• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نص ِقرآنی کے متعلق چندعلوم کا تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
نص ِقرآنی کے متعلق چندعلوم کا تعارف

علوم القرآن کاموضوع اہل علم کے لیے نیانہیں،البتہ قرآن کریم کی عبارت (نقش)سے متعلق علوم قرآن، جنہیں علوم القراء ات کہنا زیادہ مناسب ہے،سے اہل علم عموماً واقف نہیں ہوتے۔زیر نظر مضمون میں مجلس التحقیق الاسلامی کے رفیق کارجناب قاری محمد مصطفی راسخ نے ان تمام علوم کاجامع تعارف پیش کر دیا ہے، جو قراء حضرات میں معروف ہیں۔ نیز انہوں نے واضح کیا ہے کہ تحریک کلِّیۃ القرآن الکریم کے تحت جو نصاب مختلف مدارس میں رائج ہے، اس ضمن میں کون سے موضوعات سے طلبہ کلِّیۃ القرآن کو روشناس کروایا جاتا ہے۔ (اِدارہ)
قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی بابرکت کلام اورنبی کریمﷺپر نازل کردہ عظیم الشان آخری آسمانی کتاب ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی ہدایت وراہنمائی کے لئے نازل فرمایا۔منسوب الی اللہ ہونے کی وجہ سے اس کی عظمت واہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ’کلام الملوک ملوک الکلام‘ کے مصداق، جس طرح اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے افضل واعلیٰ اوربرتر ہیں، اسی طرح قرآن مجید بھی تمام کتابوں اورکلاموں سے افضل واعلیٰ اور برتر ہے۔ حفاظت قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘(الحجر:۹)’’بے شک قرآن مجید کوہم نے اتارا ہے اورہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ نگہبانی وحفاظت، قرآن مجید کے حروف، معانی، رسم سمیت جملہ اُمور پر مشتمل ہے۔
قرآن مجید کی اسی عظمت واہمیت کے پیش نظر اہل علم نے اس میں پنہاں متعدد علوم وفنون پر بے شمار کتب لکھ کر اس کے حروف، معانی اور رسم سمیت جملہ اُمور کو محفوظ کر لیاہے۔ اور یہی حفاظت، مطلوب ومقصودِ الٰہی ہے۔ حفاظت قرآن کے جملہ علوم وفنون میں سے کچھ علوم معانی سے متعلقہ ہیں اورکچھ علوم قرآن مجید کے حروف (یعنی Text) کی حفاظت پر مشتمل ہیں۔ جن میں حروفِ قرآن کے بارے میں ہی بحث کی جاتی ہے۔ مثلاً علم التجوید، علم القراء ات، علم الضبط، علم الرسم، علم الفواصل اور علم الوقف والابتداء وغیرہ۔ ذیل میں ہم نص قرآن سے متعلقہ انہی چند علوم کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ اہل ایمان کا ایمان تازہ ہوجائے اور بیمار دلوں کو شفا ملے۔
اور اس وقت ہمارے ہاں کُلِّیۃُ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیۃ تابع جامعہ لاہور الاسلامیہ اور پاکستان میں قائم دیگر متعدد کلیات القرآن الکریم میں یہ علوم بطورِ نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ نیز جب عالم غیر قاری اور قاری غیر عالم کا تصور ختم کر کے دونوں نصابوں (درس نظامی اور علم تجوید وقراء ات) کو یکجا کرنے کا آغاز ہوا تو اس میں بنیادی طور علم التجوید اور علم القراء ات کو نمایاں حیثیت دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ان درج ذیل علوم کو بھی شامل نصاب کر دیا گیا تاکہ طالبانِ علم نصوصِ قرآنی سے متعلقہ ان علوم سے بھی واقفیت حاصل کر سکیں۔ مذکورہ علوم پرمشتمل نصاب، کبار علماء کی ایک کمیٹی نے تشکیل دیا جسے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے پراسپیکٹس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس نصاب کی تیاری میں جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کے نصاب کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا اور اس نئے نصاب کو حتی الامکان جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 
