• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام!
ہو سکتا ہے کہ قادری صاحب اور ان کے ہمنوا یہ کہیں کہ حدیث ضعیف ہو تو پھر کیا ہوا ہے تو حدیث ہی نا!!!
اس سلسلے میں ہم یہ عرض کر تے ہیں کہ کیا ائمہ و محدثین رحمہم اﷲ اجمعین نے جو رجال کی چھانٹ پھٹک کر تے ہوئے ہزاروں صفحات تحریر کیے ہیں جو سینکڑوں کتابی شکل میں موجود ہیں۔ یہ سب بیکار ہے، فضول ہے؟
اگر ضعیف اور موضوع روایات بھی دلیل و حجت ہیں تو پھر صحیح اور ضعیف کی اصطلاح بنانے کا کیا فائدہ ؟
اور پھر خود فکر بریلی کے علمبر دار کیا کسی روایت کو ضعیف کہہ کر اسے نا قابل عمل قرار نہیں دیتے؟
بالکل قرار دیتے ہیں ہم بحمد اﷲ اس کے حوالے بھی دینے کو تیار ہیں۔ ان شاء اﷲ
قادری صاحب اگر ’’وفات ‘‘ کو ’’رحمت‘‘ ہم قرار دیتے تو شاید گستاخ و بے ادب قرار پاتے مگر آپ تو آپ ہی ہیں نا!
جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے
کیا قادری صاحب صحابہ و تابعین کو امت مسلمہ سے خارج کرتے ہیں؟ معاذاللہ
قادری صاحب بے سوچے سمجھے مزید ’’جسارت‘‘ کر تے ہیں فرماتے ہیں!
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے موقع پر سوگ منانا اور غم کرنا امت مسلمہ کا وطیرہ اور شیوہ نہیں اس لیے کہ سوگ نعمت کے خاتمے پر کیا جا تا ہے (صفحہ 487 ، 488 )
مزید لکھتے ہیں: ’’دستِ کرم ہے سر پہ تو غم کس لیے کریں‘‘ (صفحہ 488 )
قادری صاحب ہم نہیں کہتے آپ سوگ منائیں کیونکہ آپ کے ہاں تو ’’سوگ اور غم‘‘ بھی عرس (شادی ) کہلا تا ہے۔
مگر کیا صحابہ کرام کا غم نعمت کے خاتمے پر تھا؟ یا پھر کوئی اور وجہ تھی؟
کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ وفات تو رحمت ہے؟ غم نہ کرتے کہ دست کرم سر پہ ہے شاید یہ سب قادری صاحب کو ہی ملا ہے صحابہ و اتباع صحابہ تو اس سے شاید آشنا ہی نہ تھے۔ جبھی ہر سال غم و اندوہ میں مبتلا ہوجاتے تھے شوخ الا سلام صاحب آپ کو اپنا ’’مبلغ علم‘‘ مبارک ہو، آپ تو صحابہ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کی فطرت اور بدعت
پھر قادری صاحب ایک اور انداز سے استدلال کی کوشش کر تے ہیں‘‘ اظہار خوشی بدعت نہیں تقاضائے فطرت ہے‘‘(صفحہ 491 )
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا ’’ عدم اظہار خوشی‘‘ فطرت کے منافی ہے؟ تو کیا نعوذ با ﷲ ثم نعوذ با ﷲ صحابہ، تابعین اور ساتویں صدی ہجری تک کے تمام اولیاء کرام اس ’’فطرت ‘‘ سے محروم تھے؟
اور یہ تو قادری صاحب نے کہا کہ’’بدعت‘‘نہیں، مگر بدعت کہنے والوں کے مقابلے میں قادری صاحب ’’چے پدی اور چہ پدی کا شوربہ‘‘ کے مصداق ہیں۔ ان کے اپنے ہی پیش کر دہ کئی علما نے اسے بد عت قرار دیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ قادری صاحب نے اپنی خواہشات کو ’’فطرت‘‘ کا نام دیدیا ہے۔ بس جس کام کی دلیل نہ ہو کہدیا یہ تو فطر ی عمل ہے؟ بڑی ڈھٹائی سے قادری صاحب ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں’’ اس سے بڑھ کر اگر یہ کہاجائے تو چندا ں غلط نہ ہو گا کہ محافل میلاد کا انعقاد اسلامی ثقافت کا جزولا ینفک بن گیا ہے۔ (صفحہ 494 )
حالانکہ اسلام جس ہستی مقدسہ و مطہرہ پر نازل ہورہا تھا اسی پر اسی کی زندگی میں مکمل ہو گیا تھا اور ایسا مکمل کہ جس میں کوئی شبہ ہی نہ رہا اور اس تکمیل کا منکر ’’کا فر‘‘ ہی قرار پا تا ہے اب کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام مکمل ہو اور اسلامی ثقافت غیر مکمل ؟ اور پندر ہویں صدی میں قادری صاحب یہ سند جاری کریں کہ آج ’’مروجہ میلاد‘‘ سے اسلامی ثقافت کی تکمیل ہو تی ہے؟
اور پھر ’’شوخ الا سلام‘‘ صاحب کی شوخیاں تو ملاحظہ کریں کبھی ’’مروجہ میلاد‘‘ قرآن و حدیث سے ثابت کرنیکی کوشش کر تے ہیں تو کبھی ’’ائمہ و محدثین‘‘ سے اور جب اصحاب خیر القرون سے ثابت نہ کر سکے تو پھر اسے ’’اسلامی ثقافت ‘‘ کا جزو لا ینفک قرار دیدیا ہے اور اس سے قبل اسے ’’ثابت شدہ امر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’رسم و رواج علاقائی‘‘ بھی کہنے کی جسارت کر چکے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کلچر کی بات اور نیا دور
