• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ندائے یارسول اللہ ﷺ کا تاریخی تسلسل

شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
جو قیاس آپنے کیے ہوئے ہیں اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ مضبوط دلائل سے میں آپکے قیاس کا رد کر سکتا ہوں
برائے مہربانی وہ مضبوط دلیل پیش کریں تاکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہو ۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
پہلی بات تو آپ میری تحریر پھر سے پڑھیں اگر چشمہ لگاتے ہو تو صاف کر کے پڑھیں میں نے کہیں بھی اپنی رائے نہیں دی بلکہ شان نزول بیان کرتے ہوئے زید بن ارقم کا واقعہ نقل کیا یہ پڑھ کر آپ کو دھکا ضرور لگا اس لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔

احمد رضا خان صاحب بھی ندا یا محمد کہنے کے قائل نہیں تھے لکھتے ہیں ۔۔
" حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک لیکر ندا کرنی ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ( روحوں کی دنیا صفحہ 245 )


تو جب صحیح نہیں تو یہ کلمہ کیسے تعظیمی ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالی نے خود دو آیتوں میں اسے کہنے سے روکا ہے اس کے علاوہ اور بھی حوالے جات دیئے جاسکتے ہیں جس میں یہ صراحت ہے کہ یا محمد کلمے تعظیمی نہیں ہے مسلمان کے لیے ۔ اور آپ تو حدیث پیش کرکے عقیدہ بنا رہے ہیں ماشاءاللہ ۔


آپکو معلوم ہی نہیں آپکا قیاس کیا ہے ۔۔۔۔۔
جو تفسیر پیش کی جو آیات پیش کی ہیں اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جس آیت میں یا محمد ہو وہ حدیث ضعیف سمجھی جائے گی یا منسوخ سمجھی جائے گی ؟؟؟؟
جبکہ نبی کریم کی زندگی اور بعد میں لوگ کلام ، دعا کی شکل میں یا محمد استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ نبی کریم سے خود جس صحابی کو دعا سکھلائی اس میں بھی یا محمد ہے تو کیا اب آپ ساری احادیث صحیحیہ کو رد کر دینگے ؟؟؟

جبکہ اعلیٰ حضرت کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں یہ بات ہے کہ ندا یا محمد کرنا حرام ہے تو اسی فتاویٰ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جہاں احادیث میں یا محمد آیا ہے وہاں تبدیل کر کے یا رسول اللہ لکھ دیا جائے
نہ کہ احادیث اور روایات کو ہی رد کر دیا جائے
جیسا کہ آپ یہاں پر اپنا قیاس گھسیڑ رہے ہیں ایک روایت استغاثہ کی ہے اسکو یا محمد کہہ کر رد کر دینا کیا صحیح احادیث میں یا محمد نہیں آیا ؟
یہ لیں حوالہ ، ترمذی و ابن ماجہ کا جو روایت متفقہ علیہ صحیح ہے محدثین کے نزدیک اس میں دعا کے کلمات میں بھی محمد کے الفاظ ہیں
اور یا محمد کی تصریح بھی ہے

1385 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ» فَقَالَ: ادْعُهْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» . قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
(سنن ابن ماجہ صحیح )


3578- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ البَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي قَالَ: إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ. قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَهُوَ الْخَطْمِيُّ.
(سنن ترمذی صحیح )

اب اپنا قیاس شریف ادھر بھی گھسا دیں کہ یہ دعا اب کرنی حرام ہے اور یہ روایت بھی ضعیف ہے

تبھی کہا ہے کہ دلائل عمومی سے مسلہ خاص پر اسکو چپکا دینا اپنے قیاس سے اور پھر کہنا ہم نے قیاس بھی نہیں کیا تو اسکو کم عقلی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ؟

تو ثابت ہوا جہاں یا محمد آیا ہے ادبا اسکو یا رسول اللہ پڑھا و لکھا جائے لیکن فی نفسی مسلہ جو ہے وہ ویسے ثابت رہے گا

تو حضرت ابن عمر کی روایت سے فی نفسی جو مسلہ ثابت ہوتا ہے وہ مدد اور یاد کرتے ہوئے انکو یاد کرنا روایت میں یا محمد ہے تو ہم اب اس استغاثہ کرتے ہوئے یا رسول اللہ کہیں دیں

لیکن یہ نہیں ہوگا کہ یا محمد آ گیا اوہو اب تو یہ روایت ضعیف ہوگئی
میاں یوں کئی روایات سے ہاتھ دھو بیٹھو گے

