• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن دفن میں تاخیر ۔ مسئلہ کی تحقیق درکار ہے۔

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ. (طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

مختصراً یہ کہ حضور کی وفات پر کافی خون خرابہ اور غل غپاڑہ ہوا،
صحابہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے
اور لاش میں سے بدبو آنے لگی
، نماز جنازہ نہیں ہوئی، لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں آتے تھے

اور میت کے پاس کھڑے ہوکر اور خود ہی مِن مِن کرکے چلے جاتے تھے.
نماز جنازہ، جیسے کہ امام کے پیچھے ہوتی ہے نہیں ہوئی

. لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا

اور اسی طرح اس پر پانی بہا کر وہیں دبا دیا گیا.

یہ تمام تفصیلات طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم کے صفحات نمبر ٢٢٠ سے لے کر ٢٥٠ تک میں موجود ہیں
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
طبقات ابن سعد تراجم پر مبنی ایک اچھی کتاب ہے اور پھر اس کے دو حصے انبیاء کے حالات بھی بیان کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ کتاب بلکل ہی ناپید ہوچکی تھی کہ فرانسیوں کو کہیں اس کا قلمی ہاتھ آگیا اور انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد اس کی اسکریننگ کر کہ اسے شایع کروایا ، یہی چیز اس کتاب کو قابل اعتراض بناتی ہے
اس کے علاوہ خود مصنف محمد بن سعد تو اچھے آدمی تھے لیکن وہ جن سے روایات کرتے ہین وہ ایک نمبر کے جھوٹے ہیں یعنی ، محمد بن عمر واقدی اور ابو مخنف ، کلبی پارٹی وغیرہ۔۔ اس کتاب کی بہت ہی کم روایات ایسی ہیں جو کہ صحیح ہیں

آپ عربی متن کے ساتھ روایات پیش کریں تو آپ کو فی الفور جواب مل سکتا ہے۔۔ کچھ محنت آپ خود بھی کریں۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ. (طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

مختصراً یہ کہ حضور کی وفات پر کافی خون خرابہ اور غل غپاڑہ ہوا،
صحابہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے
اور لاش میں سے بدبو آنے لگی
، نماز جنازہ نہیں ہوئی، لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں آتے تھے

اور میت کے پاس کھڑے ہوکر اور خود ہی مِن مِن کرکے چلے جاتے تھے.
نماز جنازہ، جیسے کہ امام کے پیچھے ہوتی ہے نہیں ہوئی

. لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا

اور اسی طرح اس پر پانی بہا کر وہیں دبا دیا گیا.

یہ تمام تفصیلات طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم کے صفحات نمبر ٢٢٠ سے لے کر ٢٥٠ تک میں موجود ہیں


نبی صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین

نبی صلی الله علیہ وسلم کا غسل میت


فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَنْتَ قُبِضْتَ فَمَنْ يُغَسِّلُكَ؟ وَفِيمَ نُكَفِّنُكَ؟ وَمَنْ يُصَلَّى عَلَيْكَ؟ وَمَنْ يَدْخُلُ الْقَبْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَمَّا الْغُسْلُ فاغْسِلْنِي أَنْتَ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَصُبُّ عَلَيْكَ الْمَاءَ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثَالِثُكُمَا، فَإِذَا أَنْتُمْ فَرَغْتُمْ مِنْ غُسْلِي فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ جُدُدٍ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِينِي بِحَنُوطٍ مِنَ الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا، ثُمَّ ادْخُلُوا، فَقُومُوا صُفُوفًا لَا يَتَقَدَّمُ عَلَيَّ أَحَدٌ»

عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني اپنے باپ سے وہ وھب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا
یا سول اللہ! جب آپ کی روح قبض ہو گی تو آپ کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ کو کفن کس طرح دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا غسل مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے


طبرانی الکبیر میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ثنا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ


اس کی سند میں عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني ہے دارقطنی کتاب الضعفاء والمتروكين کہتے ہیں اپنے باپ سے روایت کرنے میں متروک ہیں


مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا» ، قَالَ: «فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ» ، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ
التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ابو عسیب ابو عسیم بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے کہا: ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے
پس جب آپ کو لحد میں رکھ دیا گیا مغیرہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں سے کوئی صحیح نہیں ہے پس کہا داخل ہو اور صحیح کرو پس ہاتھ ڈال کر قدم کو مس کیا کہا مٹی ڈالو پس مٹی ڈالی گئی یہاں تک کہ نصف پنڈلیوں کے پس اس کے بعد (دفنانے والے) باہر نکلے


یہ وہ واحد روایت کے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا گیا لیکن اس میں کچھ مشکلات ہیں

اول حجرہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا میں دو دروازے تھے کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا

دوم قدم مبارک دفنانے میں صحیح انداز میں نہیں رکھا جا سکا اور پھر بعد میں اس کو ہاتھ ڈال کر درست کرنا پڑا بھی عجیب بات ہے جبکہ علی رضی الله تعالی عنہ وہاں موجود ہیں اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری ہے کہ تدفین کا انتظام کریں لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالی عنہ بتاتے ہیں کہ قدم درست نہیں رکھا گیا

دوسری روایت ہے کہ

مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْعَقَبِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَامُ بْنُ سُلَيْمٍ الطَّوِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: مَنْ يُصَلِّي عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبَكَى وَبَكَيْنَا وَقَالَ: «مَهْلًا، غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَجَزَاكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ خَيْرًا، إِذَا غَسَّلْتُمُونِي وَحَنَّطْتُمُونِي وَكَفَّنْتُمُونِي فَضَعُونِي عَلَى شَفِيرِ قَبْرِي، ثُمَّ اخْرِجُوا عَنِّي سَاعَةً، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ مَعَ جُنُودٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ثُمَّ لِيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِي، ثُمَّ نِسَاؤُهُمْ، ثُمَّ ادْخُلُوا أَفْوَاجًا أَفْوَاجًا وَفُرَادَى وَلَا تُؤْذُونِي بِبَاكِيةٍ، وَلَا بِرَنَّةٍ وَلَا بِصَيْحَةٍ، وَمَنْ كَانَ غَائِبًا مِنْ أَصْحَابِي فَأَبْلِغُوهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ عَلَى أَنِّي قَدْ سَلَّمْتُ عَلَى مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَابَعَنِي عَلَى دِينِي هَذَا مُنْذُ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»


جب رسو ل اللہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے پوچھا : یارسول اللہ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا)


الحاکم کہتے ہیں

عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي فِي هَذَا الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ وَالْبَاقُونَ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ ”


اس کی سند میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہے جو مجھول ہے


ابن ماجہ ، الشريعة از ابو بكر الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ [ص:2362]: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَذَكَرَ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ , وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ , وَقَدْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ , فَقَالَ قَائِلٌ: نَدْفِنُهُ فِي مَسْجِدِهِ , وَقَالَ قَائِلٌ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيُّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» فَرُفِعَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحُفِرَ لَهُ تَحْتَهُ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا , الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا دَخَلَ النِّسَاءُ , حَتَّى إِذَا فَرَغْنَ دَخَلَ الصِّبْيَانُ , وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ثُمَّ دُفِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَسَطِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ


عبدللہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی وفات منگل کو ہوئی … ابو بکر نے کہا کہ نبی جہاں وفات پائیں وہیں دفن ہوتے ہیں بدھ کی رات تدفین ہوئی
ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، َقُثَمُ ُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے آپ کو قبر میں اتارا


اس کی سند میں راوی حسين بن عبد الله ابن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب المدني ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ محمّد بن اسحاق بن یسار ہے جو مختلف فیہ ہے

یہ روایت صحیح روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطبق آپ کی وفات پیر کو ہوئی

الموطأ میں امام مالک کہتے ہیں ان کو یہ بات پہنچی ہے

وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذاً


اور لوگوں نے الگ الگ نماز کی


صلی کا لفظ نماز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور دعا کے لئے بھی لہذا اس میں واضح نہیں کہ باقاعدہ نماز جنازہ ہوئی

قرین قیاس بات یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوئی بلکہ اگر غور کریں تو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دعا تو عام لوگوں کے لئے کی جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں جیسا قرآن میں ہے لہذا کسی نماز جنازہ کی ضرورت نہیں تھی

کہا گیا ہے کہ

لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا


حالانکہ کفن تو عام لوگوں کو پاک کپڑوں میں دیا جاتا ہے کہ مبادہ ناپاک ہوں – جبکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے اپنے کپڑوں سے زیادہ پاک چیز کوئی اور نہیں تھی

نبی صلی الله علیہ وسلم کو

كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ


تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا


یہ صحیح مسلم کی روایت ہے=

کہا گیا ہے کہ

جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ.


(طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

یہ درست نہیں عمر رضی الله عنہ کو تو اسی روز یہ خیال آیا جس دن وفات ہوئی اور جس روز وفات ہوئی اس وقت تک جسد مطہر سڑتا کیسے؟ افسوس ان کی عقل پر اہل بیت جن کو یہ معصوم و طاہر کہتے ہیں ان سے بلند شخصیت نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد کیسے ناپاک ہو سکتا ہے

طبقات ابن سعد کی روایات میں واقدی اور ابن لہیہ وغیرہ ہیں جو قابل قبول نہیں دوم ان میں جسد میں سے بو انے منہ سے جھاگ نکلنے کا کوئی تذکرہ نہیں


آپ ان شیعہ کی عقلوں پر ماتم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد تدفین سے پہلے ہی سڑ گیا اور دوسری طرف غلو میں انبیاء اور اماموں کو قبروں این زندہ مانتے ہیں اور ان کے جسد کی بقا کے قائل ہیں نبی کا جسد سڑ گیا لیکن حسین کا کٹا ہوا سر مہینوں تلاوت کرتا رہا وہ نہیں سڑا
سب بکواس ان کے مولویوں نے انکو سکھا دی ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ. (طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

مختصراً یہ کہ حضور کی وفات پر کافی خون خرابہ اور غل غپاڑہ ہوا،
صحابہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے
اور لاش میں سے بدبو آنے لگی
، نماز جنازہ نہیں ہوئی، لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں آتے تھے

اور میت کے پاس کھڑے ہوکر اور خود ہی مِن مِن کرکے چلے جاتے تھے.
نماز جنازہ، جیسے کہ امام کے پیچھے ہوتی ہے نہیں ہوئی

. لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا

اور اسی طرح اس پر پانی بہا کر وہیں دبا دیا گیا.

یہ تمام تفصیلات طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم کے صفحات نمبر ٢٢٠ سے لے کر ٢٥٠ تک میں موجود ہیں
@خضر حیات
بھائی ناپسند کرنے کے ساتھ اس کا
جواب بھی دیں دیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
نبیﷺ کے جسم کی خوشبو اور جسم کا ملائم ہونا۔

1569: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا رنگ مبارک سفید، چمکتا ہوا تھا (نووی نے کہا کہ یہ رنگ سب رنگوں سے عمدہ ہے ) اور آپﷺ کا پسینہ مبارک موتی کی طرح تھا اور جب چلتے تو (پسینے کے قطرے دائیں بائیں، ادھر اُدھر جھکے جاتے تھے جیسے کشتی جھکتی جاتی ہے ) اور میں نے دیباج اور حریر بھی اتنا نرم نہیں پایا جتنی آپﷺ کی ہتھیلی نرم تھی اور میں نے مشک اور عنبر میں بھی وہ خوشبو نہ پائی جو آپﷺ کے جسم مبارک میں تھی۔

1570: سیدنا جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپﷺ اپنے گھر جانے کو نکلے اور میں بھی آپﷺ کے ساتھ نکلا۔ سامنے کچھ بچے آئے تو آپﷺ نے ہر ایک بچے کے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔ میں نے آپﷺ کے ہاتھ میں وہ ٹھنڈک اور وہ خوشبو دیکھی جیسے نبیﷺ نے خوشبو ساز کے ڈبہ میں سے ہاتھ نکالا ہو۔

