• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مسعود الدین عثمانی کی جماعت المسلمین سے مناظرہ بعنوان : قبر میں اعادہ روح

فرقہ باطلہ عثمانيہ جسکے باني مسعود الدين عثماني صاحب ہيں انکے ملتان ميں معروف مناظر مشتاق الرحمن اور انکے معاون محمد زبير ,اور جماعت اہل حديث کے محمد رفيق طاہر مدرس جامعہ دار الحديث محمديہ ملتان اور انکے معاون محمد سرور ۔
موضوع : کيا قبرو برزخ ميں مردہ کي روح اسکے جسم ميں لوٹتي ہے ؟
اور کيا اعادہ روح کا عقيدہ کتاب وسنت کے خلاف ہے يا موافق ؟؟
دوران مناظرہ اس بات کو تسليم کيا گيا کہ مرنے کے بعد روح جسم ميں لوٹ آتي ہے ليکن فرقہ عثمانيہ کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت کے دن ہوگا ہے جبکہ جماعت اہل حديث کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت سے قبل ہي ہو جاتا ہے اور عثماني مناظر کي جانب سے محمد رفيق طاہر کے سوال کا جواب نہ آنے پر مناظرہ کا دوسرا راؤنڈ شروع کر ديا گيا جس ميں انکے معاون محمد سرور نے عثماني مناظر سے اس بات پر گفتگو کي کہ کيا اعادہ روح کا عقيدہ رکھنا شرک ہے جبکہ عثماني مناظر اور انکي تمام تر ذريت برزخ ميں ايک نيا جسم دے کر اس ميں روح لوٹانے کي قائل ہے ۔ جس پر عثماني مناظرين کي جانب سے کوئي جواب نہ بن پڑا بہر حال ايک فائدہ يہ ہوا کہ اس مناظرے ميں فرقہ عثمانيہ کي جانب سے مناظر صاحب کا جو معاون تھا اللہ نے اسکو عقيدہ اہل السنہ والجماعۃ کي حقانيت سمجھا دي اور اسي طرح جن احباب کي خاطر يہ مناظرہ رکھا گيا تھا اللہ نے انہيں بھي صراط مستقيم سجھا دي ۔ فللہ الحمد والمنۃ

http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=525
رفیق طاھر,‏اکتوبر، 26, 2010
حوالہ دیکھئے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
باب الجريد على القبر:
باب:
قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا

حدیث نمبر: 1361
عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " مر بقبرين يعذبان ، فقال:‏‏‏‏ إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير اما احدهما فكان لا يستتر من البول واما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله:‏‏‏‏ لم صنعت هذا؟ فقال:‏‏‏‏ لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا ".
سیدنا عبد اللہ بن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہو رہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی (شاخ ) لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
صحیح بخاری كتاب الجنائز حدیث :1361
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔
یہ عنوان ہی غلط اور خود ساختہ ہے ، دیکھئے حدیث شریف کے الفاظ ہیں ’‘ النبي صلى الله عليه وسلم انه "
مر بقبرين يعذبان ’‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔

اب توجہ سے سنیں ، مر بقبرين يعذبان ’’ دو قبروں پر سے گزرے جن کو عذاب ہو رہا تھا’’
حالانکہ سب جانتے ہیں ،عذاب قبر کو نہیں ،بلکہ قبر کے اندر دفن بندے کو ہوتا ہے ،
لیکن چونکہ عذاب میں مبتلا آدمی قبر میں ہی تھے اوریہ قبریں عذاب کا محل تھیں اس لئے ۔ایسا فرمایا


اب داد دیجئے ان علاموں کو جو اعلان کرتے پھرتے ہیں ۔۔نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مسعود الدین عثمانی کی جماعت المسلمین سے مناظرہ بعنوان : قبر میں اعادہ روح

فرقہ باطلہ عثمانيہ جسکے باني مسعود الدين عثماني صاحب ہيں انکے ملتان ميں معروف مناظر مشتاق الرحمن اور انکے معاون محمد زبير ,اور جماعت اہل حديث کے محمد رفيق طاہر مدرس جامعہ دار الحديث محمديہ ملتان اور انکے معاون محمد سرور ۔
موضوع : کيا قبرو برزخ ميں مردہ کي روح اسکے جسم ميں لوٹتي ہے ؟
اور کيا اعادہ روح کا عقيدہ کتاب وسنت کے خلاف ہے يا موافق ؟؟
دوران مناظرہ اس بات کو تسليم کيا گيا کہ مرنے کے بعد روح جسم ميں لوٹ آتي ہے ليکن فرقہ عثمانيہ کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت کے دن ہوگا ہے جبکہ جماعت اہل حديث کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت سے قبل ہي ہو جاتا ہے اور عثماني مناظر کي جانب سے محمد رفيق طاہر کے سوال کا جواب نہ آنے پر مناظرہ کا دوسرا راؤنڈ شروع کر ديا گيا جس ميں انکے معاون محمد سرور نے عثماني مناظر سے اس بات پر گفتگو کي کہ کيا اعادہ روح کا عقيدہ رکھنا شرک ہے جبکہ عثماني مناظر اور انکي تمام تر ذريت برزخ ميں ايک نيا جسم دے کر اس ميں روح لوٹانے کي قائل ہے ۔ جس پر عثماني مناظرين کي جانب سے کوئي جواب نہ بن پڑا بہر حال ايک فائدہ يہ ہوا کہ اس مناظرے ميں فرقہ عثمانيہ کي جانب سے مناظر صاحب کا جو معاون تھا اللہ نے اسکو عقيدہ اہل السنہ والجماعۃ کي حقانيت سمجھا دي اور اسي طرح جن احباب کي خاطر يہ مناظرہ رکھا گيا تھا اللہ نے انہيں بھي صراط مستقيم سجھا دي ۔ فللہ الحمد والمنۃ

