نبی صلی الله علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین
نبی صلی الله علیہ وسلم کا غسل میت
فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَنْتَ قُبِضْتَ فَمَنْ يُغَسِّلُكَ؟ وَفِيمَ نُكَفِّنُكَ؟ وَمَنْ يُصَلَّى عَلَيْكَ؟ وَمَنْ يَدْخُلُ الْقَبْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَمَّا الْغُسْلُ فاغْسِلْنِي أَنْتَ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَصُبُّ عَلَيْكَ الْمَاءَ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثَالِثُكُمَا، فَإِذَا أَنْتُمْ فَرَغْتُمْ مِنْ غُسْلِي فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ جُدُدٍ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِينِي بِحَنُوطٍ مِنَ الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا، ثُمَّ ادْخُلُوا، فَقُومُوا صُفُوفًا لَا يَتَقَدَّمُ عَلَيَّ أَحَدٌ»
عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني اپنے باپ سے وہ وھب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا
یا سول اللہ! جب آپ کی روح قبض ہو گی تو آپ کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ کو کفن کس طرح دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی الله
علیہ وسلم نے فرمایا غسل مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے
طبرانی الکبیر میں اس کی سند ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ثنا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ
اس کی سند میں عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني ہے دارقطنی کتاب الضعفاء والمتروكين کہتے ہیں اپنے باپ سے روایت کرنے میں متروک ہیں
مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا» ، قَالَ: «فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ» ، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ
التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابو عسیب ابو عسیم بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے کہا: ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے
پس جب آپ کو لحد میں رکھ دیا گیا مغیرہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں سے کوئی صحیح نہیں ہے پس کہا داخل ہو اور صحیح کرو پس ہاتھ ڈال کر قدم کو مس کیا کہا مٹی ڈالو پس مٹی ڈالی گئی یہاں تک کہ نصف پنڈلیوں کے پس اس کے بعد (دفنانے والے) باہر نکلے
یہ وہ واحد روایت کے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا گیا لیکن اس میں کچھ مشکلات ہیں
اول حجرہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا میں دو دروازے تھے کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا
دوم قدم مبارک دفنانے میں صحیح انداز میں نہیں رکھا جا سکا اور پھر بعد میں اس کو ہاتھ ڈال کر درست کرنا پڑا بھی عجیب بات ہے جبکہ علی رضی الله تعالی عنہ وہاں موجود ہیں اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری ہے کہ تدفین کا انتظام کریں لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالی عنہ بتاتے ہیں کہ قدم درست نہیں رکھا گیا
دوسری روایت ہے کہ
مستدرک الحاکم کی روایت ہے
حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْعَقَبِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَامُ بْنُ سُلَيْمٍ الطَّوِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: مَنْ يُصَلِّي عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبَكَى وَبَكَيْنَا وَقَالَ: «مَهْلًا، غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَجَزَاكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ خَيْرًا، إِذَا غَسَّلْتُمُونِي وَحَنَّطْتُمُونِي وَكَفَّنْتُمُونِي فَضَعُونِي عَلَى شَفِيرِ قَبْرِي، ثُمَّ اخْرِجُوا عَنِّي سَاعَةً، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ مَعَ جُنُودٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ثُمَّ لِيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِي، ثُمَّ نِسَاؤُهُمْ، ثُمَّ ادْخُلُوا أَفْوَاجًا أَفْوَاجًا وَفُرَادَى وَلَا تُؤْذُونِي بِبَاكِيةٍ، وَلَا بِرَنَّةٍ وَلَا بِصَيْحَةٍ، وَمَنْ كَانَ غَائِبًا مِنْ أَصْحَابِي فَأَبْلِغُوهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ عَلَى أَنِّي قَدْ سَلَّمْتُ عَلَى مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَابَعَنِي عَلَى دِينِي هَذَا مُنْذُ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
جب رسو ل اللہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے پوچھا : یارسول اللہ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا)
الحاکم کہتے ہیں
عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي فِي هَذَا الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ وَالْبَاقُونَ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ ”
اس کی سند میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہے جو مجھول ہے
ابن ماجہ ، الشريعة از ابو بكر الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ [ص:2362]: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَذَكَرَ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ , وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ , وَقَدْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ , فَقَالَ قَائِلٌ: نَدْفِنُهُ فِي مَسْجِدِهِ , وَقَالَ قَائِلٌ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيُّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» فَرُفِعَ فِرَاشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحُفِرَ لَهُ تَحْتَهُ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا , الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا دَخَلَ النِّسَاءُ , حَتَّى إِذَا فَرَغْنَ دَخَلَ الصِّبْيَانُ , وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ثُمَّ دُفِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَسَطِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ
عبدللہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی وفات منگل کو ہوئی … ابو بکر نے کہا کہ نبی جہاں وفات پائیں وہیں دفن ہوتے ہیں بدھ کی رات تدفین ہوئی
ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، َقُثَمُ ُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے آپ کو قبر میں اتارا
اس کی سند میں راوی حسين بن عبد الله ابن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب المدني ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ محمّد بن اسحاق بن یسار ہے جو مختلف فیہ ہے
یہ روایت صحیح روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطبق آپ کی وفات پیر کو ہوئی
الموطأ میں امام مالک کہتے ہیں ان کو یہ بات پہنچی ہے
وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذاً
اور لوگوں نے الگ الگ نماز کی
صلی کا لفظ نماز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور دعا کے لئے بھی لہذا اس میں واضح نہیں کہ باقاعدہ نماز جنازہ ہوئی
قرین قیاس بات یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوئی بلکہ اگر غور کریں تو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دعا تو عام لوگوں کے لئے کی جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہے کہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں جیسا قرآن میں ہے لہذا کسی نماز جنازہ کی ضرورت نہیں تھی
کہا گیا ہے کہ
لاش کی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ کرتا بھی نہیں اتارا گیا
حالانکہ کفن تو عام لوگوں کو پاک کپڑوں میں دیا جاتا ہے کہ مبادہ ناپاک ہوں – جبکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے اپنے کپڑوں سے زیادہ پاک چیز کوئی اور نہیں تھی
نبی صلی الله علیہ وسلم کو
كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ
تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا
یہ صحیح مسلم کی روایت ہے=
کہا گیا ہے کہ
جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ.
(طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)
یہ درست نہیں عمر رضی الله عنہ کو تو اسی روز یہ خیال آیا جس دن وفات ہوئی اور جس روز وفات ہوئی اس وقت تک جسد مطہر سڑتا کیسے؟ افسوس ان کی عقل پر اہل بیت جن کو یہ معصوم و طاہر کہتے ہیں ان سے بلند شخصیت نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد کیسے ناپاک ہو سکتا ہے
طبقات ابن سعد کی روایات میں واقدی اور ابن لہیہ وغیرہ ہیں جو قابل قبول نہیں دوم ان میں جسد میں سے بو انے منہ سے جھاگ نکلنے کا کوئی تذکرہ نہیں
آپ ان شیعہ کی عقلوں پر ماتم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد تدفین سے پہلے ہی سڑ گیا اور دوسری طرف غلو میں انبیاء اور اماموں کو قبروں این زندہ مانتے ہیں اور ان کے جسد کی بقا کے قائل ہیں نبی کا جسد سڑ گیا لیکن حسین کا کٹا ہوا سر مہینوں تلاوت کرتا رہا وہ نہیں سڑا
سب بکواس ان کے مولویوں نے انکو سکھا دی ہے