• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نص ِقرآنی کے متعلق چندعلوم کا تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حروفِ معجمہ درج ذیل پندرہ ہیں:
ب،ت، ث، ج، خ، ذ، ز، ش، ض، ظ، غ، ف، ق، ن، ي
حروف مہملہ درج ذیل تیرہ ہیں:
ا، ح، د، ر، س، ص، ط، ع، ک، ل، م، و،ھ
نصر بن عاصم اوریحییٰ بن یَعمُر نے یہ نقطے (الإعجام) مصحف کی سیاہی کے موافق روشنائی کے ساتھ لگائے تھے تاکہ ابوالاسود کے لگائے ہوئے نقط الاعراب سے ممتاز ہوسکیں ۔جومصحف کی سیاہی سے مختلف سیاہی کے ساتھ لگائے گئے تھے۔
عباسی دور کے ابتدائی کئی برسوں ۔۔۔ بلکہ تقریباً ایک صدی تک ۔۔۔کتابت ِمصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا (یعنی حرکات بذریعہ رنگدار نقاط اور حرفوں کے نقطے مقابلۃً ان سے ذرا چھوٹے مگر کتابت متن والی سیاہی لکھنا ) تاہم یہ دو قسم کے نقطے لکھنے اورپڑھنے والے ہر دو کے لئے صعوبت اور التباس کا سبب بنتے تھے اس لیے اعجام کے نقطے آہستہ آہستہ محض قلمکے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں کی صورت میں ظاہرکیے جانے لگے۔(قرآن وسنت چند اہم مباحث:ص۱۱۳،۱۱۴)
نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے امکان کو کم کرنے کے لئے اورکتابت میں بیک وقت متعدد سیاہیوں کے استعمال کی صعوبت سے بچنے کے لئے ایک اور اصلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔چنانچہ مشہور نحوی اورواضع علم العروض خلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ نے وقت کی اس ضرورت کو نئی علامات ضبط ایجاد کر کے پورا کیا۔ اور یہی وہ علاماتِ ضبط ہیں جو کم وبیش آج بھی ہر جگہ نہ صرف کتابت ِمصاحف میں بلکہ کسی بھی مشکل عربی عبارت کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔
خلیل فراہیدی نے نقط الاعجام کو متن کی سیاہی سے لکھنا اسی طرح برقرار رکھا۔بلکہ انہوں نے حرفوں کے نقطوں کی تعداد اور ان کی جگہ کے تعین کے اسباب وعلل بھی بیان کئے۔ البتہ انہوں نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا۔ انہوں نے زبر کے لئے حر ف کے اوپر ایک ترچھی لکیر( ۔َ) زیر کے لئے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر( ۔ِ) اورپیش کے لئے حر ف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل (۔ُ) لگانا تجویز کیا۔اورتنوین کے لئے ایک کی بجائے دو دو حرکات(۔ً۔ٍ۔ ٌ) مقرر کیں۔ خلیل بن احمد نے ان حرکات ثلاثہ کے علاوہ پانچ نئی علامات ضبط ایجاد کیں۔ اس نے سکون کے لئے حرف ساکن کے اوپر(۔ ْ)یا (ہ) کی علامت وضع کی جو لفظ ’جزم‘ کے میم یامیم کے سرے کا مخفف نشان ہے۔ شدہ یا تشدید کے لئے اس نے حرف مشددکے اوپر( ۔ّ) لگانا تجویز کیا جو (ش) کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ یاتمدید کے لئے حروف ممدودہ کے اوپر( آ)کی علامت اختیار کی جو در اصل لفظ ’مد‘ ہی کی دوسری مخفف شکل ہے۔اسی طرح ہمزہ وصل کے لیے الف کے اوپر(ص)یعنی ’صلہ‘ کے ’ص‘کی ایک صورت اور ہمزہ قطعی کے لیے (ء) کی علامت وضع کی جو حرف (ع)کے سرے سے ماخوذ ہے کہتے ہیں کہ الخلیل نے روم اوراشمام کے لئے بھی علامات وضع کی تھیں۔
