• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ناظرین :
ان تینوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ تینوں ائمہ کرام (مالکؒ، شافعیؒ، اور احمد بن حنبلؒ ) کا صحیح مذہب بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
عَنْد مُعَارَضَۃِ الآثَارِ یجبُ الرُّجُوْعُ اِلَی الْمَرْفُوْعِ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ وَالْمَرْفُوْعُ لَمْ یَثْبُتْ فِیْہِ الْوَضْعُ اِلاَّ عَلَی الصُّدُوْرِ وَعِنْدَ الصَّدْرِ لاَ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔جب اثر اور قول ایک دوسرے کے معارض ہوں تو اس وقت (فیصلہ کے لئے ) مرفوع حدیث کی طرف رجوع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
(ترجمہ) کسی بھی چیز میں تم اختلاف یا جھگڑا کرو تو اس کو فیصلہ کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو
اور اس مسئلہ میں ہاتھ ناف سے نیچے باندھنے کے لئے کوئی مرفوع حدیث ثابت نہیں بلکہ اسمیں صرف سینے پریا سینے کے پاس ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے ۔
وَاَمَا وَضْعُہُمَا تَحْتَ السُّرَّۃِ فَلاَ تَعْظِیْمَ اَصْلاً بَلْ لَوْ اِنَّہٗ مُوْجِبُ اِسَاء ۃٍ لاَ یَبْعَدُ لاَنَّ تَحْتَ السُّرَّۃِ عَوْرَۃٌ ۔
6۔اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے میں کوئی تعظیم یا ادب نہیں بلکہ اگر اس کو بے ادبی کہا جائے تو کوئی بعید نہیں کیونکہ ناف کے نیچے شرمگاہ ہے
قَدْ ثَبَتَ مِنْ حَدِیْثِ وَائِلٍ وَّ ہُلْبٍ تَعَدُّدُ الْوَاقِعَۃِ وَاسْتُفِیْدَ مِنْ ظَاہِرِ کَانَ فِیْ مُرْسِلِ طَاؤُسِ الْمُنْجَبِرِ الاِسْتَمْرَار ۔
7۔وائل بن حجرکی حدیث (حدیث نمبر۲) اور ھلب کی حدیث (حدیث نمبر۳)سے ثابت ہواکہ رسول اللہ ﷺ کا سینے پر ہاتھ باندھنا ایک بار کا واقعہ نہیں ہے بلکہ متعددبار آپؐ نے سینے پر ہاتھ باندھے ہیں اور طاؤس کی روایت اگرچہ مرسل ہے مگر شواہد کی وجہ سے قوی ہے اس میں لفظ ’’کان‘‘ یعنی آپؐ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے جس سے آپؐ کادوام ثابت ہوتا ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ناظرین:
علماء صرف کے نزدیک ’’کان‘‘ مضارع پر داخل ہوگی جیسے (کان یضرب) (مارتا تھا ) تو اس کو ماضی استمراری کہتے ہیں تو یہاں (کان یضع علی صدرہ) کے معنی ہوں گے کہ آپ سینے پر ہاتھ باندھتے او ررکھتے تھے ا س سے ہمیشگی کا فائدہ ملتاہے۔
قَدْ ثَبَتَ ہٰذَا الْمَعْنٰی عَن ابْنِ عَبَّاسٍ وَ عَلِیٍّ وَاَنَسٍ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8۔آیت ’’وانحر‘‘ کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا تین صحابہ کرام سے ثابت ہے
نمبر۱:
مشہور مفسر رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی۔
نمبر۲:
چوتھے خلیفہ آپؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب
نمبر ۳:
آپؐ کے خادم انس بن مالک
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ناظرین :
جد امجد کی عبارتوں سے چند باتیں معلوم ہوئی ۔
نمبر ۱
آپﷺ کا اپنا مذہب اور معمول سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نہ کہ ناف کے نیچے۔
نمبر ۲
رسول اللہ ﷺ سے بھی صرف سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔
نمبر ۳
اور آپؐ کا یہ ہمیشگی والا اور دائمی عمل تھا ۔
نمبر ۴
اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کسی قسم کا ثبوت نہیں ملتا ۔
نمبر۵
قرآن میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے ۔
نمبر۶
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بے ادبی ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جد امجد کی یہ عبارتیں دیکھنے کے بعد آپ کا کوئی بھی معتقد یا آپ کی اولاد اور خاندان میں سے کوئی بھی سمجھدار فرد ناف کے نیچے ہاتھ نہیں باندھے گا
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس کے در پر التجاء ہے کہ مسلمانوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے اور سنت نبویﷺ پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔
و اخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علی اھل طاعتہٖ اجمعین ۔​
 

Taufeeq Mansoor

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 21، 2014
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
19
حاشية نصب الراية (1/ 315 - 316)
وأصرح منه ما قال في البدائع ص 91 - ج 3: واختلف في موضع الوضع، فعنه: فوق السرة، وعنه: تحتها، وعنه: أبو طالب سألت أحمد بن حنبل أين يضع يده إذا كان يصلي؟ قال: على السرة أو أسفل، وكل ذلك واسع عنده إن وضع فوق السرة أو عليها أو تحتها، قال علي رضي الله عنه: من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة، عمرو بن مالك عن أبي الجوزاء عن ابن عباس مثل تفسير علي، إلا أنه غير صحيح، والصحيح صهيب، وعلي، قال في رواية المزني: أسفل السرة بقليل، ويكره أن يجعلها على الصدر، وذلك لما روي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه نهى عن التكفير، وهو وضع اليد على الصدر، مؤمل بن إسماعيل عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وضع يده على صدره، فقد روى هذا الحديث عبد الله بن الوليد عن سفيان لم يذكر ذلك، ورواه شعبة، وعبد الواحد لم يذكرا خالفاً، كذا سفيان، اهـ.
فكلام ابن القيم هذا أرشدنا إلى أمور: إن زيادة: على صدره، لم يذكرها إلا مؤمل عن سفيان عن عاصم بن كليب عن وائل بن حجر، وأن مؤمل منفرد من بين جماعة من أصحاب الثوري بهذه الزيادة، وأن ما سواه من أصحاب الثوري، وهي جماعة لم يذكر أحد منهم هذه الزيادة، فهذه الزيادة عنده، وهم مؤمل، ثم ذكر في بدائع الفوائد أن السنة الصحيحة وضع اليدين تحت السرة، وحديث علي في هذا صحيح، وأن وضع اليدين على الصدر منهي عنه بالسنة، وهي المنهي عن التكفير.
وقد ذكر قبل أن ابن القيم ينقل عن صحيح ابن خزيمة أحاديث بأسانيدها، فلو كان عند ابن خزيمة بإسناد آخر أقوى من هذا لما قال ابن القيم ما قال، ولما سكت الحافظ. والنووي عن التصحيح مع احتياجهما إليه، فمن يدعي أن لرواية ابن خزيمة إسناد آخر غير هذا، فليذكر، لينظر فيه.
وإني لم أطلع على الجماعة الذين رووا عن سفيان، ولم يذكروا زيادة: على صدره سوى عبد الله بن الوليد عند أحمد ص 318 - ج 4، إلا أن سفيان هذا هو الثوري، كان صرح به في الإعلام وهو من علماء الكوفة، مذهبه في هذا مذهب أبي حنيفة، وإسحاق بن راهويه معروف من وضع اليدين تحت السرة، كما صرح به النووي في شرح المهذب ص 313 - ج 3، وابن قدامة في المغني ص 519 - ج 1. وغيرهما، فلو كان عند الثوري حديث الصدر صحيحاً لما خالفه إلى غيره، والله أعلم.
ثم مما يؤيد ابن القيم أن جماعة من أصحاب عاصم رووا هذا الحديث عنه، ولم يذكروا لفظ: على صدره: منهم شعبة عند أحمد: ص 319 - ج 4. وعبد الواحد، عنده: ص 316. وزهير بن معاوية: ص 318. وزائدة، عنده: ص 318. وعند أبي داود: ص 112. والبيهقي: ص 228 - ج 2. وبشر بن المفضل، عند أبي داود: ص 112، وابن ماجه: ص 59. وعبد الله بن إدريس، عند ابن ماجه: ص 59. وسلام بن سليم، عند الطيالسي: ص 137. وخالد بن عبد الله، عند البيهقي: ص 131 - ج 2، ولم يذكر واحد منهم: على صدره.
وكذا روى موسى بن عمير عن عائشة عن وائل، عند أحمد: ص 316 - ج 4. والبيهقي: ص 28 - ج 2. والدارقطني: ص 117. وموسى بن قيس، عند النسائي: ص 141. وعبد الجبار بن علقمة. ومولى لهم، عند مسلم: ص 173. وعبد الجبار عن وائل بن علقمة عن وائل بن حجر، عند أبي داود: ص 112. وعبد الجبار عن أهل بيت وائل، عند البيهقي: ص 26، وعبد الجبار عن أبيه وائل، عند أحمد: ص 318، والدارمي: ص 146. وعبد الجبار. ومولى لهم عن وائل، عند البيهقي: ص 28 - ج 2، وص 71 - ج 2، كلهم ذكروا وضع اليمين على الشمال، ولم يذكر أحد منهم على صدره.
فإن قيل: قال صاحب العون المباركفوري: أن ابن سيد الناس، ذكر حديث وائل في شرح الترمذي وقال: صححه ابن خزيمة، وذكر أن العلامة محمد قائم السندهي: اعترف أن هذا الحديث على شرط ابن خزيمة، قلت: حديث وائل له ألفاظ مختلفة لا شك في صحة بعضها، وإنما الكلام في زيادة: على صدره، والذي صححه ابن خزيمة، وذكر تصحيحه ابن سيد الناس، هو الذي ذكره الحافظ ابن حجر في الفتح ص 186 - ج 2 أيضاً، قال: وفي حديث وائل عند أبي داود. والنسائي، ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى، والرسغ من الساعد، وصححه ابن خزيمة، اهـ. وأما حديث وائل مع زيادة: على صدره، فقال الحافظ في الفتح قد روى ابن خزيمة من حديث وائل: أنه وضعهما على صدره، والبزار: عند صدره، اهـ. ولم يذكر تصحيح ابن خزيمة لهذه الزيادة، لا في الفتح - ولا في التلخيص - ولا في الدراية، وكذا النووي لم يذكر في شرح المهذب - ولا في الخلاصة - ولا في شرح مسلم وكانا أحوج ما يكون إلى نقله، إذا احتجا لمذهبهما، فسكوتهما بيان أن ابن خزيمة لم يصرح بتصحيحه، والله أعلم.
 

