نئے عنوانات اور اس کے جوابات
باب ہشتم کا عنوان موصوف یوں قائم کر تے ہیں: ’’جشن میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اجزائے تشکیلی ‘‘
پھر اجزائے تشکیلی کے عنوانات اجمالی طور پر ذکر کر کے فصل اول قائم کر تے ہیں اور پھر اس کے تحت لکھتے ہیں۔
’’مجالس و اجتماعات کا اہتمام‘‘ پھر اس کے ذیلی عنوانات رقم مسلسل کے ساتھ بیان کر تے ہیں
- حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی ولادت سے قبل اپنی تخلیق کا تذکرہ۔
- حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے میلاد کے بیان کے لیے اہتمام اجتماع
- بیان شرف و فضلیت کے لیے اہتمام اجتماع
قارئین کرام غور کیجئے ’’قادری صاحب‘‘ اپنی کتاب کا حجم بڑھانے کیلئے کس طرح نئے نئے زاویوں سے مسئلے کو بیان کر رہے ہیں۔ حالانکہ بات سیدھی سی ہے کہ اگر زیر نظر ابواب و عنوانات میں بیان کر دہ احادیث سے ’’ مروجہ میلاد‘‘ کو دلائل عطا ہوتے ہیں تو انہیں ’’دلائل ‘‘ میں بیان کردینا چاہئے تھا؟ تکرار خواہ عنوان بدل کر ہو یا پھر ابواب و تراجم بدل کر بہر حال تکرار ہے کیا ہی اچھا ہو تا ہے کہ قادری صاحب اپنے ہم مشرب مولانا کو کب نورانی کی طرح فقط 56 صفحات کی کتاب لکھ دیتے تاکہ عوام بریلی پر بوجھ نہ پڑتا۔۔۔۔۔۔ مگر پھر موصوف کو ’’شیخ الا سلام‘‘ کیسے باور کیا جا تا؟
قادری صاحب کا قائم کردہ پہلا عنوان ان کے’’مروجہ جشن میلاد‘‘ کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں توجناب نے ’’تخلیق و نبوت‘‘ کا ذکر کر رکھا ہے اور اگر یہ دلیل ہو بھی تو ’’جشن تخلیق ونبوت‘‘ کہا جائے گا نہ کہ ’’جشن عید میلاد‘‘ ۔
فافهم
باقی بظاہر دو نظر آنے والے موضوع اور عنوان معنوی اور روایتی اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ جناب نے بلاوجہ دوسرخیاں لگا کر عوام کی توجہ اپنے ’’علم ‘‘ کی طرف مبذول کروائی ہے۔ اور پھر یہ تینوں مل کر بھی ’’مروجہ میلاد‘‘ کی دلیل نہیں بن سکتے کیونکہ
- اس میں ربیع الا ول کا ذکر نہیں۔
- اس میں 12 تاریخ کا ذکر نہیں۔
- اس میں ہر سال اس اہتمام کا ذکر نہیں۔
- اس میں مروجہ طریقہ کار بھی موجود نہیں۔
- اس ذکر کردہ عمل کو بھی صحابہ کرامؓ ، تابعین عظامؓ اور ائمہ محدثین ؒ نے اختیار نہیں کیا چہ جائیکہ اس سے وہ لوگ ’’میلاد مروجہ‘‘ کا استنباط کرتے۔
اور اگر قادری صاحب نے از خود ان احادیث سے’’مروجہ میلاد‘‘ پر استدلال کیا ہے تو وہ اس کے اہل ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو ’’مقلد‘‘ ہیں۔ مجتھد نہیں۔
پھر قادری صاحب’’فصل دوم‘‘ قائم کر کے عنوان لکھتے ہیں ’’ بیان سیرت وفضائل رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘ پھر نمبر وار ترتیب سے ہیڈ نگز لگاتے ہیں
- احکام شریعت کا بیان
- تذکار خصائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
- تذکار شمائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
- تذکار خصائص و فضائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
- ذکر ولادت اور روحانی آثار و علائم کا تذکرہ۔
