اس میں کوئی لنک بھی کام نہیں کر رہا ہے
ندائے یا محمدﷺ پر صحیح حدیث ثابت ہے حضرت ابن عمر ؓ سے جب انکا پاون شل ہو گیا تو انہوں نے پکارا یا محمد تو انکا پاوں صحیح ہو گیا
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اور سند میں کوئی ایسی علت نہیں جسکی وجہ سے اسکی تضعیف کی جا سکے جسکو اس روایت کو ضعیف ثابت کرنا ہو تو اس پر نیا تھریڈ بنا سکتا ہے
عبداللہ ابن عمر سے مروی روایت صحیح نہیں ہے ۔
آپ سب سے پہلے تو سند نقل کریں اور ساتھ میں حوالہ بھی دیں ۔
اس روایت کے بارے میں مختصر یہ ہے کہ
اس کی سند میں
ابو اسحاق ہے جو کہ مدلس ہے اور مختلط بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ حدیث صحابہ کرام کے خود اپنے عمل کی بھی خلاف ہے ۔ کیونکہ لفظ یا محمد کہنا بے ادبی کے معنی میں لیا جاتا تھا۔
"قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے "
1 اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں (4)اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ غفور ورحیم ہے (5)
اس آیت کے شان نزول میں
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ۔
کچھ دیہاتی کھٹے ہو کے کہنے لگے کہ اس شخص کے پاس چلو( جس نے نبوت کا دعوی کیا ہے)اگر وہ نبی ہے تو اسے قبول کرنے کے حقدار سب سے پہلے ہم ہیں ۔اور اگر وہ بادشاہ بننا چاہتا ہے تو ہم بھی اس کے پیروں تلے پل جائیں گے (یعنی دنیا کا فائدہ حاصل کریں گے ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر جو کچھ سنا بیان کردیا۔پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے کھڑے ہوکر یا محمد ۔۔۔۔ یا محمد پکارنے لگے تو پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ۔
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں (4)اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ غفور ورحیم ہے (5)
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑا
اور کہا کیا زید تیری کہی ہوئی بات سچ ہوئی ۔
متعدد مفسرین نے اسی آیت کے شان نزول میں اسی حدیث کو بیان کیا ہے اللہ تعالی کو یہ کلمہ پسند نہیں کے کوئی اس کے حبیب کو یا محمد کہہ کے پکارے ۔
ایک یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتا ہے اور کہتا ہے یا محمد تو ایک صحابی اسے دھکا مارتے ہیں کہ وہ گرتے گرتے بچتا ہے اس نے پوچھا کہ دھکا کیوں مارا تو صحابی نے کہا یا محمد نہیں یا رسول اللہ کا ہو اور آپ اس پر خاموش رہتے ہیں ۔
الغرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام کافروں سے سے بھی یا محمد نہیں کہلوانا پسند کرتے تھے تو خود کہاں سے یا محمد کہہ کے استمداد کرتے ۔