• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
@محمد علی جواد بھائی السلام علیکم، 3 گزارشات رکھنا چاہونگا بھائی کی خدمت میں،

آپ نے فرمایا:

""لیکن قرآن میں فرما رہا ہے کہ:

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ -مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ- ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ -
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے- اس نے کس چیز سے اس کو بنایا- ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا- پھراس پر راستہ آسان کر دیا- پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر دی-"
آگے مذید "" سوال ہے کہ جن کو زمینی گڑھا قبر کی صورت میں نہیں ملتا ان کے بارے میں روح لوٹنے کا عقیدہ آپ کس طرح ثابت کریں گے ""

بھائی اول تو آپ نے آیت پوری نہی پڑہی، [FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]"[/FONT]ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا"
اسی مضمون کی ایک اور آیت ہے:
"نْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی
اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار (قیامت کے دن) نکالیں گے۔ (طہ:۵۵)۔"
بھائی اب وہی آپکا والا سوال پیدا ہوتا ہے کہ "یہاں ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے" اور" ہر انسان کی قبر مٹی کے اندر ہی ہوتی ہے" اور " قیامت کے دن اسی مٹی میں سے اسے اٹھایا جائیگا" تو۔۔۔ فرعون اس اصول کے مطابق کس مٹی کی قبر سے اٹھے گا؟
بھائی آیت کے الفاظ ہیں کہ "اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے" ، یہ نہیں کہا گیا کہ "اسی میں تم کو واپس جانا ہے"، اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کو بھی اس اصول کے مطابق مٹی میں ہونا چاہیئے تھا، اب یا تو یہ آیت کوئی اصول نہیں بلکہ ایک عام معمول بتا رہی ہے کہ مرنے کے بعد اکثر لوگ مٹی میں جاتے ہیں، جب کہ ہندو راکھ بنا کر اڑا دیتے ہیں، یا پھر فرعون اور ہر ایسے انسان کے ساتھ کوئی الگ معاملہ کرتا ہے اللہ جس کا ہمیں علم نہیں،
اگر ان تین باتوں کو دماغ میں بٹھا لیا جائے تو قبر میں عذاب کے عقیدے کو سمجھنا اتنا مشکل نہ ہوگا:
1۔ اللہ ہر کام کرنے پر قادر ہے
2۔ ہمیں جن چیروں پر ایمان لانے کا کہا گیا ہے اس میں ایک "غیب" بھی ہے
3۔اور غیب کی باتیں، جن میں سے "روح" کا وجود بھی ہے، کہ بارہ میں اللہ فرماتا ہے " وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً (اسرائیل-85) (
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
)
تو ایک مومن کا تو شیوا ہے کہ اس "کم علم" کے معاملات کو عقلی گھوڑوں سے حل کرنے کے بجائے، ہم نے سنا اور ایمان لائے کہنے والے اصحاب رسول کی سنت پر عمل کیا جائے،

آپ نے مذید فرمایا:

"للہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ ( الانعام:6 - آيت:93 )

یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔""

اس بات پرابھی میں زیادہ نہیں کہونگا، بس ایک حدیث بیان کرونگا:
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’جب میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور مرد اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے گھر والوں سے کہتی ہے کہ ہائے بربادی مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر کوئی انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ، باب کلام المیت علی الجنازۃ۔ مسند احمد۳/۴۱، ۸۵)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو‘‘۔ اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’ہائے بربادی و افسوس مجھے تم کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ، صحیح ابن حبان ۷۶۴، مسند احمد ۲/۲۹۲، ۵۰۰)۔

آگے آپ خود سمجھدار ہیں، باقی کیلانی صاحب کی کتاب میں "برزخی قبر اور جسم" پر بحث ضرور پڑہیئے گا، جزاک اللہ۔
جزاک الله -

آپ نے قرانی آیات پیش کیں ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں -

ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (عبس:۲۱،۲۲)
(پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا-

اگر بریکٹ بغیر ترجمہ کرتے تو اس طرح بنتا ہے -
پھر اس کو موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا- (قبر کا لفظ نہیں ہے) (کہاں سے اٹھا کھڑا گا -"نْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ) اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے -(یعنی زمین سے جس سے پیدا ہوا تھا)-

