ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
مزیدتفصیل کے لیے ان کتب کامطالعہ کریں۔
(١) النشر فی القراء ات العشر۔ امام جزری رحمہ اللہ
(٢) معرفۃ القراء الکبار امام ذہبی رحمہ اللہ
(٣) سیراعلام النبلاء امام ذہبی رحمہ اللہ
(٤) غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء امام جزری رحمہ اللہ
کتب رجال میں یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ امام ہشام رحمہ اللہ کے استاد بھی جامع مسجد کے مشہور خطیب تھے اسی طرح ابن کثیر مکی رحمہ اللہ بھی اپنے زمانے میں مشہور خطیب تھے۔امام خلف، خلاد، دوری، بصری، امام شعبہ بن عیاش، امام ہشام رحمہم اللہ وغیرہ کثرت سے احادیث بھی روایت کرتے تھے۔
اس زمانے میں جلیل القدر محدثین بھی موجود تھے۔فقہاء کرام اورعلمائے نحوبھی تھے، کسی جگہ سے ایسی کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی جو ان کی نمازوں کو غلط کہے اور نہ ہی ان کے نمازیں باطل ہونے کے متعلق کسی نے فتویٰ دیا۔ جس طرح قرائے اُمت مختلف قراء ات روایت کرتے تھے اور انہی قراء ات کے مطابق نمازیں پڑھتے تھے، ان کے پیچھے کبار علما بھی موجود ہوتے تو ان محدثین فقہاء اور جلیل القدر علماءرحمہم اللہ پربھی الزام آئے گا کہ انہوں نے اُمت کو اس فتنے سے بچانے کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہ کیا۔آخر ان ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی نمازوں کاکیابنے گا؟ جو انہوں نے اپنے قراء اساتذہ سے تلقی کے ساتھ سیکھی ہوئی قراء ات کے مطابق پڑھیں۔ قرون ِ اولیٰ میں لوگ جامع العلوم ہوتے تھے۔ قراء محدثین کے بعد محدثین قراء کے شاگرد ہوتے تھے۔لیکن انہوں نے قراء ات نماز سے پڑھنے پر روکاکیوں نہیں۔
ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ قراء ات کے مطابق نماز پڑھنادرست ہے۔ جو اس کے خلاف فتویٰ جاری کرے گا گویا کہ اس نے امت کے اجماعی موقف اور متفق علیہ مسئلہ کو جان بوجھ کر مختلف فیہ بنایا ہے۔عامۃ الناس کو گمراہ کیا ہے۔العیاذ باﷲ
(١) النشر فی القراء ات العشر۔ امام جزری رحمہ اللہ
(٢) معرفۃ القراء الکبار امام ذہبی رحمہ اللہ
(٣) سیراعلام النبلاء امام ذہبی رحمہ اللہ
(٤) غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء امام جزری رحمہ اللہ
کتب رجال میں یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ امام ہشام رحمہ اللہ کے استاد بھی جامع مسجد کے مشہور خطیب تھے اسی طرح ابن کثیر مکی رحمہ اللہ بھی اپنے زمانے میں مشہور خطیب تھے۔امام خلف، خلاد، دوری، بصری، امام شعبہ بن عیاش، امام ہشام رحمہم اللہ وغیرہ کثرت سے احادیث بھی روایت کرتے تھے۔
اس زمانے میں جلیل القدر محدثین بھی موجود تھے۔فقہاء کرام اورعلمائے نحوبھی تھے، کسی جگہ سے ایسی کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی جو ان کی نمازوں کو غلط کہے اور نہ ہی ان کے نمازیں باطل ہونے کے متعلق کسی نے فتویٰ دیا۔ جس طرح قرائے اُمت مختلف قراء ات روایت کرتے تھے اور انہی قراء ات کے مطابق نمازیں پڑھتے تھے، ان کے پیچھے کبار علما بھی موجود ہوتے تو ان محدثین فقہاء اور جلیل القدر علماءرحمہم اللہ پربھی الزام آئے گا کہ انہوں نے اُمت کو اس فتنے سے بچانے کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہ کیا۔آخر ان ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی نمازوں کاکیابنے گا؟ جو انہوں نے اپنے قراء اساتذہ سے تلقی کے ساتھ سیکھی ہوئی قراء ات کے مطابق پڑھیں۔ قرون ِ اولیٰ میں لوگ جامع العلوم ہوتے تھے۔ قراء محدثین کے بعد محدثین قراء کے شاگرد ہوتے تھے۔لیکن انہوں نے قراء ات نماز سے پڑھنے پر روکاکیوں نہیں۔
ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ قراء ات کے مطابق نماز پڑھنادرست ہے۔ جو اس کے خلاف فتویٰ جاری کرے گا گویا کہ اس نے امت کے اجماعی موقف اور متفق علیہ مسئلہ کو جان بوجھ کر مختلف فیہ بنایا ہے۔عامۃ الناس کو گمراہ کیا ہے۔العیاذ باﷲ