محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
جزاک الله -@محمد علی جواد بھائی السلام علیکم، 3 گزارشات رکھنا چاہونگا بھائی کی خدمت میں،
آپ نے فرمایا:
""لیکن قرآن میں فرما رہا ہے کہ:
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ -مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ- ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ -
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے- اس نے کس چیز سے اس کو بنایا- ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا- پھراس پر راستہ آسان کر دیا- پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر دی-"
آگے مذید "" سوال ہے کہ جن کو زمینی گڑھا قبر کی صورت میں نہیں ملتا ان کے بارے میں روح لوٹنے کا عقیدہ آپ کس طرح ثابت کریں گے ""
بھائی اول تو آپ نے آیت پوری نہی پڑہی، [FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]"[/FONT]ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا"
اسی مضمون کی ایک اور آیت ہے:
"نْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی
اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار (قیامت کے دن) نکالیں گے۔ (طہ:۵۵)۔"
بھائی اب وہی آپکا والا سوال پیدا ہوتا ہے کہ "یہاں ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے" اور" ہر انسان کی قبر مٹی کے اندر ہی ہوتی ہے" اور " قیامت کے دن اسی مٹی میں سے اسے اٹھایا جائیگا" تو۔۔۔ فرعون اس اصول کے مطابق کس مٹی کی قبر سے اٹھے گا؟
بھائی آیت کے الفاظ ہیں کہ "اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے" ، یہ نہیں کہا گیا کہ "اسی میں تم کو واپس جانا ہے"، اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کو بھی اس اصول کے مطابق مٹی میں ہونا چاہیئے تھا، اب یا تو یہ آیت کوئی اصول نہیں بلکہ ایک عام معمول بتا رہی ہے کہ مرنے کے بعد اکثر لوگ مٹی میں جاتے ہیں، جب کہ ہندو راکھ بنا کر اڑا دیتے ہیں، یا پھر فرعون اور ہر ایسے انسان کے ساتھ کوئی الگ معاملہ کرتا ہے اللہ جس کا ہمیں علم نہیں،
اگر ان تین باتوں کو دماغ میں بٹھا لیا جائے تو قبر میں عذاب کے عقیدے کو سمجھنا اتنا مشکل نہ ہوگا:
1۔ اللہ ہر کام کرنے پر قادر ہے
2۔ ہمیں جن چیروں پر ایمان لانے کا کہا گیا ہے اس میں ایک "غیب" بھی ہے
3۔اور غیب کی باتیں، جن میں سے "روح" کا وجود بھی ہے، کہ بارہ میں اللہ فرماتا ہے " وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً (اسرائیل-85) (
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے)
تو ایک مومن کا تو شیوا ہے کہ اس "کم علم" کے معاملات کو عقلی گھوڑوں سے حل کرنے کے بجائے، ہم نے سنا اور ایمان لائے کہنے والے اصحاب رسول کی سنت پر عمل کیا جائے،
آپ نے مذید فرمایا:
"للہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ ( الانعام:6 - آيت:93 )
یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔""
اس بات پرابھی میں زیادہ نہیں کہونگا، بس ایک حدیث بیان کرونگا:
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’جب میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور مرد اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے گھر والوں سے کہتی ہے کہ ہائے بربادی مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر کوئی انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ، باب کلام المیت علی الجنازۃ۔ مسند احمد۳/۴۱، ۸۵)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو‘‘۔ اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’ہائے بربادی و افسوس مجھے تم کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ، صحیح ابن حبان ۷۶۴، مسند احمد ۲/۲۹۲، ۵۰۰)۔
آگے آپ خود سمجھدار ہیں، باقی کیلانی صاحب کی کتاب میں "برزخی قبر اور جسم" پر بحث ضرور پڑہیئے گا، جزاک اللہ۔
آپ نے قرانی آیات پیش کیں ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں -
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (عبس:۲۱،۲۲)
(پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا-
اگر بریکٹ بغیر ترجمہ کرتے تو اس طرح بنتا ہے -
پھر اس کو موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا- (قبر کا لفظ نہیں ہے) (کہاں سے اٹھا کھڑا گا -"نْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ) اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے -(یعنی زمین سے جس سے پیدا ہوا تھا)-
یہ کب ہوگا -
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ- وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ- وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ-وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ-وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ-وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ-وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ-[/ARB]
جب سورج کی روشنی لپیٹی جائے-اور جب ستارے گر جائیں-اور جب پہاڑ چلائے جائیں-ور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں-اور جب جنگلی جانور اکھٹے ہوجائیں-اور جب سمندر جوش دیئے جائیں-اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں-
ان آیات سے واضح ہے کہ انسان اٹھ کھڑا ہوگا جب قیامت کے دن جانیں جسموں سے جانیں جوڑ دی جائیں گی - انسانوں کے ان فنا ہوے جسموں کو الله دوبارہ پیدا کرے گا اسی زمین سے اور روح جسم سے جوڑ دی جائے گی -تب ہی انسان کھڑا ہو گا اور یہ وقت قیامت کے دن ہی آے گا-
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ-ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً-فَادْخُلِي فِي عِبَادِي-وَادْخُلِي جَنَّتِي-
اے اطمینان والی روح-اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-پس میرے بندو ں میں شامل ہو-اور میری جنت میں داخل ہو-
اب سلفی بھائیوں جو مرنے کے بعد روح انسان کے قبر میں موجود جسم سے میں آنے کے قائل ہیں- وہ بتائیں کہ ان آیات سے کیا واضح ہو رہا ہے؟؟ قرآن تو قیامت سے پہلے روح کی واپسی کی نفی کر رہا ہے -
معاف کیجئے گا -یہاں پر اہل سنّت کے بڑے بڑے آئمہ و مجتہدین خود اس عقیدے میں مغالطے کا شکار ہیں -
کچھ کہتے ہیں کہ زمینی قبر میں انسان کو روح کا بغیر ہی عذاب و ثواب ہوتا ہے -
کچھ کہتے ہیں کہ روح صرف سوال و جواب کے وقت انسان میں واپس آتی ہے -ویسے نہیں آتی -
کچھ کہتے ہیں کہ مردہ سماع کرتا ہے -کچھ اس کے قائل نہیں -
کچھ کا کہنا ہے کہ قبر میں دفنانے سے پہلے انسان عذاب میں مبتلاہ ہو جاتا ہے -
اکثر اہل سنّت قبر سے برزخ مراد لیتے ہیں -(زمینی قبر نہیں)-
اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہل سنّت کا زمینی قبر میں عذاب و ثواب پر اجماع ہے - ؟؟؟؟
یہ معاملہ اتنا نازک ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عقیدے کی الله قرآن میں وضاحت ہی نہ کرے - عقیدہ وہ اہم چیز ہے کہ جس کی بنیاد پر قیامت کے دن جنّت و دوزخ میں ہمیشگی کا فیصلہ ہونا ہے
میں عالم نہیں لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اہل سلف بشمول حضرت عائشہ رضی الله عنہ مردہ کی سماع موتہ کی قائل نہیں تھیں - اور مقتولین بدر کے نبی کریم کے خطاب سننے کے معاملے میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوا تو انہوں نے ہی سوره فاطر کی آیات وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ پیش کر کے یہ معاملہ صاف کردیا کہ مردے نہیں سنتے اور نہ ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم مردوں کو سنا سکتے ہیں-