• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز تراویح کی رکعات کی تعداد ۔۔۔ مقلدین کے نزدیک

شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
واللہ میں نے حق پر کوئی پردہ نہیں ڈالا،
جو جو میری تحقیق تھی وہ سب آپ کو سکینز کےس اتھ لگا کر بتائی ہے تاکہ آپ کو پریشانی نا ہو

میرا کام تھا آپ کو دعوت حق دینا
اپنی تحقیق کو حق کس اصول سے باور کرا رہے ہو؟
کیا تمہاری تحقیق غلط یا فریب کا شکار نہیں ہو سکتی؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
تراویح کے لئے ایک قاری ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے جمع کرنا


عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی میں لوگوں کو مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح پڑھتے دیکھ کر ارادہ فرمایا کہ کیوں نا ان سب کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیا جائے۔ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا اور لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے جمع فرمادیا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ صَلاَةِ التَّرَاوِيحِ: بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:
خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ» ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیس رکعات تراویح پڑھانا

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان میں مسجد نبوی میں بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔
مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»

تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام و تابعین عظام کو تراویح پڑھتے دیکھ کر فرمایا ’’وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ‘‘جس نماز سے یہ سو رہتے ہیں وہ افضل ہے اس سے جسے یہ ادا کرتے ہیں۔
لوگ تراویح ادا کرلیتے تھے تہجد سے سو رہتے تھے۔
صحيح البخاري: كِتَابُ صَلاَةِ التَّرَاوِيحِ: بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:

قَالَ عُمَرُ: «نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ» يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات تراویح

عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔
1: موطأ مالك: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ
مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي رَمَضَانَ، بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً
یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔

2: مصنف عبد الرزاق الصنعاني: بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»

3: مسند ابن الجعد (مَخْلَدُ بْنُ خُفَافٍ)
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ»

4: مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً»

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات تراویح

علی رضی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو کہا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے۔
مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
1: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ، «أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً»

بیس رکعات کی روایات

2: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ: «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
3: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيَقْرَأُ: بِحَمْدِ الْمَلَائِكَةِ فِي رَكْعَةٍ "
4: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ: «أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ، وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ»
5: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَلَفٍ، عَنْ رَبِيعٍ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ: «أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ فِي رَمَضَانَ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»
6: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: «أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يُصَلُّونَ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ»
7: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: «أَدْرَكْتُ النَّاسَ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يُصَلُّونَ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ»
8: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ، «أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»
9: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
 
شمولیت
دسمبر 14، 2019
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
11
9: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ»
جواب


اس روایت میں ابراہیم بن عثمان نامی ایک راوی ہے، یہ متروک ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابراہیم بن عثمان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
"متروک الحدیث"
[تقریب التھذیب لابن حجر]
JointPics_20200210_153739.JPG


لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
------------------------------------------------------------------

4: مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، «أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً»
جواب


اس روایت میں علت یہ ہے کہ یحیی بن سعید القطان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں ہے۔
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ:
یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے پچیس سال بعد پیدا ہوئے۔
[المحلی لابن حزم ۲۰۷/۹]
PicsArt_02-10-04.03.02.png


معلوم ہوا زیر بحث روایت بھی منقطع ہے لہذا قابل حجت نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے۔ اور صحیح روایت کے مخالف ہے جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔
-----------------------------------------------------------------

مصنف ابن أبي شيبة: كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ: «كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ»

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات تراویح

عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔
جواب

یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
اس روایت میں علت یہ ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیوں کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا دور نہیں پایا اور جب دور نہیں پایا تو ظاہر سی بات ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے۔ لہذا روایت منقطع ہے۔
ذیل میں ہم اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ عبد العزیز بن رفیع کے تعلق سے کہتے ہیں کہ:
"قال محمد بن حميد عن جرير: أتي عليه نيف وتسعون سنة"
جریر نے کہا کہ عبد العزیز بن رفیع نے نوے سال سے زائد عمر پائی ہے۔
[التاریخ الکبیر للبخاری ۱۱/۶]


امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ:
"مات بعد الثلاثين ومائة "
یعنی عبد العزیز بن رفیع کی وفات ۱۳۰ھ کے بعد ہوئی۔
[الثقات لابن حبان ۱۲۳/۵]


