کا ’’حجم‘‘ بڑھانے میں مصروف ہیں اور یہی کافی ہے ان کی’’علمی بے بضاعتی ‘‘ پر دلیل ۔
1۔ شرعی پہلو
شرعی پہلو کا عنوان قائم کرکے پھر نمبر، ۱۔پر لکھتے ہیں’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تذکیر ‘‘ اس سے قبل کے ہم اس استدلال و استنباط پر تبصرہ کریں آپ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ قادری صاحب کے ہاں ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عید مسرت ہے عید شرعی نہیں ‘‘ (صفحہ ۔757)
اب بتائیے جب خود ہی تسلیم کرلیا کہ یہ ’’جشن شرعی عید نہیں ہے‘‘ تو پھر اس کا شرعی پہلو کہاں سے آگیا ؟
استدلالاً جو آیت نقل کی ہے ’’ ذکر ھم بایام اللّٰہ ‘‘ تو یہ استدلال بوجوہ صحیح نہیں ہے ۔
اس لیئے کہ جناب مقلد ہیں اور مقلد فقط قول امام ہی پیش کرسکتا ہے، استدلال و استنباط اور اجتہاد نہیں کرسکتا او رقول امام یہاں مفقود ہے۔
ایام اللہ ۔ میں صرف نعمتیں ہی مراد نہیں بلکہ مصائب و ابتلاء بھی شامل ہیں اور میلاد و جشن میں ابتلاء ومصائب کہاں ہوتے ہیں اور یہاں تو مراد یہ ہے کہ ایام اللہ کے ساتھ نصیحت کا سامان کرو اور قادری صاحب ترجمہ ہی بدل دیتے ہیں کہ انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ ؟
ذکر ھم وغیرہ کے الفاظ اور جگہ بھی آئے ہیں کیا سب جگہ عید وجشن ہی مراد ہوگا ؟
ایام صیغہ جمع ہے جبکہ جشن ومیلاد ایک مخصوص تاریخ و دن کو منایا جاتا ہے فقط ایک دن تو پھر ایام سے یوم پر استدلال کیسے ہوا ؟
۲۔ یوم نزول مائدہ کو بطور عید منانا:
اس عنوان کے تحت سورۃ مائدہ آیت نمبر 114 لکھ کر اس سے استدلال کرتے ہیں ۔ ( صفحہ 677)
اس کا جواب ہم پچھلے مباحث میں لکھ چکے ہیں کہ اس آیت میں بیان کردہ عمل نصاریٰ کا ہے اور دین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی تصدیق نہیں ملتی۔لہٰذا یہ انہی کے ساتھ خاص ہوا۔
اور نعمتیں تو اس قدر ہیں کہ ’’لاتحصوھا‘‘ تو کیا ہر ہر نعمت پرجشن میلاد ہوگا ؟
مائدہ ہی سبب فرحت عید تھانہ کہ یوم نزول مائدہ ، سمجھ لیجئے ۔
اور یہ خود ساختہ استدلال 1400سال میں صرف جناب القادری صاحب کو ہی سوجھا ہے حالانکہ جناب کٹر مقلد ہیں پھر نہ جانے اجتہادی ملکہ انہیں کیسے حاصل ہوجاتا ہے؟
2:تاریخی پہلو ۔ (صفحہ 678)
اس عنوان کے تحت وہی ابو سعید مظفر الدین کو کبری (م 630 ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس مروجہ جشن کو منعقد کیا تھا۔
یہ مسئلہ بھی پہلے گزر چکا ہے کہ بادشاہ مذکور ایک مسرف بادشاہ تھا جو باقاعدہ رقص بھی کیا کرتا تھا، جیسا کہ کتب تاریخ میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔
اور ابن دحیہ جس نے بادشاہ ھذا کو کتاب لکھ دی تھی میلاد پر وہ خود ایک گستاخ سلف صالحین اور وضاع آدمی تھا جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔
اور پھر کیا تاریخ اسلام کی ابتداء ساتویں صدی سے ہوتی ہے؟ اس سے قبل کے 600سال کہاں گئے؟ اس میں یقیناًمروجہ میلاد موجود نہ تھا آخر کیوں؟
صفحہ 680۔ پر لکھتے ہیں:’’ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے‘‘۔
یعنی القادری صاحب مروجہ جشن مسرت ومیلاد کو کہتے ہیں کہ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس مسئلہ میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟پھر بھی یہ شرعی نہیں بقول آپ کے؟
صحابہ واتباع صحابہ اس ’’اصل ‘‘ کو کیوں نہ پاسکے؟
اور کیا جسکی ’’اصل ‘‘ قرآن وحدیث میں ہو وہ عمل بھی ’’بدعت ‘‘ ہوسکتا ہے؟
خواہ آپ اسے ’’بدعت حسنہ ‘‘ ہی کہیں؟
3۔ ثقافتی پہلو :
اس عنوان کے تحت قادری صاحب نے اپنے مخصوص اکتادینے والے انداز میں طویل گفتگو فرمائی ہے اور آخر میں لکھا ہے: لہٰذا اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت یعنی یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ (صفحہ 684)
قارئین ! ثقافت وکلچر ہونے کا جواب پچھلے اوراق میں دیا جاچکا ہے۔ دیکھ لیجئے۔ القادری صاحب نے یہاں ’’مروجہ میلادوجشن کو‘‘ اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت قرار دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت کی ابتداء اور انتہا کب ہوئی؟
کیونکہ مروجہ میلاد تو یقیناًقرون ثلاثہ مفضلہ میں نہ تھا ۔ کیا اس وقت ثقافت اسلامی مکمل نہ تھی؟اور اگر یہ سب سے بڑی علامت ہے تو کیا صحابہ و اتباع صحابہ اور ائمہ ومحدثین اس ثقافت اسلامی سے نہ آشنا تھے؟ حتی کہ خود سرور گرامی قدر امام کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ؟ معاذ اللہ۔
القادری صاحب کو چاہیے کہ اسلام میں بعد ا ز تکمیل نئے نئے ثقافتی میلے ایجاد کرنے سے بچیں تاکہ کل قیامت میں رسوا ہونے سے بچ سکیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
اور جہاں تک العید الوطنی اور بادشاہوں کا اپنے دن منانا ہے توبات بالکل واضح ہے کہ وہ اپنے ایام کو قرآن وحدیث کا ثابت شدہ امر نہیں قرار دیتے اور نہ ہی اسے عبادت سمجھتے ہیں۔ جبکہ مروجہ جشن وجلوس کو تو خود القادری اور ان کی ذریت قرآن وحدیث کا ثابت شدہ امر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور اسے محبت رسولؐ کی علامت قرار دیتے ہیں جوکہ خالصتاً اللہ کی رضا ورضوان کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہی تو عبادت کی تعریف ہے۔ لہٰذا مروجہ جشن کو العید الوطنی اور پاکستان ڈے وغیرہ پر قیاس کرنا تو ویسے ہی گستاخی دکھائی دیتا ہے۔
اور پھر میلا دی لوگ ’’یوم میلا د‘‘ کا اعتبار ہی کب کرتے ہیں جوکہ سوموار کا دن ہے بلکہ وہ تو تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں جس میں شدید اختلاف ہے۔!!!
