• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نص ِقرآنی کے متعلق چندعلوم کا تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ ساتوں شماروں اور ان میں آیات کی تعداد درج ذیل ہے۔
(١) مدنی اوّل: مدنی اوّل کے دو شمارہیں:
(١) مدنی اوّل یزیدی بصری (٢) مدنی اول شیبی کوفی
٭ مدنی اوّل یزیدی بصری نے اختلافی آیات میں سے ایک قول پر ایک سو پچیس (۱۲۵)،دوسرے پر ایک سو چوبیس(۱۲۴)، اور تیسرے قول پر ایک سو تئیس(۱۲۳) آیات شمار کی ہیں۔
جب ان کو اجماعی تعداد میں شامل کریں تواس شمار میں کل آیات چھ ہزار دو سو پندرہ (۶۲۱۵)یا چھ ہزار دوسو چودہ(۶۲۱۴)یا چھ ہزار دو سو تیرہ(۶۲۱۳)بنتی ہیں۔
٭ مدنی اوّل شیبی کوفی نے اختلافی آیات دو سو تہتر (۲۷۳)میں سے ایک قول پر ایک سو انتیس (۱۲۹)دوسر ے پر ایک سو اٹھائیس(۱۲۸)اور تیسرے قول پر ایک سو ستائیس (۱۲۷) آیات شمار کی ہیں۔جب ان کو اجماعی آیات میں شامل کریں تو اس شمار کی کل آیات چھ ہزار دوسو انیس (۶۲۱۹) یا چھ ہزار دو سو اٹھارہ(۶۲۱۸) یا چھ ہزار دو سو سترہ (۶۲۱۷) بنتی ہیں۔مدنی اول کے دونوں شمار پورے قرآن مجید میں متفق ومتحد ہیں۔لیکن چھ مواقع پر ان کا آپس میں اختلاف ہے ،جن کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
(٢)مدنی اَخیر:اس شمار میں آیات کی کل تعداد چھ ہزار دو سو چودہ (۶۲۱۴)ہے جن میں سے (۶۰۹۰)اجماعی ہیں اورایک سو چوبیس (۱۲۴)اختلاف والی آیات میں سے ہیں۔
(٣)مکی:اس شمار میں مکی نے اختلافی آ یات میں سے ایک سو انیس (۱۱۹) یا ایک سو اکیس (۱۲۱)آیات کو شمار کیا ہے اوراجماعی آیات میں شامل کرنے سے اس شمار کی آیات کی کل تعداد چھ ہزار دو سو انیس (۶۲۱۹)یا چھ ہزار دوسو اکیس(۶۲۲۱)بنتی ہیں۔
(٤)کوفی: اس شمار میں آیات کی کل تعداد چھ ہزار دو سو چھتیس (۶۲۳۶)ہے،جن میں سے چھ ہزار نوے(۶۰۹۰) اجماعی ہیں اور ایک سو چھیالیس (۱۴۶)اختلافی ہیں۔
(٥)بصری:اس شمار میں آیات کی کل تعداد چھ ہزار دوسو چار (۶۲۰۴)یا چھ ہزار دو سو پانچ (۶۲۰۵)ہے، جن میں سے چھ ہزار نوے (۶۰۹۰)اجماعی ہیں اورایک سو چودہ (۱۱۴)یا ایک سوپندرہ (۱۱۵)اختلافی ہیں۔
(٦)دمشقی:اس شمار میں آیات کی کل تعدادچھ ہزار دو سو چھبیس(۶۲۲۶)ہے ،جن میں سے چھ ہزار نوے (۶۰۹۰) تو اجماعی ہیں اورایک سو چھتیس (۱۳۶)اختلافی ہیں۔
(٧)حمصی:اس شمار میں آیات کی کل تعداد چھ ہزار دو سو بتیس(۶۲۳۲)ہے جن میں سے چھ ہزار نوے(۶۰۹۰) اجماعی ہیں اورایک سو بیالیس(۱۴۲)اختلافی آیات میں سے ہیں۔(کاشف العسر شرح ناظمۃ الزہر:۵۲تا۵۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شمار آیات کے حوالے سے ایک منتخب مثال
سورۃالفاتحہ کی تمام شمار وں میں سات آیات ہیں۔لیکن کوفی اورمکی شمار میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کو آیت شمار کیا گیا ہے۔جبکہ ان دونوں (کوفی اورمکی)کے علاوہ دیگر شماروں (مدنی اوّل، مدنی أخیر،بصری،دمشقی اور حمصی) میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کو آیت شمار نہیں کیا گیا،بلکہ انہوں نے (أنعمت علیہم)پر آیت شمار کی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں پاکستانی مصاحف خصوصی طور پر تاج کمپنی لمیٹڈ کے مطبوعہ مصاحف میں شمار آیات کے اختلاف کی طرف اشارہ کرنے کیلئے مختلف فیہ مقام پر عربی ہندسے پانچ(۵)کی علامت لگا دی جاتی ہے۔جیساکہ سورۃ الفاتحہ کی آخری آیت میں (أنعمت علیہم) کے بعد اس علامت کی موجودگی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ،اس کامطلب یہ ہے کہ روایت حفص عن عاصم کے منتخب کوفی شمار میں تویہاں آیت نہیں ہے مگر دیگر شمار وں میں یہاں آیت شما ر کی گئی ہے۔قاری المقری محمد ادریس عاصم نے اپنی کتاب میں ایسے کل چھیانوے (۹۶) مواقع گنوائے ہیں۔ (الاہتداء فی الوقف والابتداء:۱۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شمار آیات اورآئمہ قراء ت عشرہ