یعنی اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عبد العزیز بن رفیع نے 90 سال کی عمر پائی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے تو اس حساب سے ان کی پیدائش بنتی ہے 40 ہجری کے قریب قریب ہوئی ہے کیوں کہ 130 ہجری سے 90 سال پیچھے آیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 40 ہجری یا 39 ہجری یا اسی کے قریب قریب عبد العزیز بن رفیع کی پیدائش ہوئی۔

جبکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات 30ھ میں ہوئی ہے۔
چنانچہ امام ابو نعیم الاصبھانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 22 ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور بعض کہتے ہیں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں 30ھ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں بات صحیح ہے کیوں کہ زر بن حبیش نے عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان سے ملاقات کی۔
[معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم ۲۱۴/1]


معلوم ہوا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی وفات تو 30 ہجری میں ہو چکی تھی۔ اسی بات کو امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ عبد العزیز بن رفیع کی وفات 40ھ یا 39ھ یا اسی کے قریب قریب ہوئی تھی
تو گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ عبد العزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا زمانہ نہیں پایا اور جب زمانہ نہیں پایا تو ظاہر ہے کہ ان سے کچھ سنا بھی نہیں ہے لہذا زیر بحث روایت منقطع ہے۔
تو اس کو اس صحیح روایت کے خلاف بھلا کیسے حجت بنایا جا سکتا ہے جس میں گیارہ رکعت کی تعداد مذکور ہے؟
------------------------------------------------------------------

1: موطأ مالك: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ
مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فِي رَمَضَانَ، بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً
یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لوگ تئیس 23 رکعات (بیس تراویح تین وتر) پڑھا کرتے تھے۔

2: مصنف عبد الرزاق الصنعاني: بَابُ قِيَامِ رَمَضَانَ

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»
جواب


پہلی روایت یزید بن رومان کے حوالے سے پیش کی ہے آپ نے لیکن عرض ہے یہ روایت بھی غیر ثابت ہے۔
کیوں کہ یزید بن رومان نے عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
چنانچہ امام زیلی حنفی رحمہ اللہ امام بیہقی کی کتاب معرفۃ السنن والآثار سے ان کا قول نقل کرتے ہیں کہ امام بیھقی فرماتے ہیں کہ:
"يزيد بن رومان لم يدرك عمر"
یعنی یزید بن رومان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا
[نصب الرایہ ۱۵۴/۲]
JointPics_20200210_114644.JPG


اور دوسری روایت جو آپ نے پیش کی مصنف عبد الرزاق کے حوالے سے لیکن آپ نے اس کی سند نہیں پیش کی چلیں ہم اس روایت کو مصنف عبد الرزاق سے مع سند لگاتے ہیں۔
ﻋﻦ اﻷﺳﻠﻤﻲ، ﻋﻦ اﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺫﺑﺎﺏ، ﻋﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻗﺎﻝ: «ﻛﻨﺎ ﻧﻨﺼﺮﻑ ﻣﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﻋﻤﺮ، ﻭﻗﺪ ﺩﻧﺎ ﻓﺮﻭﻉ اﻟﻔﺠﺮ، ﻭﻛﺎﻥ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻋﻬﺪ ﻋﻤﺮ ﺛﻼﺛﺔ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﺭﻛﻌﺔ»
[مصنف عبد الرزاق]

اس روایت میں ایک راوی ہیں جن کا نام ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی الأسلمی نامی راوی کذاب ہے۔
امام یحیی بن سعید القطان، امام یحیی بن معین، امام علی بن مدینی اور امام ابو حاتم نے کذاب وغیرہ قرار دیا ہے۔
JointPics_20200210_114653.JPG


JointPics_20200210_114702.JPG


JointPics_20200210_114714.JPG


JointPics_20200210_114732.JPG


لہذا یہ دونوں روایات بھی ثابت نہیں۔
والحمدللہ
----------------------------------------------------------