Taufeeq Mansoor

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 21، 2014
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
19
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل
:دلیل نمبر1
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے
’’ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘
(سورۃ کوثر؛2)
ترجمہ: نمازپڑھیے! اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے۔
تفسیر: رَوَی الْاِمَامُ اَبُوْبَکَرِالْاَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَااَبُوالْوَلِیْدِ الطِّیَالِسِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(سنن الاثرم بحوالہ التمہید: ج8،ص164)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھاجائے ۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَأیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427،آثار السنن ؛امام نیموی ص87 )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ۔ ‘‘
:دلیل نمبر3
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَحَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ زَیَّادِ بْنِ زَیْدِ السَّوَائِیِّ عَنْ اَبِیْ جُحَیْفَۃَ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلٰوۃِ وَضْعُ الْاَیْدِیْ عَلَی الْاَیْدِیْ تَحْتَ السُّرَرِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427الاوسط، امام منذر ج 3 ص94)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہاتھ کوہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا نماز کی سنت ہے ۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ مُحَمَّدُبْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُنْذِرِحَدَّثَنَا مُوْسَی بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ ثَنَایَحْیٰ بْنُ عَبْدِالْحَمِیْدِ قَالَ ثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ؛مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ۔
(الاوسط،امام مندر؛ج3،ص94؛سنن دارقطنی ؛ج1 ، ص 288 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’نماز میں مرد کا اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا، سنت ہے۔‘‘
:دلیل نمبر5
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ الْھَاشْمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ ثَلَاثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَائِ صَلَاۃُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْھِمْ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ
(مسند زید بن علی ؛ص204)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے تین چیزیں ہیں: 1.
روز ہ جلدی افطار کرنایعنی اول وقت میں۔ 2.
سحری دیر سے کرنا یعنی آخری و قت میں۔ 3.
نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔
:دلیل نمبر6
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ بِسَنَدِہٖ عَنْ اَنَسٍ قَالَ مِنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَتَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُکَ یَمِیْنَکَ عَلٰی شِمَالِکَ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(مختصر خلافیات بیہقی ج2ص34:محلیٰ ابن حزم ج3 ص30 )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’انبیائے کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے ہے روزہ جلدی افطار کرنا یعنی اول وقت میں اوردیر سے سحری کرنا یعنی آخری وقت میں اورنماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ السَّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ نَاعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ الْکُوْفِیِّ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ اَخْذُالْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(سنن ابی دائود ج1ص118، اعلاء السنن ج2 ص196 )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کوپکڑ کرناف کے نیچے رکھناسنت ہے۔‘‘
:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّیْبَانِیُّ اَخْبَرَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صَبِیْحٍ عَنْ اَبِیْ مَعْشَرٍعَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخْعِیِّ اَنَّہٗ کَانَ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
ٖ(کتاب ا لآثار؛امام ابوحنیفۃ بروا یۃامام محمد ج1، ص 322 ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص427 )
ترجمہ: ’’حضرت امام ابرہیم نخعی رحمہ اللہ (جلیل القدر تابعی ہیں وہ) نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ اَخْبَرَنَاحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَامِجْلَزٍاَوْسَاَلْتُہٗ قَالَ( رَحِمَہُ اللہُ ) قُلْتُ کَیْفَ یَضَعُ؟ قَالَ یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِیْنِہٖ عَلٰی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہٖ وَیَجْعَلُھَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427 ،الجوہر النقی؛ ج2ص31)
ترجمہ: حضرت ابومجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر والے حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہری حصہ پرناف کے نیچے رکھے ۔‘‘
:دلیل نمبر10
اَلْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہٖ نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ {یَضَعُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہٖ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔}
(کتاب الآثار ؛امام ابو حنیفۃ بروایۃ امام محمد ج1 ص323 احکام القرآن، امام طحاوی؛ ج1ص185)
ترجمہ: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے
 
Top