یہ کب ہوگا -

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ- وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ- وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ-وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ-وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ-وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ-وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ-[/ARB]
جب سورج کی روشنی لپیٹی جائے-اور جب ستارے گر جائیں-اور جب پہاڑ چلائے جائیں-ور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں-اور جب جنگلی جانور اکھٹے ہوجائیں-اور جب سمندر جوش دیئے جائیں-اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں-

ان آیات سے واضح ہے کہ انسان اٹھ کھڑا ہوگا جب قیامت کے دن جانیں جسموں سے جانیں جوڑ دی جائیں گی - انسانوں کے ان فنا ہوے جسموں کو الله دوبارہ پیدا کرے گا اسی زمین سے اور روح جسم سے جوڑ دی جائے گی -تب ہی انسان کھڑا ہو گا اور یہ وقت قیامت کے دن ہی آے گا-

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ-ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً-فَادْخُلِي فِي عِبَادِي-وَادْخُلِي جَنَّتِي-
اے اطمینان والی روح-اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-پس میرے بندو ں میں شامل ہو-اور میری جنت میں داخل ہو-

اب سلفی بھائیوں جو مرنے کے بعد روح انسان کے قبر میں موجود جسم سے میں آنے کے قائل ہیں- وہ بتائیں کہ ان آیات سے کیا واضح ہو رہا ہے؟؟ قرآن تو قیامت سے پہلے روح کی واپسی کی نفی کر رہا ہے -

معاف کیجئے گا -یہاں پر اہل سنّت کے بڑے بڑے آئمہ و مجتہدین خود اس عقیدے میں مغالطے کا شکار ہیں -

کچھ کہتے ہیں کہ زمینی قبر میں انسان کو روح کا بغیر ہی عذاب و ثواب ہوتا ہے -
کچھ کہتے ہیں کہ روح صرف سوال و جواب کے وقت انسان میں واپس آتی ہے -ویسے نہیں آتی -
کچھ کہتے ہیں کہ مردہ سماع کرتا ہے -کچھ اس کے قائل نہیں -
کچھ کا کہنا ہے کہ قبر میں دفنانے سے پہلے انسان عذاب میں مبتلاہ ہو جاتا ہے -
اکثر اہل سنّت قبر سے برزخ مراد لیتے ہیں -(زمینی قبر نہیں)-

اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل سنّت کا زمینی قبر میں عذاب و ثواب پر اجماع ہے - ؟؟؟؟

یہ معاملہ اتنا نازک ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عقیدے کی الله قرآن میں وضاحت ہی نہ کرے - عقیدہ وہ اہم چیز ہے کہ جس کی بنیاد پر قیامت کے دن جنّت و دوزخ میں ہمیشگی کا فیصلہ ہونا ہے

میں عالم نہیں لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اہل سلف بشمول حضرت عائشہ رضی الله عنہ مردہ کی سماع موتہ کی قائل نہیں تھیں - اور مقتولین بدر کے نبی کریم کے خطاب سننے کے معاملے میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوا تو انہوں نے ہی سوره فاطر کی آیات وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ پیش کر کے یہ معاملہ صاف کردیا کہ مردے نہیں سنتے اور نہ ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم مردوں کو سنا سکتے ہیں-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:

"پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا- (قبر کا لفظ نہیں ہے)"

پیارے بھائی کل کو کوئی کہے گا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ " شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے---" صحیح نہیں کیوں کہ آیت میں " شروع کرتا ہوں" موجود نہیں۔ بھائی ایک آیت کا ترجمہ اور مفہوم دوسری آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھنا چاہیئے، آپ برائے مہربانی مندرجہ ذیل مشہور حدیث رسول پر ذرا غور کریں:

"نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :میں وہ پہلا شخص رہوں گا جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں رہوں گا، اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول ہوگی وہ میں ہى رہوں گا۔ سنن ابن ماجہ-کتاب الذھد- 4308،"

