ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت
قاری عبدالباسط منشاوی
قراء ات قرآنیہ کے بارے میں سب سے بنیادی چیزجس کا ثبوت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیایہ قراء ات ان شرائط پر پوری اترتی ہے جن سے قرآن کا ثبوت ہوتا ہے، جب یہ ثابت ہو جائے تو پھر یہ بحث اضافی ہے کہ ان کو نماز میں پڑھنا چاہئے یا نہیں۔قرآن کریم کے متنوع لہجات وقراء ات چونکہ قرآن مجید ہی میں شامل ہیں، چنانچہ انہیں نماز وغیر نماز ہر دو میں بطور تلاوت پڑھنے میں بہرحال کوئی حرج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ صحابہ کرام نمازوں میں مختلف اندازوں سے قرآن کریم کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ رمضان المبارک کے قیام اللیل میں ایک رات ایک قراء ت کے ساتھ پڑھاتے اور دوسری رات دوسری قراء ت میں۔متعدد قراء توں کے ذیل میں داخل اسالیب ِبلاغت کے متنوع اندازوں سے کلام الٰہی میں جو معنویت پیداہوتی ہے، ہمارا مشاہدہ ہے کہ معانی قرآن کو سمجھنے والے لوگ اس سے انتہائی محظوظ ہوتے ہیں۔ مدیر ماہنامہ رُشد جناب ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾کا پچھلے ایک عشرہ سے کویت اور دبئی میں قیام اللیل کے ضمن میں یہی معمول ہے کہ وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی اتباع میں ہزاروں اہل عرب کو ہر رات مختلف قراء ات میں نمازِ تراویح کی امامت فرماتے ہیں۔ مختلف لہجوں اور کلام کے متعدد اسالیب میں موجود معنویت کی حلاوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ستائیسویں شب تک نمازیوں کا مختلف قراء ات سننے کا یہ شوق اس عروج پر پہنچ جاتا ہے کہ موصوف ہر سال رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو متنوع چھوٹی سورتوںمیں تمام قراء ات کی تلاوت ایک ہی رات میںتلاوت کرتے ہیں۔ ان کا یہی حسن ذوق او رمہارت ہے کہ ہر سال انہیں بین الاقوامی سطح پر تراویح کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگرچہ ہمیں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن بازرحمہ اللہ کے اس فتویٰ سے مکمل اتفاق ہے کہ جن علاقوں میں لوگ ان قراء ات سے مانوس نہ ہوں، وہاں نماز و غیر نماز میں عوام الناس میں ان کی تلاوت کرنے سے سدًا للذّریعۃ بچنا چاہئے یا کم از کم عوام الناس کو ان قراء ات کا تعارف کروا کر تلاوت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ (ادارہ)
اس بارے میں امت کے جمیع طبقات میں اجماع رہا ہے اور آج بھی ہے کہ قراء ات متواترہ ان تمام شروط پر پوری اترتی ہیں جن سے قرآن کا ثبوت ہوتا ہے اور ان کاانکار قرآن کریم کا انکار ہے اور منکر قراء ات دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن باوجود اس کے بعض حضرات نماز میں قراء ات متواترہ کی تلاوت کے بارے میں واضح رائے کا اظہار نہیں کرتے۔ ہم ایسے حضرات کی تشفی کے لیے احادیث اور آئمہ کے فتاویٰ جات سے وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ صحابہ، تابعین اور آئمہ سلف بغیر کسی تفریق کے جمیع قراء ات متواترہ کو نماز میں تلاوت کرتے تھے۔