باب : نبی ﷺ کے پسینے کی خوشبو۔

1573: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے گھر میں تشریف لائے اور آرام فرمایا، آپﷺ کو پسینہ آیا، میری ماں ایک شیشی لائی اور آپﷺ کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگی، آپﷺ کی آنکھ کھل گئی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُم سُلیم یہ کیا کر رہی ہو؟ وہ بولی کہ آپﷺ کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں شامل کرتے ہیں اور وہ سب سے بڑھ کر خود خوشبو ہے۔


http://forum.mohaddis.com/threads/مختصر-صحیح-مسلم-اردو-ترجمہ-یونیکوڈ.16309/page-135#post-127614

ھمارا ایمان ہے کہ زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی نبی صلی اللہ کے جسم اطہر سے خوشبو ہی آ سکتی ہے نا کہ بدبو
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
نبی صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین

نبی صلی الله علیہ وسلم کا غسل میت


فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَنْتَ قُبِضْتَ فَمَنْ يُغَسِّلُكَ؟ وَفِيمَ نُكَفِّنُكَ؟ وَمَنْ يُصَلَّى عَلَيْكَ؟ وَمَنْ يَدْخُلُ الْقَبْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَمَّا الْغُسْلُ فاغْسِلْنِي أَنْتَ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَصُبُّ عَلَيْكَ الْمَاءَ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثَالِثُكُمَا، فَإِذَا أَنْتُمْ فَرَغْتُمْ مِنْ غُسْلِي فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ جُدُدٍ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِينِي بِحَنُوطٍ مِنَ الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا، ثُمَّ ادْخُلُوا، فَقُومُوا صُفُوفًا لَا يَتَقَدَّمُ عَلَيَّ أَحَدٌ»

عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني اپنے باپ سے وہ وھب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا
یا سول اللہ! جب آپ کی روح قبض ہو گی تو آپ کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ کو کفن کس طرح دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا غسل مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے


طبرانی الکبیر میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ثنا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ


اس کی سند میں عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني ہے دارقطنی کتاب الضعفاء والمتروكين کہتے ہیں اپنے باپ سے روایت کرنے میں متروک ہیں


مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا» ، قَالَ: «فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ» ، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ
التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ابو عسیب ابو عسیم بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے کہا: ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے
پس جب آپ کو لحد میں رکھ دیا گیا مغیرہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں سے کوئی صحیح نہیں ہے پس کہا داخل ہو اور صحیح کرو پس ہاتھ ڈال کر قدم کو مس کیا کہا مٹی ڈالو پس مٹی ڈالی گئی یہاں تک کہ نصف پنڈلیوں کے پس اس کے بعد (دفنانے والے) باہر نکلے


یہ وہ واحد روایت کے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا گیا لیکن اس میں کچھ مشکلات ہیں

اول حجرہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا میں دو دروازے تھے کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا

دوم قدم مبارک دفنانے میں صحیح انداز میں نہیں رکھا جا سکا اور پھر بعد میں اس کو ہاتھ ڈال کر درست کرنا پڑا بھی عجیب بات ہے جبکہ علی رضی الله تعالی عنہ وہاں موجود ہیں اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری ہے کہ تدفین کا انتظام کریں لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالی عنہ بتاتے ہیں کہ قدم درست نہیں رکھا گیا

دوسری روایت ہے کہ

مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْعَقَبِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَامُ بْنُ سُلَيْمٍ الطَّوِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: مَنْ يُصَلِّي عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبَكَى وَبَكَيْنَا وَقَالَ: «مَهْلًا، غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَجَزَاكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ خَيْرًا، إِذَا غَسَّلْتُمُونِي وَحَنَّطْتُمُونِي وَكَفَّنْتُمُونِي فَضَعُونِي عَلَى شَفِيرِ قَبْرِي، ثُمَّ اخْرِجُوا عَنِّي سَاعَةً، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ مَعَ جُنُودٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ثُمَّ لِيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِي، ثُمَّ نِسَاؤُهُمْ، ثُمَّ ادْخُلُوا أَفْوَاجًا أَفْوَاجًا وَفُرَادَى وَلَا تُؤْذُونِي بِبَاكِيةٍ، وَلَا بِرَنَّةٍ وَلَا بِصَيْحَةٍ، وَمَنْ كَانَ غَائِبًا مِنْ أَصْحَابِي فَأَبْلِغُوهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ عَلَى أَنِّي قَدْ سَلَّمْتُ عَلَى مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَابَعَنِي عَلَى دِينِي هَذَا مُنْذُ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»