4۔تربیتی پہلو :(صفحہ 685)
اس عنوان کے تحت قادری صاحب کے ’’کلام عارفانہ‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مروجہ جشن میلاد مناکر اپنے بچوں کو حب رسولؐ کی تعلیم دیں کیونکہ یہ اس کامؤثر ترین ذریعہ ہے۔اور جو مثالیں انہوں نے دی ہیں وہ ماؤزے تنگ، لینن اور خمینی وغیرہ کی ہیں۔
اگر مروجہ جشن میلاد ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے تو کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ پھر مروجہ جشن نہ منانے والے تو حب رسولؐ سے محروم ہی رہے ہوں گے اور اس طرح وہ ایمان سے ہی ہاتھ دھوبیٹھے ہوں گے نا ؟
خواہ وہ صحابہؓ، اتباع صحابہ اورائمہ محدثین ہی کیوں نہ ہوں ؟ معاذ اللہ ۔ کس قدر گندی اور گھٹیا سوچ ہے جناب کی !
القادری صاحب ! اگر آپ کو حب رسول علیہ الصلاۃ والسلام کا پاس ہوتا اور اپنا ایمان بچانا مقصود ہوتا تو کبھی بھی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دامن چھڑاکر’’تقلید شخصی‘‘ سے خود کو آلودہ نہ کرتے۔
کبھی خود ساختہ طریقہ عبادات ایجاد نہ کرتے ۔
کبھی بدعات کو حسنہ کہہ کر احادیث کا استھزاء نہ کرتے ۔
کبھی قرآن وحدیث کو خودساختہ معنی نہ پہناتے۔
اور کون نہیں جانتا کہ ’’مقلدین احناف‘‘ کے ہاں قرآن وحدیث کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے (دیکھئے حقیقۃ الفقہ)
القادری صاحب،حب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عین ایمان ہے اور اس کے حصول کے اصول متعین ہوچکے ہیں نہ کہ تمہارے خود ساختہ جشن وجلوس ۔
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔(ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری سنت کا تارک ملعون ہے ۔ (مستدرک حاکم، ترمذی)
فرمایا رسول رحمتﷺ نے : میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازمی تھامو۔(ابوداؤد )
القادری صاحب ! کتنی سنتیں ہیں آپ کے پاس ؟ نماز سنت کے خلاف ، روزہ کی نیت سنت کے خلاف، اذان سے قبل سنت کی خلاف ورزی اور پھر مروجہ جشن میلاد از خلاف خود سنت رسولﷺ وخلاف سنت صحابہ رسولﷺ ہے۔
پیغمبر زماں صلی اللہ علیہ وسلم تو’’دن ‘‘ کا اعتبار کرکے روزہ رکھیں اور میلاد ی لوگ ! اس دن کو عید کا دن قرار دیں ۔ حالانکہ عید کے دن روزہ نہیں رکھا جاتا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غور کریں
اس دن روزہ رکھنا ہی اس کے عید ہونے کی نفی ہے۔
5۔ دعوتی پہلو : (صفحہ 688)
اس کے تحت القادری صاحب کوئی خاص بات نہ کہہ سکے اور ویسے بھی پورا سال ہی بیان سیرت طیبہ اور فضائل حمیدہ کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے اس کے لئے مخصوص دن کی ، تاریخ کی قید فضول ہے کیونکہ جس کام میں شرع نے کوئی دن اور تاریخ مقرر نہ کی ہو اسے خود اپنی طرف سے لازم کرلینا ہی تو امر محدث ہے جو کہ مردود ہے۔
6۔ ذوقی وحبی پہلو :
اس عنوان کے تحت ایک جگہ لکھتے ہیں : اعمال کی روح محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ۔۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ۔۔۔اعمال کی ظاہری شکل ہے۔ (صفحہ 692)
بیشک بات صحیح لکھی ہے، تحریر کردہ احادیث بھی صحیح ہیں !