آپ نے فرمایا:
"آپ نے قرانی آیات پیش کیں ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں -" بالکل درست فرمایا، اور ایسے ہی پیارے بھائی اختلاف کی گنجائش تو صحیح حدیث میں بھی نہیں، مگر اگر کسی بھائی کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اگر دل مطمئن نہ ہو تو قرآن سے صریح دلیل پیش خدمت ہے:

وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
(الحج۷)
اور بے شک اللہ ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں (قیامت کے دن) اٹھائے گا،

اب اس آیت کے ساتھ ملا کر ان آیات کو پڑہیں:
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (عبس:۲۱،۲۲)
(پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے اٹھا کھڑا کرے گا-
خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ) اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے

بھائی اب فیصلہ پڑھنے والے پر ہے،

آپ نے جو فرمایا کہ:
ان آیات سے واضح ہے کہ انسان اٹھ کھڑا ہوگا جب قیامت کے دن جانیں جسموں سے جانیں جوڑ دی جائیں گی - انسانوں کے ان فنا ہوے جسموں کو الله دوبارہ پیدا کرے گا اسی زمین سے اور روح جسم سے جوڑ دی جائے گی -
تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں، مگر اس سے یہ ثابت کرنا کہ انسان اس زمینی قبر سے نہیں اٹھے گا، اور آیت کے مفہوم میں تحریف کرنا، تو یہ ایک مومن کا شیوہ نہین بھائی،

باقی آپ نے اہل سنت کے بڑے بڑے آئمہ اور سلفی حضرات کا اس مسئلہ میں اختلاف ذکر کیا ہے، تو بھائی آپ علماء کو ایک طرف رکھ دیں، اور دلیل جو کہ قرآن اور حدیث ہے، بس اس پہ بات کریں، کیونکہ ہر مسئلہ کا حل علماء نہیں، مندرجہ آیت ہے:

"اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ سورۃ النساء-59"
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@محمد عثمان بھائی @محمد علی جواد بھائی کی اس تحریر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے -
-

@Nasrullah khalid بھائی کی اس بات پر بھی کچھ کہ دیں -
@محمد عثمان بھائی کیا آپ @محمد علی جواد
بھائی
کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں -

جزاک الله خیراً نصراللہ بھائی - بلکل صحیح دلیل دی آپ نے - یہ تصور یا عقیدہ یعنی ایک ہی وقت میں انسان کا دو یا اس زیادہ جہانوں موجود ہونا ہمارے مسلمانوں میں اہل فارس کے باطنی مذھب اور ہندو مذہب کے اثرات کی وجہ سے وجود میں آیا ہے- اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں (واللہ اعلم )
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
@محمد علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:

"پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا- (قبر کا لفظ نہیں ہے)"

پیارے بھائی کل کو کوئی کہے گا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ " شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے---" صحیح نہیں کیوں کہ آیت میں " شروع کرتا ہوں" موجود نہیں۔ بھائی ایک آیت کا ترجمہ اور مفہوم دوسری آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھنا چاہیئے، آپ برائے مہربانی مندرجہ ذیل مشہور حدیث رسول پر ذرا غور کریں:

"نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :میں وہ پہلا شخص رہوں گا جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں رہوں گا، اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول ہوگی وہ میں ہى رہوں گا۔ سنن ابن ماجہ-کتاب الذھد- 4308،"

آپ نے فرمایا:
"آپ نے قرانی آیات پیش کیں ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں -" بالکل درست فرمایا، اور ایسے ہی پیارے بھائی اختلاف کی گنجائش تو صحیح حدیث میں بھی نہیں، مگر اگر کسی بھائی کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اگر دل مطمئن نہ ہو تو قرآن سے صریح دلیل پیش خدمت ہے:

وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
(الحج۷)
اور بے شک اللہ ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں (قیامت کے دن) اٹھائے گا،

اب اس آیت کے ساتھ ملا کر ان آیات کو پڑہیں:
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (عبس:۲۱،۲۲)
(پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے اٹھا کھڑا کرے گا-
خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ) اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے

بھائی اب فیصلہ پڑھنے والے پر ہے،

آپ نے جو فرمایا کہ:
ان آیات سے واضح ہے کہ انسان اٹھ کھڑا ہوگا جب قیامت کے دن جانیں جسموں سے جانیں جوڑ دی جائیں گی - انسانوں کے ان فنا ہوے جسموں کو الله دوبارہ پیدا کرے گا اسی زمین سے اور روح جسم سے جوڑ دی جائے گی -
تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں، مگر اس سے یہ ثابت کرنا کہ انسان اس زمینی قبر سے نہیں اٹھے گا، اور آیت کے مفہوم میں تحریف کرنا، تو یہ ایک مومن کا شیوہ نہین بھائی،

باقی آپ نے اہل سنت کے بڑے بڑے آئمہ اور سلفی حضرات کا اس مسئلہ میں اختلاف ذکر کیا ہے، تو بھائی آپ علماء کو ایک طرف رکھ دیں، اور دلیل جو کہ قرآن اور حدیث ہے، بس اس پہ بات کریں، کیونکہ ہر مسئلہ کا حل علماء نہیں، مندرجہ آیت ہے:

"اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ سورۃ النساء-59"
جزاک الله -

محترم - میں نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ انسان اسی زمین سے دوبارہ اٹھایا جائے گا -اور نہ کرسکتا ہوں- ظاہر ہے کہ انسانوں کا جسم یا ان کے اجزاء اسی زمین میں دفن ہیں - یہاں اس کو قبر اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اس کے جسم کے اجزاء کے ٹہرنے کا مقام ہے - اور عالم برزخ میں بھی ٹہرنے کا مقام ہے-

جسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ :
ﺗﻴﺖ-ﻭﻓﻲ ﺭﻭﺍﻳﺔِ ﻫﺪَّﺍﺏٍ:ﻣﺮﺭﺕُ- ﻋﻠﻰ ﻣﻮﺳﻰ ﻟﻴﻠﺔَ ﺃﺳﺮﻱَ ﺑﻲ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﻜﺜﻴﺐِ ﺍﻷﺣﻤﺮِ.ﻭﻫﻮ ﻗﺎﺋﻢٌ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻲ ﻗﺒﺮِﻩ ﺍﻟﺮﺍﻭﻱ:ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺍﻟﻤﺤﺪﺙ: ﻣﺴﻠﻢ-ﺍﻟﻤﺼﺪﺭ:ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ- ﺍﻟﺼﻔﺤﺔ ﺃﻭ ﺍﻟﺮﻗﻢ: 2375

اس حدیث سے یہ ظاہرہوتا کہ یہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے نا کہ زمینی قبر- ﻣﻮﺳﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮐﮧ ﻣﻮﺳﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺍﭘﻨﯽ زمینی ﻗﺒﺮﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ
،- جب کہ برزخ میں زندگی قرآن و صحیح حدیث دونوں سے ثابت ہوتی ہے - جیسا کہ شہداء کو جنّت میں برزخی جسم عطا ہونا اور بدکاروں کو عذاب بھگتنے کے لئے جسم عطا ہونا قران و صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے -

محترم آپ نے فرمایا کہ "بھائی آپ علماء کو ایک طرف رکھ دیں، اور دلیل جو کہ قرآن اور حدیث ہے، بس اس پہ بات کریں، کیونکہ ہر مسئلہ کا حل علماء نہیں، مندرجہ آیت ہے:گر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ سورۃ النساء-5"

تو محترم ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ علماء کی اندھی تقلید کے بجاے قرآن و حدیث کے صحیح مفہوم کو جو سلف سے ثابت ہو اس کو اپنا شعار بنایا جائے - ہم پر تو الزام ہے کہ آپ عذاب قبر کے معاملے میں "عثمانیوں" کی تقلید کرتے ہیں اور خود جب مختلف اہل سنّت کے علماء کے علم و فہم کو قران و سلف کی واضح تعلیمات پر فوقیت دی جاتی ہے تواس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا- اب یہی دیکھ لیں کہ مجھے ابھی تک کسی بھائی کی طرف سے حضرت عائشہ رضی الله عنہ کے سماع موتہ کے فتویٰ سے متعلق کوئی معقول جواب نہیں ملا - صرف میرے مراسلوں پرمجھے عثمانی ہونے کا الزام اور غیرمتفق کی ریٹنگ ہی ملی ہے-

