السلام و علیکم -
آپ دانش غفّار صاحب نے آیت قرانی پیش کی ہے :
مَّا كَانَ اللّـٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَآ اَنْتُـمْ عَلَيْهِ حَتّـٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۖ فَاٰمِنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرُسُلِهٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُـوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِـيْمٌ ١٧٩
اللہ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم اب ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں جسے چاہے چن لیتا ہے (یعنی ان کو غیب کی باتوں اطلاع دے دیتا ہے) ، سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
پہلی بات یہ کہ: اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب کسی بات کی اطلاع الله رب العزت اپنے چنے ہوے رسول کو دے دیتا ہے (الوحی کے ذریے) تو وہ اس کے لئے غیب نہ رہی -غیب کا مطلب ہے کہ بغیر کسی ذریے کے کسی بات کا علم ہونا- غیب کا علم صرف الله ہی کو ہے-رسول کو بغیر وحی کے کسی بات کا علم نہیں ہوتا- جیسے اگر کوئی ڈاکٹر کسی بیماری کی وجوحات ہمیں بتاتا ہے اور ہم وہی معلومات آگے کسی کو بتا دیتے ہیں تو کیا ہم بھی ڈاکٹر کہلائیں گے ؟؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے -رسول یا نبی عالم الغیب نہیں ہو سکتا-
الله رب العزت کا واضح فرمان کہ:
قُل لَّآ أَمۡلِكُ لِنَفۡسِى نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚ وَلَوۡ كُنتُ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ لَٱسۡتَڪۡثَرۡتُ مِنَ ٱلۡخَيۡرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُۚ إِنۡ أَنَا۟ إِلَّا نَذِيرٌ۬ وَبَشِيرٌ۬ لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ (سورۃ اعراف: (١٨٨)
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے !کہ نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا مگر یہ چاہے اﷲ۔اور اگر ہوتا مجھے غیب کا علم تو ضرور حاصل کرلیتا میں بہت فائدے اورنہ پہنچتا مجھے کہیں کوئی نقصان ۔نہیں ہوں میں مگر خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ان لوگوں کے لئے جو میری بات مانیں
دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ نبی مکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا (اگرچہ وحی کے ذریے تھا) جیسا کہ اکثر بدعتی اس باطل عقیدے کے گردان کرتے نظر آتے ہیں - تو پھر یہی بدعتی اپنے پیر، نام و نہاد اولیاء بزرگوں ، عبدلقادر جیلانی ( المعروف غوث پاک)، علی رضی الله عنہ وغیرہ کو کیوں غیب کا جاننے والا ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں؟؟ جب کے سوره آل عمران کی مذکرہ بالا آیت میں تو غیب کے علم کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الله صرف رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہو اس کے لئے چن لیتا ہے- غیر نبی کا تو یہ مقام سرے سے ہے ہی نہیں-
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرک و بدعتی کی عقل الله رب العزت سلب کرلیتا ہے - تب ہی اس قسم کی خرافات ان کے زبانوں سے ظاہر ہوتی ہیں-
ملاحظه فرمائیں چند نمونے :
اکابرین دیوبند کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے فرمایا:
’’لوگ کہتے ہیں کہ علم غیب انبیاء و اولیاء کو نہیں ہوتا مَیں کہتا ہوں کہ اہل حق جس طرف نظر کرتے ہیں دریافت و ادراک غیبات کو انکو ہوتا ہے اصل میں یہ علم حق ہے۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حدیبیہ و حضرت عائشہ( کے معاملات) سے خبر نہ تھی اس کو دلیل اپنے دعویٰ کی سمجھتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ علم کے واسطے توجہ ضروری ہے۔‘‘ [ شمائم امدادیہ:ص۶۱،امداد المشتاق: ص ۷۹۔۸۰]
اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگان ِدیوبند کے نزدیک:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء کو علم غیب نہیں ہوتا تو یہ بات صحیح نہیں بلکہ انبیاء و اولیاء جس طرف بھی نظر اور توجہ کرتے ہیں غیب کی چھپی باتیں ان کو دریافت اور معلوم ہو جاتی ہیں (نعوذ باللہ) -
’مولانا نانوتوی فرماتے تھے کہ شاہ عبد الرحیم صاحب ولایتی کے ایک مرید تھے جن کا نام عبداللہ خان تھا۔ اور قوم کے راجپوت تھے اور یہ حضرت کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی کے گھر میں حمل ہوتا اور وہ تعویز لینے آتا تو آپ فرما دیا کرتے تھے کہ تیرے گھر میں لڑکا ہو گا یا لڑکی۔ اور جو آپ بتلا دیتے وہی ہوتا تھا۔‘‘ [ ارواحِ ثلاثہ: ص ۱۳۹]
شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری کا قلب بڑا نورانی تھا۔ میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہو جائیں۔‘‘ [ارواحِ ثلاثہ: ص ۳۱۹]
دیوبندی تبلیغی شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں:
’’خواجہ ابو محمد کی ہمشیرہ بھی نہایت بزرگ متقیہ تھیں ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے نکاح کی رغبت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ خواجہ ابو محمد ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہمشیرہ تمھارے پیٹ سے ایک لڑکے کا وجود جو ایک وقت میں قطب الاقطاب ہونے والا ہے مقدر ہو چکا ہے اور وہ بلا نکاح ممکن نہیں اس لیئے تم نکاح کر لو۔۔۔۔‘‘ [تاریخ مشائخ چشت:ص ۱۵۶]