• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم ﷺ کا اونٹنی کا پیشاب پلوانا اور جدید میڈیکل سائنس

جاءالحق

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
56
ڈاکٹر شبیرحافظ ابن قیم ؒ کی کتاب زادالمعاد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔ (اسلا م کے مجرم صفحہ :27)

ازالہ:۔

[JUSTIFY]ڈاکٹر شبیرنے جس قول کو نقل کیا ہے اس کی اصل صحیح بخاری میں موجود ہے ۔
عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدیۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربوا من ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )
’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا
موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاںتک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔
قارئین کرام ! اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔غالباً ڈاکٹر شبیرکی بھی یہی منشاہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں : (1) نقلاً (2) عقلاً۔
قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتۃ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ(سورۃ البقرۃ ۔آیت 172)
’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘
اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط
’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173)
اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟
ڈاکٹر شبیرنے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کیا ہے کہ (ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ) قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔[/JUSTIFY]

جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید​

[JUSTIFY]خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے دودھ میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔
عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔(علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites) (مزید معلومات کے لئے ہماری کتاب "قرآن مقدس اور حدیث مقدس" کا مطالعہ مفید رہے گا۔)[/JUSTIFY]

بشکریہ: دفاع حدیث ڈاٹ کام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا وبارك فی علمکم
قارئین کرام ! اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔غالباً ڈاکٹر شبیرکی بھی یہی منشاہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں : (1) نقلاً (2) عقلاً۔
محترم بھائی! آپ نے ذکر کیا کہ اونٹ کا پیشاب حرام ہے۔ (جو اگرچہ بعض علماء مثلاً شافعیہ وغیرہ کی رائے ہے۔) لیکن اس سلسلے میں صحیح بات یہ ہے (جو مالکیہ اور حنابلہ، بعض حنیفہ اور بعض شافعیہ کی رائے ہے) کہ ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب نجس نہیں۔ کیونکہ اس کے نجس ہونے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا جب ایک چیز نجس اور حرام ہے ہی نہیں، تو پھر اس پر ڈاکٹر شبیر ٹائپ لوگوں کا اعتراض ہی فضول ہے۔ اور آپ نے خوب کہا کہ ان لوگوں نے خود ساختہ اصول بنایا ہوا ہے کہ ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے، تو قرآن کریم میں تو کسی بھی مقام پر اونٹ کے پیشاب کو حرام نہیں قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو۔ تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی حدیث نمبر 72
واللہ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
السلام علیکم
میرے خیال میں اس بات پر بھی غور کر لیا جائے کہ نجس اور حرام میں فر ق ہوتا ہے اور کسی شیئ کے بارے اگر سلف نے یہ کہا ہے کہ وہ نجس نہیں ہے تو اس سے اس شیئ کی حلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ قاعدہ فقہیہ معروف ہے کہ کل نجس حرام و کل حرام لیس بجنس۔ یہی وجہ ہے کہ گدھا، شراب اور زہر وغیرہ اگرچہ حرام ہیں لیکن نجس نہیں ہیں۔ پس کسی کا نجس نہ ہونا اس کی حلت کی دلیل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر تو ائمہ ثلاثہ کے ہاں اونٹ کا پیشاب نجس نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حلال ہونے کی بھی صراحت ہے تو یہ پوائنٹ ویلڈ ہے ورنہ تو استثناٰء والے قول کو بیان کرنا چاہیے۔میں بھی مزید تحقیق کرلیتا ہوں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم
میرے خیال میں اس بات پر بھی غور کر لیا جائے کہ نجس اور حرام میں فر ق ہوتا ہے اور کسی شیئ کے بارے اگر سلف نے یہ کہا ہے کہ وہ نجس نہیں ہے تو اس سے اس شیئ کی حلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ قاعدہ فقہیہ معروف ہے کہ کل نجس حرام و کل حرام لیس بجنس۔ یہی وجہ ہے کہ گدھا، شراب اور زہر وغیرہ اگرچہ حرام ہیں لیکن نجس نہیں ہیں۔ پس کسی کا نجس نہ ہونا اس کی حلت کی دلیل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر تو ائمہ ثلاثہ کے ہاں اونٹ کا پیشاب نجس نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حلال ہونے کی بھی صراحت ہے تو یہ پوائنٹ ویلڈ ہے ورنہ تو استثناٰء والے قول کو بیان کرنا چاہیے۔میں بھی مزید تحقیق کرلیتا ہوں۔
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی ابو الحسن علوی بھائی! آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ

(كل نجس حرام وليس كل حرامٍ نجساً)
کہ ’’ہر نجس شے تو ناپاک ہونے کے ساتھ ساتھ حرام بھی ہوتی ہے، لیکن ہر حرام شے نجس نہیں۔ ‘‘​
بالفاظ دیگر کہ ہر ناپاک چیز حلال نہیں بلکہ حرام ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر پاک شے حلال بھی ہو۔
لیکن مسئلۂ زیر بحث (اونٹوں کے پیشاب کو پینا) میں اصل اختلاف ہی علماء کے مابین یہ ہے، کہ اصلا یہ نجس ہے یا نہیں، یعنی کہ اصلا اس کا پینا حرام تھا، لیکن فرمانِ باری ﴿ وقد فصل لكم ما حرم عليكم إلا ما اضطررتم إليه ﴾ ۔۔۔ سورة الانعام کے تحت بامر مجبوری جائز ہوا ہے، یا اصلاً ہی یہ حلال اور پاک ہے؟ بالفاظِ دیگر قبیلہ عرینہ وعکل کا اونٹوں کا پیشاب پینا اصل جواز کے مطابق تھا، یا یہ ان کے لئے استثناء تھا؟ شافعيه وغيره کے نزدیک یہ استثناء تھا، جبکہ دیگر علماء کرام﷭ کے نزدیک یہ اصلاً ہی حلال ہے، کیونکہ اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں۔ یہاں یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا ہے علماء کرام﷭ کے مابین اختلاف تو صرف اونٹوں کے پیشاب کے نجس یا پاک ہونے سے متعلق ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی درج بالا روایات میں اونٹ کے پیشاب کے پینے کا ذکر ہے۔ امام ابن المنذر﷫ نے سیدنا ابن عباس﷜ سے مرفوعاً روایت بیان کی ہے: «إن في أبوال الإبل شفاء لذربة بطونهم» دیکھئے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، حدیث نمبر 6899، امام شوکانی﷫ نے نیل الاوطار 1؍61 میں اس حدیث مبارکہ کو ثابت قرار دیا ہے۔ دیکھئے!
والله تعالىٰ اعلم
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
assalm ulukum bhai jaan.aap allah kay wastay islam ko science per mat parkeyhe.hamaray nabi ka faisla hamaray liye hujjat hai.chaye peshab penay ke baat hu.yah makhi kay per ke baat hai.muhammadu ur rasool allah kay mainay yehe hai.kay hamaray nabi sadiq hai.aur hum un ki har baat ko tahay dil say qubool kartay hai.allah hafeez
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
assalm ulukum bhai jaan.aap allah kay wastay islam ko science per mat parkeyhe.hamaray nabi ka faisla hamaray liye hujjat hai.chaye peshab penay ke baat hu.yah makhi kay per ke baat hai.muhammadu ur rasool allah kay mainay yehe hai.kay hamaray nabi sadiq hai.aur hum un ki har baat ko tahay dil say qubool kartay hai.allah hafeez
جزاکم اللہ صدیق بھائی!
بہت خوب! بہت اچھی اور ایمان افروز بات کی آپ نے! اللہ آپ کو خوش رکھیں اور تمام مسلمانوں کا ایمان اور یقین قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ پر مضبوط کر دیں! خواہ وہ ظاہری طور پر ہماری عقلوں اور علم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، جب ہم نے نبی کریمﷺ کو اللہ کا نمائندہ اور پیغمبر تسلیم کر لیا تو پھر باقی تمام باتیں ہیچ ہیں۔
 
B

Barakah

مہمان
اللہ اکبر ۔۔ بہت زبردست دندان شکن جواب ہے ۔۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم
انس بھائی یہ مسئلہ ایک اور فورم پہ کافی دن زیر بحث رہا
فریق ثانی کا کہنا ہے اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ حلال جانوروں کا پیشاب نجس نہیں تو ہندو گائے کا پیشاب پیتے ہیں آپ کیوں اعتراض کرتے ہیں؟
انس نضر بھائی اس اعتراض کے بارے میں آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ ابو الحسن علوی بھائی سے بھی علمی رہنمائی کی استدعا ہے۔
باقی جو یہ اعتراض ہم پر کرتا ہے اس کو کہنا ہے کہ اگر کوئی ہندو یہی اعتراض آپ پر کرے کہ تم ہمارے گائے کے پیشاب پینے پر اعتراض کیوں کرتے ہو کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اونٹنی کا پیشاب لوگوں کو پلوایا ہے تو پھر۔۔۔۔۔؟
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
انس نضر بھائی اس اعتراض کے بارے میں آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ ابو الحسن علوی بھائی سے بھی علمی رہنمائی کی استدعا ہے۔
باقی جو یہ اعتراض ہم پر کرتا ہے اس کو کہنا ہے کہ اگر کوئی ہندو یہی اعتراض آپ پر کرے کہ تم ہمارے گائے کے پیشاب پینے پر اعتراض کیوں کرتے ہو کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اونٹنی کا پیشاب لوگوں کو پلوایا ہے تو پھر۔۔۔۔۔؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اونٹنی کا پیشاب پینے کی جن لوگوں کو ہدایت کی تھی وہ بیمار تھے اور یہ اجازت ان کو ان کی بیماری کے سبب تھی ۔ عام طور پر اونٹنی کا پیشاب پینے کے بارے میں کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے ۔ لیکن ہندوؤں کے یہاں ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ وہ گائے کا پیشاب اس لیے پیتے ہیں کہ اسے متبرک مانتے ہیں ۔ اور عام طور پر ہندوؤں کے ہاں اس کو پیا جاتا ہے تبرک کے طور پر ۔ واللہ اعلم
 
Top