اور ندا جو نبی کریم سے محبت ، یاد اور نعت و کلام اور دعا میں استعمال ہوتاہے اسکا حکم اسکے اندر نہیں اگر ہے تو تصریح دیں
ورنہ اپنا قیاس اپنے پاس رکھیں تبھی کہا تھا


upload_2020-4-11_23-46-56.png
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
حافظ زبیر علی زئی بےشک علمی شخصیت ہے ۔پر اصول حدیث میں کسی ایک شخص کی تحقیق پر اعتماد نہیں کیا جاتا علمائے ناقدین کی تحقیق معتبر ہوتی ہے اسی لئے آپ اپنا مسئلہ لکھیں ۔۔!
جناب میں نے آپ سے یہ نہیں پوچھا زبیر صاحب کیسے عالم تھے

میں نے یہ عرض کی کہ آپکو زبیر زئی صاحب کے اس اصول سے اختلاف ہے یا اتفاق ہے ؟
اگر اختلاف ہے تو بتائیں اگر نہیں تو میں پھر آگے دلائل پیش کروں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@سلطان ملک بھائی! یہاں سے دیکھ لیں، کتاب ڈاؤنلوڈ ہونی چاہیئے!
@اسد الطحاوی الحنفی بھائی! سنن ابن ماجہ کی اس مرفوع روایت کو صحيح کہا گیا ہے!
مگر یہ کسی میت کی ذات کے وسیلہ کی دلیل نہیں! نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی، نہ کسی پیر بزرگ ولی اور بابے کی میت کی!
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
آپکو معلوم ہی نہیں آپکا قیاس کیا ہے ۔۔۔۔۔
جو تفسیر پیش کی جو آیات پیش کی ہیں اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جس آیت میں یا محمد ہو وہ حدیث ضعیف سمجھی جائے گی یا منسوخ سمجھی جائے گی ؟؟؟؟
جبکہ نبی کریم کی زندگی اور بعد میں لوگ کلام ، دعا کی شکل میں یا محمد استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ نبی کریم سے خود جس صحابی کو دعا سکھلائی اس میں بھی یا محمد ہے تو کیا اب آپ ساری احادیث صحیحیہ کو رد کر دینگے ؟؟؟


یہ ہمارا بنیادی اصول ہے کہ ہم اب عقائد میں قیاس نہیں کرتے اور نہ میں نے اس حدیث کو بطور قیاس ضعیف ثابت کیا ہے بلکہ میں نے اس کے اندر دو علّت بیان کاری ہے۔ پہلی ابواسحاق سے کہ وہ مدلس اور مختلط ہیں دوسری اس حدیث کے متن کے اعتبار سے کہ کسی صحابی کی یہ شان نہیں خاص طور پر ابن عمر جیسے عمدہ صحابی کی یہ شان نہیں کہ وہ نبی کو یا محمد کہہ کے پکارے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نام لیکر پکارنا آپ کے ادب کے خلاف ہے اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کی کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا ذاتی نام لیکر نہیں نہیں مخاطب ہوتے تھے
"میری بات پر ذرادھیان دے کہ صرف یا محمد " کوئی صحابی آپ سے مخاطب نہیں ہوتا تھا کیوں کہ قرآن میں اس کی مذمت ہے۔۔۔ آپ کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی ۔


جبکہ اعلیٰ حضرت کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں یہ بات ہے کہ ندا یا محمد کرنا حرام ہے تو اسی فتاویٰ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جہاں احادیث میں یا محمد آیا ہے وہاں تبدیل کر کے یا رسول اللہ لکھ دیا جائے
نہ کہ احادیث اور روایات کو ہی رد کر دیا جائے
جیسا کہ آپ یہاں پر اپنا قیاس گھسیڑ رہے ہیں ایک روایت استغاثہ کی ہے اسکو یا محمد کہہ کر رد کر دینا کیا صحیح احادیث میں یا محمد نہیں آیا ؟
یہ لیں حوالہ ، ترمذی و ابن ماجہ کا جو روایت متفقہ علیہ صحیح ہے محدثین کے نزدیک اس میں دعا کے کلمات میں بھی محمد کے الفاظ ہیں
اور یا محمد کی تصریح بھی ہے

1385 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ» فَقَالَ: ادْعُهْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» . قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
(سنن ابن ماجہ صحیح )
آپ تبدیل کرکے کچھ بھی کرلیں یہ آپ کی مرضی ہے آپ نے اسلام کو تبدیل کردیا یہ تو پھر بھی حدیث کا مفہوم ہے ایک حدیث پر سند کے اعتبار سے کلام ہے اور اس حدیث کا متن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کا احترام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اسکے خلاف ہے عقائد میں دلیل بنانا تو دور کی بات ۔۔۔۔۔ تسلیم نہیں کرتے !

