• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نص ِقرآنی کے متعلق چندعلوم کا تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محل وقف کی چار صورتیں
(١) وقف تام (٢) وقف کافی (٣) وقف حسن (٤) وقف قبیح
مذکورہ دو اہم باتوں کے علاوہ بھی علم وقف میں چند اہم مباحث پر گفتگو کی جاتی ہے مثلاًوقف واقع ہونے کی چار صورتیں ہیں:
(١)وقف اختیاری (٢)وقف اضطراری (٣)وقف اختباری (٤)وقف انتظاری
نیز علم وقف میں سکتہ ،سکوت، قطع، ابتداء ،اعادہ اوروصل وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم الوقف پر لکھی گئی چند اہم کتب
علم الوقف پر صحابہ کرام کے دور سے لے کر ہر دور میں متعدد کتابیں لکھی گئیں جو اس علم وفن کی اہمیت وفضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔ان میں سے بعض ضخیم اور مفصل اوربعض متوسط اوربعض مختصر ہیں۔ذیل میں ہم صرف چند کتابوں کے نام رقم کریں گے تاکہ قارئین کو اس امر کااندازہ ہو کہ اس علم وفن میں بھی لاتعداد کتب لکھی گئی ہیں۔
٭ کتاب الوقف والابتداء :یہ ضرار بن صرد مقری کوفی کی تالیف ہے ۔ (الفہرست لابن ندیم:ص۳۸)
٭ کتاب الوقف:یہ شیبہ بن نصاح مدنی کوفی کی تالیف ہے ۔علامہ جزری کی تحقیق کے مطابق اس فن میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔
٭ کتاب الوقف والابتداء: یہ قراء سبعہ میں سے تیسرے قاری ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ الوقف والابتداء: یہ قراء سبعہ میں چھٹے قاری امام حمزہ رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ وقف التمام: یہ قراء سبعہ میں سے پہلے قاری امام نافع رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ الوقف والابتداء: یہ قراء سبعہ میں سے ساتویں قاری امام کسائی رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ وقف التمام: یہ قراء عشرہ میں سے نویں قاری امام یعقوب رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ الوقف والابتداء: یہ قراء عشرہ میں دسویں امام اور امام حمزہ کے شاگرد امام خلف کی تالیف ہے۔
٭ الإیضاح فی الوقف والابتداء:یہ محمدبن قاسم بشار الانباری کی تالیف ہے ،اس کتاب کی علامہ دانی، علامہ جزری رحمہ اللہ وغیرہ اَئمہ فن نے تعریف کی ہے۔
٭ کتاب الوقف : یہ احمد بن کامل بن خلف بن شجرہ البغدادی رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ الابانۃ فی الوقف والابتداء: یہ محمدبن جعفر ابن عبد الکریم رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ الاہتداء فی الوقف والابتداء: یہ امام الفن عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ المکتفی فی الوقف والابتداء: یہ بھی امام دانی رحمہ اللہ کی کتاب ہے۔
٭ تحفۃ العرفان فی بیان اوقاف القرآن: یہ احمد بن مصطفی طاش کبری زادہ رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔
٭ معلم الاداء فی الوقف والابتداء:یہ قاری محمد تقی الاسلام رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔(اردو)
٭ الاہتداء فی الوقف والابتداء:یہ قاری محمد ادریس عاصم حفظہ اللہ کی تالیف ہے۔(اردو)
قاری محمد تقی الاسلام نے اپنی کتاب’معلم الاداء فی الوقف والابتداء‘ میں ۷۸ جبکہ قاری محمد ادریس عاصم نے اپنی کتاب’’الاہتداء فی الوقف والابتداء‘‘ میں۱۰۲ کتابوں کے اسماء قلم بند کیے ہیں تفصیلات کے لئے مذکورہ کتب کی طرف مراجعت فرمائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) علم التحریرات
تحریرات لفظ ’تحریر‘ کی جمع ہے اورلغت میں تحریر کے متعدد معانی ہیں جن میں سے چند معانی یہ ہیں:
(١)تحقیق کرنا (٢) پختہ کرنا (٥)اصلاح کرنا
اِصطلاح میں تحریرکہتے ہیں کہ کسی شے کو پختہ کرنا اوراس میں کمی وزیادتی کے بغیر گہری نظر رکھنا،یعنی قراء ات قرآنیہ کو غلطی اورخلل(مثلاً ترکیب وغیرہ)سے محفوظ رکھنا مثلاً شروع آیت میں ایک قاری کے لئے پڑھنا اورآخری آیت میں اس سے عاجز آجانا وغیرہ۔اس کو تلفیق کہتے ہیں ۔
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’بعض قراء ت کو بعض قرا ء ت کے ساتھ خلط ملط کردینا یقینا خطا ہے۔‘‘
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قاری پر واجب ہے کہ وہ طرق میں ترکیب(اختلاط )سے اِجتناب کرے اوران کو جدا جدا پڑھے ورنہ وہ ناجائز عمل میں واقع ہو گا اورغیر منزل من اللہ قراء ت کی تلاوت کرے گا۔علامہ اَزمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قرآن مجید میں روایتاً ترکیب (اختلاط طرق) حرام یا مکروہ تحریمی ہے۔جیساکہ اہل درایت نے تحقیق کی ہے۔گویا کہ قراء ت کی تحقیق ودرستگی اورہر روایت کو اس کے صحیح طرق سے پڑھنے اور ہرقراء ت کو جدا جدا پڑھنے کا نام’تحریرات‘ہے۔
تحریرات کافائدہ حرام اورمعیوب سے کلام اللہ کی حفاظت کرنا ہے۔
مذکو رہ کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ قراء ت میں ترکیب ممنوع اورحرام ہے ، جس طرح کسی حدیث کو غیر ناقل (راوی) کی طرف منسوب کرنا ممنوع ہے اس طرح قراء ت کو کسی غیر طریق سے پڑھنا ممنوع ہے بلکہ اس کی ممانعت حدیث کی نسبت زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس کا تعلق کلام اللہ سے ہے۔
پہلی وجہ ہے کہ علماء کرام نے قراء ت میں اس کاخصوصی اہتمام کیا ہے، سب سے پہلے امام جزری رحمہ اللہ نے تحریرات کا اہتمام کیا اور قراء ت کے طرق کو درست کرکے جدا جدا کرکے جمع کردیا۔وہ اپنی کتاب النشرمیں طرق کو جمع کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
’’اس وقت دنیامیں صحیح ترین اوراعلی ترین طرق یہی ہے ۔ان طرق میں، میں نے انہی رواۃ کوذکر کیا ہے جن کی عدالت ہمارے ہاں یا ہمارے سلف کے ہاں ثابت شدہ ہے اور راوی کی ملاقات یا معاصرت اپنے شیخ سے متحقق ہے، اورایسا اہتمام پہلے کہیں نہیں ملتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریرات کے فوائد
(١) تحریرات کاایک فائدہ یہ ہے کہ آدمی قراء ات میں ترکیب وتلقین سے بچ جاتا ہے ،جسے علماء کرام نے متتخصص قراء کرام پر حرام قرار دیاہے۔
(٢) تحریرات درحقیقت اُمہات الکتب’شاطبیۃ،الدرہ اورطیبۃ‘ کی تشریح ووضاحت ہیں۔
(٣) سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ تحریرات سے کلام اللہ کی حفاظت ہوتی ہے تاکہ کوئی حرام یا معیوب امر کلام الٰہی میں داخل نہ ہوسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریرات کا آغاز
تحریرات کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں، امام دانی رحمہ اللہ، ابن شریح رحمہ اللہ، مکی القیسی رحمہ اللہ الاہوازی رحمہ اللہ، ابوالقاسم الہذلی رحمہ اللہ کے زمانے میں ہوا۔جب قراء ات کو جمع کرکے اکٹھا پڑھنے کا رواج عام ہوا۔اس سے پہلے سلف ہر قاری بلکہ ہر راوی کے لئے جدا جدا قرآن مجید ختم کرتے تھے اوراس کام پر طویل عرصہ لگ جاتا تھا۔اورقریب تھا کہ طلباء علم قراء ت سیکھنا بالکل ہی ترک دیتے ،چنانچہ اس مشقت کو دور کرنے کے لئے ’’جمع قراء ت‘‘کا طریقہ اختیار کیا گیا جس کو طلبا نے آسان سمجھا اور جوق در جوق علم قراء ات سیکھنا شروع کر دیا۔جب ’جمع قراء ات‘ کا طریقہ عام ہوگیا تو کثرت وجوہ اورتعدد طرق کا مسئلہ پیدا ہوگیا ۔جن کو منظم کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وجوہ اورطرق آپس میں باہم خلط ملط نہ ہوں، کیونکہ’جمع قراء ت‘ میں عدم تر کیب بنیادی شرط ہے۔
چنانچہ محقق علماء کرام نے طرق کو نکھارنے اوروجوہ کی وضاحت کے لئے ’علم التحریرات‘ کو مدون کیا اوراس پر متعدد منظوم ومنثور کتب لکھیں۔اور ان آ یات قرآنیہ کو شمار کیا جن میں تحریرات کی ضرورت تھی اوران میں جائز وناجائز وجوہ کی وضاحت فرمادی۔ (خلاصہ از تاملات حول تحریرات العلماء للقراء ت المتواترۃ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریرات کی فنی حیثیت اوراختیارات قراء سے ان کا فرق
جملہ قراء ات عشرہ در حقیقت آئمہ قراء ت کے وہ اختیارات ہیں جو انہوں نے اپنے مشائخ واساتذہ کی قراء ات سے منتخب کیے ہیں،کیونکہ’علم القراء ات‘ کی تدوین سے پہلے سلف اپنے ذوق کے مطابق چند اُمورکو اختیار کر لیتے تھے اوراس کی پابندی کرتے ہوئے تلاوت فرماتے اور انہی اختیارات کو پڑھتے اورپڑھاتے تھے۔تمام محدثین ومفسرین اورفقہاء ومجتہدین ان کی اختیار کردہ قراء ات کوبلاعذر قبول کرتے تھے۔کوئی اہل علم بھی ان کے اختیار کردہ کسی ایک حرف کا بھی انکار نہیں کرتاتھا۔(شرح سبعہ قراء ت:۱؍۷۶)
اختیار قراء ات کایہ سلسلہ بے حد وسیع تھا اورصدیوں جاری رہا اوربے شمارصاحب آئمہ اختیار پیدا ہوئے۔امام ابومحمد مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کتابوں میں ان ستر(۷۰)صاحب اختیار آئمہ کی قراء ات مذکور ہیں جو قراء سبعہ سے مقدم تھے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ان کے ہم مرتبہ اور ان سے کم مرتبہ کتنے ہی اَئمہ ہونگے۔امام ابوجعفر ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں قراء سبعہ سے مقدم وہ پندرہ(۱۵)قراء تیں نقل کی ہیں۔جو عہد صحابہ میں پڑھی پڑھائی جاتی تھیں اور جن کی وہ اپنی نمازوں میں تلاوت کیا کرتے تھے ۔ان صاحب اختیار اَئمہ کے تلامذہ اور رواۃ بہت بڑی تعداد میں تھے بلکہ ان میں سے ہر ایک کی جانشین ایک پور ی قوم تھی جن کو احاطہ شمار میں لانا ناممکن ہے،لیکن ان تمام آئمہ کرام میں سے بعض حضرات کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت کے شرف سے نوازا اورآج تک ان کی قراء ات دنیا میں پڑھی اورپڑھائی جارہی ہیں،مقبولیت عامہ کاشرف حاصل کرنے والی قراء ات کی تعداد دس ہے۔جنہیں قراء ات عشرہ کہا جاتا ہے۔‘‘ (شرح سبعہ قراء ت:۱؍۷۶)
مذکورہ کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ سلف میں اپنے اساتذہ سے پڑھی ہوئی وجوہ کا التزام نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ذوق کے مطابق تمام اساتذہ کی قراء ت میں سے ایک نئی قراء ت اختیار کر لیتے تھے اورپھر اسی کے مطابق پڑھتے پڑھاتے رہتے تھے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آج بھی کوئی ماہر قاری ایک نیا اختیار بنانا چاہے تو شرعاً اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔اور ایسا کرنے والے کے لئے تحریرات کوئی معنی نہیں رکھتیں،کیونکہ وہ اپنے اختیار میں آزاد ہے کہ اپنے ذوق کے مطابق جس وجہ کو چاہے اختیار کرے اورجس وجہ کوچاہے تر ک کر دے،لیکن اگر کوئی شخص اپنے لیے نیا اختیار بنانے کی بجائے مذکورہ قراء ات عشرہ کے مطابق ہی پڑھنا چاہتا ہے تواہل فن کے نزدیک اس پر تحریرات کا التزام کرنا ضروری ہے۔کیونکہ علم التحریرات انہی قراء ات کی وجوہ اور طرق کو نکھارنے اورجداجدا کرنے کا کام کرتا ہے۔لہذا فن کے حسن وجمال اورعلمی شخصیت کا تقاضہ ہے کہ آدمی اہل فن کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق پڑھے۔اگرکوئی شخص قر اء ات عشرہ میں تحریرات کا التزام نہیں کرتا تواس سے اس کی علمی شخصیت مجروح ہوگی اور وہ جہالت کا مرتکب ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم التحریرات پر لکھی گئی چند اہم کتب
٭ اتحاف البریۃ ازالشیخ حسن خلف الحسینی
٭ بلوغ الأمنیۃ شرح اتحاف البریۃ ازالشیخ علی محمد الضباع رحمہ اللہ
٭ تاملات حول تحریرات العلماء للقراء ت المتواترۃ ازعبد الرزاق بن علی بن ابراہیم موسیٰ رحمہ اللہ
٭ کتاب حل المشکلات وتوضیح التحریرات فی القراء ت ازمحمد عبد الرحمن الخلیجی رحمہ اللہ
٭ کنزالمعانی فی تحریر حزرالامانی از علامہ سلیمان الجمزوری الأفندی رحمہ اللہ
٭ الفتح الرحمانی شرح کنز المعانی ازعلامہ سلیمان الجمزوری الأفندی رحمہ اللہ
٭ ہبۃ المنان فی تحریر أوجہ القرآن ازعلامہ محمد بن محمد الطباخ رحمہ اللہ
٭ الروض النضیر فی أوجہ الکتاب المنیر شرح فتح الکریم ازعلامہ المتولی رحمہ اللہ
٭ تحریر طیبۃ النشر فی القراء ت العشراز علامہ السید ہاشم رحمہ اللہ
٭ تحریر النشر از الشیخ مصطفی بن عبد الرحمن الأزمیری رحمہ اللہ
٭ شرح تنقیح فتح الکریم فی تحریر أوجہ القرآن الکریم
٭ عزو الطریقازعلامہ محمد بن احمد المتولی رحمہ اللہ
٭ المسائل التبریزیۃ از حافظ محمد بن الجزری فی الرد علی أربعین مسألۃ فی الغاز القراء ات
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) علم توجیہ القر ا ء ت
اس سے مراد وہ علم ہے جس میں دلائل کے ساتھ لغت، اعراب اورمعنی وغیرہ کے اعتبار سے وجوہ قراء ات کو بیان کیا جاتا ہے۔اس علم پر مشتمل کتابوں کو کتب التوجیہ ،کتب الاحتجاج یاعلل القر اء ات کا نام دیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم توجیہ القراء ات کا آغاز
اس علم کا آغاز علم عربی اور اس کی تدوین کے وقت سے ہی ہوگیا تھا۔علم لغت میں اہل عرب قرآن مجید اوراس کی قراء ات پر ہی اعتماد کرتے تھے۔یہ ان کا مصدر خاص تھا۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے اہل عرب نے ہی دوسری صدی ہجری میں علم توجیہ القرا ء ات کو ایجاد کیا۔ اور انہوں نے کتب الاعراب یا معانی القرآنی اغرائب القرآن کے نام سے کتابیں لکھیں۔