گویا ابھی تک جناب یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ اس ’’مروجہ میلاد‘’‘ پر حکم کیا لگائیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے غم والم کو بیان کرنے کے بعد پھر ایک اور لغوبات کہتے ہیں ’’قرون اولیٰ میں جشن مسرت منانے کا کلچر عام نہ تھا ‘ ‘ صفحہ (494)
گویا یہ ’’مروجہ میلاد‘‘ فقط ایک علاقائی کلچر کی حیثیت رکھتا ہے اور قرون اولیٰ میں یہ عام نہ تھا اور بس تو پھر بتایا جائے کہ یہ قرآن و سنت کا ثابت شدہ امر کیسے ہوا اور پھر گزشتہ صفحات میں یہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’کیفیات غم کی شدت قرون اولیٰ میں جشن منانے میں مانع تھی‘‘ (صفحہ 454 )
اس باب کے آخر میں قادری صاحب لکھتے ہیں ’’ نئے دور کے نئے تقاضے‘‘ (صفحہ 498 )
اور پھر خود ہی لکھتے ہیں ’’قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اہم ملی اور مذہبی اہمیت کے دن بطور تہوار منانے کا کوئی رواج نہ تھا اور اس وقت کی ثقافت میں ایسی کوئی روایت کار فرمانہ تھی جس کے تحت صحابہ کرامؓ یوم نزول قرآن یوم بدر اور یوم فتح مکہ مناتے۔ (498 صفحہ)
شاید قادری صاحب اسلام کے ظہور کے بعد بھی علاقائی رسم و رواج چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ، تہذیب و تمدن اور ثقافت اسلامی تعلیمات کا مظہر ہو تی ہے۔ مگر قادری صاحب کو اس سے کیا وہ تو لبرل ہیں اور نظریہ ارتقاء سے متاثر دکھائی دیتے ہیں جس کی بدولت ’’نئے دور کے نئے تقاضے‘‘ اسلامی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
قادری صاحب کا اسلام بھی ترقی پذیر رہتا ہے۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نئے عنوانات اور اس کے جوابات
باب ہشتم کا عنوان موصوف یوں قائم کر تے ہیں: ’’جشن میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اجزائے تشکیلی ‘‘
پھر اجزائے تشکیلی کے عنوانات اجمالی طور پر ذکر کر کے فصل اول قائم کر تے ہیں اور پھر اس کے تحت لکھتے ہیں۔
’’مجالس و اجتماعات کا اہتمام‘‘ پھر اس کے ذیلی عنوانات رقم مسلسل کے ساتھ بیان کر تے ہیں
  1. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی ولادت سے قبل اپنی تخلیق کا تذکرہ۔
  2. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے میلاد کے بیان کے لیے اہتمام اجتماع
  3. بیان شرف و فضلیت کے لیے اہتمام اجتماع
قارئین کرام غور کیجئے ’’قادری صاحب‘‘ اپنی کتاب کا حجم بڑھانے کیلئے کس طرح نئے نئے زاویوں سے مسئلے کو بیان کر رہے ہیں۔ حالانکہ بات سیدھی سی ہے کہ اگر زیر نظر ابواب و عنوانات میں بیان کر دہ احادیث سے ’’ مروجہ میلاد‘‘ کو دلائل عطا ہوتے ہیں تو انہیں ’’دلائل ‘‘ میں بیان کردینا چاہئے تھا؟ تکرار خواہ عنوان بدل کر ہو یا پھر ابواب و تراجم بدل کر بہر حال تکرار ہے کیا ہی اچھا ہو تا ہے کہ قادری صاحب اپنے ہم مشرب مولانا کو کب نورانی کی طرح فقط 56 صفحات کی کتاب لکھ دیتے تاکہ عوام بریلی پر بوجھ نہ پڑتا۔۔۔۔۔۔ مگر پھر موصوف کو ’’شیخ الا سلام‘‘ کیسے باور کیا جا تا؟
قادری صاحب کا قائم کردہ پہلا عنوان ان کے’’مروجہ جشن میلاد‘‘ کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں توجناب نے ’’تخلیق و نبوت‘‘ کا ذکر کر رکھا ہے اور اگر یہ دلیل ہو بھی تو ’’جشن تخلیق ونبوت‘‘ کہا جائے گا نہ کہ ’’جشن عید میلاد‘‘ ۔ فافهم
باقی بظاہر دو نظر آنے والے موضوع اور عنوان معنوی اور روایتی اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ جناب نے بلاوجہ دوسرخیاں لگا کر عوام کی توجہ اپنے ’’علم ‘‘ کی طرف مبذول کروائی ہے۔ اور پھر یہ تینوں مل کر بھی ’’مروجہ میلاد‘‘ کی دلیل نہیں بن سکتے کیونکہ
  1. اس میں ربیع الا ول کا ذکر نہیں۔
  2. اس میں 12 تاریخ کا ذکر نہیں۔
  3. اس میں ہر سال اس اہتمام کا ذکر نہیں۔
  4. اس میں مروجہ طریقہ کار بھی موجود نہیں۔
  5. اس ذکر کردہ عمل کو بھی صحابہ کرامؓ ، تابعین عظامؓ اور ائمہ محدثین ؒ نے اختیار نہیں کیا چہ جائیکہ اس سے وہ لوگ ’’میلاد مروجہ‘‘ کا استنباط کرتے۔