خلیل بن احمد الفراہیدی کی ایجاد کردہ علاماتِ ضبط کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لئے دو سیاہیاں استعمال کرنا لازمی نہ تھابلکہ متنِ قرآن اور علاماتِ ضبط سب ایک ہی سیاہی سے لکھے جانے لگے۔اس سے کتابت میں صعوبت اورقراء ات میں التباس کے امکانات کم تر ہوگئے ۔اس لئے یہ طریقہ بہت مقبول ہوگیا ۔آج کل دنیا بھر میں کتابت مصاحف کے لئے علاماتِ ضبط کا یہی طریقہ رائج ہے البتہ ضرورۃً ۔۔۔ اوربعض جگہ رواجاً۔۔۔ اس میں مزید اِصلاحات اورترمیمات کا سلسلہ جاری رہا۔ (قرآن وسنت چند اہم مباحث:۱۱۴،۱۱۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علامات ضبط کاحکم
کتابت مصاحف میں علاماتِ ضبط کے اس کثیر التنوع استعمال سے یہ بات بھی کھل کرسامنے آتی ہے کہ علم الضبط کو علم الرسم کی طرح کی کوئی ایسی تقدیس حاصل نہیں ہے کہ ایک زمانے یاکسی ایک علاقے میں رائج طریق ضبط کی پابندی کو واجب قرار دیاجائے۔بلکہ اس میں آسانی کے لئے آج بھی تبدیلی کرناجائز ہے۔ بشرطیکہ نئی ایجاد کردہ علامات قدیم علامات ضبط سے آسان اور سہل ہوں۔برصغیر پاک وہند میں رائج علامات ضبط سلف سے منقول قدیم علامات ضبط سے مختلف ہیں، لیکن یہ علامات مقابلۃً ان سے آسان ہیں ۔اس لیے علماء نے آسانی کی غرض سے ان علامات کے ساتھ کتابت ِقرآن مجید کی اِجازت دی ہے، بشرطیکہ اس میں موجود چند خامیوں کو دور کر لیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علم الضّبط پر لکھی گئی چند کتب کے نام
٭ الطراز فی شرح ضبط الخراز ازابی عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عبد الجلیل التنیسی رحمہ اللہ
٭ کتاب أصول الضبط وکیفیتہ علی جہۃ الاختصار ازامام ابوداؤد سلیمان بن نجاح رحمہ اللہ
٭ رسالۃ فی علم الکتابۃ ازابی حیان التوحیدی، حقّقہ الدکتور ابراہیم الکیلانی رحمہ اللہ
٭ السّبیل إلی ضبط کلمات التّنزیل فی فن الضبطازالشیخ احمد محمد ابی زیت رحمہ اللہ
٭ سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین از الشیخ علی محمد الضباع رحمہ اللہ
٭ کتاب العین از خلیل بن أحمد الفراہیدي حققہ مہدی المخزومی وابراہیم السامرائی رحمہ اللہ(بغداد)
٭ کتاب النقط از ابی عمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ
٭ کشف الغمام عن ضبط مرسوم الإمام از حسن بن علی بن ابی بکر الشہیر بالشبانی رحمہ اللہ(مخطوط)
٭ المحکم فی نقط المصاحف از ابی عمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ
٭ رسم المصحف وضبطہ بین التوقیف والاصطلاحات الحدیثۃ از الدکتور شعبان محمداسمٰعیل رحمہ اللہ
٭ اِرشاد الطالبین فی ضبط القرآن الکریم از الدکتور محمد سالم المحیسن رحمہ اللہ
٭ دلیل الحیران شرح مورد الظمآن في رسم وضبط القرآن للمارغنی التونسی رحمہ اللہ
٭ إیفاء الکیل بشرح متن الذیل فی فنّ الضبط از عبد الرزاق بن علی بن ابراہیم موسیٰ رحمہ اللہ (مدرس بالازہر سابقاً)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٤) علم الرسم
