ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
حروفِ معجمہ درج ذیل پندرہ ہیں:
ب،ت، ث، ج، خ، ذ، ز، ش، ض، ظ، غ، ف، ق، ن، ي
حروف مہملہ درج ذیل تیرہ ہیں:
ا، ح، د، ر، س، ص، ط، ع، ک، ل، م، و،ھ
نصر بن عاصم اوریحییٰ بن یَعمُر نے یہ نقطے (الإعجام) مصحف کی سیاہی کے موافق روشنائی کے ساتھ لگائے تھے تاکہ ابوالاسود کے لگائے ہوئے نقط الاعراب سے ممتاز ہوسکیں ۔جومصحف کی سیاہی سے مختلف سیاہی کے ساتھ لگائے گئے تھے۔
عباسی دور کے ابتدائی کئی برسوں ۔۔۔ بلکہ تقریباً ایک صدی تک ۔۔۔کتابت ِمصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا (یعنی حرکات بذریعہ رنگدار نقاط اور حرفوں کے نقطے مقابلۃً ان سے ذرا چھوٹے مگر کتابت متن والی سیاہی لکھنا ) تاہم یہ دو قسم کے نقطے لکھنے اورپڑھنے والے ہر دو کے لئے صعوبت اور التباس کا سبب بنتے تھے اس لیے اعجام کے نقطے آہستہ آہستہ محض قلمکے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں کی صورت میں ظاہرکیے جانے لگے۔(قرآن وسنت چند اہم مباحث:ص۱۱۳،۱۱۴)
نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے امکان کو کم کرنے کے لئے اورکتابت میں بیک وقت متعدد سیاہیوں کے استعمال کی صعوبت سے بچنے کے لئے ایک اور اصلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔چنانچہ مشہور نحوی اورواضع علم العروض خلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ نے وقت کی اس ضرورت کو نئی علامات ضبط ایجاد کر کے پورا کیا۔ اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو کم وبیش آج بھی ہر جگہ نہ صرف کتابت ِمصاحف میں بلکہ کسی بھی مشکل عربی عبارت کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔
خلیل فراہیدی نے نقط الاعجام کو متن کی سیاہی سے لکھنا اسی طرح برقرار رکھا۔بلکہ انہوں نے حرفوں کے نقطوں کی تعداد اور ان کی جگہ کے تعین کے اسباب وعلل بھی بیان کئے۔ البتہ انہوں نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا۔ انہوں نے زبر کے لئے حر ف کے اوپر ایک ترچھی لکیر( ۔َ) زیر کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر( ۔ِ) اورپیش کے لئے حر ف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل (۔ُ) لگانا تجویز کیا۔اورتنوین کے لئے ایک کی بجائے دو دو حرکات(۔ً۔ٍ۔ ٌ) مقرر کیں۔ خلیل بن احمد نے ان حرکات ثلاثہ کے علاوہ پانچ نئی علامات ضبط ایجاد کیں۔ اس نے سکون کے لئے حرف ساکن کے اوپر(۔ ْ)یا (ہ) کی علامت وضع کی جو لفظ ’جزم‘ کے میم یامیم کے سرے کا مخفف نشان ہے۔ شدہ یا تشدید کے لئے اس نے حرف مشددکے اوپر( ۔ّ) لگانا تجویز کیا جو (ش) کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ یاتمدید کے لئے حروف ممدودہ کے اوپر( آ)کی علامت اختیار کی جو در اصل لفظ ’مد‘ ہی کی دوسری مخفف شکل ہے۔اسی طرح ہمزہ وصل کے لیے الف کے اوپر(ص)یعنی ’صلہ‘ کے ’ص‘کی ایک صورت اور ہمزہ قطعی کے لیے (ء) کی علامت وضع کی جو حرف (ع)کے سرے سے ماخوذ ہے کہتے ہیں کہ الخلیل نے روم اوراشمام کے لئے بھی علامات وضع کی تھیں۔
خلیل بن احمد الفراہیدی کی ایجاد کردہ علاماتِ ضبط کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لئے دو سیاہیاں استعمال کرنا لازمی نہ تھابلکہ متنِ قرآن اور علاماتِ ضبط سب ایک ہی سیاہی سے لکھے جانے لگے۔اس سے کتابت میں صعوبت اورقراء ات میں التباس کے امکانات کم تر ہوگئے ۔اس لئے یہ طریقہ بہت مقبول ہوگیا ۔آج کل دنیا بھر میں کتابت مصاحف کے لئے علاماتِ ضبط کا یہی طریقہ رائج ہے البتہ ضرورۃً ۔۔۔ اوربعض جگہ رواجاً۔۔۔ اس میں مزید اِصلاحات اورترمیمات کا سلسلہ جاری رہا۔ (قرآن وسنت چند اہم مباحث:۱۱۴،۱۱۵)