مگراعمال کی روح محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کے اصول متعین ہوچکے ہیں خود ساختہ اعمال حصول محبت کا ذریعہ قطعاً نہیں ہوسکتے جبکہ وہ اعمال ہوں بھی بدعات کی قبیل سے۔ اتباع رسول صلی تعالیٰ علیہ وسلم ہی ظاہری وباطنی شرط ہے کہ جس پر اعمال کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
مروجہ میلاد، بدعت ہونے کی وجہ سے کبھی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ نہیں ہوسکتا ۔
القادری صاحب نے جو ظاہری اتباع کو باطنی روح ومحبت سے کم تر دکھانے کی کوشش کی ہے تو یہ یوں سمجھئے کے ’’باطنیت ‘‘ کے گندے مذہب کی ترجمانی ہے اور بس ۔ کیوں کہ خود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری اعمال پر ہی فیصلہ کیا ہے اور باطنی نیت کا معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہے اور فرمایا ’’اللہ نے مجھے لوگوں کے دل چیر کردیکھنے کا حکم نہیں دیا ہے‘‘۔(کما فی الحدیث)
7۔ روحانی وتوسلی پہلو: (صفحہ 694)
اس عنوان میں بھی جناب کوئی خاطر خواہ بات نہیں کرسکے ہیں : شاید ’’علمی نکات‘‘ ختم ہونے لگے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ اس مروجہ جشن سے روحانی اقدار کو فروغ ملتا ہے تو بات بالکل سیدھی سی ہے کہ جب ایک چیز ہے ہی مذموم، بدعت اور غیر شرعی (کیونکہ اس کا شرعی نہ ہونا تو خو دموصوف کو بھی تسلیم ہے جیسا کہ گزرا ہے ) تو پھر اس سے روحانی اقدار میں کیا خاک اضافہ ہوگا ۔یہ تو ایسے ہی ہوگا کہ قوال کی قوالی میں ڈھول،ڈھماکہ ، طبلہ وسارنگی اور چمٹے بجاکر بدمستی میں رقص کرنا اور پھر کہنا جی ولایت وروحانیت کے مراتب حاصل ہورہے ہیں۔
اپنی ہرغلط حرکت کو روحانیت اور باطنیت کا فروغ قرار دینا خالصتاً دجل وفریب پر مبنی ’’صوفیت‘‘ کا عقیدہ ہے ، جوکہ کتے کے بھونکنے پر بھی کہہ اٹھتے ہیں : لبیک یا سیدی ۔ استغفر اللہ
آخر میں جو بڑے معصومانہ انداز میں جناب نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’ہر اس عمل سے بچنا چاہیے جو آقائے دو جہاں کی دل آزاری کا باعث بنے (696)
ہم پوچھتے ہیں جناب کیا پیغمبر علیہ السلام کے دین میں تغیر وتبدل آپ کی دل آزاری کا باعث نہیں ہے؟
رسول رحمت ﷺتو دن کا اعتبار کرکے روزہ رکھیں، ساری زندگی کبھی جشن وجلوس نہ نکالیں اور میلادی گروہ؟
یہی تو تبدیلی ہے جس پر روز قیامت ارشاد ہوگا۔ سحقاً سحقاً لمن غیر بعد ی۔ اللّٰھم لاتجعلنا مع الظالمین ۔آمین ۔
قادری صاحب کی حکمت عملی یہ ہے کہ موضوع کو پیچیدہ بنا کر اتنا طول دو کہ پڑھنے والا اکتاہٹ میں ہا ں کہنے پر مجبور ہو جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بدعت کی بحث
باب دہم، کا عنون رکھتے ہیں’’ کیا میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم منانا بدعت ہے؟
اس عنوان کے ذیل میں قادری صاحب بدعت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف و مفہوم اہل علم حضرات سے نقل کر کے اسکی خود ساختہ و ضاحت فرماتے ہیں اور اس سلسلے میں بد عت حسنہ اور بد عت سیئہ و بدعت قبیحہ کی تقسیم بیان کر تے ہیں۔ (صفحہ 702 ) اسی صفحے پر ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جشن میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اگر چہ قرون اولیٰ میں اس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے۔‘‘
قارئین کرام ذرا سا غور کیجئے گا کہ گزشتہ صفحات میں قادری صاحب نے صحابہ کرامؓ کے رنج والم اور غم و حزن کو دلیل بنا کر نہیں کہا تھا کہ انہوں نے یہ جشن میلاد نہیں منایا تھا؟
یقیناًیہی لکھا تھا اور کہا تھا۔ مگر اب یہاں صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ موجودہ شکل میں نہ تھا کہ کوئی گنجائش نکل سکے۔ مگر ہمارا یہ سوال ہے کہ خیر القرون میں آخر وہ کون سی شکل تھی جو آج موجود نہیں؟
صفحہ 703 پر اس مروجہ میلاد کو پھر علاقائی ثقافت باور کر انیکی کوشش کر تے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے؟ اس پر تفصیلی جواب ہم دے چکے ہیں تکرار سے چنداں فائدہ نہیں۔
صفحہ 704 پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی طرف منسوب کر کے لکھتے ہیں’’حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی ان کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔
ہمارا سوال وہی ہے کہ وہ انفرادی انداز کیا تھا ذرا بیان فرمائیں نا بحوالہ نیز یہ بھی بتائیں کہ وہ سال میں فقط ایک دن کا تھا اور وہ بھی 12 ربیع الاول کو ؟
اسی صفحہ پر لکھتے ہیں’’حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے۔‘‘
قارئین کوئی پوچھے تو صحیح ’’شوخ الا سلام صاحب ‘‘ ! کیا پھر بھی بدعت حسنہ ہو گا؟ جبکہ جناب خود ہی لکھتے ہیں کہ ’’نیا کام‘‘ بد عت حسنہ ہو تا ہے۔ کیا قرآن و حدیث سے ثابت شدہ امر بھی ’’ نیا کام‘‘ اور بدعت حسنہ ہو سکتا ہے!!!اورپھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس ’’ثابت شدہ‘‘ امر کے بارے میں خود ہی لکھتے ہیں!