رسم کا لغوی معنی اثر یا نشان ہے ،اس کی جمع رسوم (آثار، نشانات) آتی ہے جب کہ ’علم الرسم‘ سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف ِعثمانیہ کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اوراختلافات کا پتہ چلتا ہے۔ (قرآن وسنت چند مباحث: ص۴۷)
قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ علم الرسم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآنی کلمات کو حذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنے کا علم ،جس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اورتواتر کے ساتھ نبی کریمﷺسے منقول ہے۔‘‘ (الخط العثماني فی الرسم القرآنی:ص۲)
علم الرسم کا موضوع قرآن مجید کے حروف من حیث الکتابت ہیں، کیونکہ اس علم میں حروف کی رسم ہی کا بیان ہوتا ہے تاکہ جس طرح قرآن مجید من حیث المعنی محفوظ ہے،اسی طرح اس کی رسم بھی محفوظ ہو جائے۔ تمام قراء کرام اور اہل علم پر واجب ہے کہ قرآن مجید کے رسم کا علم حاصل کریں اور اس کی پیروی کریں اور اس کی مخالفت کرنے سے اجتناب کریں۔ (الخط العثمانی في الرسم القرآنی: ص۷)
رسم عثمانی توقیفی ہے، جسے نبی کریمﷺنے خود اپنی نگرانی میں لکھوایا۔عہد ِصدیقی اور عہد ِعثمانی میں بھی حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺکے لکھوائے ہوئے رسم کے مطابق قرآن مجید کو جمع کیا۔ کتابت مصاحف میں رسم عثمانی کا التزام کرنا فرض اور واجب ہے۔رسم عثمانی کے خلاف عر بی یا غیر عربی حروف میں لکھنا حرام ہے ،کیونکہ یہی وہ معیاری رسم ہے جس پر (۱۲۰۰۰) بارہ ہزار صحابہ کرام اور اُمت کا اجماع ہے۔ (رسم عثمانی کی توقیفیت اور کتابت مصاحف میں اس کا التزام کرنے کے حوالے سے تفصیلات جاننے کے لیے راقم الحروف کے ’رسم عثمانی اوراس کی شرعی حیثیت‘ نامی مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔جو ماہنامہ ’رشد‘ کے شمارہ ہذا ’ قراء ات نمبر‘میں شامل ِاشاعت ہے۔
مصاحف عثمانیہ کا رسم زیادہ تررسم قیاسی کے موافق ہی ہے صرف چند کلمات میں رسم عثمانی مروّجہ رسم قیاسی کے خلاف ہے ۔ذیل میں ہم رسم عثمانی اور رسم قیاسی کے اختلاف کی بطورِ نمونہ چند مثالوں کو بیان کرتے ہیں۔جس سے آپ رسم عثمانی اوررسم قیاسی کے بنیادی اختلاف کو سمجھ جائیں گے۔
رسم عثمانی
رسم قیاسی​
اَلئٰن
الآنَ​
اِیّٰیَ
اِیَّایَ​
العُلَمٰؤُا
العُلَمَائُ
جِایْ ئَ
جِیْئَ​
سأورِیکم
سأریکم​
الاِنْسٰن
الإنسان​
یَبْنَؤُمَّ
یَا ابْنَ أمَّ​
بِأیْیدٍ
بأَیْدٍ​
أفَائِنْ
أفَإِنْ​
سَلٰسِلَا
سَلٰسِلَ​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رسم عثمانی پر لکھی گئی چند معروف کتابوں کے نام
٭ المقنع في معرفۃ رسم مصاحف الأمصار از امام ابی عمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ
٭ مختصر التبیین لہجاء التنزیل ازامام ابی داؤد سلیمان بن نجاح رحمہ اللہ
٭ جامع البیان في معرفۃ رسم القرآن از علی اسماعیل السید ہنداوی رحمہ اللہ
٭ إعجاز رسم القرآن ازمحمد شملول رحمہ اللہ
