میرے بھائی یہ جو روایت آپ نے پیش کی ہے کہ " نبی صلی الله علیہ وسلم ایک جنازہ پر سے گزرے۔۔ الخ" اس کا جواب تو پچھلے پیغام میں دے چکا ہوں میں، اگر فرست ملے تو ضرور پڑہیئے گا، اور اگر کوئی اشکال ہو تو اس پر بات کی جا سکتی ہے،
باقی رہی یہ بات کہ:
""
اہل سلف بشمول حضرت عائشہ رضی الله عنہ مردہ کی سماع موتہ کی قائل نہیں تھیں - اور مقتولین بدر کے نبی کریم کے خطاب سننے کے معاملے میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوا تو انہوں نے ہی سوره فاطر کی آیات وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ پیش کر کے یہ معاملہ صاف کردیا کہ مردے نہیں سنتے اور نہ ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم مردوں کو سنا سکتے ہیں""
بھائی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو سماع موتی کا مسئلہ سمجھنے میں کوئی مغالطہ لگا ہے، نا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو۔ میں نے اکثر سیکھا ہے فورم پر کہ سورۃ الفاطر کی اس آیت کو ہمیشہ ادھورا بیان کیا جاتا ہے، اور پوری آیت پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ پوری آیت پیش خدمت ہے:
وَمَا يَسۡتَوِى ٱلۡأَحۡيَآءُ وَلَا ٱلۡأَمۡوَٲتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسۡمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسۡمِعٍ۬ مَّن فِى ٱلۡقُبُورِ
اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔
میرے بھائی اس آیت کا یہ حصہ کہ "الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے"، یہی اصل بنیاد ہے اس عقیدہ کی کہ انسان، چاہے نبی ہی کیوں نہ ہو، خود سے قبروں میں مدفون لوگوں کو کچھ نہیں سنا سکتا، ہاں اگر اللہ چاھے تو کچھ بھی سنوا سکتا ہے، اس کی مثال ایسے لیجیئے کہ مردہ کو زندہ صرف اللہ کر سکتا ہے، مگر ایک نبی (عیسی علیہ السلام) اگر زندہ کرتا ہے تو اللہ کے چاھنے کے سبب، اس کے اذن سے، اور یہ فعل نہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے، نہ عقل صحیح کے،
اس لیئے جیسے اگر آپ کے بقول صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں غلطی لگ سکی ہے، تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالہ عنہا کو بھی لگ سکتی ہے، اور اسی لیئے قرآن میں آپس کے اختلاف کے وقت سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی مخاطب کر کہ فرمایا:
"يا ايّہا الّذينء امنوا اطيعوا اللّہ و اطيعوا الرّسول و اولي الامرمنکم فان تنٰازعتم في شي ئٍ فرُدّوہ الي اللّہ و الرّسول ان کنتم تومنون باللّہ و اليوم الاٰخر ذلک خير واحسن تاويلا"
"
محترم -
پہلی بات تو یہ کہ اماں عائشہ رضی الله عنہ نے صحابہ کرام کے سماع موتہ کے مغالطے کو دور کرنے کے لئے سوره فاطر کی آیت کے آخری الفاظ ہی پیش کیے -اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس موقعے پر کسی صحابی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہ کی سماع موتہ کی تفسیر سے اختلاف نہیں کیا - جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اجتہاد بلکل صحیح اور عین قران کی آیات کے حکم کے مطابق تھا کہ مردہ نہیں سنتا -
دوسری بات جو آپ نے کہی کہ پوری آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
"
الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے"، یہی اصل بنیاد ہے اس عقیدہ کی کہ انسان، چاہے نبی ہی کیوں نہ ہو، خود سے قبروں میں مدفون لوگوں کو کچھ نہیں سنا سکتا، ہاں اگر اللہ چاھے تو کچھ بھی سنوا سکتا ہے، اس کی مثال ایسے لیجیئے کہ مردہ کو زندہ صرف اللہ کر سکتا ہے، مگر ایک نبی (عیسی علیہ السلام) اگر زندہ کرتا ہے تو اللہ کے چاھنے کے سبب، اس کے اذن سے، اور یہ فعل نہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے، نہ عقل صحیح کے،
تو اس بات میں کوئی شک نہیں -لیکن محترم یہ ایک استثنائی صورت کا بیان ہے جو ایک معجزے کے وقت ہی پیدا ہوتی ہے اور اس صورت کو عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا - یعنی اگر ہم بالفرض محال یہ مان بھی لیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا اجتہاد صحیح نہیں تھا اور وہ غلطی پر تھیں تو بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہ جا سکتا ہے کہ مقتولین بدر کا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا خطاب سننا صرف ایک معجزے کے تحت تھا اور چوں کہ نبی کریم کی وفات کے بعد اب نبوت ختم ہو چکی تو اب معجزے کی یہ استثنائی صورتیں بھی باقی نہیں رہیں - یعنی اب کوئی یہ دعوا نہیں کرسکتا کہ مجھے الله نے یہ معجزہ عطا کیا ہے کہ میں مردوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں الله کے ازن سے سنوا سکتا ہوں -
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سوره فاطر کی اس آیت میں الله نے صرف اپنی قدرت کو بیان کیا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے چاہے تو ایک مردہ انسان کو کسی نبی کی آواز سنوا دے -چاہے تو آگ کو حضرت ابراہیم علیہ سلام کے لئے گلزار کردے (جب کہ آگ کا کام جلانا ہے- اب اگر کوئی کہے کہ جب الله ہرچیز پر قادر ہے تو آج کل بھی کسی انسان کے لئے آگ گلزار بن سکتی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل قبول سمجھی جائے گی؟؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں- باوجود اس کے کہ اللہ اس پر قادر ہے لیکن یہ الله کی سنّت نہیں - اسی طرح یہ بھی الله کی سنّت نہیں کہ ہر وقت ہر لمحہ ہر مردہ انسان کو جب وہ فوت ہو اس کو سنوانا شروع کردے یہ اس کے اصولوں کے خلاف ہے - )
سماع موتہ سے متعلق یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں کہ جن کی بنا پر لوگوں میں شرک تیزی سے پھیل رہا ہے -
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین )-