ج 2: اہل فترہ کے سلسلے میں علماء کے مابین اختلاف ہے، ان کے سلسلےمیں راجح قول یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کا امتحان لیا جائیگا، جوصحیح جواب دے دیگا وہ نجات پاجائیگا، اور جو انکار کردیگا وہ ہلاک یافتہ ہوگا، اسکی وضاحت الاسود بن سریع التمیمی السعدی کی حدیث کررہی ہے۔ رہی بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی، تو یہ لوگ اہل فترہ میں سے نہیں ہیں، کیونکہ عرب قوم ملت ابراہیمی پر تھی، بالخصوص حجاز کی سرزمین میں رہنے والی قوم، ان کے یہاں شرک عمرو بن لحی خزاعی کے زمانے میں آیا، لیکن انکے پاس دین ابراہیمی کا باقی ماندہ حصہ مثلا حج وغیرہ موجود تھا، لہذا یہ لوگ اہل فترہ میں سے نہیں ہوئے، کیونکہ اہل فترہ اس قوم کو کہتے ہیں جن کے پاس کسی نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ سے جب ایک شخص نے انکے والد کے سلسلے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
یقیناً آپ کے اور میرے والد جہنم میں ہیں ۔
اس حدیث کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے اللہ تعالی سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تواللہ نے اجازت دےدی، اورجب انکے لئے مغفرت کی دعاء مانگنے کی اجازت چاہی، تواللہ نے اسکی اجازت نہیں دی، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 500)
ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﻛﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻛﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﻣﺸﺮﻛﯿﻦ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻛﯽ ﺩﻋﺎﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻭﮦ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﻛﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﻛﮧ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺩﻭﺯﺧﯽ ﮨﯿﮟ ۔
یہ آیت ابوطالب وغیرہ دیگرمشرکین کے سلسلے میں دعوت نبوی پہنچنے کے بعد نازل ہوئی ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