آئمہ قراء اتِ عشرہ میں سے ہر ایک نے ایک مخصوص شمار کواپنے لیے منتخب کیا ہے ،ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭ مدنی اوّل: اس شمار کو امام ابوعمرو بصری اورامام ابوجعفر نے منتخب کیا۔
٭ مدنی اَخیر:ا س شمار کو امام نافع مدنی نے اپنے لیے منتخب کیا۔
٭ مکی:ا س شمارکو امام ابن کثیر مکی نے منتخب کیا۔
٭ کوفی:اس شمار کو قراء ت کے چار اماموں، امام عاصم، امام حمزہ، امام کسائی اورامام خلف العاشر نے منتخب کیا ہے۔
٭ بصری: اس شمار کو امام یعقوب نے اختیار کیا ہے۔
٭ دمشقی: اس شمار کو امام ابن عامر شامی نے اختیار کیا ہے۔
٭ حمصی:اس شمار کو آئمہ عشرہ میں سے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا اورشاید یہی وجہ ے کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے ناظمۃ الزہر میں اس کو بیان نہیں کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم الفواصل پر لکھی گئی چند معروف کتب
٭ ناظمۃ الزہرازامام ابوالقاسم الشاطبی رحمہ اللہ
٭ معالم العسر شرح ناظمۃ الزہر ازعبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ
٭ بشیر الیسر شرح ناظمۃ الزّہر از عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ
٭ کاشف العسر از قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ(اردو)
٭ البیان ازامام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ
٭ تحقیق البیان ازالشیخ محمد المتولی رحمہ اللہ
٭ نفائس البیان فی عد آی القرآ ن از عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ
٭ ہدایات رحیم از قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ (اردو)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) علم الوقف والابتداء
وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنی ہیں کہ
کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو، عام ہے کہ وقف کرنے کے بعد مابعد سے ابتداء کریں یا ماقبل سے اعادہ۔(النشر:۱؍۲۴۰) (نشر کی رو سے یہی تعریف ممتاز اورزیادہ واضح ہے)
علم الوقف کا موضوع کلمہ اورکلام ہے ،کیونکہ وقف میں دو بنیادی چیزیں ہیں:
(١) کیفیت وقف:یعنی یہ جاننا کہ وقف کس طرح کیا جائے بالاسکان یا بالاشمام یا بالروم وغیرہ۔
(٢) محل وقف:یعنی یہ پہچاننا کہ وقف کس جگہ کیا جائے، تو وقف کوکیفیت کی حیثیت سے آخر کلمہ سے تعلق ہوتا ہے۔
علم الوقف کا مقصد وقف کا صحیح ہونا اورمعنی کا واضح ہونا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَہمیت وقف
معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سے قرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اس طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا تعمد کے ساتھ اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ۔اوروجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :
’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘(المزمل:۴) ’’اورقرآن مجید کوترتیل کے ساتھ پڑھو ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ترتیل کا معنی پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:
’’الترتیل ہو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘(الإتقان فی علوم القرآ ن:۱؍۸۵)
اس تفسیر میں ترتیل کے دوجز بیان کیے گئے ہیں ۔
(١)تجوید الحروف (٢)معرفۃ الوقوف
پس تجوید الحروف کی طرح معرفۃ الوقوف بھی ترتیل کا ایک جزء اور اس کا ایک حصہ ہے ۔اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا صرف امر ہی نہیں فرمایا بلکہ امر کی تاکید کے لئے (ترتیلا) مصدر بھی ذکر فرمایا ہے جس سے اَمر میں مبالغہ اور تاکید مقصود ہے ،اورمصدر پر تنوین بھی مبالغہ کے لئے ہے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اَمر وجوب کے لئے ہوتا ہے ،ہاں کسی خارجی سبب سے وجوبیت ساقط ہوجاتی ہے، مگر اس جگہ خارجی اسباب میں سے کوئی بھی ایساسبب موجودنہیں ہے جو ترتیل کی وجوبیت کو ساقط کرتا ہو بلکہ احادیث آثار صحابہ وتابعین وتبع تابعین اوراجماع امت سے اس کی وجوبیت ہی ثابت ہے۔
٭ سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
(إنّ ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف اقرء وا ولا حرج، ولکن لا تختموا ذکر رحمۃ بعذاب ولا تختموا ذکر عذاب برحمۃ) وفی روایۃ أخر ی: (ما لم تختم آیۃ رحمۃ بآیۃ عذاب أو آیۃ عذاب بمغفرۃ)
’’بے شک قرآن مجید سبعہ احرف پر نازل کیا گیا ہے تم ان تمام حروف پر پڑھو ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،لیکن رحمت کے تذکرے کو عذاب کے تذکرے کے ساتھ اورعذاب کو رحمت کے ساتھ ملا کرختم نہ کرو (یعنی وقف نہ کرو)اورایک روایت میں الفاظ کچھ یوں ہیں ۔کہ آیت رحمت کو آیت عذاب کے ساتھ اورآیت عذاب کو آیت رحمت کے ساتھ ملا کر ختم نہ کرو۔‘‘
مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت اور ثواب والی آیت کو عذاب اور عقاب والی آ یت کے ساتھ اور عذاب وعقاب والی آیت کو رحمت اور ثواب والی آیت کے ساتھ وصل کرکے پڑھنے کو نبی کریم1نے منع کیا ہے ،ان روایات میں وقف قبیح سے روکا گیا ہے ۔پس وقف قبیح سے بچنا اور وقف تام کو اختیار کرنا ان روایات کا خلاصہ ہے۔ان روایات کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فہذا تعلیم التام من رسول اﷲﷺ عن جبرائیل‘‘ (المکتفی:ص۱۳۲)
’’ان روایات میں نبی کریمﷺکی طرف سے وقف تام کی تعلیم ہے اورنبی کریمﷺنے وقف تام کی تعلیم کو حضرت جبریل ؑ سے سیکھا ہے۔‘‘
امام ابوجعفر النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فہذا تعلیم التام توقیفاً من رسول اﷲﷺ‘‘ (القطع:۸۹)
’’ان روایات میں وقف تام کی تعلیم ہے جوکہ توقیفی ہے اورنبی کریمﷺسے بطور نص ثابت ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں دوشخص حاضر ہوئے ،ان میں سے ایک نے کہا
’’من یطع اﷲ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما‘‘
اور اس پر اختیار ی طور پر وقف کردیا اس صورت میں معنی یہ ہونگے ’’جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پاگیا اورجس نے ان کی نافرمانی کی وہ بھی ہدایت پاگیا ‘‘ (العیاذ باللہ)نبی کریمﷺنے سنتے ہی فوراً کہا: ’’قم اذہب بئس الخطیب أنت‘‘ ’’اٹھ جا یہاں سے توتو برا خطیب ہے۔‘‘
علامہ اشمعونی رحمہ اللہ نے یہ کلمات بھی روایت کئے ہیں:
’’قل ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد غوی‘‘کہ نبی کریمﷺنے تعلیماً اس کو کہا کہ تم یوں کہو:یعنی جس نے اللہ اوررسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوگیا۔