http://deenekhalis.net/play.php?catsmktba=525
رفیق طاھر,‏اکتوبر، 26, 2010
حوالہ دیکھئے
مجھے اب کہ یہ لوگ کہیں @کفایت اللہ بھائی پر بھی گمراہی کا فتویٰ نہ لگا دیں - کیوں کہ جب @محمد عامر یونس بھائی نے تحقیق حدیث کے سیکشن میں حدیث کے متعلق پوچھا -


لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...-کے-لئےقبرنبوی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/


کیا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے قبر میں درود سننے اور روح لوٹائی جانے کی حدیث صحیح ہے؟


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"۔

(ابوداؤد :2041)



تو @کفایت اللہ بھائی نے اس حدیث کی تحقیق میں کیا لکھا - اس لنک پر پڑھ لیں -


http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116123

آخر میں اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی - اور ایک نوٹ بھی لکھا - آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا لکھتے ہیں -

لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116471

اس حدیث کے متن میں شدید نکارت ہے کیونکہ اس میں دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔جیساکہ ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ.[ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} [آل عمران: 169].
صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]​
اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:
يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى
اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں [صحيح مسلم 3/ 1502]​
لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔
اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔


بعد میں انہوں نے آخر میں ایک نوٹ بھی لکھا - کیا لکھا خود دیکھ لیں


نوٹ:

واضح رہے کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ جس میں برزخ میں روح لوٹائے جانے کی بات ہے وہ صحیح ہے ۔
لیکن اس حدیث میں روح لوٹائے جانے کا جو معاملہ ہے وہ برزخی ہے کیونکہ برزخ میں سوال وجواب وغیرہ کے لئے یہ روح لوٹائی جاتی ہے ۔اورقران وحدیث میں اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔

رہی قبررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرتے وقت جواب دینے کے لئے روح کا لوٹایاجانا تو روح لوٹائے جانے کی یہ شکل پہلی شکل سے مختلف ہے کیونکہ یہاں دنیا میں موجود ایک زندہ شخص کے سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹانے کی بات ہے ۔

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حدیث میں یہ بھی آتاہے کہ مردہ تدفین کرکے جانے والوں کے قدموں کی آواز سنتاہے۔
توعرض ہے کہ اس چیز کا اعادہ روح سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں یہ آتاہے کہ مردہ کو قبرستان لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو۔ظاہرہے کہ اس چیز کا تعلق اعادہ روح سے نہیں ہے۔یہ سب برزخی معاملات ہیں دنیاوی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن دنیامیں موجودشخص کے سلام کے جواب کے لئے روح کا لوٹایا جانا یہ ایک الگ طرح کا معاملہ ہے ۔ اس اعادہ روح کے نتیجے میں زندہ اور فوت شدہ کے مابین مخاطبہ کی شکل پیداہوتی ہے جو بالکل دنیاوی معاملہ ہے اور مردوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کلیب بدر کے واقعہ میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ مشرکین سے خطاب کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانا۔کیونکہ یہاں مردہ مشرکین نے دنیا میں باحیات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کوسنا۔اوریہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے اس لئے ایک معجزہ ہے۔

واضح رہے کہ دنیاوی شخص کے سلام کا جواب دینے کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائی جانے والی روایت اگرفن حدیث کے اصولوں سے ثابت ہوجائے توہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص معاملہ تسلیم کریں گے۔
لیکن چونکہ یہ روایت فن حدیث کے اصولوں سے صحیح ثابت نہیں ہورہی ہے اورقران وحدیث کے عمومی بیان سے متصادم ہے ۔اس لئے ہم اس تصادم کو بھی بطور تائید پیش کرتے ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب۔​


مزے کی بات یہ ہے کہ @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی نے @کفایت اللہ بھائی کی ساری پیش کردہ تحقیق کو غیر متفق کیا -

اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ

@اسحاق سلفی بھائی نے ابھی تک
@کفایت اللہ بھائی
پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا - میں تو @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی کے متعلق یہی کہوں گا کہ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مجھے اب کہ یہ لوگ کہیں @کفایت اللہ بھائی پر بھی گمراہی کا فتویٰ نہ لگا دیں - کیوں کہ جب @محمد عامر یونس بھائی نے تحقیق حدیث کے سیکشن میں حدیث کے متعلق پوچھا -


لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...-کے-لئےقبرنبوی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/


کیا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے قبر میں درود سننے اور روح لوٹائی جانے کی حدیث صحیح ہے؟


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"۔

(ابوداؤد :2041)



تو @کفایت اللہ بھائی نے اس حدیث کی تحقیق میں کیا لکھا - اس لنک پر پڑھ لیں -


http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116123

آخر میں اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی - اور ایک نوٹ بھی لکھا - آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا لکھتے ہیں -

لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/د...وی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/#post-116471

اس حدیث کے متن میں شدید نکارت ہے کیونکہ اس میں دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔جیساکہ ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ.[ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} [آل عمران: 169].
صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]​
اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:
يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى
اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں [صحيح مسلم 3/ 1502]​
لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔
اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔


بعد میں انہوں نے آخر میں ایک نوٹ بھی لکھا - کیا لکھا خود دیکھ لیں

نوٹ:

واضح رہے کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ جس میں برزخ میں روح لوٹائے جانے کی بات ہے وہ صحیح ہے ۔
لیکن اس حدیث میں روح لوٹائے جانے کا جو معاملہ ہے وہ برزخی ہے کیونکہ برزخ میں سوال وجواب وغیرہ کے لئے یہ روح لوٹائی جاتی ہے ۔اورقران وحدیث میں اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔

رہی قبررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرتے وقت جواب دینے کے لئے روح کا لوٹایاجانا تو روح لوٹائے جانے کی یہ شکل پہلی شکل سے مختلف ہے کیونکہ یہاں دنیا میں موجود ایک زندہ شخص کے سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹانے کی بات ہے ۔

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ حدیث میں یہ بھی آتاہے کہ مردہ تدفین کرکے جانے والوں کے قدموں کی آواز سنتاہے۔
توعرض ہے کہ اس چیز کا اعادہ روح سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں یہ آتاہے کہ مردہ کو قبرستان لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو۔ظاہرہے کہ اس چیز کا تعلق اعادہ روح سے نہیں ہے۔یہ سب برزخی معاملات ہیں دنیاوی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن دنیامیں موجودشخص کے سلام کے جواب کے لئے روح کا لوٹایا جانا یہ ایک الگ طرح کا معاملہ ہے ۔ اس اعادہ روح کے نتیجے میں زندہ اور فوت شدہ کے مابین مخاطبہ کی شکل پیداہوتی ہے جو بالکل دنیاوی معاملہ ہے اور مردوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کلیب بدر کے واقعہ میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ مشرکین سے خطاب کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانا۔کیونکہ یہاں مردہ مشرکین نے دنیا میں باحیات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کوسنا۔اوریہ اللہ کے عام قانون کے خلاف ہے اس لئے ایک معجزہ ہے۔

واضح رہے کہ دنیاوی شخص کے سلام کا جواب دینے کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائی جانے والی روایت اگرفن حدیث کے اصولوں سے ثابت ہوجائے توہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص معاملہ تسلیم کریں گے۔
لیکن چونکہ یہ روایت فن حدیث کے اصولوں سے صحیح ثابت نہیں ہورہی ہے اورقران وحدیث کے عمومی بیان سے متصادم ہے ۔اس لئے ہم اس تصادم کو بھی بطور تائید پیش کرتے ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب۔



مزے کی بات یہ ہے کہ @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی نے @کفایت اللہ بھائی کی ساری پیش کردہ تحقیق کو غیر متفق کیا -

اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ

@اسحاق سلفی بھائی نے ابھی تک
@کفایت اللہ بھائی
پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا - میں تو @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی کے متعلق یہی کہوں گا کہ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
@کفایت اللہ بھائی کیا قبر کا عذاب دنیاوی قبر میں ہوتا ہے ؟

کیونکہ ھم سب ان صاحب کو بتا چکے ہیں آپ ہی ان کو سمجھا دے ان شاءاللہ آپ کے سمجھانے سے ان کو سمجھ آ جائے گا

جواب ضرور دے -
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
میرے پاس اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے وقت نہیں ۔
مختصرا اتنا عرض ہے کہ قران اورصحیح حدیث میں جس طرح عذاب کا ذکر ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں ۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے روح عذاب قبر اورسماع موتی پر جوکتاب لکھی ہے اسے پڑھیں ۔ بہت بہترین کتاب ہے۔ دنیاوی قبر سے متعلق ہمارا دل اسی موقف پر مطمئن ہے جسے مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں پیش کیا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@کفایت اللہ بھائی صرف یہ بتا دیں کہ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں -




دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔جیساکہ ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ.[ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} [آل عمران: 169].
صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ) [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]​
اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:
يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى
اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں [صحيح مسلم 3/ 1502]​
لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔
اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@lovelyalltime بھائی، بہت ہی لولی (lovely) باتیں کرتے ہیں آپ ماشاءاللہ، ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا آپ کہ والد محترم کے دادا جان اس دنیا میں موجود ہیں ؟، کیا انکی وفات پر کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ دنیا فانی سے رخصت ہو گئے؟ میرے بھائی جب قبر میں موجود انسان کو کوئی دنیا میں موجود نہیں سمجھتا تو اگر اسکی روح اللہ کچھ دیر کے لئے لوٹا دے تو وہ دنیا میں واپس آجاتا ہے؟ سبحان اللہ۔ اوپر بیان کردہ حدیث کو مناظراتی انداز سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو بات واضح ہو جائے گی کہ " دنیا میں واپس آنا" اور قبر میں ایک انسان کی روح کو ایک خاص مقصد کے لئے لوٹانے کا کیا مطلب ہے۔

آپ نے جو یہ فرمایا کہ:
"دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے"

یہ بات اللہ جانے آپ نے حدیث کہ کس حصہ سے اخذ کی ہے، ان لوگوں نے یہ کب کہا کے ہماری روح کو اسی جسم میں لوٹا دے جو قبر میں پڑا ہے، بلکہ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جایئں ، اس ایک جملہ سے دنیا اور قبر کا فرق واضح ہو جاتا ہے، اسی لیئے قبر کو دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی ایک منزل کہا جاتا ہے۔

اوپر درج کردہ حدیث ہی کہ الفاظ ہیں کہ:

"اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا"
تو بھائی اگر اس بات کو ویسے ہی مان لیا جائے جیسا آپ سمجھانا چاہ رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ "قیامت کے دن پھر اس قانون کی شکنی کیوں کی جائے گی" اس کا جو جواب دیا جائے گا وہی جواب قبر کے سلسلہ میں بھی حتمی ہوگا، کیونکہ قبرکا تعلق دنیا سے نہیں، آخرت سے ہے۔

حدیث پر تھوڑا غور کر لیا جائے تو ایک اور مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے، ان الفاظ پر غور کریں:

" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔"

پیارے بھائی زندہ اسی کو کیا جاتا ہے جو مردہ ہو، نئے اجسام کو پیدا یا تخلیق کیا جاتا ہے، اور روح تو مرتی نہیں۔ واللہ اعلم،

اللہ کا قانون یقینا اٹل ہوتا ہے، مگر ہم اس قانون کو ایک آیت یا ایک حدیث سے سمجھنے بیٹھ گئے تو منکرین حدیث کی طرح معجزات اور رفع و نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھی اللہ کے قانون کے خلاف سمجھ کر گمراہ ہو جایئنگے۔ اللہ ہمیشہ ہماری ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائے، آمین۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْن۔ال عمران
جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس ہیں روزیاں دیئے جاتے ہیں ۔
@محمد علی جواد بھائی، آپ نے آیت کے اس حصہ "عند ربھم" سے یہ اخذ کیا کہ وہ "اللہ کے پاس ہیں" یعنی جنت میں۔ میں چند گزارشات رکھنا چاہونگا۔ اس آیت کا ایک ترجمہ آپ نے کیا ہے، اور کچھ تراجم مندرجہ ذیل بھی ہیں، جو کہ لغت اور عرف کے اعتبار سے بھی درست ہیں، ہمیں اس ترجمہ کی ترف جانا چاہیے جس سے قرآن اور حدیث، یا قرآن کی آیات میں باہمی ٹکراو پیدا نا ہو،

1۔ جالندھری
جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
2- احمد علی
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں
ان تراجم سے بات مزید واضح ہو جاتی ہے، آپ اس کو ایک اور انداز سے سمجھیئے،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ساتھ ہوتا ہے"

یقینا اس آیت سے یہ ثابت نہیں کیا جاتا کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے ہیں،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
" وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آۓ اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے "

تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ خلط ملط ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ علم کے اعتبار سے ہے اور اس کے عرش پر ہونے کے باوجود ان کے اعمال میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں-

اس لیئے وہ عقائد جو احادیث میں موجود ہیں، اور سلف کی کثیر تعداد اس کو اپنائے ہوئے ہے، ان کو قران سے ٹکرانے کے بجائے تفھیم و تطبیق پیدا کرنی چاھئے، جزاک اللہ۔
 
Top