جب رسو ل اللہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے پوچھا : یارسول اللہ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا)


الحاکم کہتے ہیں

عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي فِي هَذَا الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ وَالْبَاقُونَ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ ”


اس کی سند میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہے جو مجھول ہے


ابن ماجہ ، الشريعة از ابو بكر الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ [ص:2362]: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَذَكَرَ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ , وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ , وَقَدْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ , فَقَالَ قَائِلٌ: نَدْفِنُهُ فِي مَسْجِدِهِ , وَقَالَ قَائِلٌ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيُّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» فَرُفِعَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحُفِرَ لَهُ تَحْتَهُ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا , الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا دَخَلَ النِّسَاءُ , حَتَّى إِذَا فَرَغْنَ دَخَلَ الصِّبْيَانُ , وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ثُمَّ دُفِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَسَطِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ


عبدللہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی وفات منگل کو ہوئی … ابو بکر نے کہا کہ نبی جہاں وفات پائیں وہیں دفن ہوتے ہیں بدھ کی رات تدفین ہوئی
ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، َقُثَمُ ُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے آپ کو قبر میں اتارا


اس کی سند میں راوی حسين بن عبد الله ابن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب المدني ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ محمّد بن اسحاق بن یسار ہے جو مختلف فیہ ہے

یہ روایت صحیح روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطبق آپ کی وفات پیر کو ہوئی

الموطأ میں امام مالک کہتے ہیں ان کو یہ بات پہنچی ہے

وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذاً


اور لوگوں نے الگ الگ نماز کی


صلی کا لفظ نماز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور دعا کے لئے بھی لہذا اس میں واضح نہیں کہ باقاعدہ نماز جنازہ ہوئی

قرین قیاس بات یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوئی بلکہ اگر غور کریں تو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دعا تو عام لوگوں کے لئے کی جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں جیسا قرآن میں ہے لہذا کسی نماز جنازہ کی ضرورت نہیں تھی

کہا گیا ہے کہ

لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا


حالانکہ کفن تو عام لوگوں کو پاک کپڑوں میں دیا جاتا ہے کہ مبادہ ناپاک ہوں – جبکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے اپنے کپڑوں سے زیادہ پاک چیز کوئی اور نہیں تھی

نبی صلی الله علیہ وسلم کو

كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ


تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا


یہ صحیح مسلم کی روایت ہے=

کہا گیا ہے کہ

جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ.


(طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

یہ درست نہیں عمر رضی الله عنہ کو تو اسی روز یہ خیال آیا جس دن وفات ہوئی اور جس روز وفات ہوئی اس وقت تک جسد مطہر سڑتا کیسے؟ افسوس ان کی عقل پر اہل بیت جن کو یہ معصوم و طاہر کہتے ہیں ان سے بلند شخصیت نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد کیسے ناپاک ہو سکتا ہے

طبقات ابن سعد کی روایات میں واقدی اور ابن لہیہ وغیرہ ہیں جو قابل قبول نہیں دوم ان میں جسد میں سے بو انے منہ سے جھاگ نکلنے کا کوئی تذکرہ نہیں

آپ ان شیعہ کی عقلوں پر ماتم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد تدفین سے پہلے ہی سڑ گیا اور دوسری طرف غلو میں انبیاء اور اماموں کو قبروں این زندہ مانتے ہیں اور ان کے جسد کی بقا کے قائل ہیں نبی کا جسد سڑ گیا لیکن حسین کا کٹا ہوا سر مہینوں تلاوت کرتا رہا وہ نہیں سڑا
سب بکواس ان کے مولویوں نے انکو سکھا دی ہے
23.jpg
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
آپ کی پیش کی گئی روایت یہ ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ

اس روایت کی روات پر تو علماء اکرام ہی بات کریں گے لیکن اگر یہ ابن حمید ، محمد بن حميد بن حيان ہے تو پھر یہ متروک ہیں اس کے علاوہ صحیح و ضعیف تاریخ طبری میں بھی مجھے یہ روایت نہ تو صحیح میں ملی نہ ہی ضعیف میں
@خضر حیات
@اسحاق سلفی