* غور فرمائیے ! قادری صاحب نے یہ نئے عنوان قائم کر کے ’’تکرار بے جا‘‘ کی ہے۔ کتاب کا حجم بڑھایا یا پھر واقعی یہ ایک نیا عنوان ہے؟ یقیناًعلمی دنیا میں یہ کوئی نیا عنوان نہیں ہے بلکہ گزشتہ فصل کے عنوانات کے مترادف ہے۔ سابقہ عنوانات سیرت و فضائل سے ہی عبارت ہیں حتی کہ ’’ائمہ حدیث‘‘ نے قادری صاحب کے علیحدہ علیحدہ بیان کر دہ عنوانات کو ایک ہی عنوان ’’المناقب و الفضائل‘‘ میں بیان کیا ہے۔ مگر قادری صاحب فریب دیتے ہوئے ایک ہی عنوان کے متون و روایات کو الگ الگ سرخیاں دیکر اپنی ’’علمی دھاک‘‘ بٹھانا چاہتے ہیں۔
قادری صاحب کا مذکورہ عنوانات کو ’’میلاد مروجہ‘‘ کے اجزائے تشکیلی قرار دینا بھی عجیب منطق ہے کیا درج بالا موضوعات فقط ربیع الا ول کے ساتھ خاص ہیں اور وہ بھی فقط ایک دن؟
اگر نہیں تو پھر اس سے ’’مروجہ میلاد‘‘ پر استدلال کیسا؟
اور شاید یہ حقیقت ہی ہے کہ ’’فکر بریلی‘‘ کے ’’علماء و عوام‘‘ سال کے بقایا دنوں میں ’’قادری صاحب‘‘ کے بیان کر دہ موضوعات سے عملاً محروم رہتے ہیں اور فقط فکر رضا اور مسلک کوفہ پر ہی ساری توانائیاں خرچ کر ڈالتے ہیں۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ فصل دوم کے نمبر (۱) میں قادری صاحب ’’احکام شریعت کا بیان‘‘ لکھ کر اسے موضوع میلاد و جزء میلاد قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل صفحہ 509 پر احکام الٰہی اعمال و اخلاق کے مضامین کو موضوعات میلاد سے خارج قرار دے چکے ہیں!!!
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
فصل سوم میں قادری صاحب پھر ایک عنوان ’’نیا ‘‘ قائم کر تے ہیں’’مدحت و نعت رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نمبر کی ترتیب سے لکھتے ہیں
- قرآن میں نعت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
- حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود اپنی نعت سنی۔
اور پھر آگے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے مختلف اصحاب سے نعت سننے کا ذکر کیا ہے اور معروف نعت خواں صحابہؓ کا ذکر کیا ہے۔
ہم اس سلسلے میں عرض کر چکے ہیں اور مزید عرض کر تے ہیں کہ جناب یہ کوئی سیرت و فضائل اور شمائل و خصائل سے جدا چیز نہیں ہے، جسے آپ نے اپنی کتاب کو طول دینے کیلئے علیحدہ ہیڈنگز کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
کیا قادری صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مدحت و نعت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا موضوع بیان سیرت و فضائل سے جدا ہے؟ اگر ہاں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ جناب کو سیرت و فضائل نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم بھی نہیں آتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جناب کو ’’شیخ الا سلام‘‘ نہیں بلکہ ’’شوخ الا سلام‘‘ کہنا زیادہ مناسب دکھائی دیتا ہے۔
پھر کیا یہ بھی ضروری ہے کہ نعت و مدحت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم خود سرور گرامی قدر صلی اﷲ علیہ وسلم نے ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو سنی تھی؟
ہر سال اس سماعت کا اہتمام ہو تا تھا؟
اور کیا یہ سلسلہ سماعت و بیان ہر سال مخصوص تاریخ کے اہتمام کے ساتھ اصحاب خیر القرون وائمہ اربعہ اور دیگر محدثین عظام نے بھی جاری رکھا؟
اور پھر اس میں تو ’’مروجہ میلاد‘‘ کا کوئی شائبہ دکھائی ہی نہیں دیتا نہ جشن نہ جلوس نہ جھنڈے!!!