اور اگر قادری صاحب نے از خود ان احادیث سے’’مروجہ میلاد‘‘ پر استدلال کیا ہے تو وہ اس کے اہل ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو ’’مقلد‘‘ ہیں۔ مجتھد نہیں۔
پھر قادری صاحب’’فصل دوم‘‘ قائم کر کے عنوان لکھتے ہیں ’’ بیان سیرت وفضائل رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘ پھر نمبر وار ترتیب سے ہیڈ نگز لگاتے ہیں
  1. احکام شریعت کا بیان
  2. تذکار خصائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
  3. تذکار شمائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
  4. تذکار خصائص و فضائل مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
  5. ذکر ولادت اور روحانی آثار و علائم کا تذکرہ۔
* غور فرمائیے ! قادری صاحب نے یہ نئے عنوان قائم کر کے ’’تکرار بے جا‘‘ کی ہے۔ کتاب کا حجم بڑھایا یا پھر واقعی یہ ایک نیا عنوان ہے؟ یقیناًعلمی دنیا میں یہ کوئی نیا عنوان نہیں ہے بلکہ گزشتہ فصل کے عنوانات کے مترادف ہے۔ سابقہ عنوانات سیرت و فضائل سے ہی عبارت ہیں حتی کہ ’’ائمہ حدیث‘‘ نے قادری صاحب کے علیحدہ علیحدہ بیان کر دہ عنوانات کو ایک ہی عنوان ’’المناقب و الفضائل‘‘ میں بیان کیا ہے۔ مگر قادری صاحب فریب دیتے ہوئے ایک ہی عنوان کے متون و روایات کو الگ الگ سرخیاں دیکر اپنی ’’علمی دھاک‘‘ بٹھانا چاہتے ہیں۔
قادری صاحب کا مذکورہ عنوانات کو ’’میلاد مروجہ‘‘ کے اجزائے تشکیلی قرار دینا بھی عجیب منطق ہے کیا درج بالا موضوعات فقط ربیع الا ول کے ساتھ خاص ہیں اور وہ بھی فقط ایک دن؟
اگر نہیں تو پھر اس سے ’’مروجہ میلاد‘‘ پر استدلال کیسا؟
اور شاید یہ حقیقت ہی ہے کہ ’’فکر بریلی‘‘ کے ’’علماء و عوام‘‘ سال کے بقایا دنوں میں ’’قادری صاحب‘‘ کے بیان کر دہ موضوعات سے عملاً محروم رہتے ہیں اور فقط فکر رضا اور مسلک کوفہ پر ہی ساری توانائیاں خرچ کر ڈالتے ہیں۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ فصل دوم کے نمبر (۱) میں قادری صاحب ’’احکام شریعت کا بیان‘‘ لکھ کر اسے موضوع میلاد و جزء میلاد قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل صفحہ 509 پر احکام الٰہی اعمال و اخلاق کے مضامین کو موضوعات میلاد سے خارج قرار دے چکے ہیں!!!
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے​
فصل سوم میں قادری صاحب پھر ایک عنوان ’’نیا ‘‘ قائم کر تے ہیں’’مدحت و نعت رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نمبر کی ترتیب سے لکھتے ہیں
  1. قرآن میں نعت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
  2. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود اپنی نعت سنی۔
اور پھر آگے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنے مختلف اصحاب سے نعت سننے کا ذکر کیا ہے اور معروف نعت خواں صحابہؓ کا ذکر کیا ہے۔
ہم اس سلسلے میں عرض کر چکے ہیں اور مزید عرض کر تے ہیں کہ جناب یہ کوئی سیرت و فضائل اور شمائل و خصائل سے جدا چیز نہیں ہے، جسے آپ نے اپنی کتاب کو طول دینے کیلئے علیحدہ ہیڈنگز کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
کیا قادری صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مدحت و نعت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا موضوع بیان سیرت و فضائل سے جدا ہے؟ اگر ہاں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ جناب کو سیرت و فضائل نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم بھی نہیں آتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جناب کو ’’شیخ الا سلام‘‘ نہیں بلکہ ’’شوخ الا سلام‘‘ کہنا زیادہ مناسب دکھائی دیتا ہے۔
پھر کیا یہ بھی ضروری ہے کہ نعت و مدحت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم خود سرور گرامی قدر صلی اﷲ علیہ وسلم نے ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو سنی تھی؟
ہر سال اس سماعت کا اہتمام ہو تا تھا؟
اور کیا یہ سلسلہ سماعت و بیان ہر سال مخصوص تاریخ کے اہتمام کے ساتھ اصحاب خیر القرون وائمہ اربعہ اور دیگر محدثین عظام نے بھی جاری رکھا؟
اور پھر اس میں تو ’’مروجہ میلاد‘‘ کا کوئی شائبہ دکھائی ہی نہیں دیتا نہ جشن نہ جلوس نہ جھنڈے!!!