٭ علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دورِ صحابہ سے لیکر ہر دور میں علم وقف وابتداء کو ایک خاص اہمیت اور مقام حاصل رہا ہے ، بلکہ یہ بات ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہے کہ قراء کرام میں امام ابوجعفر مدنی، اور امام نافع مدنی ،امام ابوعمرو بصری، امام عاصم کوفی، امام حمزہ کوفی،امام کسائی کوفی ،امام یعقوب حضرمی اور امام خلف العاشر کوفی وغیرہ کااس فن میں کلام واضح ہے اوران سے جونصوص واقع ہوئی ہیں کتابوں میں مشہور اورمعروف ہیں۔نیزان آئمہ فن نے اپنے تلامذہ سے اس فن پر سختی سے عمل کروایا۔اوربعد میں آنے والے اَساتذہ کرام کے لئے شرط لگادی کہ وہ اس وقت تک کسی طالب علم کو سند اوراجازت نہ دیں جب تک وہ اس فن میں مہارت حاصل نہ کرے۔(النشر:۱؍۲۲۵)
٭ علامہ ابوالحسن علی بن النوری الصفاقسی رحمہ اللہ صاحبغیث النفع نے اپنی تجوید کی کتاب’’تنبیہ الغافلین وإرشاد الجاہلین‘‘ میں لکھا ہے :
’’معرفت الوقوف کاجاننا نہایت ہی اہم ہے، کیونکہ اس کے بغیر کلام اللہ کے مرادی معنی نہ توواضح ہوتے ہیں اورنہ مکمل۔ یعنی بسااوقات قاری کلام پورا ہونے سے پہلے ہی وقف کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کلام ادھورا رہ جاتا ہے ، اور بے ربط ہوکرمعنی کے سمجھنے میں دقت پیدا ہوجاتی ہے ، اوربعض اوقات تومطلب ہی فوت ہوجاتا ہے ۔اتنا بڑا معنوی فساد بے موقع وقف کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے متقدمین اورمتاخرین نے علم وقف کے سیکھنے اورسکھلانے پر زور دیا ہے اور اس موضوع پر بکثرت کتابیں لکھی ہیں۔جو قاری علم وقف سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دے گا وہ لا علمی میں جہاں چاہے گا وقف کردے گا اور بے موقع وقف یا ابتداء کرنے کی وجہ سے اس کی علمی شخصیت مجروح ہوجائے گی۔ علم وقف کی اہمیت وضرورت پر متعدد دلائل موجود ہیں،جن کویہاں قلمبند کرنا ممکن نہیں ہے ،لہٰذا تفصیلات جاننے کے لئے علم وقف پر لکھی گئی تفصیلی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔(جن میں سے چند کتابوں کا تذکرہ آگے آرہا ہے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم وقف کی تدوین
علامہ جزری کی تحقیق کے مطابق علم وقف وابتدا کے سب سے پہلے مدون شیبہ بن نصاح مقری مدنی کوفی ہیں۔ (غایۃ النہایۃ:۱؍۳۳۰)
جبکہ علم قراء ت میں سب سے پہلی تالیف ابوحاتم السجستانی کی ہے، جوعلم وقف وابتداء پر لکھی گئی کتاب سے ۱۲۵سال بعد لکھی گئی ۔علم وقف وابتداء کا علم القراء ۃسے تقریباً ۱۲۵سال پہلے مد وّن ہوجانا اس علم کی شرعی اہمیت وضرورت کازندہ ثبوت ہے ۔یوں بھی تراجم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں اس علم کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور اونچے درجے کے صاحب علم وفضل کا محبوب ترین موضوع اور اس فن کی خدمت پسندیدہ مشغلہ تھا۔ (معلم الأداء فی الوقف والإبتداء:ص۵۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم الوقف کی چند اہم مباحث
علم وقف میں دو بنیادی باتوں کو جاننا از حد ضروری ہے ۔
(١)کیفیت ِوقف (یعنی وقف کس طرح کرنا ہے)
(٢)محل وقف (یعنی وقف کس جگہ کرنا ہے)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیفیت وقف کی چار صورتیں
(١) کیفیت وقف بلحاظ اداء: اس کی پھر آگے چار صورتیں ہیں:
٭ وقف بالاسکان ٭ وقف بالاشمام ٭ وقف بالروم ٭ وقف بالابدال
(٢)کیفیت وقف بلحاظ اصل: اس کی پھر آگے چار صورتیں ہیں:
٭وقف بالسکون ٭ وقف بالتشدید ٭ وقف بالاظہار ٭ وقف بالاثبات
(٣)کیفیت وقف بلحاظ رسم (٤)کیفیت وقف بلحاظ وصل
 
Top