Last edited by a moderator:

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) علم التجوید
لغوی طور پر تجوید، عمدہ بنانے، اچھا بنانے اورخوبصورت بنانے کو کہتے ہیں۔جبکہ اہل فن کی اِصطلاح میں تجوید کی تعریف یہ ہے کہ
’’حروف قرآنیہ کو صفات اورمخارج کا لحاظ رکھتے ہوئے اَداکرنا۔‘‘
تجوید سیکھنا ہر مسلمان پر فرض اورواجب ہے تاکہ قرآن مجید میں لحن (غلطی)سے بچا جاسکے اورانسان صحیح عرب کے لب ولہجہ میں قرآن مجید کی تلاوت کرسکے۔ تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنا حرام ہے اوربسا اوقات لحن جلی سے نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔ (میزان التّجوید ازقاری سید سلیمان سہارنپوری )
قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی اہمیت کے حوالے سے ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ (المزمل:۴) ’’اورقرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔‘‘
ترتیل کے ضمن میں علامہ جزری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’النشر‘ اورعلامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے’لطائف الإشارات لفنون القراء ات‘میں امیر المومنین سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیاہے:
’’ہو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘
’’یعنی ترتیل کا مطلب ہے حروف کو تجوید کے ساتھ ادا کرنا اور موقوف کی معرفت ہونا۔‘‘
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ نے اس کا معنی’جوّدہ تجویداً‘ کہا ہے ۔(شرح فوائد مکیۃ ازقاری محمدادریس عاصم:ص۵۰)
تجوید کے اثبات میں علامہ جزری رحمہ اللہ اپنی منظوم تصنیف’المقدمۃ‘میں فرماتے ہیں:
والأخذ بالتجوید حتم لازم
من لم یجود القرآن آثم
لأنہ بہ الإِلَہُ أَنزلا
وہٰکذا منہ إلینا وصلا​
’’(علم)تجویدحاصل کرنا واجب اورضرور ی ہے ۔جو تجوید کے ساتھ قرآن نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اسی (تجوید)کے ساتھ نازل کیا اور اسی طرح (تجوید کے ساتھ)اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم تک پہنچا ہے۔‘‘
تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا فرضِ عین ہے اور اس کا علم فرض کفایہ ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العلم بہ فرض کفایۃ والعمل بہ فرض عین‘‘(شرح فوائد مکیۃ ازقاری محمدادریس عاصم:ص۵۵)
’’علم تجوید میں درج ذیل مباحث اورموضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حروف کے مخارج
یعنی ہر ہر حرف کو ادا کرنے کامقام بتایا جاتا ہے کہ اسے کہاں سے اداکرنا ہے اورحروف کو اَدا کرنے کے مخارج راجح قول پر سترہ (۱۷)ہیں: أقصیٰ حلق، وسط حلق، أدنیٰ حلق، أقصیٰ لسان، وسط لسان، أدنیٰ لسان، طرف لسان، حافہ لسان، جوف دہن، أضراس اور خیشوم وغیرہ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
صفات