تو پھر یہ کس طرح ’’مروجہ میلاد‘‘ کی دلیل و اجزاء ثابت ہوا ؟
قادری صاحب کے ہم خیال مکتب فکر رضا نے اسی طرح ’’اجزائے تشکیلی‘‘ کی آڑ میں خود ساختہ صلاۃ غوثیہ، صلاۃ تنجینا، درود ماہی، درود لکھی وغیرہ ایجاد کر ڈالے ہیں اور جب کوئی سمجھائے کہ بھائی دین تو مکمل ہے یہ اضافہ کیوں تو کہتے ہیں ۔ دیکھو درود پڑھنا تو جائز ہے، رکوع کرنا، سجدہ کرنا تو جائز ہے۔ سبحان اﷲ العظیم اور ابھی دیکھتے جائیے کہ کیا کچھ ’’ایجاد و اختراع‘‘ ہو تا ہے اور دلیل یہی ہو گی کہ اس ’’اختراع‘‘ کے اجزائے تشکیلی تو خود قرآن وسنت میں موجود ہیں۔
انتظار کیجئے جب قادری صاحب اور ان کے ہم مکتب فکر رضا کے داعیان شام غریباں، تعزیہ داری اور ماتم، ہولی ‘دیوالی، بسنت اور ویلن ٹائن ڈے وغیرہ کو ’’بذریعہ اجزائے تشکیلی‘‘ ’’بدعت حسنہ‘‘ قراردیکرسند جواز فراہم کر دیں۔ معاذ اﷲ
دیکھئے کسی کے گھر جانا، اس کا مہمانوں کا اکرام و ضیافت کرنا، بہترین طعام و شراب پیش کرنا اور احباب کی دلجوئی کرنا وغیرہ سب صحیح ہے، قرآن و سنت میں اس کے دلائل مل سکتے ہیں مگر کیا ان مذکورہ اعمال کو ’’اجزائے تشکیلی‘‘ کا نام دیکر میت کے گھر میں جمع ہونا خصوصاً کھانے کیلئے اور پھر بہترین طعام تناول کرنا اور اس میت کے ورثاء کی دلجوئی کرتے ہوئے سے کھلاتے ہوئے خود اپنے شکم کو بھرنا اور پھر اس طرح تیجہ، چالیسواں اور کڑوی روٹی کا بطور اصطلاح کے رواج دیا جانا جائز ہوگا؟
یقیناًنہیں!! کیوں کہ اس پر کوئی دلیل ہی نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ خود فکر بریلی کے بانی مولانا احمد رضا خان نے اس طرح کے اجتماع و طعام کو ’’بدعت شنیعہ و قبیحہ اور ناجائز قرار دیا ہے۔ (احکام شریعت صفحہ320 )
قادری صاحب ! فقط’’اجزائے تشکیلی‘‘ کے ٹائٹل سے ناجائز کام جائز نہیں ہوجا تا اگر ایسا ہو تا تو سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کبھی بھی مخصوص انداز و کیفیت سے ذکر کرنے والوں کو غلط قرار نہ دیتے اور نہ ہی انہیں گمراہی کا دروازہ کھولنے والے قرار دیتے۔ فافہم۔ (سنن دارمی دیکھئے)
فصل چہارم میں عنوان لکھتے ہیں ’’صلاۃ و سلام‘‘ اور پھر حسب سابق نمبر کی ترتیب سے بات آگے بڑھاتے ہیں۔
  1. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام بھیجنا اﷲ تعالیٰ کی سنت اور حکم ہے
  2. سلام کی اہمیت
  3. سلام کی مستقل حیثیت۔ دیگر مضامین کے عنوانات تقریباً اس صلاۃ و سلام کے حوالے سے ہیں۔
قارئین کرام! یہ وہی اجزائے تشکیلی کا موضوع ہے جس پر ہم کافی وافی تبصرہ کر چکے ہیں یقیناً’’صلاۃ وسلام‘‘ بھیجنا اﷲ کا حکم ہے ، اسکی بڑی اہمیت و فضلیت ہے۔
مگر کیا ’’ مخصوص تاریخ ‘ مخصوص مہینے کے ساتھ اسے خاص کر دینا، مخصوص انداز اختیار کرنا یہ بھی حکم الٰہی اور سنت رب العالمین ہے؟
کیا فقط رکوع، سجود، قیام، قعدہ وغیرہ کے اجزائے تشکیلی سے مخصوص ہیئت و محدود رکعات کی نماز ایجاد کی جا سکتی ہے؟
ایک نیا حج، ایجاد کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اجزائے تشکیلی موجود ہوں؟
اور پھر قادری صاحب کے پیش کردہ دلائل میں تو تاریخ و ماہ اور مروجہ جشن میلاد کا کوئی ذکر ہی نہیں تو پھر یہ دلیل کیا دلیل ہوئی؟
قادری صاحب طعن و تشنیع ’’صلاۃ و سلام‘‘ پر کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا مگر وہ کیسا مسلمان ہو گا جو ’’دین ایجاد ‘‘ کرنے میں لگا رہے اور دلیل ’’اجزائے تشکیلی ‘‘ کو قرار دے۔ یقینادین کی تکمیل کے بعد دین میں اختراعی اعمال کو رواج دینے والا بد بخت بدعتی ہی قرار پائے گا۔
