• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا اپنی قبر میں زندہ ہونا اور امّت کے درود سننے کے عقیدے کی تحقیق

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
جناب ابو داؤد صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر دے. مجھے یہ نکتہ آج معلوم ہوا اور اچھی تفریق کی آپ نے عالم الغیب اور اطلاع علی الغیب کی.
 
شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم

لیطلعکم کا معنی

دے دے


کون سی ڈکشنری میں ملتاھے ؟؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم -

آپ دانش غفّار صاحب نے آیت قرانی پیش کی ہے :

مَّا كَانَ اللّـٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَآ اَنْتُـمْ عَلَيْهِ حَتّـٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۖ فَاٰمِنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرُسُلِهٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُـوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِـيْمٌ ١٧٩
اللہ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم اب ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں جسے چاہے چن لیتا ہے (یعنی ان کو غیب کی باتوں اطلاع دے دیتا ہے) ، سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

پہلی بات یہ کہ: اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب کسی بات کی اطلاع الله رب العزت اپنے چنے ہوے رسول کو دے دیتا ہے (الوحی کے ذریے) تو وہ اس کے لئے غیب نہ رہی -غیب کا مطلب ہے کہ بغیر کسی ذریے کے کسی بات کا علم ہونا- غیب کا علم صرف الله ہی کو ہے-رسول کو بغیر وحی کے کسی بات کا علم نہیں ہوتا- جیسے اگر کوئی ڈاکٹر کسی بیماری کی وجوحات ہمیں بتاتا ہے اور ہم وہی معلومات آگے کسی کو بتا دیتے ہیں تو کیا ہم بھی ڈاکٹر کہلائیں گے ؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے -رسول یا نبی عالم الغیب نہیں ہو سکتا-

الله رب العزت کا واضح فرمان کہ:

قُل لَّآ أَمۡلِكُ لِنَفۡسِى نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ‌ۚ وَلَوۡ كُنتُ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ لَٱسۡتَڪۡثَرۡتُ مِنَ ٱلۡخَيۡرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ‌ۚ إِنۡ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ۬ وَبَشِيرٌ۬ لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ (سورۃ اعراف: (١٨٨)
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے !کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا مگر یہ چاہے اﷲ۔اور اگر ہوتا مجھے غیب کا علم تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اورنہ پہنچتا مجھے کہیں کوئی نقصان ۔نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں

دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ نبی مکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا (اگرچہ وحی کے ذریے تھا) جیسا کہ اکثر بدعتی اس باطل عقیدے کے گردان کرتے نظر آتے ہیں - تو پھر یہی بدعتی اپنے پیر، نام و نہاد اولیاء بزرگوں ، عبدلقادر جیلانی ( المعروف غوث پاک)، علی رضی الله عنہ وغیرہ کو کیوں غیب کا جاننے والا ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں؟؟ جب کے سوره آل عمران کی مذکرہ بالا آیت میں تو غیب کے علم کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الله صرف رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہو اس کے لئے چن لیتا ہے- غیر نبی کا تو یہ مقام سرے سے ہے ہی نہیں-

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرک و بدعتی کی عقل الله رب العزت سلب کرلیتا ہے - تب ہی اس قسم کی خرافات ان کے زبانوں سے ظاہر ہوتی ہیں-

ملاحظه فرمائیں چند نمونے :

اکابرین دیوبند کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے فرمایا:
’’لوگ کہتے ہیں کہ علم غیب انبیاء و اولیاء کو نہیں ہوتا مَیں کہتا ہوں کہ اہل حق جس طرف نظر کرتے ہیں دریافت و ادراک غیبات کو انکو ہوتا ہے اصل میں یہ علم حق ہے۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حدیبیہ و حضرت عائشہ( کے معاملات) سے خبر نہ تھی اس کو دلیل اپنے دعویٰ کی سمجھتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ علم کے واسطے توجہ ضروری ہے۔‘‘ [ شمائم امدادیہ:ص۶۱،امداد المشتاق: ص ۷۹۔۸۰]

اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگان ِدیوبند کے نزدیک:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو علم غیب نہیں ہوتا تو یہ بات صحیح نہیں بلکہ انبیاء و اولیاء جس طرف بھی نظر اور توجہ کرتے ہیں غیب کی چھپی باتیں ان کو دریافت اور معلوم ہو جاتی ہیں (نعوذ باللہ) -

’مولانا نانوتوی فرماتے تھے کہ شاہ عبد الرحیم صاحب ولایتی کے ایک مرید تھے جن کا نام عبداللہ خان تھا۔ اور قوم کے راجپوت تھے اور یہ حضرت کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی کے گھر میں حمل ہوتا اور وہ تعویز لینے آتا تو آپ فرما دیا کرتے تھے کہ تیرے گھر میں لڑکا ہو گا یا لڑکی۔ اور جو آپ بتلا دیتے وہی ہوتا تھا۔‘‘ [ ارواحِ ثلاثہ: ص ۱۳۹]

شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری کا قلب بڑا نورانی تھا۔ میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہو جائیں۔‘[ارواحِ ثلاثہ: ص ۳۱۹]

دیوبندی تبلیغی شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں:
’’خواجہ ابو محمد کی ہمشیرہ بھی نہایت بزرگ متقیہ تھیں ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے نکاح کی رغبت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ خواجہ ابو محمد ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہمشیرہ تمھارے پیٹ سے ایک لڑکے کا وجود جو ایک وقت میں قطب الاقطاب ہونے والا ہے مقدر ہو چکا ہے اور وہ بلا نکاح ممکن نہیں اس لیئے تم نکاح کر لو۔۔۔۔‘‘ [تاریخ مشائخ چشت:ص ۱۵۶]
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
#اسحاق سلفی #خضر حیات
بھائی اس مکمل تھریڈ کے بعد بھی ابھی تک کسی نے کنفرم نہیں کیا ، کہ آیا کہ درود سننے والی احادیث صحیح ثابت ہیں یا نہیں؟ اور اگر صحیح ثابت ہیں تو درست عقیدہ کیا ہونا چاہیے؟
وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
#اسحاق سلفی #خضر حیات
بھائی اس مکمل تھریڈ کے بعد بھی ابھی تک کسی نے کنفرم نہیں کیا ، کہ آیا کہ درود سننے والی احادیث صحیح ثابت ہیں یا نہیں؟ اور اگر صحیح ثابت ہیں تو درست عقیدہ کیا ہونا چاہیے؟
وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
#اسحاق سلفی #خضر حیات
بھائی اس مکمل تھریڈ کے بعد بھی ابھی تک کسی نے کنفرم نہیں کیا ، کہ آیا کہ درود سننے والی احادیث صحیح ثابت ہیں یا نہیں؟ اور اگر صحیح ثابت ہیں تو درست عقیدہ کیا ہونا چاہیے؟
وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
#اسحاق سلفی #خضر حیات
بھائی اس مکمل تھریڈ کے بعد بھی ابھی تک کسی نے کنفرم نہیں کیا ، کہ آیا کہ درود سننے والی احادیث صحیح ثابت ہیں یا نہیں؟ اور اگر صحیح ثابت ہیں تو درست عقیدہ کیا ہونا چاہیے؟
وضاحت فرما دیں، جزاک اللہ خیرا کثیرا
السلام علیکم
وہ احادیث یہاں پیش کریں ،ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
#محمد علی جواد صاحب،
نے اس تھریڈ کو شروع کیا اور احادیث کی تخریج پیش کی،
آپ پلیز وضاحت فرما دیں،
انکی پیش کردہ تخرج یہ ہے،


روایت نمبر۱

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو آپ پر اچھی طرح درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاید پیش کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ جلد ۱، ص ۲۵۸

عِلّت

اس حدیث کے ایک راوی مسعودی پر محدثین کی جرح موجود ہے۔ ان مسعودی کا پورا نام عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبۃ بن عبداللہ بن السدی بن المسعودی الکوفی تھا۔ بعض اآئمہ نے ان سے روایت کرنا مکروہ خیال کیا ہے، یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۰۹)

اسلئے مسعودی کے ضعف کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں۔

روایت نمبر۲

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے قریب درود پڑھتا ہے میں اسے سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود میرے پاس پہنچا دیا جا تا ہے۔

