- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
میلاد بشر ذات کا ہوتا ہے نور ذات کا نہیں
میلاد بشر (انسان ) کا ہوتا ہے ‘ نور کا میلاد نہیں ہوتا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن …الخ۔ ذات بشر ہیں تو پھر آپ کا میلاد (پیدا ہونا) ہو سکتا ہے۔ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نور ذات ہیں تو نور ذات کا میلاد نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان اور بشر ذات کی پیدائش کیلئے فرمایا:
فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُخْلَّقَۃِ وَغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَائُ اِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً الخ۔(الحج آیت:۵‘ پ:۱۷)
کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی تا کہ ہم تمہارے لئے نشانیاں ظاہر فرمائیں اور ہم ٹھہرائے رکھتے ہیں ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہیں ایک مقرر میعاد تک۔ پھر تمہیں نکالتے ہیں بچہ پھر اس لئے کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کوئی پہلے ہی مر جاتا ہے اور کوئی سب میں نکمی عمر تک ڈالا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے(ترجمہ احمد رضا بریلوی)
دوسرے مقام پر فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًا وَمِنْکُمْ مَنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْا اَجَلاً مُسَمًّی الخ۔ (پ:۲۴‘ مومن :۶۷)
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر تمہیں نکالتا ہے بچہ۔ تمہیں باقی رکھتا ہے کہ اپنی جوانی کو پہنچو پھر اس لئے کہ بوڑھے ہو اور تم میں کوئی پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور اس لئے کہ تم ایک مقررہ وعدہ تک پہنچو الخ۔ (ترجمہ احمد رضا بریلوی) اور انسان۔ بشر۔ آدمی خلقت اور پیدائش کے ادوار سے گزرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ انسانوں کے متعلق دوسری جگہ فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکْرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا۔(حجرات آیت:۱۳‘ پ:۲۶)
اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو۔(ترجمہ احمد رضا بریلوی)
تفسیر نعیمی میں مرد‘ عورت سے مراد ، حضرت آدم اور حضرت حوا مراد ہیں۔ اور تفسیر جلالین میں بھی حضرت آدم اور حضرت حوا مرا د لیا گیاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
اِنَّ اللّٰہَ اَصْطَفٰی کِنَانَۃَ مِنْ وُلْدِ اِسْمَاعِیْلَ وَاَصْطَفٰی قُرَیْشًا مِنْ کِنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِیْ ھَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ ۔ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃص:511)
کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل علیہ السلام سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ سے چنا اور قریش سے بنی ہاشم کو چنا اور مجھے بنی ہاشم سے چنا۔