اور آپ نے جو حدیث بھیجی ہے یہ میرے موافق ہے اس کے الفاظ پر شاید آپ نے خود دھیان نہیں دیا لفظ یہ ہیں "بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ "
یہاں نبی الرحمہ کا لفظ ہے اور ہماری بحث لفظی صرف یا محمد پر ہورہی ہے کیونکہ آپ کی مستدل حدیث میں صرف یا محمد کا لفظ ہے لہذا یہ آپ کی دلیل نہیں ۔
اور ترمذی والی حدیث میں بھی لفظ " بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ " ہے بحث اس پر نہیں ہے اس میں بھی محمد کے ساتھ نبی کا لفظ جڑا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور میرا دعوی ہے کی کوئی صحابی آپ کی حیات میں آپ کے سامنے آپ کو یا محمد کہہ کر مخاطب نہیں کرتا تھا ۔آپ کو یہ بات اس لیے تسلیم نہیں کیونکہ آپ کا دارومدار انہی روایتوں پر ہے جانکی سندو میں شدید کلام ہے اس لیے آپ کا پریشان ہونا لازم ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@سلطان ملک بھائی! یہاں سے دیکھ لیں، کتاب ڈاؤنلوڈ ہونی چاہیئے!
@اسد الطحاوی الحنفی بھائی! سنن ابن ماجہ کی اس مرفوع روایت کو صحيح کہا گیا ہے!
مگر یہ کسی میت کی ذات کے وسیلہ کی دلیل نہیں! نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی، نہ کسی پیر بزرگ ولی اور بابے کی میت کی!

جناب من اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کیا نہیں یہ محدثین بتائیں گے
میں نے فقط دلیل دی کہ یا محمد تو اس میں بھی ہے تو کیا یا محمد آگیا ہے تو روایت رد ہوجانی چاہیے جوقرآن کی آیات انہوں نے لگا دی تھی یہ مرفوع روایت بھی انکی پیش کردہ قرآنی آیات کی روشنی میں رد ہونگی انکے قیاس کے مطابق یا نہیں ؟
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
یہ ہمارا بنیادی اصول ہے کہ ہم اب عقائد میں قیاس نہیں کرتے اور نہ میں نے اس حدیث کو بطور قیاس ضعیف ثابت کیا ہے بلکہ میں نے اس کے اندر دو علّت بیان کاری ہے۔ پہلی ابواسحاق سے کہ وہ مدلس اور مختلط ہیں دوسری اس حدیث کے متن کے اعتبار سے کہ کسی صحابی کی یہ شان نہیں خاص طور پر ابن عمر جیسے عمدہ صحابی کی یہ شان نہیں کہ وہ نبی کو یا محمد کہہ کے پکارے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نام لیکر پکارنا آپ کے ادب کے خلاف ہے اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کی کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا ذاتی نام لیکر نہیں نہیں مخاطب ہوتے تھے
"میری بات پر ذرادھیان دے کہ صرف یا محمد " کوئی صحابی آپ سے مخاطب نہیں ہوتا تھا کیوں کہ قرآن میں اس کی مذمت ہے۔۔۔ آپ کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی ۔




آپ تبدیل کرکے کچھ بھی کرلیں یہ آپ کی مرضی ہے آپ نے اسلام کو تبدیل کردیا یہ تو پھر بھی حدیث کا مفہوم ہے ایک حدیث پر سند کے اعتبار سے کلام ہے اور اس حدیث کا متن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کا احترام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اسکے خلاف ہے عقائد میں دلیل بنانا تو دور کی بات ۔۔۔۔۔ تسلیم نہیں کرتے !