میرے اکثر محترم سلفی بھائی یہ بات بھی ذہن میں میں رکھ لیں کہ
عثمانی "جمہوریت " کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی پر زور تائید کرتے ہیں (ان کے مضامین اس بات کا ثبوت ہیں) اور ہمارے بھی یہاں پر اکثر سلفی بھائی بشمول دور حاضر کے اکثر بڑے بڑے اہل حدیث علماء بھی جمہوریت کو جائز سمجھتے ہیں - جب کہ قرانی صریح نص اور سنّت رسول و صحابہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جمہوریت "کفرکا نظام " ہے- تو کیا میں اگر اب ان سلفی بھائیوں کو عثمانی کہنے لگوں تو کیا کوئی اس بات کو قبول کرے گا -جس طرح یہ ہمیں عثمانی کہتے ہیں - ؟؟؟

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)
 
Last edited:
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@lovelyalltime بھائی اس تحریر کے بارہ میں بعد میں کہینگے، آپ پہلے ان احادیث میں تطبیق دے دیں جس کا میں نے آپ سے سوال کیا تھا آخری پیغام میں، جزاک اللہ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی قبر کے معانی تو وہی ہیں جو قرآن میں مشہور انداذ سے استعمال ہوئے ہیں، یہ کچھ عجیب لگتا ہے کہ ایک جگہ کچھ معانی ہوں اور دوسری جگہ کچھ اور، وہ بھی کسی قرینہ کی غیر موجودگی میں، اپنی مرضی کے معانی۔ آپ ان آیات کے بارہ میں کیا کہیں گے،
1-
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ۬ مِّنۡہُم مَّاتَ أَبَدً۬ا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِۦۤ‌ۖ إِنَّہُمۡ كَفَرُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَمَاتُواْ وَهُمۡ فَـٰسِقُونَ (٨٤-التوبہ-)
اور (اے پیغمبر) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا۔ یہ خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی نافرمان (ہی مرے) -

2- يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَوَلَّوۡاْ قَوۡمًا غَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيۡهِمۡ قَدۡ يَٮِٕسُواْ مِنَ ٱلۡأَخِرَةِ كَمَا يَٮِٕسَ ٱلۡكُفَّارُ مِنۡ أَصۡحَـٰبِ ٱلۡقُبُورِ (١٣)
اے ایمان والو ان لوگوں سے (بھی ) دوستی مت کرو جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا ہے کہ وہ آخرت (کے خیروثواب ) سے ایسے ناامید ہوگئے ہیں جیسے کفار جوقبروں میں ہیں ناامید ہیں ۔ (۱۳)

بھائی پورے قرآن میں قبر کو ٹہرنے کے مقام کے معانی میں نہیں، بلکہ ایک خاص تہرنے کے مقام کے بارہ میں پیش کیا گیا ہے، اور اس مقام کے وضاحت صاف صاف کر دی گئی ہے کہ یہ مقام یہیں اسی زمین پر مٹی کے نیچے ایک گڑھے میں ہی ہے۔ اللہ جانے اتنی معمولی سی بات سمجھنے میں کیا رکاوٹ ہے۔

اب آپ ہی کے مطابق: "یک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے "

تو ہر انسان کو جو قبر ملتی ہے وہ یہی قبر ہے، اور اسی میں سے اس کو اٹھنا ہے، ہاں میرے نذدیک جیسا کہ اکثر معاملات میں Exceptional cases ہوتے ہیں، ویسا ہی معاملہ فرعون کے ساتھ ہے، اور اس کو قبر میں کیسے عزاب ہوگا، قبر کہاں ہو گی، کیسے بنی ہو گی، تو ان معاملات کہ ہم اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہیں کیونکہ ""وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً -
اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
"​
جزاک اللہ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
@محمد علی جواد بھائی قبر کے معانی تو وہی ہیں جو قرآن میں مشہور انداذ سے استعمال ہوئے ہیں، یہ کچھ عجیب لگتا ہے کہ ایک جگہ کچھ معانی ہوں اور دوسری جگہ کچھ اور، وہ بھی کسی قرینہ کی غیر موجودگی میں، اپنی مرضی کے معانی۔ آپ ان آیات کے بارہ میں کیا کہیں گے،
1-
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ۬ مِّنۡہُم مَّاتَ أَبَدً۬ا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِۦۤ‌ۖ إِنَّہُمۡ كَفَرُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَمَاتُواْ وَهُمۡ فَـٰسِقُونَ (٨٤-التوبہ-)
اور (اے پیغمبر) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا۔ یہ خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی نافرمان (ہی مرے) -

2- يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَوَلَّوۡاْ قَوۡمًا غَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيۡهِمۡ قَدۡ يَٮِٕسُواْ مِنَ ٱلۡأَخِرَةِ كَمَا يَٮِٕسَ ٱلۡكُفَّارُ مِنۡ أَصۡحَـٰبِ ٱلۡقُبُورِ (١٣)
اے ایمان والو ان لوگوں سے (بھی ) دوستی مت کرو جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا ہے کہ وہ آخرت (کے خیروثواب ) سے ایسے ناامید ہوگئے ہیں جیسے کفار جوقبروں میں ہیں ناامید ہیں ۔ (۱۳)

بھائی پورے قرآن میں قبر کو ٹہرنے کے مقام کے معانی میں نہیں، بلکہ ایک خاص تہرنے کے مقام کے بارہ میں پیش کیا گیا ہے، اور اس مقام کے وضاحت صاف صاف کر دی گئی ہے کہ یہ مقام یہیں اسی زمین پر مٹی کے نیچے ایک گڑھے میں ہی ہے۔ اللہ جانے اتنی معمولی سی بات سمجھنے میں کیا رکاوٹ ہے۔

اب آپ ہی کے مطابق: "یک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے "

تو ہر انسان کو جو قبر ملتی ہے وہ یہی قبر ہے، اور اسی میں سے اس کو اٹھنا ہے، ہاں میرے نذدیک جیسا کہ اکثر معاملات میں Exceptional cases ہوتے ہیں، ویسا ہی معاملہ فرعون کے ساتھ ہے، اور اس کو قبر میں کیسے عزاب ہوگا، قبر کہاں ہو گی، کیسے بنی ہو گی، تو ان معاملات کہ ہم اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہیں کیونکہ ""وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً -
اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
"​
جزاک اللہ۔
جزاک الله -

محترم - میرے نزیک بھی "قبر" کا عمومی مطلب یہی زمین کا وہ مقام ہے جہاں انسان کے مرنے کا بعد اجزاء دفن ہوتے ہیں - لیکن مقام علیین و سجین بھی قبر کے ہی مقامات ہیں

موطا کی حدیث میں آتا ہے کہ وہ یہودی یا یہودیہ جنازہ پر تھی-
إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جِنَازَةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا» ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِقَوْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا نَأْخُذُ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ-
بے شک الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم ایک جنازہ پر سے گزرے جس (مرنے والی) پر اس کے گھر والے رو رہے تھے- پس آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا بے شک یہ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے-

اور ہمارا اصل موضوع عذاب و راحت فی لجسد و روح ہے -کہ کیا عذاب و راحت مرنے کے بعد جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے یا برزخی قبر میں ہوتا ہے ؟؟ -اس پر قرآن کی یہ یات اپنے مفہوم کے لحاظ سے واضح ہے کہ -مردہ انسان دنیا کے معاملات کا ادراک نہیں رکھتا وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کب زندہ ہو گا -

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سورة النحل آیات ۲۰ ۔ ۲۱
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پید انہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ وہ تو مُردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔

قران کی اس دلیل سے ان روایات کو یا تو یکسر مسترد کیا جائے گا جن میں ہے کہ میت زندہ انسانوں کو احوال جانتی ہے اور ان کی فریاد یا درود سلام سنتی ہے-

یا پھر ان روایات کی تاویل کی جائے گی بلکل ایسے جیسے اماں عائشہ راضی الله عنہ نے نبی کریم کے مقتولین بدر سے خطاب سننے کے بارے میں صحابہ کرام کے مغالطے کا تدراک سوره فاطر کی آیات سے کیا تھا -