ب،ت، ث، ج، خ، ذ، ز، ش، ض، ظ، غ، ف، ق، ن، ي
حروف مہملہ درج ذیل تیرہ ہیں:
ا، ح، د، ر، س، ص، ط، ع، ک، ل، م، و،ھ
نصر بن عاصم اوریحییٰ بن یَعمُر نے یہ نقطے (الإعجام) مصحف کی سیاہی کے موافق روشنائی کے ساتھ لگائے تھے تاکہ ابوالاسود کے لگائے ہوئے نقط الاعراب سے ممتاز ہوسکیں ۔جومصحف کی سیاہی سے مختلف سیاہی کے ساتھ لگائے گئے تھے۔
عباسی دور کے ابتدائی کئی برسوں ۔۔۔ بلکہ تقریباً ایک صدی تک ۔۔۔کتابت ِمصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا (یعنی حرکات بذریعہ رنگدار نقاط اور حرفوں کے نقطے مقابلۃً ان سے ذرا چھوٹے مگر کتابت متن والی سیاہی لکھنا ) تاہم یہ دو قسم کے نقطے لکھنے اورپڑھنے والے ہر دو کے لئے صعوبت اور التباس کا سبب بنتے تھے اس لیے اعجام کے نقطے آہستہ آہستہ محض قلمکے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں کی صورت میں ظاہرکیے جانے لگے۔(قرآن وسنت چند اہم مباحث:ص۱۱۳،۱۱۴)
نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے امکان کو کم کرنے کے لئے اورکتابت میں بیک وقت متعدد سیاہیوں کے استعمال کی صعوبت سے بچنے کے لئے ایک اور اصلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔چنانچہ مشہور نحوی اورواضع علم العروض خلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ نے وقت کی اس ضرورت کو نئی علامات ضبط ایجاد کر کے پورا کیا۔ اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو کم وبیش آج بھی ہر جگہ نہ صرف کتابت ِمصاحف میں بلکہ کسی بھی مشکل عربی عبارت کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔
خلیل فراہیدی نے نقط الاعجام کو متن کی سیاہی سے لکھنا اسی طرح برقرار رکھا۔بلکہ انہوں نے حرفوں کے نقطوں کی تعداد اور ان کی جگہ کے تعین کے اسباب وعلل بھی بیان کئے۔ البتہ انہوں نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا۔ انہوں نے زبر کے لئے حر ف کے اوپر ایک ترچھی لکیر( ۔َ) زیر کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر( ۔ِ) اورپیش کے لئے حر ف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل (۔ُ) لگانا تجویز کیا۔اورتنوین کے لئے ایک کی بجائے دو دو حرکات(۔ً۔ٍ۔ ٌ) مقرر کیں۔ خلیل بن احمد نے ان حرکات ثلاثہ کے علاوہ پانچ نئی علامات ضبط ایجاد کیں۔ اس نے سکون کے لئے حرف ساکن کے اوپر(۔ ْ)یا (ہ) کی علامت وضع کی جو لفظ ’جزم‘ کے میم یامیم کے سرے کا مخفف نشان ہے۔ شدہ یا تشدید کے لئے اس نے حرف مشددکے اوپر( ۔ّ) لگانا تجویز کیا جو (ش) کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ یاتمدید کے لئے حروف ممدودہ کے اوپر( آ)کی علامت اختیار کی جو در اصل لفظ ’مد‘ ہی کی دوسری مخفف شکل ہے۔اسی طرح ہمزہ وصل کے لیے الف کے اوپر(ص)یعنی ’صلہ‘ کے ’ص‘کی ایک صورت اور ہمزہ قطعی کے لیے (ء) کی علامت وضع کی جو حرف (ع)کے سرے سے ماخوذ ہے کہتے ہیں کہ الخلیل نے روم اوراشمام کے لئے بھی علامات وضع کی تھیں۔
خلیل بن احمد الفراہیدی کی ایجاد کردہ علاماتِ ضبط کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لئے دو سیاہیاں استعمال کرنا لازمی نہ تھابلکہ متنِ قرآن اور علاماتِ ضبط سب ایک ہی سیاہی سے لکھے جانے لگے۔اس سے کتابت میں صعوبت اورقراء ات میں التباس کے امکانات کم تر ہوگئے ۔اس لئے یہ طریقہ بہت مقبول ہوگیا ۔آج کل دنیا بھر میں کتابت مصاحف کے لئے علاماتِ ضبط کا یہی طریقہ رائج ہے البتہ ضرورۃً ۔۔۔ اوربعض جگہ رواجاً۔۔۔ اس میں مزید اِصلاحات اورترمیمات کا سلسلہ جاری رہا۔ (قرآن وسنت چند اہم مباحث:۱۱۴،۱۱۵)