اور آپ نے جو حدیث بھیجی ہے یہ میرے موافق ہے اس کے الفاظ پر شاید آپ نے خود دھیان نہیں دیا لفظ یہ ہیں "بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ "
یہاں نبی الرحمہ کا لفظ ہے اور ہماری بحث لفظی صرف یا محمد پر ہورہی ہے کیونکہ آپ کی مستدل حدیث میں صرف یا محمد کا لفظ ہے لہذا یہ آپ کی دلیل نہیں ۔
اور ترمذی والی حدیث میں بھی لفظ " بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ " ہے بحث اس پر نہیں ہے اس میں بھی محمد کے ساتھ نبی کا لفظ جڑا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور میرا دعوی ہے کی کوئی صحابی آپ کی حیات میں آپ کے سامنے آپ کو یا محمد کہہ کر مخاطب نہیں کرتا تھا ۔آپ کو یہ بات اس لیے تسلیم نہیں کیونکہ آپ کا دارومدار انہی روایتوں پر ہے جانکی سندو میں شدید کلام ہے اس لیے آپ کا پریشان ہونا لازم ہے ۔

جناب من جواب بنا نہیں آپ سے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى

اور جو قرآن کی آیت پیش کی تھی اس میں یہ تخصیص ہے کہ نبی کانام محمد لے سکتے ہو جب نبی لفظ ساتھ ہو ؟
قیاس جڑ دیا آپنے ؟؟؟؟؟


سند پر تو میں جب کلام کروں جب آپ متن پر سے اپنے ذاتی قیاس جنکی کوئی بنیاد نہیں

دوسری بات ہم کو طعنہ دے رہے ہیں کہ ہم حدیث بدل دیتے ہیں جبکہ وہابیوں نے اس حدیث کی اشاعت میں محمد کے ساتھ یا کا لفظ مٹا کر بدترین تحریف کی جو کام کرتے خود ہیں ویسا اوروں کو سمجھتے ہیں

برحال آپکے پاس کوئی دلیل نہیں روایت کے متن پر کلام کرنے کی تو اپنا ذاتی کلام اپنے پاس رکھیے
اور سند پر تو میں ابھی کلام شروع نہیں کیا جناب پریشان ہو کر متن کو قرآن کی آیات سے رد کرنے بیٹھ گئے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
میں نے آپ سے تدلیس کے مسلے پر امام شعبہ کے اصول پر آپکو آپکے محقق کا حوالہ دیا تھا جسکے جواب میں نہ آپ نے ہاں کیا نہ انکارکیا آپکو علم جرح و تعدیل کے بانی یعنی امام المحدثین یحییٰ بن سعید القطان الحنفیؒ کا قول سند صحیح سے پیش کر رہا ہوں امید ہے اب جواب دینگے
امام ابن ابی حاتم سند صحیح سے امام یحییٰ بن سعید کا قول نقل کرتے ہیں :

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد نا علي قال سمعت يحيى يقول: كل شئ يحدث به شعبة عن رجل فلاتحتاج أن تقول عن ذاك الرجل أنه سمع فلانا، قد كفاك أمره

امام یحییٰ بن سعید القطان الحنفی فرماتے ہیں:
ہر ایسی (حدیث کے تمام ) شئ جسکو امام شعبہ نے کسی مرد سے بیان کیا ہو تو اس میں اس بات کی محتاجی نہیں کہ وہ اس مرد کے بارے میں کہیں کہ اس نے فلاں سے سنا ہے ۔ تمہارے لیے یہ حکم کافی ہے


اور امام ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں امام شعبہؒ کا اپنا قول بھی نقل کیا ہے

عن شعبة انه قال کفیتکم تدلیس ثلاثة الاعمش، ابی اسحاق السبعی و قتادہ
امام شعبہ فرماتے ہیں میں تین اشخاص کی تدلیس کے لیے کافی ہوں یعنی امام اعمش ، امام ابو اسحاق السبیعی اور امام قتادہ کی
(طبقات المدلسین ص۲۱)
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
اور یہ بھی بتا دوں کہ ابو اسحاق السبیعی کو اختلاط ہوا تھا لیکن انکے قدماء شاگرد کونسے ہیں جن سے انکی روایت حجت ہوگی ؟
وہ بھی آپکے محقق البانی صاحب سے دلیل پیش کردیتا ہوں ایک جگہ آپکے البانی صاحب لکھتے ہیں

سحاق هو عمرو بن عبيد الله السبيعي وهو ثقة لكنه مدلس، وكان قد اختلط، فهو
لا بأس به في الشواهد، إلا من رواية سفيان الثوري وشعبة فحديثهما عنه حجة.

ابو اسحاق عمرو بن عبیداللہ السبیعی جو کہ ثقہ ہے لیکن مدلس ہے اسکو اختلاط ہو گیا تھا لیکن شواہد میں اس میں کوئی حرج نہیں
سوائے سفیان الثوری اور شعبہ جب اس سے حدیث بیان کریں تب حجت ہوگا (یعنی شعبہ اور سفیان کی روایت قبل اختلاط ہیں اس سے )
 
Top