شکریہ -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436



کیا کہیں گے آپ یہاں


[B][SIZE=20px][COLOR=rgb(0, 0, 255)] سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :[/COLOR][/SIZE][/B]

[COLOR=rgb(179, 0, 0)][SIZE=20px]وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )

[/SIZE][/COLOR]

قرآن کی اس آیت کے مطابق فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں- وہ عذاب کہاں ہو رہا ہے - کیا یہ عذاب فرعون والوں کو زمینی قبر میں ہو رہا ہے یا کہیں اور - اور یہ بھی بتا دیں کہ فرعون والوں کی قبر کہاں ہے -


کیوں کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔
[COLOR=rgb(255, 0, 128)]
[B]قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ[/B][/COLOR]

[B][COLOR=rgb(0, 0, 255)]انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، [/COLOR][COLOR=rgb(255, 0, 128)]پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی[/COLOR][COLOR=rgb(0, 0, 255)]، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔ [/COLOR][/B]

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

ترجمہ کی غلطی ہو تو اصلاح کر دیں


شکریہ
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
میرے بھائی یہ جو روایت آپ نے پیش کی ہے کہ " نبی صلی الله علیہ وسلم ایک جنازہ پر سے گزرے۔۔ الخ" اس کا جواب تو پچھلے پیغام میں دے چکا ہوں میں، اگر فرست ملے تو ضرور پڑہیئے گا، اور اگر کوئی اشکال ہو تو اس پر بات کی جا سکتی ہے،

باقی رہی یہ بات کہ:

""
اہل سلف بشمول حضرت عائشہ رضی الله عنہ مردہ کی سماع موتہ کی قائل نہیں تھیں - اور مقتولین بدر کے نبی کریم کے خطاب سننے کے معاملے میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوا تو انہوں نے ہی سوره فاطر کی آیات وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ پیش کر کے یہ معاملہ صاف کردیا کہ مردے نہیں سنتے اور نہ ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم مردوں کو سنا سکتے ہیں""

بھائی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو سماع موتی کا مسئلہ سمجھنے میں کوئی مغالطہ لگا ہے، نا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو۔ میں نے اکثر سیکھا ہے فورم پر کہ سورۃ الفاطر کی اس آیت کو ہمیشہ ادھورا بیان کیا جاتا ہے، اور پوری آیت پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ پوری آیت پیش خدمت ہے:

وَمَا يَسۡتَوِى ٱلۡأَحۡيَآءُ وَلَا ٱلۡأَمۡوَٲتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسۡمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسۡمِعٍ۬ مَّن فِى ٱلۡقُبُورِ

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔

میرے بھائی اس آیت کا یہ حصہ کہ "الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے"، یہی اصل بنیاد ہے اس عقیدہ کی کہ انسان، چاہے نبی ہی کیوں نہ ہو، خود سے قبروں میں مدفون لوگوں کو کچھ نہیں سنا سکتا، ہاں اگر اللہ چاھے تو کچھ بھی سنوا سکتا ہے، اس کی مثال ایسے لیجیئے کہ مردہ کو زندہ صرف اللہ کر سکتا ہے، مگر ایک نبی (عیسی علیہ السلام) اگر زندہ کرتا ہے تو اللہ کے چاھنے کے سبب، اس کے اذن سے، اور یہ فعل نہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے، نہ عقل صحیح کے،

اس لیئے جیسے اگر آپ کے بقول صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں غلطی لگ سکی ہے، تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالہ عنہا کو بھی لگ سکتی ہے، اور اسی لیئے قرآن میں آپس کے اختلاف کے وقت سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی مخاطب کر کہ فرمایا:

"يا ايّہا الّذينء امنوا اطيعوا اللّہ و اطيعوا الرّسول و اولي الامرمنکم فان تنٰازعتم في شي ئٍ فرُدّوہ الي اللّہ و الرّسول ان کنتم تومنون باللّہ و اليوم الاٰخر ذلک خير واحسن تاويلا"
"
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ہمارا اصل موضوع عذاب و راحت فی لجسد و روح ہے -کہ کیا عذاب و راحت مرنے کے بعد جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے یا برزخی قبر میں ہوتا ہے ؟؟
 
Top