من عمل عملا ليس عليه امرنا فهورد ۔۔۔(الحدیث)
من احدث فی امرنا ھذا ماليس منه فهورد۔۔۔ (الحدیث)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کی حدیث میں خرد برد
قارئین کرام ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ زیر نظر ’’فصل‘‘ میں قادری صاحب کی پیش کردہ احادیث ضعیف ہیں اور بالکل اسی طرح ان کے استدلالات بھی ضعیف تر ہیں مثلاً صفحہ نمبر 587 پر ’’القادری‘‘ صاحب نے حدیث لکھی ہے ’’وصلو ا علی و سلوا‘‘۔۔۔۔
قارئین کرام اس حدیث کے نقل کرنے میں موصوف نے کیا گل کہلائے ہیں؟ آئیے ہم آپکو بتاتے ہیں ۔
حدیث پوری نقل نہیں کی، جس کے شاہد جناب کے نقل کردہ الفاظ بھی ہیں کیونکہ ’’واؤ‘‘ سے قبل جملہ موجود ہی نہیں جبکہ واؤ ما قبل کا متقاضی ہے۔
حدیث’’لا تجعلواقبری عيداً‘‘ سے شروع ہوتی ہے مگر موصوف یہ الفاظ گول کر جاتے ہیں کیوں کہ یہ الفاظ جناب کے نظریہ ’’عرس و جشن‘‘ کی نفی کرتے ہیں۔ دیکھ لیا کس درجہ خائن ہیں جناب؟
اور دوسری خیانت یہ کی ہے کہ ’’ابن کثیر‘‘ کا حوالہ لکھنے کے باوجود حافظ ابن کثیر کے مکمل الفاظ نہیں لکھے اور وہ یہ کہ ’’ فی اسنادہ رجل لم يسم وقد روی من وجه آخر مر سلاً‘‘ یعنی اس روایت میں ایک مجہول راوی ہے جبکہ دوسری طرف سے یہ مرسل (ضعیف) بھی روایت کی گئی ہے۔
اگر قادری صاحب حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ کی بات نقل کر دیتے تو ان کے استدلال کی عمارت خود ہی زمین بوس ہوجاتی نا !!
اور یاد رہے کہ تقریباً ہر روایت کو انہوں نے ابتداء سے نقل نہیں کیا کیونکہ شاید انکی پیش کر دہ ہر حدیث میں ہی ’’لا تجعلو ا قبری عیداً‘‘ کے الفاظ آئے ہیں جوکہ ’’عرس‘‘ وغیرہ کی نفی کی دلیل ہیں اور قادری صاحب تو ’’عرس‘‘ میں ’’وجد‘‘ و ’’سرور‘‘ میں رقص پر اتر آتے ہیں۔ استغفر اﷲ
ہمارا تبصرہ زیادہ طول نہ پکڑ جائے اس لیے ہم روایات کی اسنادی حیثیت پر تفصیلی کلام سے معذرت خواہ ہیں اور سر دست عرض کر تے ہیں کہ یہ فصل بھی اجزائے تشکیلی کی قسم سے ہے اور فقط اجزائے تشکیلی سے کسی ’’خود ساختہ‘‘ عمل کو سنت الٰہی اور سنت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری ’’قیام ‘‘ اور اس کی حقیقت
فصل پنجم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں ’’قیام‘‘ کا عنوان قائم کیا گیا ہے۔
اس عنوان کی تفصیل صفحہ نمبر603 پر لکھتے ہیں : عبادت اور تعظیم میں یہ فرق بہر حال ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ یہ حالت عبادت کیلئے ہے اور یہ تعظیم کیلئے۔
تو کیا ہم القادری صاحب کے اس بیان پر یہ سمجھیں کہ اﷲ کی عبادت میں اﷲ کی تعظیم نہیں ہوتی؟؟
’’ماقد روا اﷲ حق قدرہ۔۔۔۔۔۔ مالکم لا تر جون لله و قاراً‘‘ کیا بغیر تعظیم الٰہی کے بھی کسی عبادت کا تصور مسلمانوں کے ہاں پایا جا تا ہے؟
ایک جگہ موصوف نے ’’اقسام قیام‘‘ لکھ کر تقریباً سات اقسا م کے قیام اپنے استدلالی جوہر سے ثابت کیے ہیں۔ مگر یہ عجیب ہے کہ ’’قیام تعظیم ‘‘ جسے نمبر 4 پر ذکر کیا ہے اس کوئی تائیدی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ ہاں البتہ ’’قیام استقبال اور قیام تعظیم میں فرق ‘‘ کے عنوان سے گفتگو کر تے ہوئے کچھ استدلالات ظاہر کیے ہیں۔
