• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قرآن کریم سے ثبوت

حدیث نمبر7:

اخرج ابن ابی شیبۃ والبخاری فی تاریخہ وابن جریر و ابن المنذر وابن ابی حاتم والدار قطنی فی الافراد و ابو الشیخ والحاکم و ابن مردویہ والبیہقی فی سننہ عن علی بن ابی طالب فی قولہ فصل لربک وانحر قَالَ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنیٰ عَلیٰ وَسْطِ سَاعِدِہِ الْیُسْریٰ ثُمَّ وَضَعَھُمَا عَلیٰ صَدْرِہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ

امیر المؤمنین علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ انہوں نے قرآن کی اس آیت فصل لربک وانحر (الکوثر پ ۳۰) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی کے درمیان پر رکھ کر نماز میں ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔(تفسیر الدرالمنثور للسیوطی ص۴۰۳ ج۶ تفسیر فتح القدیر للشوکانی ص۴۹ ج۵) ۔
صحت حدیث:
جد امجد نے درج الدرر میں اس حدیث کوحسن ثابت کیا ہے۔
تشریح :
امیر المؤمنین علیؓ لغت میں مانے ہوئے ماہر تھے لہٰذا ان کی یہ تفسیر معتبر اور مسلمانوں کے لئے حجت ہے نیز لغت کی مشہور کتاب تاج العروس ص ۵۵۸ ج ۳ میں بھی ’’وانحر‘‘ کی یہی تفسیر مذکور ہے نیز یہی تفسیر انہی ایک صحابی سے مروی نہیں ہے بلکہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی مروی ہے جیسے آگے روایات سے معلوم ہوگا اس تفسیر کو امام ابو عبداللہ الحاکم المستدرک صفحہ ۵۳۷جلد ۳ میں اس آیات کے بارے میں دوسری تفاسیر سے زیادہ بہتر کہتے ہیں اور چند علماء احناف نے بھی اس تفسیر کو تسلیم کیا ہے ۔مثلاً علامہ قوام الدین السکاکی نے معراج الدرایہ شرح الھدایہ میں اور ملاّ الھداد ھندی جونپوری نے شرح الھدایہ الورق ۴۷/۱ (قلمی) میں اور علامہ اکمل الدین البا برتی العنایۃ حاشیہ الھدایۃ صفحہ ۲۰۱ جلد ۱میں وغیرھم میں ہے کہ اس آیت میں قربانی کرنے کا حکم ہے مگر یہ تفسیر اس تفسیر کے خلاف نہیں ہے دونوں تفسیر اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ایک آیت سے بہت سارے مسائل نکل سکتے ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر8:
اخرج ابو الشیخ والبیہقی فی سننہ عن انس رضی اﷲ عنہ عن النبی ﷺ مثلہ (الدرالمنثور ص۴۰۳ ج۶)
رسول اللہ ﷺ کے خادم انس بن مالکؓ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے جو حدیث نمبر ۷ میں مذکور ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر9:
اخرج ابن ابی حاتم و ابن شاہین فی السنۃ و ابن مردویہ والبیہقی عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ قَالَ وَضْعُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ الشِّمَالِ عِنْدَ النَّحْرِ فِیْ الصَّلوٰۃِ (الدرالمنثور ص۴۰۳ ج۶ )
مفسر قرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انھوں نے وانحر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز میںدایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے کے پاس باندھنا چاہیئے ۔
تشریح:
ابن عباس رضی اللہ عنھما صحابہ کرام میں علم تفسیر کے اعتبار سے بڑے مرتبے کے مالک ہیں انکے لئے رسول اکرم ﷺ نے قرآن حدیث کے علم کے بارے میں خاص دعائیں کیں (البخاری) آپ کی یہ تفسیر اس مسئلے کے بارے میں عظیم دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر10:
اخرج الطبرانی فی الکبیر عن عقبۃ بن ابی عائشۃ قال رأیت عبداﷲ بن جابر البیاضی صاحب رسول اﷲ ﷺ یَضَعُ احدی یدیہ عَلیٰ ذِرَاعِہٖ فِیْ الصَّلوٰۃِ وَ اِسْنَادُہٗ حَسَنٌ قالہ الھیثمی فی مجمع الزوائد ص۱۰۵ ج۲ والثقات لابن حبان ص۲۲۸ج۵)
رسول اللہ ﷺ کے صحابی عبداللہ ابن جابر البیاضی الانصاری سے عقبہ ابن ابی عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو دیکھا کہ نماز میں اپنا ایک ہاتھ یعنی دایاں اپنی کلائی اور بازو پر رکھے ہوئے تھے اس روایت کی سند حسن ہے۔
تشریح:
یہ روایت موقوف یعنی صحابی کا عمل ہے اور یہی روایت اما م ابن السکن لائے ہیں اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں :
ان النبی ﷺ کان یفعلہ ۔
کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے ۔
اس لئے یہ حدیث مرفوع کہلائے گی اس طریقے سے ہاتھ باندھنے سے سینے پر ہی رہیں گے جیسے پہلی حدیث میں بیان ہوا ۔اور ان دس روایتوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوا کہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے جائیں نیز ثابت ہوا کہ یہی صحابہ کرام کا عمل تھا اور جریر الضبی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ :
رَأیْتُ عَلِیّاً یُمْسِکُ شِمَالَہٗ بِیَمِیْنِہٖ عَلیٰ الرَّسْغ فَوْقَ السُّتْرَۃ (ابو داوٗد ص۷۶ ج۱)
دیکھا میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑکر ناف سے اوپر رکھا ۔
تشریح:
علامہ مباکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۲۱۵ ج۱ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور ناف سے اوپر اس سے مراد سینہ ہے جیسے احادیث سے معلوم ہوا ۔ اور خود علی ؓ کا فرمان بھی گذرا ۔
سیرت نبویہ لکھنے والوں نے بھی تحقیق کر کے یہی لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺہاتھ سینے پر باندھتے تھے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
چنانچہ

