• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز عصر کا وقت ایک مثل پر

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ذرا واضح کیجئے گا کہ کیا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہاں تمام نمازوں کے اول اوقات بیان کیے ہیں؟

اگر آپ اسے عصر کے اول وقت کی دلیل بنا رہے ہیں تو پھر کیا آپ کے نزدیک ظہر اور فجر کا اول وقت بھی اسی کے مطابق نہیں ہونا چاہئے؟ کیا خیال ہے؟
محترم بھائی!
آپ تو بخوبی جانتے ہی ہوں گے کہ مختلف روایات کو دیکھ کر حکم دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ مجتہد پر منحصر ہے کہ وہ کونسی روایات کو ترجیح دیتا ہے۔
جیسا کہ رفع الیدین کے مسئلہ میں سنا ہے کہ کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ہے کہ جس میں جن جگہوں پر آپ لوگ رفع کرتے ہیں ان میں کرنے اور جن پر آپ لوگ نہیں کرتے ان میں نہ کرنے کا ذکر ایک ہی روایت میں ہو۔ لیکن مختلف روایات میں تطبیق دے کر کچھ کو منسوخ مان کر آپ حضرات بھی عمل کرتے ہیں۔
عصر اور ظہر میں دونوں قسم کی روایات ہیں۔ یہ اور تاخیر عصر والی روایت یکجا کیجیے:
حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن أم سلمة، أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد تعجيلا للظهر منكم، وأنتم أشد تعجيلا للعصر منه
الترمذی 1۔302
حکم الالبانی: صحیح

اور پہلی روایت اور تعجیل ظہر والی روایت کو ایک جگہ کیجیے تو مسئلہ بآسانی واضح ہو جائے گا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
محترمی و مکرمی انس بھائی!
ویسے تو میں اس موضوع پر کوئی بات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اور میں نے "اسماع" کا ذکر مذکورہ آیت کے بارے میں کیا تھا۔
لیکن ایک چھوٹی سی بات عرض کرتا چلوں کہ ان آیات میں "پکار" کے نہ سننے کا ذکر ہے اور اگر آپ مکمل آیت کو دیکھیں تو اس میں مشرکین کی پکار کا ذکر ہے یعنی استغاثہ یا استعانت یا جس خاص طرز سے وہ مانگتے تھے۔ اس مدد مانگنے وغیرہ کے سننے کے تو ہم قائل نہیں ہیں۔ چوں کہ یہ ہیں بھی بتوں کے بارے میں اس لیے یوں کہہ لیں کہ مردوں میں اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یا مدد نہیں کر سکتے۔
محترم بھائی! پوسٹ نمبر 19 میں بھی آپ نے عندیہ دیا تھا کہ آپ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس پر آپ کی مکمل تحقیق نہیں ہے۔ لیکن وہاں آپ نے یہ دعویٰ کر دیا تھا کہ سماع موتیٰ سے انکار کے نصوص ’سماعِ موتیٰ‘ (مُردوں کے سننے) سے نہیں بلکہ ’اِسماع موتیٰ‘ (مُردوں کو سنانے) سے متعلق ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ کا کہنا یہ تھا کہ مُردے سن سکتے ہیں۔

ویسے تو ’عدم اسماعِ موتیٰ‘ ہی ’عدم سماع موتیٰ‘ کو مستلزم ہے۔ اگر ہم ان تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتے تو پھر وہ کیسے سن لیتے ہیں؟ پھر بھی مغالطے کو دور کرنے اور بات کو مزید واضح کرنے کیلئے میں نے ایسی آیات کریمہ پیش کر دی جن میں ’سماعِ موتیٰ‘ کا بھی انکار کی بھی صراحت ہے۔

جواب میں آپ نے پوسٹ نمبر 30 میں دوبارہ اعادہ کیا ہے کہ آپ اس موضوع پر بات آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔ لیکن ساتھ ہی بات بڑھاتے ہوئے میری دی گئی آیات کی تاویل یہ کی کہ یہ آیات بتوں کے متعلق ہیں مُردوں سے متعلق نہیں دوسرا ان میں خاص استغاثہ واستعانت کا انکار ہے باقی آوازوں کا نہیں۔

عزیز بھائی! یہ تو آپ نے بریلویوں والی بات کر دی جو کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ تو بتوں کو پکارتے تھے۔ ہم کونسا بتوں کو پکارتے ہیں ہم تو قبر والے نیک بزرگوں سے فیض یاب ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ!
کیا آپ اس بات کے انکاری ہیں کہ یہ بت نیک فوت شدہ بزرگوں کے ہی ہوتے تھے؟ کیونکہ ہمیشہ نیک لوگوں کی شان میں غلو ہی شرک کا باعث بنا ہے ورنہ صرف مٹی یا پتھر کو کون پوجتا ہے؟؟؟ اگر مشرکوں نے صرف پتھروں کو ہی پوجنا تھا وہ کسی بڑی چٹان اور پہاڑ وغیرہ کو پوجتے نہ کہ نیک لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مٹی پتھر کے مجسّموں کو۔

علاوہ ازیں اوپر میری دی گئی آیات کریمہ صرف بتوں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ وہ فوت شدگان سے متعلق بھی ہیں۔ مثلاً:
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ١٣ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ١٤ ۔۔۔ فاطر
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ٥ ۔۔۔ الأحقاف
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ١٩٧ وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ١٩٨ ۔۔۔ الأعراف