قارئین کرام کہیں اکتانہ جائیں اس لئے ہم فصل پنجم کی بقایا بحث اور اجزائے تشکیلی کی دیگر فصلوں پر دو ٹوک علمی اور ٹھوس گفتگو کرکے اس بحث کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم ’’القادری‘‘ صاحب کی خود ساختہ تفسیر و تایل اور تحریف کی نشاندہی سرسری انداز میں ہی کریں گے۔ جبکہ تبصرہ بفضل اللہ اسی قدر ہوگا کہ قارئین کرام کی تشنہ لبی قدرے سیراب ہوجائے۔ وبالله التوفيق۔
موصوف ’’قیام استقبال‘‘ کے تحت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ والی حدیث لائے ہیں جس میں ہے کہ ’’قوموا الی سيدکم‘‘جس کا ترجمہ کیا ہے ’’تعظیماً‘‘ کھڑے ہوجاؤ۔ صفحہ 607 پر لکھتے ہیں:
یہ گمان کرنا کہ یہ قیام تعظیم اور استقبال کے لئے نہیں بلکہ ایک بیمار شخص کی اعانت کے لئے تھا، متن حدیث کے خلاف ہے۔
قارئین کرام توجہ فرمایئے گا کہ:
1-قادری صاحب نے ترجمہ حدیث میں تحریف کردی ہے۔ حدیث میں ’’قوموالسيدکم‘‘نہیں ہے۔جبکہ ترجمہ ’’لسيدکم ‘‘ والا کیا گیا ہے۔
2-اعانت کی بات کو متن حدیث کے خلاف کہنا درحقیقت جناب کی دجل فریبی ہے یا پھر جناب کو علم ہی نہیں کہ مسند احمد 142/6 میں ہے ’’قوموا الی سیدکم فأ نزلوہ‘‘ یعنی اپنے سردار کی طرف اٹھ کھڑے ہو اور انہیں اترنے میں مدد دو۔
3-صفحہ 607 پر موصوف نے قیام تعظیم اور قیام استقبال کو ایک ہی معنی میں لیا ہے تو ہمارا یہ سوال ہے کہ پھر اقسام قیام میں انہیں الگ الگ کیوں رکھا تھا؟ شاید صفحات بڑھانے کیلئے؟
اور مزیدار بات یہ ہے کہ صفحہ 612 پر، قیام استقبال اور قیام تعظیم میں فرق بھی بیان کیا ہے۔
صفحہ 613 پر جو قیام تعظیم کی دلیل ذکر کی ہے وہ ضعیف ہے دیکھئے ابو داؤد حدیث نمبر 4775 اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مجلس برخاست ہوتی ہے تو سب ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یہ قیام اسی قبیل سے تھا جیسا کہ ملا علی قاری الحنفی نے بھی لکھا ہے کہ ’’یہ تعظیمی قیام نہ تھا۔ کیونکہ صحابہ کرام تعظیمی استقبال کے لئے کھڑے نہ ہوتے تھے تو گھر کو لوٹتے ہوئے کیسے کھڑے ہوتے ہوں گے۔ (مرقاۃ 86/9 بحوالہ دین الحق 175/2)
مسند احمد 151/3 میں ہے کہ صحابہ کرامؓ کے لئے نبی مکرمﷺ سے بڑھ کر محترم کوئی بھی نہ تھا مگر وہ نبی علیہ السلام کے استقبال کے لئے تعظیماً کھڑے نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قیام کو ناپسند فرماتے ہیں۔
ابو داؤد حدیث نمبر 5230 میں ہے عجمیوں (غیر مسلموں) کی طرح کھڑے نہ ہوجایا کرو کہ جیسے وہ ایک دوسرے کو تعظیم دیتے ہیں۔
غور کیجئے کہ جب آقا علیہ السلام بنفس نفیس آئیں تو صحابہ کھڑے نہ ہوں، آپؐ انہیں منع فرمائیں اور امت کو دیکھیں کہ جن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محفل میلاد میں آنے کی کوئی دلیل ہی نہیں وہ ’’قیام‘‘ کو سنت سے ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وياللفهم والعقول
قارئین کرام! اگر آپ مولوی عبدالسمیع کی ’’انوار ساطعہ‘‘ اور مولوی احمد رضا خان کی ’’اقامۃ القیامۃ علی طاعن القیام لنبی تھامۃ‘‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ قیام عند ذکر ولادت شعائر اللہ کی تعظیم میں سے ہے اور پیغمبر زماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و محبت کی وجہ سے ہوتا ہے اور تعظیم و محبت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم واجب ہے۔ (اس محبت و تعظیم کے وجوب میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے)
مگر پھر خود ہی لکھتے ہیں کہ ’’اسے بہت سے علماء نے مستحسن رکھا ہے۔‘‘ (اقامۃ القیامہ ص 52، 40) (انوار ساطعہ ص 346 وغیرہ)