٭ الخط العثمانی في رسم القرآنی از قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ(اردو)
٭ سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین ازالشیخ علی محمد الضباع رحمہ اللہ
٭ رسم المصاحف وضبطہ بین التوقیف والاصطلاحات الحدیثیۃ ازالدکتور شعبان محمد اسماعیل رحمہ اللہ
٭ دلیل الحیران شرح مورد الظمآن فی رسم وضبط القرآن ازمارغنی التونسی رحمہ اللہ
٭ اختلاف مصاحف الشام والحجازوالعراق ازعبد اللہ بن عامر الیحصبی رحمہ اللہ
٭ کتاب اختلاف مصاحف أہل المدینۃ وأہل الکوفۃ وأہل البصرۃ از علی بن حمزہ الکسائی رحمہ اللہ
٭ الإعلان بتکملۃ مورد الظمآن ازابن عاشررحمہ اللہ
٭ اختلاف المصاحف ازخلف بن ہشام البزازرحمہ اللہ
٭ اختلاف أہل الکوفۃ والبصرۃ والشام فی المصاحف از یحییٰ بن زیاد الفراء رحمہ اللہ
٭ اللطائف فی جمع ہجاء المصاحفاز ابن مقسم العطاررحمہ اللہ
٭ البدیع فی ہجاء المصاحف از مکی بن طالب القیسی رحمہ اللہ
٭ عنوان الدلیل فی مرسوم خط التنزیل از اَبی العباس المراکشی الشہیر بابن البناء رحمہ اللہ
٭ عقیلۃ أتراب القصائد فی بیان رسم المصاحف از قاسم بن فیرہ الشاطبی رحمہ اللہ
٭ کشف الأسرار فی رسم مصاحف الامصاراز ابی یحییٰ محمد بن محمود الشیرازی السمرقندی رحمہ اللہ
٭ رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت از حافظ سمیع اللہ فراز(مقالہ ایم فل شیخ زید اسلامک سنٹر)
علم الرسم کے بارے میں یہ بطور نمونہ چند کتب کے نام ذکر کر دیئے ہیں ۔ورنہ علم الرسم پر اتنی زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں کہ ان کا شمار کرنا بھی کارِ دشوار ہے ۔پروفیسر حافظ احمد یار صاحب نے اپنی کتاب’قرآن وسنت چند مباحث‘ میں تقریباً ۵۰ کتابوں کے نام ذکر کئے ہیں۔اس کثرت تالیفات کا ایک سبب غالب یہ بھی بنا کہ مصاحف کی تیاری مسلمانوں کی روز مرہ کی ضروریات کا ایک جزء تھا(اور ہے) ہر مسلمان کو نہیں تو کم ازکم ہر مسلمان کنبہ کو ایک مصحف کی لازماً ضرورت ہوتی تھی۔اسی بناء پر ہر ایک کاتب مصحف کے پاس ایک مختصر راہنمائے رسم قرآن کی قسم کا رسالہ یا کتاب کا ہونا ضروری تھا۔ جس میں کم ازکم ضروری مقامات کی املاء کے بارے میں معلومات اورہدایات موجود ہوں۔چنانچہ قرآن مجید کے ایسے تمام مقامات کی سورت بسورت نشان دہی کے لئے متعدد مختصر اور مطول کتب لکھی گئیں۔ (قرآن وسنت چند مباحث:ص۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(٥) علم الفواصل (یا عدّ الآي)
علم الفواصل سے مراد ایک ایسا فن ہے ،جس میں قرآن مجید کی سورتیں اور ان کی آیتوں کا شمار اور ان کے ابتدائی اور آخری سرے بتائے جاتے ہیں۔علم الفواصل کاموضوع بھی قرآن کی سورتیں اورآیات ہیں، کیونکہ اس علم میں انہی کے حالات سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔شمار آیات کے علم کے متعدد فوائد ہیں جن میں سے چند فوائد درج ذیل ہیں:
٭ نماز میں مسنون قراء ت کا میسر آجانا چنانچہ نبی کریمﷺفجر کی نماز میں ساٹھ(۶۰)آیتوں سے سو(۱۰۰)آیتوں تک پڑھتے تھے۔