’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلاۃ و سلام کا اہتمام کر تے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ (صفحہ 705 )
ہم کہتے ہیں قادری صاحب شاید گھبراہٹ کا شکار ہو گئے ہیں اس لیے ایسا لکھ رہے ہیں جناب اگر شرعی جواز نہیں تھا تو اتنی موٹی کتاب لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟
صرف ایک صفحے پر لکھ دیتے ناکہ ’’نہیں ہے دلیل‘‘ بات ختم ہو جاتی اور آپ تو لکھ بھی چکے ہیں یہ ’’عید شرعی نہیں عید مسرت ہے‘‘ میرا خیال ہے قادری صاحب کو اس کتاب کے چھاپنے سے معذرت کرلینی چاہئے اور یہی جواب دینا چاہئے کہ ’’اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟‘‘؟
صفحہ 705 پر ہی لکھتے ہیں’’محفل میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھنا ثقافت کا حصہ ہے۔
قارئین کرام! قیام و سلام کی بحث گزر چکی ہے، پچھلے مباحث میں دیکھ لیجئے سر دست قادری صاحب اور ان کے حواریوں سے سوال ہے کہ ’’جب قیام و سلام محفل میلاد ‘‘ کی قید لگا کر بیان کیا ہے تو پھر ’’محفل میلاد‘‘ کے علاوہ کیوں حالت قیام میں سلام پڑھا جا تا ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اپنے مذکورہ الفاظ پر غور کرلیں
صفحہ 706 پر لکھتے ہیں ’’میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر آرائش و زیبائش ثقافت کا حصہ ہے‘‘ دلیل یہ ہے کہ ’’یا بنی آدم خذوازینتکم عند کل مسجد ‘‘(الا عراف 31)
پھر لکھتے ہیں اس پہلو کا تعلق احکام شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔
قارئین! قادری صاحب کو شاید بھولنے کی عادت ہے یا پھر مسلسل کذب بیانی کی وجہ سے ایسا ہوجا تا ہے حالانکہ وہ گزشتہ مباحث میں اپنے زعم کے مطابق آرائش و زیبائش ‘ چراغاں وغیرہ کو دلیل دینے کی کوشش کر چکے ہیں اور یہاں اسے فقط ثقافت کہہ کر جان چھڑا لی ہے۔ آخر کیوں؟
ہمارا یہ سوال ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ’’خذوا زینتکم عند کل مسجد‘‘ بھی احکام شریعت سے نہیں۔ جبکہ یہ قرآنی حکم ہے تو ذرا سمجھائیے کہ حکم شرع پھر کیسے معلوم ہو گا؟
حکم شرعی اگر قرآن سے نہیں ملتا تو پھر کیا آپکی ’’شوخی‘‘ سے ملے گا؟
صفحہ 707 پر پھر دوبارہ ’’بدعت‘‘ کی وضاحت کی طرف لوٹ آتے ہیں حالانکہ اصولاً پہلے ایک بحث کو مکمل کرنا چاہئے ۔ مگر یہ بھی قادری صاحب کی کوئی چالاکی ہی دکھائی دیتی ہے کہ اس طرح خلط مبحث سے قارئین ان کے داؤ پیچ کو سمجھ نہیں پاتے اور ’’وہ‘‘ اپنا کام کر جاتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لکھتے ہیں: بدعت کا حقیقی تصور
قارئین کرام آپ جان چکے ہیں یا پھر جان لیجئے کہ قادری صاحب صفحہ 701 پر بدعت کا اصطلاحی مفہوم بیان کر چکے ہیں۔ گویا اصطلاحی اور حقیقی نیز لغوی یہ تین اصطلاح قادری صاحب کی اخذ کردہ ہیں جبکہ ائمہ اور محدثین کے ہاں یا تو لغوی بحث ہوتی ہے یا اصطلاحی علیحدہ سے حقیقی تصور کی بات نہیں ہوتی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خود ساختہ تعریف بدعت کا علمی محاسبہ
صفحہ 707 ، 708 ، 709 اور 710 وغیرہ میں حدیث ’’ من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھورد‘‘ پر بحث کرکے خود ساختہ معنی کشید کر تے ہیں کہ : کسی بھی محدثہ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کیلئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے:
1۔دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو
2۔یہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑ دے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہم قادری صاحب کی مکمل بحث میں سے بھی یہ کشید کردہ معنی و مفہوم نکالنے میں محروم رہے ہیں چہ جائیکہ یہ خود ساختہ کشیدہ کاری کسی امام و محدث زماں سے دکھا سکیں۔
ذرا قادری صاحب اور ان کے حواری ہی ہمیں یہ کشید شدہ معنی و مفہوم اپنی یا کسی امام و محدث کی بحث میں دکھا دیں۔ بڑی نواز ش ہوگی۔
اور یہ بھی بتائیں کہ ’’مروجہ ہیئت کذائیہ‘‘ کے ساتھ مخصوص (12) تاریخ کی ’’مروجہ میلاد‘‘ منانے کی کیا اصل ہے یا کیا مثال ہے؟ یا پھر کوئی دلیل ہی دیں؟
اگر نہیں دے سکتے تو پھر
خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
کیا بدعت و ضلالت کیلئے محدثہ کا دین مخالف اور سنت کو توڑ دینے والا ہونا ضروری ہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تو پھر بتائیں
میت کے گھر میں تین دن یا چالیس دن بیٹھنا اور پان چھالیہ کھانا (انکی طرف سے) کیوں دعوت ناجائز و بدعت شنیعہ وقبیحہ ہے؟
آپ کے اعلیٰ حضرت نے احکام شریعت صفحہ 320 میں ایسا ہی لکھا ہے آخر کیوں؟
نہ اس میں دین کی مخالفت ہے اور نہ یہ عمل سنت توڑ دینے والا ہے۔
قادری صاحب یہ خود ساختہ شروط و قیود ذرا اپنے امام ابو حنیفہ ؒ سے بھی ثابت کر دیں نا تاکہ حق تقلید تو ادا ہوجائے۔
صفحہ 711 پر لکھتے ہیں: عھد نبوی میں احداث فی الدین سے مراد: مزید لکھتے ہیں۔احداث فی الدین یعنی کفرو ارتداد کے فتنوں کا آغاز۔
صفحہ 719 پر لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ احداث فی الدین سے مراد خلفائے راشدین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والا فتنہ ارتداد تھا۔