غور کیجئے! اگر قیام محبت و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سبب ہے تو اسے بھی واجب ہی ہونا چاہئے نا!!! اہل علم کا قاعدہ ہے۔ مالا یتم الواجب الابہ فھو واجب۔ جس کے بغیر واجب ادا نہ ہو وہ عمل خود واجب ہوتا ہے۔
احمد رضا خان پھر ایک مستحسن و مباح چیز پر اس قدر جذباتی ہوتے ہیں کہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص قیام کو بدعت و ضلالت کہے وہ خبیث، بدعتی، احبار و رھبان پرست ہے۔ (ص 60)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خان صاحب کو دلیل کی حاجت نہیں
قارئین کرام قادری صاحب تو مروجہ قیام و مولود کو دلیل سے مدلل بنانا چاہتے ہیں مگر ان کے امام احمد رضا خان کہتے ہیں: پس مجلس میلاد و قیام و غیرھا بہت امورِ متنازع فیھا کے جواز پر ہمیں کوئی دلیل قائم کرنے کی حاجت نہیں، شرع سے ممانعت نہ ثابت ہونا ہی ہمارے لئے دلیل ہے۔ (ص 65)
اب قادری صاحب کو اگر ’’خان صاحب‘‘ کے علم کا اندازہ ہوتا تو شاید وہ اتنی موٹی کتاب کبھی نہ لکھتے کیونکہ اس مسئلہ پر تو دلیل قائم کرنے کی حاجت ہی نہیں؟
خان کے حواریوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر شرع سے ممانعت کا ثابت نہ ہونا ہی دلیل ہے تو پھر تعزیہ نکالا کرو، شیعوں کی طرح اذان دیا کرو، محرم میں کالے اور سبز کپڑے پہنا کرونا ۔۔۔ مگر اس سے قبل ذرا خان صاحب کی ’’احکام شریعت‘‘ دیکھ لینا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کا ’’معاذاللہ‘‘ کہنا
اب ذرا قادری موصوف کی ’’علمی ببضاعتی‘‘ دیکھئے: صفحہ 640 پر لکھتے ہیں: معاذ اللہ ہم ہر گز یہ نہیں سمجھتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت لمحہ موجود میں ہوئی ہے لہٰذا ہمیں قیام کرنا ہے یا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف لارہے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر قیام کررہے ہیں۔ یہ کسی مسلمان کا عقیدہ ہے نہ ہمارا قیام استقبال کا مظہر۔
دیکھا آپ نے کہ موصوف معاذ اللہ کہہ کر جس نظریہ کی تردید کررہے ہیں وہ نظریہ موجودہ مبتدعین عوام الناس ہی میں نہیں پایا جاتا بلکہ اس سے قبل مولانا احمد رضا خان اور مولوی عبدالسمیع انصاری کی کتاب سے بھی آشکار ہوتا آیا ہے۔
قادری صاحب بتائیں کہ اگر یہ اس قدر غلط نظریہ ہے کہ معاذ اللہ کہہ کر اسے بیان کیا جائے تو پھر آپ کی عوام اور حتیٰ کے آپ کے امام پر کیا فتویٰ لگے گا؟
قادری صاحب کے مسلک کے تمام علماء اور عوام الناس وہی عقیدہ و نظریہ لیکر ’’قیام‘‘ کرتے ہیں جس کی تردید قادری صاحب نے ’’معاذ اللہ‘‘ کہہ کر کی ہے۔
اور خود قادری صاحب کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’لمحہ موجود‘‘ میں تشریف لائے ہیں۔ جناب کی عبارت دیکھ کر فیصلہ کیجئے۔ فرماتے ہیں:
ہم اس گھڑی کو اپنے تصور و تخیل میں رکھتے ہوئے محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیائے آب و گل میں تشریف لائے۔ (صفحہ 644)
اور صفحہ 642 پر خود ہی لکھتے ہیں: یہ قیام اس لئے بھی نہیں کیا جاتا کہ ’’معاذ اللہ‘‘ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ موجود میں متولد ہورہے ہیں۔ کوئی احمق اور فاتر العقل شخص ہی ایسی سوچ رکھ سکتا ہے۔
دیکھ لیجئے قادری صاحب خواہ کتنے حیلے بہانے کریں معاذ اللہ کی گردان کریں یا خود کو اور اپنی ذریت کو احمق اور فاتر العقل گردانیں مگر وہ اپنے موروثی عقیدہ کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتے!!!