3: مسند ابن الجعد (مَخْلَدُ بْنُ خُفَافٍ)
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ
یہ روایت شاذ ہے۔
اس روایت کا راوی یزید بن خصیفہ ثقہ ہے لیکن اس پر کلام ہوا ہے
امام ابن حبان رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
وكان يهم كثيراً إذا حدث حفظه
جب یزید بن خصیفہ اپنے حافظہ سے بیان کرتا ہے تو بہر زیادہ وہم کا شکار ہو جاتا ہے
[مشاھیر علماء الامصار رقم ۱۰۶۶]
PicsArt_02-10-05.44.31.png


وہم کا شکار تو ہوتا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ جب اس سے پوچھا گیا کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کتنی رکعت نماز کہی تھی تو یزید نے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
حسبت أن السائب قال: احد وعشرین
مجھے ایسا لگتا ہے کہ سائب بن یزید نے 21 رکعت کہا
[فوائد أبی بکر النیسابوری ق۱۳۵/ب]
PicsArt_02-10-05.55.18.png



20200210_175734.png



معلوم ہوا کہ یزید بن خصیفہ اپنے بیان میں شک کا اظہار کر رہے ہیں، تردد کا اظہار کر رہے ہیں۔

جبکہ یہیں روایت محمد بن یوسف جو اعلیٰ درجہ کے ثقہ راوی ہیں۔ وہ اس روایت کو سائب بن یزید سے 11 رکعات کے الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں
[دیکھیے موطا امام مالک]
 
شمولیت
دسمبر 14، 2019
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
11
موطا امام مالک کی روایت جس میں محمد بن یوسف سائب بن یزید سے 11 رکعت روایت کر رہے ہیں اور کوئی شک کا اظہار نہیں کر رہے
اس کا سکین نیچے دیکھیے
JointPics_20200208_000202.PNG


معلوم ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے 11 رکعات تراویح پڑھانا ہی ثابت ہیں
والحمدللہ

اور باقی آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی بعض آثار ذکر کئے ہیں ان کا جواب کسی اور وقت میں دے دیا جائے گا ان شاءاللہ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
تراویح کی رکعات

تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور عربی میں جمع کا صیغہ کم از کم تین پر بولا جاتا ہے۔ جس نماز کو تراویح کہا جائے اس کی کم از کم کتنی رکعات ممکن ہیں؟
ترویحہ ہر چار رکعات کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر سستانے کو کہتے ہیں۔
آٹھ رکعات میں ایک ترویحہ ، بارہ میں دو اور سولہ میں تین ترویحہ بنتے ہیں۔
لہٰذا تراویح کا اطلاق کم از کم سولہ رکعات پر ممکن ہے اس سے کم پر نہیں۔

1 سنن الترمذی: كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: باب ما جاء في قيام شهر رمضان:
ابوعيسى رحمة الله عليه (صاحب کتاب الترمذی): هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً و قَالَ أَحْمَدُ رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ و قَالَ إِسْحَقُ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ

ابوعيسى رحمۃ الله عليہ فرماتے ہیں كہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم قيام رمضان كى ركعات میں مختلف آراء رکھتے ہیں-
بعض كو ديكها كہ وه اكتاليس (41) ركعات پڑھتے ہیں وتر کے ساتھ اور يہ اہل مدينہ كا قول ہے اور ان كا عمل اسى پر ہے-
اكثر اہل علم اس پر ہیں كہ بيس (20) ركعات پڑھی جائیں جو كہ عمر اور على (رضى الله تعالى عنہما) اور دیگر اصحاب النبى صلى الله عليہ وسلم سے مروى ہے اور یہ بات ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ سب نے بیان کی ہے-
شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے مکہ شہر میں لوگوں کو تراویح کی بیس 20 رکعات ہی پڑھتے پایا-
احمد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں بہت سی مختلف روایات ملتی ہیں اور ان میں کچھ بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا-
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم اکتالیس 41 رکعات پسند کرتے ہیں اس لئے کہ یہ ابی بن کعب سے مروی ہے اور یہ کہ اختیار کیا ابن المبارک، احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنا-
شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر تراویح پڑھنے والا حافظ قرآن ہے تو اکیلا پڑھے اور عنوان میں یہ بات عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے لکھی ہے-