اس علم پر سب سے پہلے امام ابوعمرو بن العلاء المازنی بصری النحوی المقری، امام العربیۃ المشہور سیبویہ ،امام علی بن حمزہ الکسائی المقری النحوی،ابوزکریا یحییٰ بن زیاد القراء ،ابوعبید القاسم بن سلام اورمبرد وزجاج وغیرہ نے کلام کی۔اس کی مثالیں دیکھنے کے لئے امام الازہری کی کتاب(القراء ات وعلل النحویین فیہا)،امام فراء کی کتاب (معانی القرآن) امام زجاج کی کتاب(معانی القرآن) میں دیکھیں۔دوسری صدی ہجری تک معاملہ ایسے ہی چلتارہا ۔یہاں تک کہ امام مجاہد پیدا ہوئے اور قراء ات سبعہ اور دیگر قراء ات میں مستقل تصنیفات معرض وجود میں آئیں۔اس دوسرے مرحلے میں علم توجیہ القراء ات پر بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔اس علم میں مستقل کتاب لکھنے والے سب سے پہلے مصنف کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور بالجزم کسی ایک کی تحدید کرنا ایک مشکل کام ہے،کیونکہ متعدد کتب مفقود ہو چکی ہیں بعض اہل علم کے نزدیک امام کسائی نے سب سے پہلے اس علم پر مستقل کتاب لکھی ۔جب کہ بعض نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا نام لیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم توجیہ القراء ات کے مصادر
علم توجیہ القراء ا ت کے مصادر کی کئی اقسام ہیں
(١) وہ کتب جومستقل اس علم پر لکھی گئی تھیں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں احاطہ شمار میں نہیں لا یا جاسکتا ان میں چند کتب درج ذیل ہیں:
٭ القراء ات وعلل النحویین فیہا لابی منصور محمد بن احمد الأزہری رحمہ اللہ
٭ إعراب القراء ات السبع وعللہا لابن خالویۃ رحمہ اللہ
٭ الحجۃ للقراء السبعۃ أئمۃ الامصار بالحجاز والعراق والشام الذین ذکرہم ابن مجاہد، لابی علی حسن بن عبد الغفار الفارس
٭ حجۃ القراء ات لابی زرعۃ عبد الرحمن بن محمد بن زنجلۃ رحمہ اللہ
٭ الکشف عن وجوہ القراء ات السبع وعللہا وحججہا لمکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ
٭ الموضع شرح الہدایۃ فی القراء ات السبع لابی العباس المہدوی احمد بن عماررحمہ اللہ
٭ الموضح فی وجو ہ القراء ات وعللہا لنصربن علی الفارسی المشہور بابن ابی مریم رحمہ اللہ
(٢) کتب تفسیر :
بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں قرا ء ات کی توجیہات بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔اس سلسلے میں امام طبری رحمہ اللہ نے (جامع البیان )میں سب سے پہلے اس پر کلام کیا۔اسکے بعد دیگر مفسرین نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس سلسلے میں امام ابوجعفر النحاس نے (معانی القرآن)میں، امام زمخشری نے(الکشاف) میں ،ابن عطیہ نے(المحرر الوجیز) میں اور امام ابوحیان نے(البحرالمحیط) میں قراء ات کی توجیہات کا اہتمام کیا ہے۔
(٣) وہ کتب جو قراء ات شاذہ پر لکھی گئی ہیں،مثلاً
٭ المحتسب فی تبیین شواذ القراء ات والإفصاح عنہا لابی الفتح ابن جنی
٭ اعراب القراء ات الشواذ لابی البقاء العکبری
 
Top