یعنی حروف کو اپنے مخارج سے اَدا کرتے وقت کس کیفیت سے اَدا کرنا ہے؟ مثلاً موٹا پڑھناہے یا باریک، سخت پڑھناہے یا نرم، سانس کو جاری رکھنا ہے یا بند کر لینا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اہل فن کے ہاں حروف کی ادائیگی میں پیش آمدہ کیفیات کو صفات کہاجاتاہے۔اورپھر صفات کی دو اَقسام ہیں:
(١)صفاتِ لازمہ: صفاتِ لازمہ سے مراد وہ صفات ہیں جو حرف سے کبھی جدانہ ہوں ،اس کی پھر آگے دواَقسام ہیں: (١)متضادہ (٢)غیر متضادہ۔
صفات متضادہ دس ہیں جن میں سے پہلی پانچ صفات(یعنی ہمس، شدت، استعلائ، اطباق اور اذلاق) دوسری پانچ صفات (یعنی جہر، رخوت، استفال، انفتاح اور اصمات) کی ضد اور مقابل ہیں۔
صفات غیر متضادہ سات ہیں:صفیر، قلقلہ، لین، انحراف، تکریر، تفشّی اوراستطالت۔
(٢) صفاتِ عارضہ:صفات عارضہ سے مراد وہ صفات ہیں جو کسی عارضہ کی وجہ سے حروف میں پائی جاتی ہیں۔مثلاً لفظ جلالۃ (اﷲ)سے پہلے اگر زبر یا پیش ہو تو موٹا پڑھیں گے۔ جیسے (ہو اﷲ) اور اگر زیر ہو تو باریک پڑھیں گے جیسے (باﷲ)اورعلم تجوید کا بنیادی موضوع یہی مخارج اورصفات ہیں۔
علاوہ ازیں علم تجویدمیں وقف وابتداء، ادغام کے مسائل اورمد کے مسائل کے بارے میں بھی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔(جن کو تفصیلاً یہاں بیان کرنے کا مقام نہیں ہے۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علم تجویدکے نامور اَساتذہ اورقراء کرام
من حیث الاداء علم تجوید کے سب سے بڑے استاد بذاتِ خود نبی کریمﷺ ہیں۔انہوں نے جس طرح جبریل علیہ السلام سے سناتھا اسی طرح قواعد کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوپڑھادیااور چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل زبان تھے، لہٰذا ان کو قواعد سیکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ بعد میں جب عرب وعجم کا اختلاط ہوا تو قواعد مدوّن کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اور قواعد مدوّن کرنے والوں میں ابو الاسود الدؤلی، ابو عبید قاسم بن سلام، خلیل بن احمد الفراہیدی، ابو عمر حفص الدوری البصری، ابومزاحم خاقانی اورموسیٰ بن عبید اللہ خاقان البغدادیکے نام سر فہرست ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
برصغیر پاک وہند میں علم تجوید کے نامور اَساتذہ کرام
٭ قاری عبد اللہ مہاجر مکی ٭ قاری عبد الرحمن مکی الہ آبادی ٭ قاری محمد سلیمان بھوپالی
٭ قاری مرزا محمود بیگ ٭ قاری عبد الخالق ٭ قاری عبد المالک
٭ قا ری حبیب الرحمن مکی ٭ قاری نثار احمد کانپوری ٭ قاری مشتاق احمد کانپوری
٭ قاری ضیاء الدین ٭ قاری محمد یامین ٭ قاری عبد اللہ تھانوی
٭ قاری اظہار احمد تھانوی ٭ قاری شریف ٭ قاری عبد الوہاب مکی
٭ قاری محمد یحییٰ رسولنگری ٭ قاری محمد ادریس عاصم ٭ قاری محمد عزیر
٭ قاری محمد ابراہیم میر محمدی ٭ قاری اَحمد میاں تھانوی ٭ قاری عبد الرحمن ڈیروی
٭ قاری عبد الستار صاحب ٭ قاری عبد الباعث سواتی ٭ قاری فتح محمد پانی پتی
٭ قاری رحیم بخش پانی پتی ٭ قاری محمد عمر پانی پتی
نوٹ:مذکورہ تمام مشائخ جہاں روایت ِحفص کے اساتذہ ہیں وہیں علم قراء ات سبعہ وعشرہ کے وہ نمایاں مشائخ بھی ہیں جن کے سلسلۂ اسانید سے قراء ات برصغیر پاک وہند میں منتقل ہوئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علم تجوید پر لکھی جانے والی چند معروف کتب