نمبر ۱ :
اما م حافظ ابن القیم کتاب الصلوۃ ص ۱۸۷ ج میں فرماتے ہیں۔
ثُمَّ کَانَ یُمْسِکُ شِمَالَہٗ بِیَمِیْنِہٖ وَ یَضَعُھَا عَلَیْھَا فَوْقَ الْمَفْصَلِ ثُمَّ یَضَعُھُمَا عَلیٰ صَدْرِہٖ۔
رسول اللہ ﷺتکبیر کے بعد دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر اس کی کلائی پر رکھ کر سینے پر رکھتے تھے ۔
نمبر ۲ :
علامہ شیخ مجدد الدین الفیروز آبادی سفر السعادۃ ص ۹ میں فرماتے ہیں کہ
ثُمَّ یَضَعُ یَمِیْنَہٗ عَلیٰ یَسَارِہٖ فَوْقَ صَدْرِہٖ کَذَا فِیْ صحیح ابن خزیمۃ
رسول اللہﷺ تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر اپنے سینے پر رکھتے تھے اسی طرح صحیح ابن خزیمہ میں بھی مروی ہے۔
نمبر ۳ :
اور علامہ عماد الدین یحییٰ بن ابی بکر العامری بھجۃ المحافل ص ۳۱۳ج ۲ میں فرماتے ہیں کہ :
وَ قَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ عَلیٰ ظَھْرِ یَسَارِہٖ وَجَعَلَھُمَا تَحْتَ صَدْرِہٖ۔
رسول اللہﷺ نے تکبیر کے بعد دایاں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پیٹھ پر رکھ کر ان دونوں کو سینے کے نیچے رکھتے تھے یعنی سینے کے پاس ۔
نمبر ۴ :
علامہ شیخ عبدالحق دھلوی شرح سفر السعادۃ ص ۴۷ میں فرماتے ہیں کہ
بعد ازاں دست راست را بردست چپ بھادی برابر سینہ در صحیح ابن خزیمہ ھم چنیں ثابت شدہ ۔
تکبیر کے بعد آپ ﷺ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے کے برابر رکھتے تھے اسیطرح صحیح ابن خزیمہ میں ثابت ہے ۔
نمبر ۵:
علامہ حافظ جلال الدین السیوطی عمل الیوم واللیلۃ میں فرماتے ہیں کہ
کَانَ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی ثُمَّ یَشُدُّ بِہِمَا عَلٰی صَدْرِہ ۔
کہ آپ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر سینے پر باندھتے تھے ۔
نمبر ۶:
جناب جد امجد سید ابو تراب رشد اللہ شاہ الراشدی (چہارم جھنڈے والے) رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ثمر آخرت ترجمہ سفر السعادۃ ص۲۶ قلمی مطبوع میں لکھا ہے کہ :
’’اس کے بعد آپ ﷺ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھتے تھے اسی طرح ابن خزیمہ کی صحیح میں ثابت ہے اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کسی روایت میں صحیح ثبوت نہیں ہے ۔
جاری ہے۔۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
الحاصل
آپﷺکی عادت مبارکہ یہ ہوتی تھی کہ آپ نماز میں اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے کوئی بھی مسلمان جو آپ سے سچی محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ یقینا آپ کے خلاف سینے کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر ہاتھ نہیں باندھے گا کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اﷲَ وَالْیَوْمَ الآخِر وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا ۔(الاحزاب ع۳ پ۲۱)
رسول اکرم ﷺ کا اسوہ اورطریقہ تم میں سے جو اللہ اور قیامت میں (کامیابی کی ) امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اکثر یاد کرتا ہے اس کے لئے بہتر اور اچھا ہے۔
اور یہ جو آپ کی محبت کا تقاضا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ :
مَنْ اَحَبَّ سُنّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِیْ الْجَنّۃِ ۔(ترمذی)
جس نے میری سنت اور طریقہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جو مجھ سے محبت کرنیوالا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر1:

علامہ بدر الدین عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ص۲۷۹ج۵ (المنیریہ) میں اسطرح اقرارکرتے ہیں کہ:
واحتج الشافعی بحدیث وائل بن حجراخرج ابن خزیمۃ فی
امام شافعیؒ نے صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے دلیل لیا ہے جس میں
صحیحہ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺفَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ وَلَمْ یَذْکُرِ النَّووِیُّ غَیْرَہُ فِیْ الْخُلاَصَۃِ وَکَذٰلِکَ الشَّیْخُ تقی الدین فِی الاِمَام وَاحْتَجَّ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ لاَصْحَابِنَا فِیْ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ ﷺ اِنَّ مِنَ الْسُنَّۃِ وَضْعُ الْیَمِیْنِ عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ قُلْتُ ہٰذَا قَوْلُ عَلِیّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ وَاِسْنَادُہٗ اِلَی النَّبِیِّ ﷺ غَیْرُ صَحِیْحٍ ۔

رسول اللہ ﷺ کے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے اور یہی حدیث امام النووی نے الخلاصہ میں اورامام ابن دقیق تقی الدین نے کتاب الامام میں ذکر کی ہے اور صاحب ھدایہ نے ہم (احناف) کے لئے یہ روایت بطور دلیل کے پیش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان اورسنت یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں مگر یہ قول رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں ہے بلکہ علی ؓ کا قول ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ناظرین :
یہ عبارت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ
علامہ عینی رسول اللہ ﷺ سے سینے پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کو ثابت نہیں کہتے اور کہتے ہیں کہ علیؓ کا قول ہے
مگر یہ قول علیؓ سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ قول مسند احمد ص۱۱۰ج ۱ (زوائد عبداللہ بن احمد) میں ہے اور اس کی سند میں راوی
عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی ابو شیبہ ہے جس پر سخت جرح کی گئی ہے ۔ امام احمد اور ابو حاتم نے منکر الحدیث کہا ہے اور امام یحییٰ بن معین نے اس کو متروک کہا ہے اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ روایات اور اسناد تبدیل کرتا تھا اور مشہور اشخاص سے منکر روایات لاتا تھا اس کی روایت سے دلیل لینا حرام ہے اور بے شمار ائمہ مثلاً بخاری ابو زرعہ ، نسائی ، ابو داؤد ، ابن سعد ، یعقوب بن سفیان وغیرھم اس کو ضعیف کہتے ہیں (میزان الاعتدال ص ۵۴۸ ج ۲ اور تہذیب التہذیب ص۱۳۴ ج۱) اور علامہ ابن العجمی نے اپنی کتاب الکشف الحثیث میں اس کو عمن رمی بوضع الحدیث میں ذکر کیا ہے
اس عنوان کے تحت صرف وہ راوی مذکور ہیں جن پر جھوٹی روایات گھڑنے کاالزام ہے اس لئے ایسے شخص کی روایت پر کوئی مسلمان اعتبار نہیں کر سکتا بلکہ علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ ص۳۱۴ج۱ اور علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی ھدایہ کے حاشیہ ص۱۰۲ج۱ میں امام نووی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے اسی طرح شیخ ابن الھمام فتح القدیر شرح الھدایہ ص۲۰۱میں بھی نقل کرتے ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر2:
علامہ ابن نجیم بحرالرائق شرح کنز الدقائق ص۳۲۰ج۱ میں فرماتے ہیں کہ :
وَلَمْ یَثْبتْ حَدِیْثٌ یُوْجِبُ تعیین الْمَحَلِّ الَّذِیْ یَکُوْنُ فِیْہِ الْوَضَعُ مِنَ الْبَدَنِ اِلاَّ حَدِیْث وَائِلِ الْمَذْکُوْر ۔
کوئی بھی ایسی حدیث پایہ ِٔ ثبوت کو نہیں پہنچتی جس میں نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین کیا جاسکے مگر صرف ایک حدیث جو وائلؓ سے ذکر کی جاتی ہے
یعنی جو حدیث نمبر ۳ میں صحیح ابن خزیمہ کے حوالے سے ذکر کی گئی ۔
 
Top