یہ حضرات ہی مدد کر سکتے ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
تاریخ الطبری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ


کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا پیٹ پھول گیا اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ تین دن بعد آئے

اس کی سند منقطع ہے ابراہیم النخعی کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی

کتاب جامع التحصیل کے مطابق

وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم


علی بن المدینی کہتے ہیں کہ ابراہیم کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی


دوم ان سے سننے والے ابی ایوب بھی اغلبا مجھول ہیں
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
تاریخ الطبری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ


کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا پیٹ پھول گیا اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ تین دن بعد آئے

اس کی سند منقطع ہے ابراہیم النخعی کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی

کتاب جامع التحصیل کے مطابق

وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم


علی بن المدینی کہتے ہیں کہ ابراہیم کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی


دوم ان سے سننے والے ابی ایوب بھی اغلبا مجھول ہیں
میرہ خیال ہے کہ یہ ابراہیم أبو رافع القبطي ہیں جو کہ صحابی و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
اور ابو ایوب سليمان بن يسار الھلالی ہیں جو کہ ثقہ ہین

یہی بات زہن رکھ کر میں نے اس روایت کو علماء یعنی جناب خضر حیات اور جناب اسحاق سلفی کے حوالے کیا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
السلام علیکم
آپ کی پیش کی گئی روایت یہ ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ
اس روایت کی روات پر تو علماء اکرام ہی بات کریں گے لیکن اگر یہ ابن حمید ، محمد بن حميد بن حيان ہے تو پھر یہ متروک ہیں اس کے علاوہ صحیح و ضعیف تاریخ طبری میں بھی مجھے یہ روایت نہ تو صحیح میں ملی نہ ہی ضعیف میں
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
یہ حضرات ہی مدد کر سکتے ہیں
شاملہ میں تاریخ طبری کے موجودہ نسخے میں یہ روایت ہے ۔ ( ج 2 ص 116)
حافظ ذہبی نے ابن حمید کو منکر الحدیث قرار دیا ہے :
137 - مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدِ بنِ حَيَّانَ الرَّازِيُّ * (د، ت، ق)
العَلاَّمَةُ، الحَافِظُ الكَبِيْرُ، أَبُو عَبْدِ اللهِ الرَّازِيُّ.
مَوْلِدُهُ: فِي حُدُوْدِ السِّتِّيْنَ وَمائَةٍ.
وَحَدَّثَ عَنْ: يَعْقُوْبَ القُمِّيِّ - وَهُوَ أَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ - وَابْنِ المُبَارَكِ، وَجَرِيْرِ بنِ عَبْدِ الحَمِيْدِ، وَالفَضْلِ بنِ مُوْسَى، وَحَكَّامِ بنِ سَلْمٍ، وَزَافِرِ بنِ سُلَيْمَانَ، وَنُعَيْمِ بنِ مَيْسَرَةَ، وَسَلَمَةَ بنِ الفَضْلِ الأَبْرَشِ، وَخَلْقٍ كَثِيْرٍ مِنْ طَبَقَتِهِم.
وَهُوَ مَعَ إِمَامَتِهِ مُنْكَرُ الحَدِيْثِ، صَاحِبُ عَجَائِبَ.
حَدَّثَ عَنْهُ: أَبُو دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالقَزْوِيْنِيُّ فِي كُتُبِهِم، وَأَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُو زُرْعَةَ، وَأَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي الدُّنْيَا، وَصَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ، وَالحَسَنُ بن عَلِيٍّ المَعْمَرِيُّ، وَعَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ، وَأَبُو القَاسِمِ البَغَوِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدٍ البَاغَنْدِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ هَارُوْنَ الرُّوْيَانِيُّ، وَخَلْقٌ كَثِيْرٌ.

( سیر اعلام النبلاء ج11 ص 503 ط الرسالۃ )
الکاشف میں فرماتے ہیں کہ ’’ اگرچہ کچھ علماء نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کو ترک کردینا بہتر ہے ‘‘ ۔
اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں اس کو ضعیف کہا ہے ۔
 
Top