قارئین تجربہ کرکے دیکھ لیجئے تمام قائلین قیام و مولود مروجہ ایک مخصوص ٹائم میں لمحے میں ہی قیام کرتے دکھائی دیں گے۔ پوری رات کی محفل میں نہیں۔ کیوں آخر کچھ تو ہے نا ہم کہتے ہیں۔ معاذ اللہ، احمق، فاتر العقل۔ لوگ
اور یہ جو موصوف نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح محافل میلاد میں جلوہ گر ہوسکتی ہے تو جناب ہم بصد احترام پوچھتے ہیں اس عقیدہ پر کیا دلیل ہے؟
نیز یہ کہ کیا اس وقت جسد اطہر قبر مبارک میں بلا روح رہ جاتا ہے؟؟ تو پھر عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کا آبائی عقیدہ ہے وہ کیسے سلامت رہے گا؟
یہ بھی یاد رہے کہ قادری مشرب کے ممدوح امام علامہ ہیتمی فرماتے ہیں: اثناء مولدہ الشریف قیام کرنا بدعت ہے۔ نہیں جائز۔ یہ ایسی بدعت ہے جس کی کوئی بھی دلیل وارد نہیں ہوئی عوام تو اس سلسلے میں معذور ہوسکتے ہیں مگر خواص نہیں۔ فتاویٰ حدیثیہ صفحہ 112 قدیمی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چراغاں کی دلیل کہاں سے لائیں بجلی ہی نہیں تھی
فصل ششم میں لکھتے ہیں: اہتمام چراغاں اور اس کے تحت اپنے زعم میں دلائل جمع کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ قادری صاحب کے ذکر کردہ واقعات سے جو کچھ قادری صاحب نے اخذ کیا ہے وہ آج تک کسی امام و محدث کو نظر نہیں آیا حتیٰ کہ خود فکر رضا کے علمبردار بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ بھائی صحابہؓ کے دور میں بجلی ہی نہیں تھی۔ تو چراغاں کیسے ہوتا؟
اور یہ بھی یاد رہے کہ قیامت سے قبل مساجد سجی دھجی ہوں گی جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور ہر کوئی فخر جتلائے گا کہ میری مسجد میری مسجد اور آج واقعتاً ایسا معاملہ ہوچکا ہے۔ واللہ المستعان
کہاں وقت ولادت خروج و ظہور نور اور روشنی، ستاروں کا چمکنا اور جھلملانا اور کہاں یہ مطلقاً چراغاں مصنوعیہ۔ کیا قادری صاحب اور انکی عوام بھی وقت ولادت ہی کی روشنی اور چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں؟ یقیناً نہیں!!! تو پھر ان کی ذکر کردہ روایات سے کس طرح انکی مستدلات ثابت ہوں گی؟
فصل ہشتم میں اطعام الطعام (کھانا کھلانا) لکھتے ہیں۔ دلیل کے طور پر اطعام طعام کے دلائل ذکر کرتے ہیں:
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ اس کتاب میں قادری صاحب کس درجہ اجتھاد کررہے ہیں مگر پھر بھی مقلد کے مقلد ہی ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ جناب کو کوئی مجتھد نہیں مانتا!!
کیا ذکر کردہ دلائل میں ربیع الاول اور پھر خصوصاً تاریخ ولادت پر کھانا کھلانے کی کوئی دلیل ملتی ہے؟ یقیناً نہیں تو پھر استدلال کیسا؟ یہ تو ایسا ہی ہوگیا کہ جیسے جناب دعویٰ کردیں بلاوضو نماز ہوجاتی ہے اور جب لوگ اصرار کریں کہ دلیل دیں تو فرمائیں پچاس دفعہ تو میں نے پڑھی ہے!!!
مسئلہ خاص پر دلیل عام نہیں چلتی۔ ذرا علماء ہی سے پوچھ لیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
(التوبہ 34)
اے ایمان والو! یقیناً بہت سے علماء اور دوریش (تم) لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور (تمہیں) اللہ کے راستے سے روک دیتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
موجودہ بریلویوں کا جواب، مگر قادری صاحب
فصل ہشتم میں لکھتے ہیں: ’’جلوس میلاد‘‘اب ظاہر ہے کہ پبلک شاہراہوں پر جب نماز ہی پڑھنا صحیح نہیں تو پھر جلوس کیسے جائز ہوگا اور جلوس میلاد تو کبھی ثابت ہونہیں سکتا۔ مگر قادری صاحب تو بڑی چیز ہیں۔ انہوں نے اس کی بھی دلیل مہیا کردی ہے۔ اور حوالہ صحیح مسلم کا دیا ہے۔ سبحان اللہ۔
انکی دلیل پڑھ لیجئے پھر بتایئے کہ یہ دلیل مروجہ جلوس میلاد کی دلیل ہے؟ یا ہجرت مدینہ پر مدینہ آمد پر خوشی کے اظہار کی دلیل ہے۔
کہاں ولادت و میلاد کا جلوس اور کہاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی خوشی میں لوگوں کا والہانہ انداز میں گھروں سے نکل کر چھتوں پر چڑھ جانا اور گلیوں میں نکل آنا۔کیا وہ بھی آج کے میلادی کی طرح اور شیعہ کے نقالوں کی طرح جلوس نکالتے تھے قطعاً نہیں۔
لوگوں کا استقبال میں ازدحام و اجتماع ہوجانا الگ بات ہے جبکہ مروجہ جلوس بالکل ایک الگ عمل ہے۔
اور پھر یہ دلیل بھی مقلد کو مفید نہیں کہ اس سے استنباط مجتھد کا حق ہے اور اجتہاد مقلدین کے ہاں چوتھی صدی سے عنقا ہے۔
اور کون نہیں جانتا کہ یہ مروجہ جلوس نکالنے کا سلسلہ خود پاکستان میں 1933ء میں شروع ہوا۔ اس سے قبل کیوں نہ تھا؟ کیونکہ دلیل دینے والے قادری صاحب نہ تھے اسی لئے نا!
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر آتش کدہ ایران بجھ گئے۔ اور آج اس ولادت ہی کے نام پر جلوس میں آتش بردار لونڈے محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کرنے چلے۔ھل من مدکر؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top