(ترجمہ) امام شافعی کی دلیل وائل ؓ کی حدیث ہے (جو حدیث نمبر ۲ میں گذری )اور علی ؓ سے جو روایت ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے ہیں وہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے نیز اس کے ضعیف ہونے کے لئے دوسری دلیل یہ ہے کہ علی ؓ نے آیت ’’والنحر‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے چاہیئے اور الناحر سینے کی رگ کو کہا جاتا ہے اس لئے یہ تفسیر کی گئی ہے جو ا س روایت کو رد کرے اس پر وائل ؓ کی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور اس طرح کہناوَحُجَّتُہٗ حَدِیْثُ وَائِلٍ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ واما حدیث علی رضی اﷲ عنہ اِنَّہٗ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ فِیْ الصَّلاَۃِ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ فَضَعِیْفٌ متفق علی تضعیفہ کذا فی النووی قلت وَمِنَ الدَّلِیْلِ عَلی ضُعْفِہٖ اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ فَسَّرَ قَوْلَہ تَعَالیٰ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ باَنَّہُ وَضْعُ الْیَمِیْن عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ الصَّدْرِ وَذَالِکَ اِنَّ تَحْتَ الصَّدْرِ عِرْقًا یُقَالُ لَہٗ النَّاحِرای وَضَعْ یَدَکَ
کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم والا فعل ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے خلاف ہے ۔عَلَی النَّاحِرِ کَذَا فِیْ الْعوارفِ وَہٰکَذَا ذُکر فی المغنی أیضَا فَہٰذَا التَّفْسِرُ عَنْ عَلِیٍّ یَرُدُّ مَارُوِیَ عَنْہُ مِنْ حَدِیْثِ وَائِلٍ عَلی مَا رَوَیْنَا قَوْلَہُ لِاَنَّ الْوَضْعَ تَحْتَ السُّرَّۃِ اَقْرَبُ
اِلَی التَّعْظِیْمِ وَہُوَ الْمَقْصُوْدُ قُلْتُ وَہٰذَا التَّعْلِیْلُ بِمُقَابِلَۃِ حَدِیْثِ وَائِلٍ فَیُرَدُّ وَحَدِیْثُ عَلِیٍّ لاَ یُعَارِضُہ کَمَا ذکرنا ۔
الف:یہ حوالہ جات معتبر احناف علماء سے نقل کئے گئے ہیں خاص طور پر ابن امیر الحاج جو کہ اپنے استاد ابن ھمام کے ہاں نزدیکی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور ان عبارتوں سے چند اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔
ب :صحیح حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔
ج :اور یہ حدیث واجب العمل ہے ۔
د :امیر المؤمنین علی ؓ نے آیت ’’وانحر‘‘ کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا کئے ہیں ۔
ھ :یعنی حدیث نمبر ۷ کی تصدیق اور تصحیح ہو گئی ۔
و :اس آیت کی یہی تفسیر صحیح اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس سے مسئلے کو ثابت کیا ہے ۔
ز :یعنی کہ قرآن کریم میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم ہے ۔
ح :اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ۔
بلکہ جو روایت اس بارے میں ذکر کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔
احناف کے سردار علامہ انور شاہ کشمیری فیض الباری شرح صحیح بخاری ص۲۶۷ ج ۲ میں فرماتے ہیں کہ یہ بات واقعتاً درست ہے کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے بہت سے نسخے دیکھے ہیں مگر یہ روایت کسی میں بھی نہیں ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ہیں اس روایت کا وجود ہی نہیں ہے اور ہمارے پاس اللہ کے فضل سے مصنف ابن ابی شیبہ قلمی خواہ مطبوع دونوں نسخے موجود ہیں مگر دونوں میں یہ روایت نہیں ہے
نیز فرماتے ہیں کہ :اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِیْ ۔(الشامی ص۳۷۵، ج۱)
جب بھی کوئی صحیح حدیث ثابت ہو جائے تو میرا وہی مذہب ہے ۔
اُتْرُکُوْا قَوْلِیْ بخَبَرِ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ۔ (خزانۃ الروایات ص۲۵ قلمی)
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے میرے قول کو چھوڑ دو ۔
اور اس طرح علامہ سید شریف عبدالحئی الحسینی حنفی نے نزھۃ الخواطر ص۵۲ج۶ میں بھی ذکر کیا ہے ۔وَکَانَ یَرَی الاِشَارَۃَ بِالْمُسَبِّحَۃِ وَیَضَعُ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ تَحْتَ صَدْرِہ وَیُقَوِّیْ قِرَاء ۃَ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الاِمَامِ عَامَ وَفَاتِہٖ ۔
نما ز میں بیٹھتے وقت انگلی اٹھا کر اشارہ کرتے تھے اور سینے سے نیچے یعنی اسکے قریب ہاتھ باندھتے تھے اور اپنی وفات والے سال فاتحہ خلف الامام پڑھنے کو قوی کہتے تھے ۔
ناظرین :شیخ موصوف حدیث پر عمل کرتے تھے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سیدھے ہوتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور نماز میں اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے تھے انکے دور میں شیخ ابو الطیب سندھی متعصب حنفی تھا جوشیخ ابو الحسن سے مناظرے کرتاتھا مگر دلائل دیکھ کر عاجز آجاتا تھا بالاٰخر اس نے مدینہ کے قاضی کے پاس شکایت کی اور شیخ ابو الحسن کو طلب کیا گیا جب آپ کے دلائل قاضی صاحب نے سنے تب اس کو معلوم ہوا کہ آپ تو تمام فنون میں امام ہیں اور پورے مدینے والے آپ کے شاگرد ہیں اس لیے قاضی صاحب کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اس نے آپ سے دعا کی التجا کرتے ہوئے آپ کو رخصت کر دیا اس طرح ہر سال نئے نئے قاضی کے پاس شکایت آتی رہی او رشیخ صاحب کامیاب ہوتے رہے بالآخر ایک سال ایسا قاضی آیا جو حنفی مذہب میں سخت متعصب تھا ابو الطیب نے اس کو شکایت پیش کی جس پر قاضی صاحب نے شیخ صاحب کو طلب کر کے حکم دیا کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور رفع یدین نہ کرو شیخ صاحب نے واضح طور پر یہ فرمایا کہاس بناء پر آپ کو جیل کی تاریک کوٹھری میں بند کرنے کا حکم دیا گیا جہاں پر آدمی اپنے اعضاء کو بھی نہ دیکھ سکے اور اسی کوٹھری میں پیشاب پخانہ کرتے رہے چھ دنوں تک وہاں رہے پھر مدینے کے لوگ آکر شیخ صاحب کو نصیحت کرنے لگے کہ قاضی صاحب کا حکم مانئے اورجیل سے رہائی حاصل کیجئے ۔شیخ صاحب نے فرمایا کہ :’’لا افعل ذالک ‘‘ یعنی میں اس طرح نہیں کروں گاپھر لوگ قاضی کے پاس سفارش کے لئے گئے تب قاضی نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اگر ان کو میں نے دوبارہ سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا تو جیل بھیج دوں گا تو لوگوں نے شیخ صاحب کوعرض کی کہ مہربانی کر کے نماز پڑھتے وقت چادر لپیٹ کر نماز پڑھا کریں کہ قاضی آپ کو سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے نہ دیکھے پھر شیخ صاحب نے اس طرح کیا کچھ مدت گزرنے کے بعد نماز پڑھتے ہوئے شیخ صاحب کو کسی نے خبر دی کہ قاضی مر گیا تو شیخ صاحب نے نماز ہی کی حالت میں چادر اتار دی ۔لاَ اَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَصِحَّ عِنْدِیْ وَلاَ اَتْرُکُ شَیْئًا صَحَّ عِنْدِیْ مِنْ فِعْلِہٖ ﷺ وَحَلَفَ عَلٰی ذَالِکَ ۔
میرے نزدیک جو عمل رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت نہیں ہے وہ نہیں کروں گا اور جو ثابت ہے وہ نہیں چھوڑوں گا اس بارے میں انہوں نے قسم اٹھائی ۔
1۔صحیح حدیث سے رسول اللہ ﷺ سے یہی ثابت ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھے جائیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث تو در کنار کسی معتبر سند سے بھی کوئی روایت وارد نہیں ۔اِنَّ الصَّحِیْحَ الثَّابِتَ مِنْ سَاقِی الْکَوْثَرِ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلاَمُ اِلٰی دَوَامِ الدَّہْرِ فِیْ الصَّلوٰۃِ وَہُوَ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ وَاَمَّا وَضْعُہُمَا تَحْتَ السُّرَّۃ فَلَمْ یَرِدْ فِیْہِ حَدِیْثٌ مُسْنَدٌ مُعْتَبَرٌ فَضْلاً عَنْ صَحِیْحٍ ۔