السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپﷺ کا علم غیب تو قرآن پاک کی نس سے ثابت ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم الغیب کی نفی بے شک قرآن کی نص سے ثابت ہے!
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (سورة الأعراف 188)
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں، (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
تو جناب ذاتی ہو یا عطائی ہو علم غیب کے سبب علم تو حاصل ہو ہی جاتا ہے ! لیکن یہاں قرآن میں اللہ تعالی خود نبی کو حکم دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیں کہ اگرنبی صلی اللہ علیہ کو علم غیب ہوتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کرلیتے اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچتی!
اب یہ امر ذاتی علم غیب کا محتاج نہیں، یہ تو عطائی سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہاں اپنے علم غیب کی نفی کرنے پر اس اضافی دلیل و وضاحت کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں، نہ ذاتی نہ عطائی!
اور آپ نے جو آیت پیش کی ہے، یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب دینے، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم غیب ہونے کا اثبات نہیں!
بلکہ اظہار غیب ، اور اطلاع علی الغیب کا اثبات ہے!
اور یہ اظہار غیب اور اطلاع علی الغیب وحی سے کیا جاتا ہے!
میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ بقول آپکے نبیﷺ کو علم نہ تھا مگر اللہ پاک کو تو علم تھا اللہ تعالی نے وحی کیوں نازل نہیں فرمائی
کیوں بھائی! کیا اللہ نے کہیں یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ بتلائے گا؟ اور ہر واقعہ کی خبر دے گا؟
اللہ پر کوئی اور تو کچھ بھی لازم نہیں کر سکتا!