تو پھر یہ کس طرح ’’مروجہ میلاد‘‘ کی دلیل و اجزاء ثابت ہوا ؟
قادری صاحب کے ہم خیال مکتب فکر رضا نے اسی طرح ’’اجزائے تشکیلی‘‘ کی آڑ میں خود ساختہ صلاۃ غوثیہ، صلاۃ تنجینا، درود ماہی، درود لکھی وغیرہ ایجاد کر ڈالے ہیں اور جب کوئی سمجھائے کہ بھائی دین تو مکمل ہے یہ اضافہ کیوں تو کہتے ہیں ۔ دیکھو درود پڑھنا تو جائز ہے، رکوع کرنا، سجدہ کرنا تو جائز ہے۔ سبحان اﷲ العظیم اور ابھی دیکھتے جائیے کہ کیا کچھ ’’ایجاد و اختراع‘‘ ہو تا ہے اور دلیل یہی ہو گی کہ اس ’’اختراع‘‘ کے اجزائے تشکیلی تو خود قرآن وسنت میں موجود ہیں۔
انتظار کیجئے جب قادری صاحب اور ان کے ہم مکتب فکر رضا کے داعیان شام غریباں، تعزیہ داری اور ماتم، ہولی ‘دیوالی، بسنت اور ویلن ٹائن ڈے وغیرہ کو ’’بذریعہ اجزائے تشکیلی‘‘ ’’بدعت حسنہ‘‘ قراردیکرسند جواز فراہم کر دیں۔ معاذ اﷲ
دیکھئے کسی کے گھر جانا، اس کا مہمانوں کا اکرام و ضیافت کرنا، بہترین طعام و شراب پیش کرنا اور احباب کی دلجوئی کرنا وغیرہ سب صحیح ہے، قرآن و سنت میں اس کے دلائل مل سکتے ہیں مگر کیا ان مذکورہ اعمال کو ’’اجزائے تشکیلی‘‘ کا نام دیکر میت کے گھر میں جمع ہونا خصوصاً کھانے کیلئے اور پھر بہترین طعام تناول کرنا اور اس میت کے ورثاء کی دلجوئی کرتے ہوئے سے کھلاتے ہوئے خود اپنے شکم کو بھرنا اور پھر اس طرح تیجہ، چالیسواں اور کڑوی روٹی کا بطور اصطلاح کے رواج دیا جانا جائز ہوگا؟
یقیناًنہیں!! کیوں کہ اس پر کوئی دلیل ہی نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ خود فکر بریلی کے بانی مولانا احمد رضا خان نے اس طرح کے اجتماع و طعام کو ’’بدعت شنیعہ و قبیحہ اور ناجائز قرار دیا ہے۔ (احکام شریعت صفحہ320 )
قادری صاحب ! فقط’’اجزائے تشکیلی‘‘ کے ٹائٹل سے ناجائز کام جائز نہیں ہوجا تا اگر ایسا ہو تا تو سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کبھی بھی مخصوص انداز و کیفیت سے ذکر کرنے والوں کو غلط قرار نہ دیتے اور نہ ہی انہیں گمراہی کا دروازہ کھولنے والے قرار دیتے۔ فافہم۔ (سنن دارمی دیکھئے)
فصل چہارم میں عنوان لکھتے ہیں ’’صلاۃ و سلام‘‘ اور پھر حسب سابق نمبر کی ترتیب سے بات آگے بڑھاتے ہیں۔
- حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام بھیجنا اﷲ تعالیٰ کی سنت اور حکم ہے
- سلام کی اہمیت
- سلام کی مستقل حیثیت۔ دیگر مضامین کے عنوانات تقریباً اس صلاۃ و سلام کے حوالے سے ہیں۔
قارئین کرام! یہ وہی اجزائے تشکیلی کا موضوع ہے جس پر ہم کافی وافی تبصرہ کر چکے ہیں یقیناً’’صلاۃ وسلام‘‘ بھیجنا اﷲ کا حکم ہے ، اسکی بڑی اہمیت و فضلیت ہے۔
مگر کیا ’’ مخصوص تاریخ ‘ مخصوص مہینے کے ساتھ اسے خاص کر دینا، مخصوص انداز اختیار کرنا یہ بھی حکم الٰہی اور سنت رب العالمین ہے؟
کیا فقط رکوع، سجود، قیام، قعدہ وغیرہ کے اجزائے تشکیلی سے مخصوص ہیئت و محدود رکعات کی نماز ایجاد کی جا سکتی ہے؟
ایک نیا حج، ایجاد کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اجزائے تشکیلی موجود ہوں؟
اور پھر قادری صاحب کے پیش کردہ دلائل میں تو تاریخ و ماہ اور مروجہ جشن میلاد کا کوئی ذکر ہی نہیں تو پھر یہ دلیل کیا دلیل ہوئی؟
قادری صاحب طعن و تشنیع ’’صلاۃ و سلام‘‘ پر کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا مگر وہ کیسا مسلمان ہو گا جو ’’دین ایجاد ‘‘ کرنے میں لگا رہے اور دلیل ’’اجزائے تشکیلی ‘‘ کو قرار دے۔ یقینادین کی تکمیل کے بعد دین میں اختراعی اعمال کو رواج دینے والا بد بخت بدعتی ہی قرار پائے گا۔
من عمل عملا ليس عليه امرنا فهورد ۔۔۔(الحدیث)
من احدث فی امرنا ھذا ماليس منه فهورد۔۔۔ (الحدیث)