٭ رات میں دس،پچاس ،سو، دوسو، تین سو آیتوں کی تلاوت پر خاص خاص درجوں کا عطا ہونا۔
٭ دو،تین ، چار یا ان سے زیادہ آیات سیکھ لینے کا اتنی ہی اونٹنیاں مل جانے سے بہتر ہونا۔
٭ آیات شمار کرنے کے ذریعے نبی کریمﷺکی سنت ادا کرنے کا ثواب نصیب ہونا کیونکہ آپ ﷺانگلیوں سے آیات شمار کرتے تھے۔
٭ سورۃ ملک کی تیس (۳۰) آیتوں کا سفارش کرنا اور اس کا قبول ہوجانا۔
٭ سورۃالکہف کی پہلی دس آیات حفظ کرلینے کے سبب دجال کے فتنے سے محفوظ رہنا۔
٭ رات میں بیدا ر ہونے کے وقت سورت آل عمران کے آخری رکوع کی تلاوت کا ثواب میسر آنا جو نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔
٭ رات کے وقت سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت کا آفتوں اور پریشانیوں سے بچانے اور ہر نعمت دلانے کے لئے کافی ہو نا۔
٭ نماز میں سورۃ الفاتحہ کے بعد چھوٹی تین آیات اور بڑی ایک آیت کی تلاوت کا احناف کے ہاں واجب اور دوسرے اماموں کے ہاںسنت ہونا۔
٭ ورش کے لئے ذوات الراء کلمات اور گیارہ سورتوں کے رؤس آیات کے یائی کلمات میں صرف تقلیل ہے ۔ (کاشف العسر شرح ناظمۃ الزہر :ص۴۳،۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علم الفواصل (یا علم عدّ الآی)کی تو قیفیت
علم الفواصل توقیفی ہے، کیونکہ نبی کریمﷺسے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے بعض سورتوں کی آیات کی تعداد بتائی اورگن کر بتلایا کہ اس اس سورت کی اتنی اتنی آیات ہیں۔یاآپ ؐنے بعض متعین آیات(مثلاً سورۃ الکہف کی پہلی دس یا سورۃ البقرۃ کی آخری دو وغیرہ)کے فضائل بیان کیے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمار آیات توقیفی ہے ۔شمار آ یا ت کے بارے میں چند صحیح احادیث درج ذیل ہیں:
٭ امام دانی رحمہ اللہ کی روایت پر سیدہ ام سلمۃؓ سے منقول ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ نبی کریمؐ اس سورت (یعنی سورۃ الفاتحہ) کی تلاوت فرما رہے تھے سو آپﷺ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم٭ العلمین٭ الرحیم٭ الدین٭ نستعین٭پانچوں آیات میں سے ہر ایک پر ایک ایک انگلی بند کرتے رہے۔اورنستعین پر پہنچ کرپانچوں انگلیاں بند کر لیں۔پھرالمستقیم‘‘ پر ایک انگلی کھڑی کر لی۔جس میں اشارہ تھا کہ یہاں چھ آیتیں ہوگئیں۔پھر سورت کے آخر میں ایک انگلی اوراٹھالی جس کے معنی یہ تھے کہ سات آیتیں ہوگئیں۔
٭ سیدناابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:قرآن مجیدکی تیس(۳۰) آیتوں نے اللہ تعالیٰ سے ایک شخص کے بارے میں سفارش کی یہاں تک کہ اس کو جنت میں پہنچا دیا۔اور وہ سورۃ الملک ہے۔
٭سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:جس شخص نے سورۃ الکہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کرلیں اسے دجال کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
٭سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا (اُم المؤمنین) کے ہاں رات گذاری۔ آدھی رات کے وقت نبی کریمﷺبیدا ر ہوئے اور سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ…سے لیکر تُفْلِحُوْنَ‘‘ تک پڑھیں۔