علم تجوید پر متعدد کتب عربی اور اردو زبان میں لکھی جاچکی ہیں جنہیں ان مختصر گذارشات میں قلمبند کرنا مشکل ہے ان میں سے چند معروف کتابوں کے اَسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ المقدمۃ الجزریۃ از علامہ جزری رحمہ اللہ
٭ انشراح الصدور فی تجوید کلام الغفور از شیخ وہبہ سرور محلی
٭ تحفۃ الراغبین فی تجوید کتاب المبین از محمد بن علی بن خلف الحسینی
٭ تحفۃ المرید لمعرفۃالتجوید از شیخ حسین بن ادریس بن احمد
٭ العقد الفرید فی فن التجوید از شیخ علی بن احمد صبرہ
٭ الشرح الجدید فی أحکام التجوید از مصطفی احمد ابوسنہ
٭ ہدایۃ المستفید فی علم التجوید از شیخ محمد المحمود
٭ ہدایۃ القاری إلی تجوید کلام الباریاز قاری المقری سید عبد الفتاح المرصفی العجمی المصری
٭ فوائد مکیہ از قاری المقری عبد الرحمن الہ آبادی
٭ تعلیقات مالکیہ شرح فوائد مکیہ از قاری المقری عبد المالک صاحب علی گڑھ
٭ أسہل التجوید از قاری المقری یحییٰ رسولنگری
٭ تحبیر التجوید از قاری محمد ادریس عاصم صاحب
٭ ہدیۃ الوحید از قاری عبد الوحید خان الہ آبادی
٭ تعلیم الوقف از قاری عبد اللہ مکی صاحب
٭ جمال القرآن از قاری محمد اشرف علی تھانوی
قاری محمد ادریس عاصم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’شرح فوائد مکیہ‘ میں علم تجوید پر لکھی گئی تقریباً ایک سو چوالیس(۱۴۴) کتب کے اسماء گرامی نقل کیے ہیں اورساتھ ہی فرمایاہے کہ وہ اپنی کتاب ’تاریخ علم تجوید وقراء ت‘ میں علم تجوید پر لکھی گئی مزید کتب کے نام ذکر کریں گے۔ (شرح فوائد مکیۃ:ص۶۷تا۶۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٢) علم القراء ات
چونکہ ماہنامہ ’رشد‘ لاہور کا شمارہ ہذا’قراء ات نمبر‘ اسی فن سے متعلقہ مضامین پر مشتمل ہے اور اس شمار ے میں فن قراء ات کی تعریف،اہمیت، قراء ات کی اَسانید وحجیت، منکرین قراء ت کا حکم، معروف قراء کرام اورمعروف کتب وغیرہ سے متعلقہ تمام مباحث بالتفصیل موجود ہیں لہٰذا علم القراء ات کا علیحدہ سے تعارف کروانا تکرار مکرر ہوگا جو غیر مفید ہے۔گویا کہ شمارہ ہذامیں اس فن کا تفصیلی تعارف موجودہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٣) علم الضبط
لغوی طور پر ضبط کا معنی ہے کسی شے کی حفاظت کرنے میں انتہا تک جانا ہے، جبکہ اِصطلاحاً علم ضبط سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے حرف کو پیش آنے والے حالات (مثلاً حرکت، سکون، شد اورمد وغیرہ) کی پہچان ہوتی ہے ،اس کو شکل بھی کہتے ہیں ۔ (إرشاد الطالبین)
علم الضبط کا موضوع وہ علامات ونشانات (مثلاً حرکات ثلاثہ، سکون ،مد وشد وغیرہ)ہیں ،جوکلمات قرآن کے درست تلفظ اوران کی نطقی کیفیات کے تحفظ میں مدد دیتے ہیں۔یہ مدد والی بات ہم نے اس لیے کہی ہے کیونکہ صحیح تلفظ کی تعلیم کا اصل طریقہ توتلقی اورسما ع ہے جو نبی کریمﷺسے لے کر آج تک معمول بہٖ چلا آرہا ہے، تنہا علامات استاد یا شیخ کا بدل کبھی نہیں ہوسکتیں یہی وجہ ہے کہ بعض صور توں میں علاماتِ ضبط کی موجودگی کے باوجود یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ صحیح تلفظ استاذ سے شفوی طور پر سیکھا جائے۔ تاہم درست تلاوت قرآن کے لئے کسی صحیح کتابت والے مصحف کی ضرورت ہر مسلمان کو پڑتی ہے۔اور اس مقصد کے لئے کتابت کی صحت علم الضبط کے بغیر ممکن نہیں۔ (قرآن وسنت ،چند مباحث: ص۱۰۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علامات ضبط کی تدوین
چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل زبان تھے اس لیے انہیں بلا اِعراب (یعنی حرکات ثلاثہ زبر، زیر، پیش شد اورمد کے بغیر) قرآن مجید پڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوتی تھی۔اور وہ آسانی کے ساتھ قرآن مجید کی صحیح تلفظ کے ساتھ درست تلاوت کر لیا کرتے تھے۔جب فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اورعرب وعجم میں اختلاط ہوا تو اہل عجم کے لئے، قرآن مجید کی بلا اِعراب صحیح تلاوت کرنا، آسان کام نہ تھا۔چنانچہ انہو ںنے تلاوتِ قرآن مجید میں غلطیاں کرنا شروع کر دیں۔جس سے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ قرآن مجید کے (بلا اعراب)رسم پر ایسی علامات لگا دی جائیں جن سے اہل عجم کے لئے تلاوت کرنا آسان ہو جائے۔
علم الضبطکے سب سے پہلے موجد ابو الاسود الدؤلی ہیں۔ جنہوں نے لفظوں کے ذریعے شکل (حرفوں کی آواز کو علامات کے ذریعے متعین کرنا ) کے ایک طریقہ کار کی ابتدا ء کی۔ ابوالاسود الدؤلی کے اس کام پر آمادہ ہونے کے محرکات کی مختلف روایات ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس کا باعث ان کا عبید اللہ بن زیاد کا اَتالیق ہونا بنا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ایک موقع پر انہوں نے خود اپنی بیٹی کو غلط عربی بولتے سنا، تیسری روایت یہ ہے کہ کسی عدالت میں مدعی نے اپنا کیس بالکل غلط عربی میں پیش کیا۔ چوتھی اور مشہور روایت یہ ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو سورہ التوبہ کی آیت نمبرتین میں لفظ (ورسولہ) کو مجرور پڑھتے ہو ئے سنا۔ ممکن ہے یہ ساری وجوہ ہی درست ہوں بہر حال ابوالاسود الدؤلی نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر والی بصرہ زیاد کے مطالبہ پر یہ عظیم الشان خدمت سرانجام دی۔ (قرآن وسنت چند مباحث:ص۱۱۰)
اس مقدس کام کا آغاز کرتے ہوئے ابوالاسود الدؤلی نے قبیلہ عبد القیس یا قبیلہ قریش کے چند کاتبوں میں سے ایک ذہین ترین آدمی کو منتخب کیا اوراسے حکم دیاکہ مصحف کی روشنائی سے مختلف رنگ کی روشنائی لے لو۔ اور میرے ہونٹوں کا دھیان رکھو جب میں ہونٹ کھولوں (یعنی زبر پڑھوں) تو حرف کے اوپر ایک نقطہ لگادینا، جب ہونٹ گول کر وں (یعنی پیش پڑھوں) تو حرف کے سامنے ایک نقطہ لگا دینا۔ اور جب ہونٹ جھکاؤں (یعنی زیر پڑھوں) تو حرف کے نیچے ایک نقطہ لگا دینا اورجب تنوین پڑھوں تو ایک کی بجائے دو دونقطے لگا دینا۔ یہی طریقۂ کار اختیار کرتے ہوئے انہوں نے مکمل قرآن مجید پر اعراب لگا دیئے جو نقطوں کی شکل میں تھے۔ابوالاسود الدؤلی رحمہ اللہ روزانہ ایک مجلس میں ضبط کیے ہوئے حصے کی بذاتِ خود نظر ثانی فرماتے اورپھر آگے کام شروع کردیتے ،اس طرح انہوں نے مکمل قرآن مجید پر علامات ضبط لگا دیں۔
ابو الاسود الدؤلی کے بعد نصر بن عاصم اور یحییٰ بن یعمر نے حجاج بن یوسف کے زمانہ میں ابو الاسود الدؤلی رحمہ اللہ کے کام میں مزید کچھ مفید اضافے کئے اور ایک ہی شکل میں لکھے جانے والے مختلف آوازوں والے حروف پر نقطے لگا کر ان کی آوازوں کو متعین کر دیا۔ مثلا (ب) پر کوئی نقطہ نہیں تھا انہوں نے اس پر نقطہ لگا کر اسے تین الگ الگ آوازوں والے حروف (ب، ت، ث) میں تقسیم کردیا او راس طرح تمام ہم شکل حروف میں امتیاز کے لئے نقطے لگا دیئے۔ان کے اس کام کو اہل فن کی اِصطلاح میں نقط الإعجام کہا جاتا ہے۔
 
Top