صفحہ 724 پر اپنی بات کی وضاحت یوں فرماتے ہیں: بد عات ضلالتہ سے مراد چھوٹے اورہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اس سطح کے فتنے ہیں کہ ان میں سے ہر فتنہ خروج عن الا سلام اور ’’ارتداد‘‘ کا باعث بنے
ہمارا خیال ہے کہ قادری صاحب ہمیشہ بے مقصد با ت کو طول دیکر اکتاہٹ کا شکار ہوجانیوالوں کو ہاں کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
جو کچھ بھی قادری صاحب نے لکھا ہے کہ کیا یہ کسی امام یا محدث یا کسی حدیث صحیحہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں حتی کہ خود قادری صاحب جن کے مقلد ہیں ان سے بھی نہیں۔
کیا ’’احکام شریعت ازا حمد رضا‘‘ میں ناجائز، بدعت شنیعہ و قبیحہ قرار دی گئی دعوت باعث خروج عن الا سلام ہے؟ باعث ارتداد ہے؟
سیدنا عبد اﷲ بن عمرؓ نے اذان کے بعد نماز کیلئے بآ واز بلند بلانے کو بدعت کہا ہے۔ (ابو داؤد) کیا یہ بلانا باعث خروج عن الا سلام تھا؟
ابن عمرؓ نے صلاۃ الضحیٰ کو بدعت کہا (بخاری بحوالہ کتاب البدعۃ قادری موصوف) کیا یہ نماز باعث خروج عن الا سلام تھی؟
ابن عمرؓ نے جمعہ کی پہلی اذان کو بدعت کہا ۔ (مصنف ابن بی شیبہ بحوالہ کتاب البدعۃ) کیا یہ اذان باعث ارتداد تھی؟ سنت توڑ دینے کے مترادف تھی؟
احادیث میں دوران نماز بسم اﷲ جھری پڑھنے کو بدعت کہا گیا (ترمذی مع التحفہ 2/62 ) فجر کی نماز میں دائمی قنوت کو محدث ( بدعت ) کہا گیا (ترمذی مع التحفہ 2/450 )
اشعار نہ کرنے کے قول کو بدعت کہا گیا (ترمذی مع التحفہ 3/771 )
عبد اﷲ بن زبیرؓ نے متجرد کو دیکھا تو کہا بدعۃ ورب الکعبہ (مؤطا 208 )

کیا قادری صاحب یہ فرمائیں گے کہ یہ تمام امور جنہیں بد عت کہا گیا باعث ارتداد و خروج عن الا سلام ہیں۔ نعوذ با ﷲ من ذلک۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قادری صاحب کا خود کشید کردہ معنی و مفہوم سراسر باطل ہے اور بہت سی احادیث کے خلاف ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ امور کو بطور مذمت و تردید بدعت اور محدث کہا گیا ہے یہ حسنہ بھی قرار نہیں دئیے جا سکتے اور حسنہ کی بحث تو ابھی آرہی ہے۔
صفحہ 729, 727, 726 وغیرہ پر قادری صاحب جمع القرآن فی عہد الصدیق ؓ کو با جماعت تراویح فی عہد عمرؓ کو اور نماز جمعہ سے قبل دوسری اذان فی عہد عثمانؓ کو بدعت حسنہ سے تعبیر کر تے ہیں۔ اور اس طرح مروجہ میلاد کو بدعت حسنہ ثابت کرنیکی کوشش کی ہے۔
معاذ اﷲ استغفر اﷲ ! قادری صاحب کو کیا ہو گیا کہ نبی رحمت صلی اﷲعلیہ وسلم تو اپنے خلفاء راشدین کے عمل کو سنت قرار دیکر لازمی تھامنے کا حکم دیں (ابو داؤد وغیرہ) اور ’’شوخ الا سلام‘‘ ان کے عمل کو کہ جس پر دیگر صحابہ کا اجماع سکوتی بھی ہے اسے بدعت قرار دیں اور پھر اسے حسنہ کا لبادہ عطا کریں۔ اﷲ انہیں ہدایت دے صفحہ 732 پر قادری صاحب ائمہ و محدثین کی بیان کر دہ اقسام بد عت کا عنوان قائم کر تے ہیں اور بدعت کو پانچ اقسام سے گزارتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آیا اس تقسیم پر کوئی شرعی دلیل بھی ہے یا نہیں؟ ہے تو پیش کی جائے یہ تقسیم تو از خود بدعت قرار پاتی ہے کہ قادری صاحب کے بقول ’’ دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یاد دلیل موجود نہ ہو ‘‘ (صفحہ709 )
اور یہاں ایسا ہی ہے اس تقسیم کی کوئی اصل، مثال یا دلیل دین میں نہیں ہے۔
صفحہ 735 پر جناب نے ملا علی قاری حنفی سے کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم بیان کر تے ہوئے بدعت کی تقسیم پر یا بدعت حسنہ پر حدیث ’’ من سن فی الا سلام سنۃ حسنۃ‘‘ سے استدلال کی کوشش کی ہے۔
اس طرح کا استدلال و استشھاد صفحہ 739 اور 740 پر بھی کرنیکی کوشش کی ہے۔
اور پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ خود ہی کہتے ہیں: بدعت حسنہ اور سیۂ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے محض قیاسی نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق ؓ کے قول پر قائم ہے (صفحہ 729 )
پہلے تو یہ فیصلہ کیا جائے کہ تقسیم بد عت کا استدلال کس حدیث و قول سے ہو گا اور پھر اس استدلال کو مقلدین اپنے امام اعظم سے ثابت کریں تاکہ حق تقلید ادا ہو اور ’’غیر مقلد‘‘ کا فتویٰ بھی ان پر نہ لگ سکے۔
نیز قول عمر فاروق ؓ ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ قادری صاحب خود ہی لکھتے ہیں:
ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں ۔۔۔ اگر چہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہو گا ۔ (صفحہ 711 )
اور قول عمرؓ با جماعت تروایح کے بارے میں ہے اور تراویح با جماعت خود رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس کی اصل موجود ہے۔ لہٰذا سے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا لہٰذا اس سے استدلال باطل ہوجا تا ہے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ ’’سنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ کے الفاظ خود ان کے عمل کے سنت ہو نیکی دلیل ہے اسے بدعت کہنا تو توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے جس کا ارتکاب قادری صاحب کر رہے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا کلام، قادری صاحب کو مفید نہیں:
صفحہ 732پر قادری صاحب نے عنوان قائم کیا ہے ’’ائمہ ومحدثین کی بیان کردہ اقسام بدعت ‘‘
ا۔ امام شافعی 204-150ھ لکھ کر ان کی عبارت نقل کرتے ہیں کہ جس میں بظاہر بدعت ضلالت اورمحدثہ غیر مذمومہ وغیرہ کا ذکر موجود ہے۔
قارئین کرام امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیاہوا اقتباس بھی قادری صاحب کو چنداں مفید نہیں ہے کیونکہ جناب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لہٰذا انہیں اپنے موقف کی تائید میں انپے امام اعظم سے ہی کچھ نقل کرنا چاہیے۔
۲۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نقل کئے گئے اقتباس میں بدعت کی پانچ اقسام نہیں ہیں جیسا کہ قادری صاحب نے دعویٰ کیا ہے۔
۳۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بدعت کو ضلالت قرار دیا ہے کہ جو کتاب وسنت، آثار صحابہ اور اجماع امت کے مخالف ہو اور کہا ہے کہ ’’ومااحدث من الخیر لاخلاف فیہ لواحد من ھذا ‘‘یعنی جو کام مبنی برخیر ہو اور ان مذکورہ چیزوں سے سے کسی ایک بھی مخالفت نہ کرے تو وہ (کام) بدعت مذمومہ نہیں۔۔۔
جب یہ بات بالکل واضح ہے تو ہمارا قادری صاحب سے سوال ہے کہ کیا ’’مروجہ میلاد‘‘ کو کتاب وسنت ، آثار صحابہ اور اجماع امت کی تائید حاصل ہے؟ یقیناًنہیں تو پھر یہ مذکورہ چیزوں کے خلاف بھی ہوانا! اور امام شافعی رحمہ اللہ ایسے ہی عمل کو بدعت ضلالت کہتے ہیں؟ قادری صاحب بڑے بھولے پن سے اپنے خلاف وارد ہونے والی دلیل کو اپنے حق میں نقل کرجاتے ہیں۔
’’اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا‘‘​
اور پھر یہ بھی انتہائی قابل غور بات ہے کہ عبارت امام شافعی کے آخر میں قول عمرؓ نعمت البدعۃ ھذہ سے قیام رمضان کو بدعت مذمومہ سے خارج کیا گیا ہے کیونکہ تراویح وقیام رمضان کی اصل اور دلیل تو موجود ہے اور ایسی چیز لغۃ بدعت کہی جاتی ہے اصطلاحاً نہیں جیسا کہ خود قاری صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں اگر چہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہوگا ۔ ( صفحہ 711)
توثابت ہوا امام شافعی رحمہ اللہ نے لغوی اعتبار سے بدعت ضلالت اور بدعت غیر مذمومہ کی بات کی ہے، شرعی اعتبار سے نہیں۔ اب قادری صاحب ہی اس قول سے بدعت شرعی کی اقسام خمسہ ثابت کرنے پر تل جائیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔!!!
’’جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقسیم بدعت پر جوابات
صفحہ 733پر شیخ عزالدین بن عبدالسلام 660-577ھ سے بدعت کی پانچ اقسام ثابت کرنیکی کوشش کی ہے۔
قارئین کرام! سوال تو کیجئے قادری صاحب !کیا امام شافعیؒ اور شیخ عزالدین ؒ کے درمیان جو سینکڑوں سال کا عرصہ ہے، کوئی محدث اور امام نہیں گزرے جنہوں نے بدعت کی کوئی تقسیم بیان کی ہو اور وہ بھی شرعی اعتبار سے؟ یقیناًکوئی نہیں!ورنہ قادری صاحب ضرور ذکرفرماتے!
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقسیم ہے ہی محل نظر جیسا کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے ’’الاعتصام‘‘ میں کہا ’’ ھذا امر مخترع لم یدل علیہ دلیل شرعی‘‘ اس تقسیم کی کوئی شرعی دلیل نہیں یہ تقیم تو از خودہی بدعت ہے!!صفحہ 734پر وہی کلام جو شیخ عزالدین ؒ کا ہے ملاعلی قاری حنفی سے لکھ مارا ہے تاکہ کچھ تو کتاب وزنی ہو!! موصوف نے ملاعلی قاری سے ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کا صحیح مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ’’ کل بدعۃ سيئة ضلالۃ‘‘ یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ قید بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل مفقود ہے؟ اور امام مالک رحمہ اللہ جیسے امام کے سامنے ’’قادری صاحب‘‘ کے ’’قاری‘‘ کی کیا حیثیت ! امام مالک رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ’’ من ابتدع فی الاسلام بدعۃ ویرا ھاحسنۃ‘‘یعنی جو شخص اسلامی میں بدعت ایجادکرے اور پھر اسے حسنہ باور کرائے تو گویا اس (بدنصیب) نے اپنے پیغمبر کو خائن قرا ر دیدیا نعوذ باللہ استغفراللہ (الاعتصام دیکھئے)
لہذا یہ تقسیم خود ساختہ بدعت سیۂ اور بدعت حسنہ بدترین جسارت ہے جس کا ارتکاب قادری صاحب اور ان کے ہم مشربوں کے حصے میں آیا ہے۔صفحہ 736پر قادری موصوف نے علامہ ہیتمی سے ’’بدعت محرمہ‘‘ کی بات کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے وہ بھی اس تقسیم محدثہ مخترعہ کے قائل ہیں ۔ تو جناب ذرا یہ بھی دیکھ لیجئے کہ علامہ ہیتمی فرماتے ہیں۔جن علماء نے بدعت کوحسن اور غیر حسن میں تقسیم کیا ہے تو اس سے مراد بدعت کی لغوی تقسیم ہے ۔ (صفحہ 370فتاویٰ حدیثیہ، قدیمی)نیز فرماتے ہیں ۔ بدعت شرعیہ فقط ضلالت ہی ہوتی ہے (حوالہ مذکورہ) مزید فرماتے ہیں۔ قول عمرؓ نعمت البدعۃ ھذہ سے مراد بھی لغوی بدعت تھی نہ کہ شرعی۔ (حوالہ مذکورہ) امیدہے قادری صاحب کے مقلدین ومتوسلین ان کی تمام سابقہ بحث کو علامہ ہتیمی کے بیانات کی روشنی میں ’’ دجل وفریب‘‘ سے تعبیر کریں گے۔ ان شاء اللہ ۔مذکورہ صفحہ پر ہی قادری صاحب ’’تقسیم بدعت ‘‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں۔ قارئین! آپ کو معلوم ہے کہ اس سے قبل جناب ’’اقسام بدعت‘‘ کی ہیڈنگ لگاچکے ہیں اب ظاہر ہے یہ بے مقصد کا طول دینے والی بات ہے وگرنہ تو تقسیم اور اقسام میں آخر فرق ہی کیا ہے۔
موصوف فرماتے ہیں:بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں (ا) بدعت حسنہ (۲) بدعت سیۂ ۔ اور پھر مجموعی طور پر ان کی ذیلی اقسام کے تحت پانچ قسم کی بدعات کا تعارف پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ تقسیم بدعت پر متن حدیث ’’ من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘سے استشھادکرتے ہیں۔
قارئین عظام! موصوف صرف بے مقصد کی ہانک رہے ہیں نہ تو تقسیم بدعت پر ہی کوئی دلیل ان کے پاس ہے اور نہ ہی ’’ من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘کا وہ معنی ہے جو جناب لینا چاہتے ہیں۔تفصیل کے لئے اس حدیث کا سبب بیان دیکھا جاسکتا ہے نیز اہل علم نے اس کی وضاحت میں جوکچھ لکھا ہے وہ بھی مشعل راہ ہے۔ تقسیم بدعت اگر ہے تو باعتبار لغت کہ ہے جیسا کہ علاہتیمی اور دیگر اہل علم نے صراحت کی ہے۔ جبکہ قادری صاحب اس تقسیم کو شرعی و اصطلاحی قرار دینے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
گھر کا بھیدی
قادری صاحب کی جانی پہچانی اور ممدوح شخصیت شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ (بدعت حسنہ اور سیۂ کی تقسیم کی نفی کرتے ہوئے) یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت میں حسن اور نورانیت مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت وکدورت کے سواء کچھ محسوس نہیں کرتا۔ اگرچہ آج مبتدع کے عمل کو ضعف بصارت کے باعث طراوت و تازگی میں دیکھتے ہیں لیکن کل جب کہ بصیرت تیز ہوگی تو دیکھ لیں گے کہ اس کا نتیجہ خسارت وندامت کے سواء کچھ نہ تھا۔ حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھورد‘‘جس نے ہمارے امر میں ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے، بھلا جو چیز مردود ہووہ حسن کیا پیدا کرسکتی ہے۔کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں: پس جب ہرمحدث بدعت ہے اور بدعت ضلالت پھر بدعت میں حسن کے کیا معنی ہوئے۔ نیز جو کچھ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہربدعت سنت کی رافع ہے بعض کی کوئی خصوصیت نہیں پس ہر بدعت سیۂ ہے۔ (تفصیل دیکھئے ، مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 186)
یہی شیخ ربانی رحمہ اللہ نے مجلس مولود خوانی کی بڑی سختی سے تردید کی ہے۔ (دیکھئے مکتوب نمبر 273) قارئین کرام! حوالے مزید دئیے جاسکتے ہیں مگر طوالت کے خوف سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور چلتے ہیں قادری صاحب کی کتاب کی طرف۔ صفحہ 742پر قادری صاحب علمی جوہر لٹاتے ہیں: قرآن وحدیث میں جشن میلاد کی اصل موجود ہے‘‘ ہم کہتے ہیں ۔ سبحان اللہ ! کیا علم ہے جناب کا کیا تقریباً ساڑھے سات سو صفحات کے بعد ظاہر ہوا کہ ’’جشن میلاد‘‘ کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے!!حالانکہ یہی موصوف صفحۂ705پر ہارمان بیٹھے یہ کہتے ہوئے کہ ’’ اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
حیرت کی بات ہے کہ جب ’’مروجہ جشن میلاد‘‘ کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے تو پھر اسے ’’بدعت حسنہ‘‘ کیوں تسلیم کیا جارہا ہے ؟؟؟
یادرہے ہم لکھ چکے ہیں کہ قادری صاحب کے ممدوح امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وھذا وان لم یردفیہ نص، ففیہ القیاس‘‘(حسن المقصد صفحہ 51) یعنی زیر بحث مسئلے میں نص ، (اصل) موجودنہیں بلکہ اس میں قیاس کرنا ہوگا ۔صفحہ 743پر موصوف نے اپنی مخصوص فکر کے طبقے کو ’’جمہورامت‘‘ اور ’’سواد اعظم‘‘ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ کنویں کا مینڈک آخر کنویں میں ہی ٹراتا رہتا ہے اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کنویں سے باہر بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ قادری صاحب بھی بالکل اسی مینڈک کی طرح حرکت کررہے ہیں۔
کسے نہیں معلوم کہ جناب کی فکر بریلی فقط پاک وہند کی فضا کو آلودہ کررہی ہے جبکہ اس کے علاوہ تمام عالم اسلام اور دنیا عالم ان کے ایجاد کردہ نئے دین سے ناآشنا ہے۔اور اگر پاک وہند کا ایک مخصوص طبقہ جس کی کل زندگی بمشکل ڈیڑھ سو سال سے کچھ ہی اوپر ہے وہ ’’جمہورامت‘‘ اور ’’سواداعظم‘‘ ہے تو اللہ ہمیں اس جمہور اور سواد سے محفوظ ہی رکھے۔ آمین۔
شاید انہیں معلوم نہیں کہ جن بزرگوں کے نام پر یہ ’’دکانیں‘‘ چلارہے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ تو حنفی تھا اور نہ ہی بریلوی اور قادری ۔ اگر تھا تو ذرا حوالہ دیں نا امام ابو حنیفہؒ ، اما م محمد، امام ابو یوسف، امام زفر، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کوئی تو’’قادری‘‘ ثابت ہو!!