٭بخاری شریف میں نبی کریمﷺسے منقول ہے کہ جس شخص نے رات کو سوتے وقت سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات پڑھیں وہ اسے کافی ہو جائیں گی۔
٭ سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺہمارے پاس تشریف لائے اورہم صفہ پر موجود تھے۔ آپ نے فرمایا :تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وادی بطحان اورعقیق میں جائے اوروہاں سے بغیر کسی گناہ اورقطع تعلقی کے دو موٹی تازی اونچی کوہان والی چمکدار اونٹنیاں لے آئے۔ (یعنی بالکل حلال طریقے سے مل جائیں) ہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ!ہم میں سے ہر ایک اس بات کو پسند کرتا ہے ۔آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک مسجد میں جاکر کتاب اللہ کی دو آیات کیوں نہیں سیکھ لیتا وہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں ،اورتین آیتیں تین اونٹنیوں سے اور چار آ یتیں چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیتوں کا شمار نبی کریمﷺسے توقیفاً ثابت ہے اورآپ آیات کو شمار کیا کرتے تھے۔ (کاشف العسر شرح ناظمۃ الزہر:۳۹تا ۴۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
عقلی دلائل
شمار آیات کے توقیفی ہونے پر چار عقلی دلائل
٭ قرآن مجید میں متعدد ایسے کلمات ہیں جو اپنی ظاہری شکل اوروزن میں ان کلمات سے ملتے جلتے ہیں۔جن پر سب نے آیت شمار کی ہے ،لیکن یہ کلمات اجماعاً متروک ہیں اوران پرکسی نے بھی آیت شمار نہیں کی۔
٭ بعض کلمات ایسے ہیں جن پر کلام اورجملہ پورا نہیں ہوتا،یا ان کلمات کابعد والے الفاظ سے قوی درجہ کا تعلق ہے ،اوراس صورت میں عقل کا تقاضا یہی تھا کہ ان پرآیت شمار نہ کی جاتی لیکن وہاں آیت شمار کی گئی ہے۔
مذکورہ دو دلیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے ہم شکل اورہم وزن ہونے کے باوجود ان کلمات پر آیت شمار نہ کرنا اورمابعد کے ساتھ قوی تعلق ہونے کے باوجود آیت شمار کرلینا توقیفی امر ہے ، اوراس میں عقل واجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہے،کیونکہ عقل کا تقاضا ہے کہ آیات کے ہم شکل اورہم وزن کلمات پر آیت شمار کی جائے اورمابعد کے ساتھ قوی تعلق رکھنے والے کلمات پرآیت شمار نہ کی جائے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔یہ تفریق توقیف سے ہی ہوسکتی ہے،عقل ورائے سے نہیں۔
٭ قرآن مجید کی انتیس(۲۹)سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات آتے ہیں،کوفی رحمہ اللہ نے ان میں سے انیس (۱۹)سورتوں کے مقطعات پر آیت شمار کی ہے جبکہ دس (۱۰)سورتوں کے مقطعات کو اس سے مستثنیٰ کردیا ہے۔حمصینے صرف ایک جگہ(قٓ)پر آیت شمار کی ہے ،جبکہ دیگر(۲۸)مقامات پر آیت شمار نہیں کی۔سو ان حضرات کا حروف مقطعات کوشمار کرنے کے بارے میں تفریق کرنا اس کے توقیفی ہونے کی تیسری بڑی دلیل ہے ،کیونکہ عقل کی رو سے توتمام حروف مقطعات بالکل یکساں ہیں۔اس لیے ان کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے تھا،یعنی یا توسب پر آیت ہوتی یا کسی پر بھی نہ ہوتی حالانکہ واقعہ اس کے خلاف ہے اوروہ یہ ہے کہ کسی پر آیت ہے اورکسی پر نہیں ہے۔
