پہلی بات تو آپ میری تحریر پھر سے پڑھیں اگر چشمہ لگاتے ہو تو صاف کر کے پڑھیں میں نے کہیں بھی اپنی رائے نہیں دی بلکہ شان نزول بیان کرتے ہوئے زید بن ارقم کا واقعہ نقل کیا یہ پڑھ کر آپ کو دھکا ضرور لگا اس لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
احمد رضا خان صاحب بھی ندا یا محمد کہنے کے قائل نہیں تھے لکھتے ہیں ۔۔
" حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک لیکر ندا کرنی ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ( روحوں کی دنیا صفحہ 245 )
تو جب صحیح نہیں تو یہ کلمہ کیسے تعظیمی ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالی نے خود دو آیتوں میں اسے کہنے سے روکا ہے اس کے علاوہ اور بھی حوالے جات دیئے جاسکتے ہیں جس میں یہ صراحت ہے کہ یا محمد کلمے تعظیمی نہیں ہے مسلمان کے لیے ۔ اور آپ تو حدیث پیش کرکے عقیدہ بنا رہے ہیں ماشاءاللہ ۔
آپکو معلوم ہی نہیں آپکا قیاس کیا ہے ۔۔۔۔۔
جو تفسیر پیش کی جو آیات پیش کی ہیں اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جس آیت میں یا محمد ہو وہ حدیث ضعیف سمجھی جائے گی یا منسوخ سمجھی جائے گی ؟؟؟؟
جبکہ نبی کریم کی زندگی اور بعد میں لوگ کلام ، دعا کی شکل میں یا محمد استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ نبی کریم سے خود جس صحابی کو دعا سکھلائی اس میں بھی یا محمد ہے تو کیا اب آپ ساری احادیث صحیحیہ کو رد کر دینگے ؟؟؟
جبکہ اعلیٰ حضرت کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں یہ بات ہے کہ ندا یا محمد کرنا حرام ہے تو اسی فتاویٰ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جہاں احادیث میں یا محمد آیا ہے وہاں تبدیل کر کے یا رسول اللہ لکھ دیا جائے
نہ کہ احادیث اور روایات کو ہی رد کر دیا جائے
جیسا کہ آپ یہاں پر اپنا قیاس گھسیڑ رہے ہیں ایک روایت استغاثہ کی ہے اسکو یا محمد کہہ کر رد کر دینا کیا صحیح احادیث میں یا محمد نہیں آیا ؟
یہ لیں حوالہ ، ترمذی و ابن ماجہ کا جو روایت متفقہ علیہ صحیح ہے محدثین کے نزدیک اس میں دعا کے کلمات میں بھی محمد کے الفاظ ہیں
اور یا محمد کی تصریح بھی ہے
1385 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ» فَقَالَ: ادْعُهْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ
إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» . قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
(سنن ابن ماجہ صحیح )
3578- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ البَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي قَالَ: إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ. قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ
بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَهُوَ الْخَطْمِيُّ.
(سنن ترمذی صحیح )
اب اپنا قیاس شریف ادھر بھی گھسا دیں کہ یہ دعا اب کرنی حرام ہے اور یہ روایت بھی ضعیف ہے
تبھی کہا ہے کہ دلائل عمومی سے مسلہ خاص پر اسکو چپکا دینا اپنے قیاس سے اور پھر کہنا ہم نے قیاس بھی نہیں کیا تو اسکو کم عقلی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ؟
تو ثابت ہوا جہاں یا محمد آیا ہے ادبا اسکو یا رسول اللہ پڑھا و لکھا جائے لیکن فی نفسی مسلہ جو ہے وہ ویسے ثابت رہے گا
تو حضرت ابن عمر کی روایت سے فی نفسی جو مسلہ ثابت ہوتا ہے وہ مدد اور یاد کرتے ہوئے انکو یاد کرنا روایت میں یا محمد ہے تو ہم اب اس استغاثہ کرتے ہوئے یا رسول اللہ کہیں دیں
لیکن یہ نہیں ہوگا کہ یا محمد آ گیا اوہو اب تو یہ روایت ضعیف ہوگئی
میاں یوں کئی روایات سے ہاتھ دھو بیٹھو گے
اور ندا جو نبی کریم سے محبت ، یاد اور نعت و کلام اور دعا میں استعمال ہوتاہے اسکا حکم اسکے اندر نہیں اگر ہے تو تصریح دیں
ورنہ اپنا قیاس اپنے پاس رکھیں تبھی کہا تھا