باب یازدھم میں قادری صاحب عنوان قائم کرتے ہیں جشن میلاد النبی ﷺ کی اعتقادی حیثیت
ذیلی عنوانات میں ترتیب کے اعتبار سے لکھتے ہیں۔
  1. میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح کا استعمال
  2. کتب لغت میں لفظ میلاد کا استعمال
  3. کتب احادیث و سیر میں لفظ میلاد کا استعمال
  4. تصانیف میں لفظ میلاد کا استعمال
ان تمام عنوانات ابواب میں قادری صاحب اپنے زعم میں دلائل بھی ذکر کرتے ہیں گویا وہ اس طرح لفظ میلاد ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ لفظ میلادپر تو کسی کو کوئی شکوہ ہی نہیں کیونکہ یہ لفظ بمعنی وقت ولادت تو کتب احادیث و سیر میں وارد ہوا ہے۔ اور یہی کچھ قادری صاحب کے طویل انداز تحریر کا خلاصہ ہے۔مگر ہمارا سوال تو یہ ہے کہ مروجہ ہیئت کذائیہ کے اعتبار سے میلاد کو دلائل سے ثابت کیجئے جسے آپکے امام اعظم کے قول کی تائید بھی حاصل ہوکہ تواصوابا لتقلید کا یہی تقاضا ہے۔ لفظ ولد، یلد یا میلاد و مولد سے مروجہ جشن و جلوس ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا بالکل اسی طرح کہ جیسے متعوھن سے متعہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
لہذا قادری صاحب کے بیان سے اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ رکھا جائے کہ لفظ میلاد بہرحال احادیث و سیر میں استعمال ہوا ہے اور بس۔ فیصلہ قادری
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جشن میلاد النبی ﷺ عید مسرت ہے عید شرعی نہیں
ہم کہتے ہیں کہ قادری صاحب نے یہ عنوان قائم کرکے گویافیصلہ ہی کردیا کہ اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو (بقول موصوف کے) حتی کے آیات و احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہوں وہ عمل جشن پھر بھی عید شرعی کیوں نہیں؟؟
اور جہاں تک تعلق ہے کہ یہ عید مسرت ہے یہ بھی قادری صاحب کی خود ساختہ اصطلاح ہے کیا وہ اس طرح یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عید شرعیہ الفطر و الاضحیٰ مسرت و سرور سے خالی ہوتی ہیں؟ یا پھر وہ رنج و الم اور نفرت کی عیدیں ہیں؟ معاذ اللہ۔ثم معاذ اللہ۔
صفحہ758 پر لفاظی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بنظر غائر دیکھا جائے تو یوم میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔آپ ﷺ ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں۔
اس کا مطلب تو گویا یہ ہوا کہ جب نبی علیہ السلام ہی کے توسط سے مکمل دین ہم تک پہنچا ہے تو اس جملے کو دلیل بنا کر کچھ بھی ایجاد کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً آنے والے ادوار میں قادری صاحب اور ان کی ذریت اگر صلاۃ المیلاد یا صلاۃ ولادت رسول ﷺ صدقہ بر ولادت با سعادت کے نام سے مخصوص ہیئت وشکل میں ایجاد کریں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ دین تو ملا ہی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہے؟؟
قارئین کرام ! غور کیجئے قادری صاحب کس طرح الفاظوں سے کھیلتے ہوئے تکمیل اسلام کےمسلمہ مسئلہ کو چیلنج کرنے کی جسارت کر رہے ہیں؟؟
اگر الفاظوں سے کھیل کر ہی اپنی بات منوانی ہو تو پھر کیا کچھ اختراع و ایجاد نہیں کیا جاسکتا؟ آج نبی علیہ السلام کی ولادت کا جشن بلا دلیل ، کل ہوسکتا ہے کہ جشن ولادت والد رسول ﷺ منایا جائے پھر کہا جائے کہ اصل تو وہی ہیں انہی کو اللہ نے ولادت رسول ﷺ کےلئے سبب بنایا تھا لہذا ان کا بھی جشن ولادت ہونا چاہیے اور پھر ہوسکتا ہے کہ والد کے والد (عبدالمطلب) کا بھی سلسلہ اسی طرح شروع کر دیا جائے ؟؟ تو بتائیے یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا؟؟ واللہ المستعان۔
اور یہ بھی یاد رکھئے کہ جب عمل ہی خود ایجاد کردہ ہو تو پھر اسے بلند رتبہ اور عظمت کا حامل قرار دینا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ موجد کے ہاں وہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہرحال اس بحث سے یہ عقیدہ ثابت ہو اہے کہ جشن میلاد النبیﷺ عید شرعی نہیں ہے ۔بالکل صحیح بات ہے جناب!!!
صفحہ 760 سے لے کر 769 تک قادری صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس میں کوئی خاطر خواہ بات مروجہ جشن میلاد کی تائید نہیں کرتی اور نہ ہی ائمہ حدیث و سیر نے اس معنی میں لفظ میلاد استعمال کیا ہے۔ مگر پھر بھی قادری صاحب نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت بے مقصد بحث کو طول دیا ہے تاکہ اکتا کر کہا جائے حضرت نے صحیح فرمایا!!!
قارئین ! ہم پہلے آپ کو بتا چکے ہیں کہ قادری صاحب مسلسل کذب بیانی کی وجہ سے اپنے حافظے پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ ۔مثلاً باب ہشتم کی فصل دوم میں میلاد کے اجزائے تشکیلی بیان کرتے ہوئے لکھا تھا بیان سیرت و فضائل رسول ﷺ اور اب صفحہ 763 پر بیان میلاد کو بیان سیرت سے جد ا قرار دیتے ہیں!! ایسالگتا ہے کہ قادری صاحب کو اپنے بیان کردہ دلائل و نکات پر بھی اطمینان قلب حاصل نہیں اسی لئے کبھی ہاں اور کبھی نہ ، کا اسلوب اختیار کرتے ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top