پہلی آیت کریمہ میں اللہ رب العٰلمین فرما رہے ہیں جنہیں تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور وہ قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار اور ردّ کر دیں گے۔ اب ظاہر ہے کہ پتھر تو انکار نہیں کریں گے۔ فوت شدہ اولیاء اللہ رحمہم اللہ ہی انکار کریں گے۔

دوسری آیت کریمہ سورۃ احقاف کی آیت نمبر 5 ہے۔ آیت نمبر 6 میں ہے وإذا حشر الناس كانوا لهم أعداء وكانوا بعبادتهم كفرين کہ جنہیں یہ پکارتے ہیں قیامت کے دن وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی اس عبادت (شرک) کا ردّ کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ دشمنی اور ردّ ہوش وحواس والے لوگ ہی کریں گے نہ کہ پتھر اور مٹی وغیرہ

تیسری آیت کے سیاق وسباق پر غور کریں تو یہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 198 ہے۔ یہ موضوع پیچھے سے جاری ہے۔ آیت نمبر 194 میں اللہ رب العٰلمین فرماتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ١٩٤
کہ واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وه بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو (194)

اب عبد تو گارے اور پتھر کے بتوں کو نہیں کہا جا سکتا۔ سورج کی طرح ظاہر ہے کہ یہ فوت شدگان کے متعلق ہے۔

تو اس سے ثابت ہوا کہ یہ مُردوں (فوت شدگان) کے عدمِ سماع کی بات ہو رہی ہے نہ کہ صرف اور صرف مٹی اور پتھر کے بتوں کی۔

جہاں تک آپ کا یہ کہنا ہے کہ یہ خاص استعانت کی بات ہو رہی ہے وہ نہیں سنتے دیگر باتیں سن لیتے ہیں۔ تو یہ آپ پر اُدھار ہے کہ آپ نے یہ صحیح وصریح دلیل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ فوت شدگان صرف مخصوص استعانت کو نہیں سنتے البتہ عام آواز کو سن لیتے ہیں۔

معروف قاعدہ تو آپ کے علم میں ہوگا ہی: العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب
اللہ رب العٰلمین کے مبارک فرامین کا عموم نہایت واضح ہے کہ وہ فوت شدگان دُعا نہیں سنتے۔ اور دُعا عربی زبان میں مخصوص استعانت یا خاص استغاثہ کو نہیں بلکہ ہر قسم کی آواز کو کہتے ہیں۔
میرا آپ سے یہ بھی سوال ہے کہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 198 وإن تدعوهم إلى الهدى لا يسمعوا میں کس مخصوص استعانت یا خاص استغاثہ کی سماعت کی نفی ہو رہی ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی! پوسٹ نمبر 19 میں بھی آپ نے عندیہ دیا تھا کہ آپ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس پر آپ کی مکمل تحقیق نہیں ہے۔
چلیں ٹھیک ہے عزیز بھائی میں اس بات کو آگے نہیں بڑھاتا۔ ویسے بھی یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابہ کرام کا بھی اختلاف رہا ہے تو ہم اسے کیسے حل کر سکتے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دوسری روایت امام اعظمؒ کے حق میں عصر کے وقت کے بارے میں یہ ہے:۔

حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن يزيد بن زياد عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنه سأل أبا هريرة عن وقت الصلاة فقال أبو هريرة فأنا أخبرك صل الظهر إذا كان ظلك مثلك وصل العصر إذا كان ظلك مثليك والمغرب إذا غربت الشمس والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل فإن نمت إلى نصف الليل فلا نامت عينك وصل الصبح بغلس.
موطا امام مالک 1۔7 ط رسالۃ
ذرا واضح کیجئے گا کہ کیا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہاں تمام نمازوں کے اول اوقات بیان کیے ہیں؟
میں اپنا سوال دوبارہ دہرا دیتا ہوں کہ کیا اس حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازوں کے اول اوقات بیان کیے ہیں؟؟؟

محترم بھائی!
آپ تو بخوبی جانتے ہی ہوں گے کہ مختلف روایات کو دیکھ کر حکم دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ مجتہد پر منحصر ہے کہ وہ کونسی روایات کو ترجیح دیتا ہے۔
جیسا کہ رفع الیدین کے مسئلہ میں سنا ہے کہ کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ہے کہ جس میں جن جگہوں پر آپ لوگ رفع کرتے ہیں ان میں کرنے اور جن پر آپ لوگ نہیں کرتے ان میں نہ کرنے کا ذکر ایک ہی روایت میں ہو۔ لیکن مختلف روایات میں تطبیق دے کر کچھ کو منسوخ مان کر آپ حضرات بھی عمل کرتے ہیں۔
عصر اور ظہر میں دونوں قسم کی روایات ہیں۔ یہ اور تاخیر عصر والی روایت یکجا کیجیے:
اور پہلی روایت اور تعجیل ظہر والی روایت کو ایک جگہ کیجیے تو مسئلہ بآسانی واضح ہو جائے گا۔
واقعی ہی مختلف روایات کو دیکھ کر مسئلہ واضح ہوتا ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ کسی حدیث کے ایک ٹکڑے کو مطلب برآوری کیلئے لے لیا جائے اور اسی حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو نہ لیا جائے۔
 
Top