عِلّت

امام عقیلی اس روایت کو اپنی کتاب ّالضعفا الکبیرٗ میں لائے ہیں جو کہ خود اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ امام عقیلی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا اصل لہ (اسکی کوئی اصل نہیں)۔ اسکے ایک راوی محمد بن مروان کو جریر اور ابن نمیر نے کذاب، ابن حبان اور صالح بن محمد نے حدیثیں گھڑنے والا اور نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦، کتا ب الضعفا المتروکین النسائی ص ۲۱۹، الکامل فی ضعفا الرجال جلد ۷ ص ۵۱۲)۔ اس مضمون کی دوسری حدیث ابن وہب سے مروی ہے جو سارے اہل علم کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا مشہور ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳، ص ۲۷۸

روایت نمبر ۳

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ میری قبر کے قریب سلام پڑھتا ہے تو اللہ وہاں ایک فرشتہ متعین فرما دیتا ہے وہ مجھ تک سلام پہنچاتا ہے اور اس بندے کی آخرت اور دنیا کے معاملات میں کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے روز میں اس بندے کا شفیع ہونگا۔ ابو داؤد

عِلّت

اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱

اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦

روایت نمبر ٤

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱۵۰

عِلّت

اس روایت کے راوی حماد بن اسامہ نے غلطی سے اس روایت کو ثقہ راوی عبد الرحٰمن بن یزید بن جابر کیطرف منسوب کر دیا جبکہ اصل میں یہ روایت منکرالحدیث راوی عبدالرحٰمن بن یزید بن تمیم سے مروی ہے (التاریخ الکبیر جلد ۳ ص۳۶۵، التاریخ الصغیر ص۱۷۵، للمولف امام بخاری)

جبکہ امام رازی اپنی کتاب ’علل الحدیث جلد ۱ ص۱۹۷‘ میں اس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں اور اس روایت سے کسی بھی قسم کے اعتراض کو باطل گردانتے ہیں۔یہی بات امام رازی اپنی کتاب ’کتاب الجرح والتعدیل جلد۵ ص۳۰۰۔۳۰۱ میں لائے ہیں اور اس روایت کو منکر اور موضوع قرار دیا ہے۔

روایت نمبر ۵

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کاسلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

عِلّت

اسکے ایک راوی ذاذان پر شیعت کا الزام ہے اور شیعہ فرقہ اپنے آئمہ پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے ذاذان کی یہ روایت اسکے تشیع اور بدعتی عقیدے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۱۰۵)

یہ تھی وہ روایات جو کہ اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی روایت اس قابل نہیں کہ اس پر عقیدے کی بنیاد رکھی جائے، اور حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق کوئی حدیث حدیث کی تین مستند ترین کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں نہیں پائی جاتیں۔ ملتی ہیں تو اس طرح کی روایات صرف دوسرے اور تیسرے درجہ کی کتابوں میں۔

اور پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صلوٰۃوسلام شروع تو ہوتا ہے ’اللھم۔۔۔۔‘ یعنی اے اللہ۔۔۔ سے اور فرشتے اسکو لے جائیں نبیؐ کے پاس۔ صلوٰۃوسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ اور پھر دعا سب سے افضل عبادت ہے اور تمام عبادات صرف اللہ کیلئے اور اللہ کے حضور ہی پیش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبیؐ نے مسلمانوں کو التحیات میں سکھایا:

التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں

معلوم ہوا کہ انسانی اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں ہی پیش ہوتے ہیں، نبیؐ کے پاس نہیں اور جو یہ اصرار کریں کہ اعمال آپ ﷺ پر بھی پیش ہوتے ہیں تو انہوں نے نبیؐ کو اللہ کی صفات اور اختیارات میں شریک کر کے الہٰ بنالیا ہے۔لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ صلوٰۃوسلام اللہ کے بجائے یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ نبیؐ کے حضور بھی جاتا ہے صریح شرک ہے ۔ اللہ ہم کو اس طرح کے شرک سے محفوظ رکھے۔ قرآن و حدیث کے خلاف اس عقیدے کو ایمان کا حصہ بنانا کتاب اللہ کا انکار ہے جسکا انجام صرف جہنم کی آگ ہے۔
 
Top