وضاحت: ابوعيسى رحمۃ الله عليہ نے تراویح کی رکعات گنواتے ہوئے کم سے کم تعداد بیس (20) رکعات بتائی اس سے کم نہیں۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
بیس رکعات تراویح کی روایات
2 المعجم الكبير للطبراني:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ
ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بيس (20) ركعت پڑھا كرتے تھے علاوه وتر کے –
نوٹ: اس روایت کو بعض ’’ضعیف‘‘ کہتے ہیں مگر یہ روایت تلقی بالقبول کے سبب صحیح ہے۔

3 السنن الكبرى للبيهقي:
عن ابن عباس قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلى في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر
ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بغير جماعت بيس (20) ركعات اور وتر پڑھا كرتے تھے -
4 السنن الكبرى للبيهقي:
عن ابى الحسناء ان على بن ابى طالب امر رجلا ان يصلى بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة
ابى الحسناء رحمۃ الله عليہ (جو كہ على رضى الله تعالى عنہ کے شاگردوں میں سے تھے) فرماتے ہیں كہ على رضى الله تعالى عنہ بن ابى طالب نے ايك امام كو حكم ديا كہ وه لوگوں کے ساتھ بيس (20) ركعات پانچ ترويحوں کے ساتھ پڑھیں-
5 مسند عبد بن حميد: مسند ابن عباس رضی اللہ عنہ:
عن ابن عباس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعة ، ويوتر بثلاث
ابن عباس رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں كہ نبى صلى الله عليہ وسلم رمضان میں بيس (20) ركعت پڑھا كرتے تھے اور تين ركعت وتر -
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
8 جعفر بن عون انبأ ابو الخصيب قال يؤمنا سويد بن غفلة في رمضان فيصلى خمس ترويحات عشرين ركعة
سويد بن غفلہ نے رمضان میں پانچ ترویحوں کے ساتھ بیس رکعات (تراویح) پڑھائی۔
9 عن شتير بن شكل وكان من اصحاب على رضى الله عنها انه كان يؤمهم في شهر رمضان بعشرين ركعة ويوتر بثلاث
شتير بن شكل جو کہ على رضى الله عنه کے شاگردوں میں سے تھے، رمضان کے مہینہ میں بیس رکعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر۔
10 عن ابى عبد الرحمن السلمى عن على رضى الله عنه قال دعا القراء في رمضان فامر منهم رجلا يصلى بالناس عشرين ركعة قال وكان على رضى الله عنها يوتر بهم
على رضى الله عنه نے رمضان میں قاری حضرات کو بلوایا اور ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعات (تراویح) پڑھائے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو وتر پڑھاتے۔
11 السنن الكبرى للبيهقي
عن ابى الحسناء ان على بن ابى طالب امر رجلا ان يصلى بالناس خمس ترويحات عشرين ركعة

على رضى الله عنہ نے ايك قارى كو حكم ديا لوگوں كو بيس ركعت تراويح پانچ ترویحوں کے ساتھ پڑھانے کا-
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
مصنف ابن أبي شيبة :
باب: كم يصلي في رمضان من ركعة
12 عن شتير بن شكل أنه كان يصلي في رمضان عشرين ركعة (بيس ركعت) والوتر-
13 عن أبي الحسناء أن عليا أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة (بيس ركعت)-
14 عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة (بيس ركعت)-
15 عن عمر قال كان ابن أبي مليكة يصلي بنا في رمضان عشرين ركعة (بيس ركعت) ويقرأ بحمد الملائكة في ركعة-
16 كان أبي بن كعب يصلي بالناس في رمضان بالمدينة عشرين ركعة (بيس ركعت) ويوتر بثلاث- (حکم صحیح)
17 عن الحارث أنه كان يؤم الناس في رمضان بالليل بعشرين ركعة (بيس ركعت) ويوتر بثلاث ويقنت قبل الركوع-
18 عن أبي البختري أنه كان يصلي خمس ترويحات (پانچ ترويحات) في رمضان ويوتر بثلاث (وتر تین رکعات)-
19 عن عطاء قال أدركت الناس وهم يصلون ثلاثا وعشرين ركعة بالوتر (تئیس ركعت بمع وتر) -
20 أن علي بن ربيعة كان يصلي بهم في رمضان خمس ترويحات (پانچ ترويحات) ويوتر بثلاث-
 
Top