٭ آیات کے شماروں کے توقیفی اورنبی کریمﷺکے بتائے ہوئے ہونے کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ بعض آیات صرف ایک کلمہ کی ہیں۔اور ایک کلمہ سے کوئی بھی معنی ومفہوم واضح نہیں ہوتا۔اورایک ہی کلمہ والی آیات بعض بڑی بڑی سورتوں میں بھی آئی ہیں جیسے والطّور، والفجر،وغیرہ۔ اگر آیات اوران کے شمار توقیفی نہ ہوتے بلکہ عقل سے مقرر کیے جاتے تو کوئی بھی آیت ایسی نہ ہوتی جو ایک کلمہ والی ہو۔ (کاشف العسر شرح ناظمۃ الزہر:۵۹تا۶۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اِعتراض
یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر آیات کاشمار توقیفی ہے عقلی اور اجتہادی نہیں ۔توپھرمختلف شماروں کی آیات کی تعداد کیوں مختلف ہے ۔تمام شماروں میں ایک ہی عددہونا چاہیے تھا؟
جواب
اس علم میں توقیف نبوی اورآپ ﷺسے سماعِ صحابہ ،ان کے اجتہاد کے منافی نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رؤوس آیات پر وقف کرتے ہوئے آیات کا علم سکھایا ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جہاں نبی کریمﷺنے ہمیشہ وقف کیا اور وصل نہیں کیا۔ایسی آیات تمام شماروں میں بالاتفاق معدود ہیں۔بعض مقامات ایسے ہیں جہاں نبی کریمﷺنے ہمیشہ وصل کیا اور وقف نہیں کیا، ایسے مقامات بالاتفاق تمام شماروں میں متروک ہیں۔
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں نبی کریمﷺنے کبھی وقف کیا اور کبھی وصل کیا۔اوراہل فن کے لئے یہی مقامِ اختلاف ہے، کیونکہ آپ ﷺ کے وقف کرنے میں اس مقام کے رؤوس آیات میں سے ہونے کا احتما ل ہے اوریہ بھی احتمال ہے کہ آپ نے راحت کے لئے یا تعریف وقف کے لئے وقف کیا ہو اورآپ ﷺ کے وصل کرنے میں اس مقام (جہاں پہلے وقف کیا تھا)کے عدم رؤوس آیات میں سے ہونے کا احتمال ہے اور رأس الآیۃ ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے۔
ان احتمالات کی موجودگی میں کسی مقام پر آیت ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ کرنا اجتہاد کے بغیر نا ممکن تھااور یہی محتمل فیہ مقامات صحابہ کرام کے اجتہاد کرنے کاسبب بنے۔جو در اصل نبی کریم1سے ہی ثابت تھے۔ (بشیر الیسر شرح ناظمۃ الزہر:ص۱۱۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
آیات کے شماروں کی تعداد
آیات کے شماروں کی تعداد سات (۷) ہے جن کے نام درج ذیل ہیں:
(١)مدنی اول (٢)مدنی اخیر (٣)مکی (٤)کوفی (٥)بصری (٦)دمشقی (٧)حمصی
قرآنی آیات دو طرح کی ہیں:
(١) اِجماعی: ان سے مراد وہ آیات ہیں جن پر شمار آیات کے ساتوں اِماموں نے آیت شمار کی ہے اوران کی تعداد چھ ہزار نوے (۶۰۹۰) ہے۔
(٢) اِختلافی :اس سے مراد وہ آیات ہیں جن پر بعض نے آیت شمار کی ہے اوربعض نے نہیں کی۔اور ان کی تعداد دو سو تہتر (۲۷۳) ہے ۔یہی وہ مختلف فیہ مقامات ہیں جن کے بارے میں علم الفواصل میں بحث کی جاتی ہے کہ کہاں کہاں آیات معدود ہیں اورکہاں کہاں متروک ہیں۔
 
Top